Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلسلہ اعتراضات ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلسلہ اعتراضات ]

[اور ان کے جوابات]

رافضی مصنف کہتا ہے : تیسری بات :جو آیات قرآنیہ آپ کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں ؛ جیسے:

٭اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ [ اللیل ۱۷] 

٭اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﴾ [الفتح ۱۶] یہاں پر داعی سے مراد ابوبکر ہیں ۔آپ بدر کے موقع پر چھپر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرہ دار تھے ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا مال خرچ کیا اور ان کی موجود گی میں نمازیں پڑھائیں ۔

٭ جواب میں ہم کہتے ہیں :’’ غار کے واقعہ میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رفیق سفر بنایا ہو کہ مبادا وہ آپ کے معاملہ کو ظاہر کردے۔

٭ مزیدبرآں یہ کہ آیت اس کے نقیض پر دلالت کرتی ہے: اس لیے کہ : ’’ لَا تَحْزَنْ‘‘ کے الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری اور اللہ تعالیٰ پرعدم یقین ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات پرعدم رضامندی؛ اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر پر عدم ایمان کو ظاہر کر رہے ہیں ۔‘‘اس لیے کہ اگر یہ حزن وملال اطاعت گزاری میں تھا تو پھر اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع کرنا محال ٹھہرا۔ اور اگریہ حزن و ملال نافرمانی میں تھا تو پھر جس چیزکی فضیلت ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ رذیلت ٹھہری ۔ 

٭ مزید برآں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ[﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْمُؤْمِنِیْنَ﴾میں ‘‘ ’’پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مؤمنین پر اپنا سکون نازل فرمایا ‘‘]۔ میں سکینہ نازل کرنے کا ذکر فرمایا تو اس میں واضح طور پر اہل ایمان کو سکون و اطمینان کے مورد میں آپ کا شریک قرار دیاہے، مگر آیت زیر تبصرہ میں یہ صراحت موجود نہیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور نقص نہیں ہوسکتا۔‘‘

٭ نیز آیت قرآنی﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾۔حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے ۔ آپ نے اپنے ایک پڑوسی کے لیے ایک کھجور کا درخت خریدا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کو اس کھجور کے درخت کے بدلہ میں جنت میں ایک درخت کی بشارت سنائی تھی ؛مگروہ نہ مانا۔یہ بات حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ نے سن لی تو انہوں نے پورا باغ خرید کر اپنے پڑوسی کوہبہ کردیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض جنت میں ایک باغ کی خوشخبری سنائی۔

٭ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ ﴾ [الفتح ۱۶] مراد یہ ہے کہ :ہم عنقریب ایک قوم کی طرف بلائیں گے۔یہاں پرمقصود وہ لوگ ہیں جو صلح حدیبیہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اور یہ لوگ چاہتے تھے کہ غزوہ خیبر کی غنیمت پانے کے لیے آپ کے ساتھ جائیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کرمنع کردیا کہ: ﴿قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا﴾۔’’ فرمادیجیے: ’’ ہر گزہمارے ساتھ نہ چلیے۔‘‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خیبر کے غنائم کو ان لوگوں کے لیے خاص کردیا تھا جو کہ صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے۔ پھر فرمایا:﴿قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ﴾ [الفتح ۱۶]یہاں مراد یہ ہے کہ : ہم تمہیں اس کے بعد ایک ایسی قوم کے ساتھ جنگ کے لیے بلائیں گے جو کہ بہت سخت لڑاکو ہوں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بہت سارے غزوات کی دعوت دی جیسے غزوہ مؤتہ ؛ حنین؛ تبوک وغیرہ۔تو یہاں پر داعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ داعی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ نے عہد و پیمان توڑنے والوں ‘ وعدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور دین اسلام سے نکل جانے والوں سے قتال کیا۔ اور وہ لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے آپ کی اطاعت میں داخل ہوئے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

’’ یَا عَلِیُّ حَرْبِیْ حَرْبُکَ‘‘

’’ اے علی تیری جنگ میری جنگ ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘

