فصل:....[خلافِ علی رضی اللہ عنہ اجماع]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[خلافِ علی رضی اللہ عنہ اجماع]
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ہم وہ نصوص ذکر کر چکے ہیں جن سے امامت علی رضی اللہ عنہ کا اثبات ہوتا ہے، لہٰذا س کے خلاف جو اجماع بھی انعقاد پذیر ہو گا وہ غلط ہو گا۔اس لیے کہ اہل سنت کے نزدیک بھی نص کے خلاف منعقد ہونے والا اجماع غلط ہوتا ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:اس کا جواب کئی نکات پر مشتمل ہے:
اول:....یہ ہے کہ ہم قبل ازیں خلفاء ثلاثہ سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں شیعہ کے دلائل کا ابطال کرکے اس کے خلاف براہین و دلائل قائم کر چکے ہیں ۔
دوم:....نصوص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے خلفاء ثلاثہ کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں ۔
سوم :....ان سے کہا جائے گا کہ : معلوم شدہ اجماع حجت قطعی ہے سمعی نہیں ۔ خصوصاً جب کہ بہت ساری نصوص بھی اس کے موافق ہوں ۔ بفرض محال اگر کوئی دلیل خلاف اجماع ہو گی تو وہ باطل ہو گی [یا اس سے مدّعا کا اثبات نہیں ہوگا]۔اس لیے کہ ایسا یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا نہیں ہوگا؛ یا اس میں سرے سے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
چہارم:....نص معلوم اور اجماع معلوم کے مابین تعارض ممتنع ہے، اس لیے کہ یہ دونوں حجت قطعی ہیں اور قطعیات میں مدلولات کے وجود کے واجب ہونے کی وجہ سے تعارض جائز نہیں ہے؛ا وراگران میں تعارض ہوجائے تو اس سے اجتماع نقیضین لازم آئے گا۔پس ہر وہ انسان جو ایسے اجماع کا دعوی کرے جو کہ نص شرعی کے خلاف ہو ؛ تو اس صورت میں دو میں سے ایک چیز لازم آتی ہے: یاتو اجماع باطل ہوگا۔ یاپھر نص باطل ہوگی۔ اور ہر وہ نص جس کے خلاف امت کا اجماع ہو جائے تو اس کے خلاف ایک ناسخ نص کا علم ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ امت میں معلوم شدہ نص بھی موجود ہو اور اس کے خلاف نص بھی موجود ہو۔یہ بات واقع کے خلاف ہے۔[یعنی جس نص کی مخالفت پر پوری امت جمع ہو جائے وہ دوسری نص سے منسوخ ہوتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امت میں ایک نص معلوم باقی ہو، وہ منسوخ بھی نہ ہو اور اس کے خلاف اجماع منعقد ہو جائے۔]نص معلوم اور اجماع معلوم دونوں ہی خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کے اثبات اور غیر کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں ۔ جب کہ روافض کی نصوص کے جھوٹ ہونے کو ہم اضطراری طور پر جانتے ہیں ؛ اور ان کے جھوٹ ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔
شیعہ اور اقتداء شیخین رضی اللہ عنہما :
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرو۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ:’’ ہم اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے۔ مزید برآں یہ ان کی امامت و خلافت پر روشنی نہیں ڈالتی۔ اس حدیث میں ان کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم فقہاء کی بھی اقتداء کرتے ہیں ، اس سے ان کا خلیفہ ہونا لازم نہیں آتا۔ علاوہ ازیں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما میں بہت سارے مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس لیے ان دونوں کی پیروی ممکن ہی نہیں ۔ نیز یہ روایت مشہور حدیث’’اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ کے خلاف ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کی امامت کے منتفی ہونے پر اہل سنت کا بھی اجماع ہے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں :اس کا جواب کئی طرح سے دیا جانا ممکن ہے:
پہلی بات : اہل علم محدثین کے اجماع کے مطابق یہ روایت شیعہ کی امامت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پیش کردہ نص سے بہرحال اقوی ہے۔کیونکہ یہ روایت محدثین کی قابل اعتماد کتب میں معروف ہے۔ یہ روایت امام احمد نے مسند میں و ابوداؤدنے سنن میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں نقل کی ہے۔ [سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب(۱۶؍۳۵)، (حدیث:۳۶۶۲، ۳۶۶۳)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۹۷)، مسند احمد (۵؍۳۸۲، ۳۹۹)]
بخلاف ازیں امامت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں پیش کردہ نصوص محدثین کی کسی بھی قابل اعتماد کتاب میں موجود نہیں ‘بلکہ ان سب کا ان روایات کے باطل ہونے پر اجماع ہے۔حتی کہ محدث ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ہم نے امامت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی نص نہیں پائی؛سوائے ایک نص کے ‘جو کہ ایک مجہول راوی سے پائی ہے، جو دوسرے مجہول راوی سے نقل کرتا ہے، اس کی کنیت ابو الحمراء ہے ہمیں نہیں معلوم کہ اتنی مخلوق میں وہ کون ہے؟‘‘
یہ بات ممتنع ہے کہ خلافت علی رضی اللہ عنہ کی نص کو تو درست تسلیم کرلیا جائے مگر اس روایت پر قدح کی جائے۔ جہاں تک دلالت کا تعلق ہے تو حجت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے : ’’ باللذین من بعدي‘‘ جو میرے بعد ہوں گے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ کے بعد ہیں ؛ اور پھر ان کی اقتداء کرنے کا حکم دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ ظالم و مرتد نہ تھے کیونکہ؛ اگر یہ حضرات ظالم و مرتد ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اقتداء کا حکم نہ دیتے اس لیے کہ ظالم و مرتد دوسروں کا پیشوا نہیں بن سکتا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ﴾ (بقرۃ:۲۴)
’’میرے عہد کو ظالم نہ پاسکیں گے ۔‘‘
اس سے واضح ہوگیا کہ ظالم امام نہیں بن سکتا؛اور اس کی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔ جب آپ خودہی اپنے بعد ان دونوں کی اقتداء کرنے کا حکم دے رہے ہیں ؛ تو اقتداء کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں امام ہوں ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جارہی ہے کہ یہ دونوں آپ کے بعد ہوں گے۔ تو واضح ہوا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ائمہ برحق ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ:’’حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے مابین بہت سارے مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘
جواب:معاملہ ہر گز ایسے نہیں ہے۔بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف شاذ و نادر مسائل ہی میں پایا جاتا ہے ۔اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس ایک مسئلہ میں دو روایتیں ہوا کرتی تھیں ۔ مثلاً اس مسئلہ میں کہ جب میت کا دادا زندہ ہو اور اس کے بھائی بھی بقید حیات ہوں تو ترکہ کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دو روایتیں تھیں ۔ ان میں سے ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کے موافق تھی۔
نیز یہ مسئلہ کہ مالفئیکی تقسیم مساوی طور پر کی جائے گی یا اس میں تفاوت درجات کو ملحوظ رکھا جائے گا[ اور کسی ایک کو تفضیل دی جائے گی]۔اس میں کوئی شک نہیں کہ برابر تقسیم کرنا بالکل جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت اور مال فئے تقسیم کیا کرتے تھے۔آپ غنیمت حاصل کرنے والوں اورمستحقین فئے کو برابر دیا کرتے تھے۔اختلاف تفضیل کے جواز میں ہے۔ اس میں فقہاء کے بھی دو قول ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایات منقول ہیں ۔اور صحیح قول مصلحت کے پیش نظر جواز کاہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار مال غنیمت اور مال فئے کی تقسیم میں ایسا کیا کرتے تھے۔ اور شروع کرنے میں سریہ والوں کو فضیلت دیا کرتے تھے۔ انہیں خمس کے ربع دیا کرتے۔ اور واپسی پر خمس کے بعد ثلث دیا کرتے تھے۔پس اس سلسلہ میں جوکچھ ان دونوں خلفاء نے کیا ؛ وہ بالکل جائز تھا۔ حالانکہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری عمر میں مساوات کا مسلک اختیار کرلیا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تھا:
’’ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں تمام لوگوں کے لیے ایک ہی دروازہ بنا دوں گا۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تفضیل کا مسلک روایت کیا گیا ہے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تسویہ کے قائل تھے۔ ایسی چیزوں میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہاں اگریہ کہا جائے کہ ایسے لوگوں کو فضیلت دی جو کہ فضیلت کے مستحق ن تھے۔ جیسا کہ بعض مواقع کی تقسیم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر انکار کیا گیا ہے۔جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ فضیلت کے مسئلہ پر آپ پر کسی نے انکار کیا ہو۔
حضرت خالد بن ولید کے عزل و نصب میں بھی ان کے مابین اختلاف پیدا ہوا تھا۔ان میں سے ہر ایک نے وہی کیا جو اس وقت کے لحاظ سے مناسب تھا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے زیادہ مناسب یہی تھا کہ آپ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو ذمہ داری تفویض کریں ۔ اس لیے کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت نرم طبیعت کے مالک تھے۔ تو آپ کے نائب کے لیے مناسب تھا کہ وہ نائب عمر رضی اللہ عنہ کی نسب زیادہ طاقتور ہو۔
جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا اورذمہ داری تفویض کرنا زیادہ مناسب تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت خالد ہی زیادہ مناسب تھے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
وہ احکام جن کا تعلق کلیۃً شریعت سے ہے؛ ان میں ان حضرات کا اختلاف نادر بلکہ معدوم ہے۔ یا پھر ان میں سے کسی ایک کے پاس ایک مسئلہ میں دو قول ہوتے ہیں۔
نیز ان کو جواب میں یہ بھی کہا جائے گاکہ : اس نص کی روشنی میں ان دونوں حضرات کی اقتداء واجب ہوتی ہے ‘ بھلے وہ کسی چیز میں متفق ہوں یا مختلف۔ تو ان دونوں کے مابین ان مسائل کودیکھا جائے گا جس ان کا اتفاق ہو۔ زیر تبصرہ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جن مسائل میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما متحد الخیال ہوں ؛ ان کی پیروی کرو۔
مزید برآں کہ جب ان دونوں کی اقتداء کا تقاضا ہے کہ انہیں امام بنایا جائے۔ تو ان کے امام ہونے کی صورت میں ان میں سے ہر ایک کی اطاعت ہی مقصود و مطلوب ہے۔اور ان کی امامت ختم ہوجانے کے بعد ان کی اقتداء اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں نزاع ہو تو متنازعہ مسئلہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔
٭ باقی رہی حدیث’’اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ ائمہ حدیث نے اسے ضعیف کہاہے، اس لیے قابل احتجاج نہیں۔[تفصیل کے لیے دیکھیے: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للشیخ الالبانی رحمہ اﷲ (رقم:۵۸)۔]
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ۔ اور نہ ہی قابل اعتماد کتب احادیث میں اسے صحت کے ساتھ نقل کیا گیاہے۔
نیز اس حدیث میں ’’ بعدي ‘‘ کے الفاظ بھی نہیں ہیں ۔ جب کہ اصل قوت تو اسی لفظ میں ہے۔
نیز یہ کہ اس حدیث میں صحابہ کرام کی اقتداء کا حکم نہیں ہے[بلکہ ترغیب ہے] جب کہ مذکورہ بالا حدیث میں اقتداء کا حکم وارد ہوا ہے۔