٭ نیز یہ کہ : بدر کے جھونپڑے میں آپ کا انیس و غمخوار ہونے میں فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے مانوس ہونے کی وجہ سے ہر انیس و غمخوار سے بے نیاز تھے۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ : اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنے کا حکم دیا تو خرابی پیدا ہوگی ؛ اس لیے کہ وہ بھاگ جائے گا جیسا کہ اس سے پہلے کئی غزوات میں بھاگ چکا ہے [تو اسے اپنے پاس بلالیا]۔ اب کون سا عمل افضل ہے ؟ وہ جو جہاد کو ترک کردے یا پھر اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔‘‘

٭ یہ جھوٹ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے، اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مال دار نہ تھے۔اس کا باپ انتہائی درجہ کا قلاش انسان تھا۔جو کہ عبداللہ بن جدعان کے دسترخوان پر ایک مد یومیہ کے بدلہ آواز لگایا کرتا تھا؛ اور اس سے اپنی روزی حاصل کرتا ۔ اگر ابو بکر غنی و مالدار ہوتا تو پہلے اپنے باپ کو کفایت کرتا۔ لیکن ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں ایک پیشہ ور معلم تھا۔‘‘ اوراسلام میں درزی کا پیشہ اختیار کیا ۔ جب آپ لوگوں کے ولی الامر بنے تو انہوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا‘ تو کہنے لگے: مجھے تو روزی کی ضرورت ہے۔ اس پر لوگوں نے آپ کے لیے بیت المال سے تین درہم یومیہ وظیفہ مقرر کیا۔

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کی وجہ سے غنی تھے۔ اس وقت جنگ یا لشکر کی تیاری کی ضرورت نہ تھی۔ اور ہجرت کے بعد تو ابوبکر کے پاس بالکل کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوتے تو ان کے بارے میں اسی طرح قرآن نازل ہوتا جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیت﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ﴾ اتری تھی۔

یہ بات معلوم شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے افضل و اشرف ہستی ہیں جن پر امیر المؤمنین نے اپنا مال خرچ کیا۔ اور جس مال کے خرچ کرنے کا یہ لوگ دعوی کرتے ہیں تو اس کے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہیں ہوئی ؛ اس سے ان کے دعوی کا جھوٹ ہونا ثابت ہوگیا۔

٭ ’’نماز میں آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کی بات غلط ہے۔ اس لیے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان دیدی؛ توعائشہ نے حکم دیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنایا جائے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ راحت ہوئی تو آپ نے تکبیر کی آواز سنی۔توآپ نے پوچھا: لوگوں کونماز کون پڑھا رہا ہے۔کہنے لگے : ابوبکر ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے باہر لے چلو۔‘‘ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چلتے ہوئے باہر نکلے ۔‘‘ آپ نے ابوبکر کو قبلہ سے ہٹا دیا۔اور انہیں امامت سے معزول کرکے خود نماز پڑھانے لگے۔‘‘[یہاں پر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختصار سے کام لیاہے۔جب کہ ابن مطہر نے اس کے بعد لکھا ہے:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی سی نماز پڑھائی ‘ اور پھر منبر پر چڑھے اور مختصر سا خطبہ دیا ‘ اس لیے کہ آپ پر مرض کا غلبہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قول و فعل میں معافی و تلافی چاہی ۔انہیں الوداع کہا اور نصیحت کی۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کیساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت کی؛ اور لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا۔پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ اور اپنے بستر مرگ پر دراز ہوگئے۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے لیے ہر طرح کی وصیت کی۔ اور انہیں علوم کی رہنمائی کی۔ اور آپ کے بعد جو کچھ لوگ ان کے ساتھ کریں گے اس پر صبر کرنے کی وصیت کی۔ اورپھر شیوخ اور ان کی مخالفت کا ذکر کیا ۔اور فرمایا: ’’ دیکھنا:جس قدر ہوسکے ان کے مابین ان کا خون بہانے کی کوشش نہ کرنا۔کیونکہ اس سے ان کے مابین فساد زیادہ پھیلے گا۔اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے جھگڑا بڑھے گا۔ اور دین اسلام تنزلی کا شکار ہوگا۔پس تم ان لوگوں کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے مضبوط پناہ گاہ اورفتنوں اور ان کے مابین جھگڑوں سے راہ نجات بن کر رہنا۔اور صرف مسلمانوں کی اصلاح ‘ ایتام؛ بیواؤں کی کفالت اور فرائض و نوافل کی ادائیگی تک محدود ہوکر نہ رہ جانا ۔‘‘]

رافضی [سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ] کہتا ہے: ’’ ان لوگوں کے دلائل کا یہ حال ہے۔عقل مند کو چاہیے کہ وہ انصاف کی نظر سے دیکھے اور اتباع حق کا قصد کرے۔اتباع ہوی سے باز آئے۔ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ترک کردے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔پس دنیا انہیں حق کو مستحق تک پہنچانے سے غافل نہ کردے۔ اور نہ ہی مستحق سے اس کا حق روکے۔ یہ آخری بات ہے جو ثابت کرنا اس مقدمہ میں ہمارا مقصود تھا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[سلسلہ وار جوابات ]

جواب:اس سے یہ کہا جائے گا کہ:’’اس کلام میں اتنا زیادہ جھوٹ اور افتراء پرداوی ہے اور بہتان تراشی ہے کہ اتنا جھوٹ اسلامی فرقوں میں سے کسی ایک بھی دوسرے فرقہ کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رافضی یہودیوں سے بہت زیادہ قوی مشابہت رکھتے ہیں ۔ اوریہودی بہتان تراش قوم ہیں ۔جو چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے پھونکیں مار کر اللہ تعالیٰ کے نور کو گل کردیں ‘مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے نور کو پورا کرنے کا ہے بھلے یہ بات کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرتی ہو۔ 

٭ باقی صحابہ کرام پر ائمہ اسلام حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و عظمت ہرادنی عقل رکھنے والے انسان پر بھی ظاہر ہے۔ مگر رافضی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا چاہتے ۔ یہ لوگ ان آیات کے مصداق ہیں :

﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِِذْ جَائَہُ ﴾ [الزمر۳۲]

’’پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آیا۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے :

﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ [یونس ۱۷]

’’پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر کوئی جھوٹ باندھے، یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ مجرم لوگ فلاح نہیں پاتے۔‘‘

ان کے علاوہ اس طرح کی دوسری آیات بھی ہیں ۔

رافضی تمام فرقوں سے زیادہ حق بات کو جھٹلانے والے اور جھوٹ کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔اس باب میں پوری امت میں کوئی دوسرا ان کے برابر نہیں ہوسکتا۔

........[اب سلسلہ وار جوابات دیے جاتے ہیں ]........

[غارکی فضیلت]:

٭ رافضی کا کہنا ہے کہ: ’’ غار کے واقعہ میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔‘‘

٭ ہم شیعہ مصنف کے اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ:’’ غار کے واقعہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت نص قرآنی کی روشنی میں واضح ہوتی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]

’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اور ان کے ساتھی کے ساتھ ہے۔جیسا کہ موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام سے فرمایا تھا:

﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَا اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طہ۴۶)

’’بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘[ یہ معیت خاصہ ہے]

بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’جب ہم غار میں تھے تو میں نے دیکھاکہ دشمنوں کے پاؤں ہمارے سر کے اوپر تھے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان کفار میں سے کوئی اپنے پاؤں پر نظر ڈالے تو ہم کو دیکھ لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ابوبکر! ان دو آدمیوں کے بارے میں آپ کو کیا خطرہ لاحق ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب مناقب المہاجرین و فضلھم (ح: ۳۶۵۳،۳۹۲۲)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فصائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۱)۔]

اس حدیث کے صحیح ہونے پر اہل علم محدثین کا اتفاق ہے‘ اور اسے قبول وتصدیق حاصل ہے۔ نیز اس میں کبھی بھی دو افراد نے اختلاف نہیں کیا۔ اور قرآن کریم اس کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے:

﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]

’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

[معیت الٰہی کی اقسام]:

کتاب اللہ لفظ ’’معیت ‘‘یعنی ساتھ ؛ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔معیت عامہ : یعنی عام ساتھ؛ اور معیت خاصہ یعنی :خاص ساتھ ۔

معیت عامہ ؛[معیت عامہ علم کے ساتھ ہوتی ہے جیسے کہ اس آیت میں ] اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنْ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾

’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو۔‘‘ [الحدید۴]

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی ثَلَاثَۃٍ اِِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ اِِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّیُٔہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ [المجادلۃ ۷]

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کوئی تین آدمیوں کی کوئی سر گوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں بھی ہوں ، پھر وہ انھیں قیامت کے دن بتائے گا جو کچھ انھوں نے کیا۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

یہ معیت ہر سرگوشی کرنے والے کے لیے عام ہے۔ اورپہلی معیت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ہر تین سرگوشی کرنے والوں میں چوتھا‘اور پانچ میں چھٹا ہوتاہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ابوبکر! ان دو آدمیوں کے بارے میں آپ کو کیا خطرہ لاحق ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔‘‘

اس لیے کہ جب اللہ ان کے ساتھ تھا تو وہی تیسرا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم بھی اس حدیث کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچہ یہ معیت خاص ہے اور پہلی قسم کی معیت عام تھی۔

جب کہ معیت خاصہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام سے فرمایا تھا:

﴿قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰیٰ﴾ (طہ :۴۶)یہ معیت خاصہ ہے۔

یہاں پر فرعون اور اس کی قوم کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ او رہارون علیہماالسلام کیلیے یہ تخصیص کی گئی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی تائید حضرت موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام کو حاصل تھی؛ فرعون کو نہیں ۔

اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! غم نہ کرنا ؛ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

تو اس کا معنی یہ ہوا کہ : اللہ ہمارے ساتھ ہے؛ ان مشرکین کے ساتھ نہیں جو آپ سے دشمنی رکھتے ہیں اور آپ کی طلب میں لگے ہوئے ہیں ۔جیسا کہ وہ لوگ جو اس وقت غار کے اوپر پہنچ چکے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک نیچے اپنے قدموں کی طرف دیکھتا تواسے سب کچھ نظر آجاتا۔

ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾ [النحل۱۲۸] 

بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور جو احسان کرنے والے ہیں ۔‘‘

یہاں پر ظالموں اور فاجروں کو چھوڑ کر اہل احسان و تقوی کی تخصیص ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ [البقرۃ۱۵۳]

’’ بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘

یہاں پر گریہ و زاری کرنے والوں کو چھوڑ کر صبر کرنے والوں کی تخصیص ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ﴾ [المائدۃ ۱۲]

’’اور بلاشبہ یقیناً اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے اور اللہ نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘

اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [الأنفال ۱۲]

’’ جب آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ ۔‘‘

جب اللہ تعالیٰ اس کا معیت کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی اس سے معیت عامہ مراد ہوتی ہے اور کبھی معیت خاصہ ۔ اس میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر موجود ہے ‘ اور اس کا وجود عین مخلوقات کا وجود ہے۔ اور اس طرح کے دیگر عقائد جو کہ جہمیہ نے ایجاد رکر لیے تھے۔ جو کہ حلول عام ‘ وحدت الوجود ؛ اور اتحاد کے قائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس قول کے مطابق کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی کسی ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ کی تخصیص کی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس عقیدہ کے مطابق تو اللہ تعالیٰ بکروں کے باڑوں اور گھوڑوں کے اصطبل میں اور چوپاؤں کے شکم کے اندر بھی ویسے ہی موجود ہوگا؛ جیسا کہ وہ عرش کے اوپر ہے[جبکہ یہ کسی بھی مسلمان کا عقیدہ نہیں ]۔

جب اللہ تعالیٰ خود اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری کے ساتھ ہے تو یہ اس سابقہ بیان کردہ عقیدہ کے نقیض پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس عقیدہ کے مطابق کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری کی تخصیص ممکن نہیں رہتی۔ بلکہ اس عقیدہ کے مطابق وہ اصطبل میں بھی ایسے ہی ہے جیسے عرش پر۔

قرآن کریم کبھی معیت کے اختصاص پر اور کبھی عموم پر دلالت کرتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معیت سے مراد اختلاط نہیں ۔

[عقیدہ حلول پر ردّ]

مزید برآں اس آیت کریمہ میں ان لوگوں پر بھی رد ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ظاہر قرآن عقیدہ حلول پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن کبھی ظاہر کے خلاف تأویل متعین ہوسکتی ہے۔ اور اسے اصل بناکر تاویل کردہ نصوص کو اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔

اس کے جواب میں انہیں کہا جائے گا کہ : قرآن اس غلطی پر دلالت کرتا ہے۔جیسا کہ آپ کے ساتھ دوسرا شخص بھی اس مدلول کے غلط ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں :

٭ پہلی وجہ:....عرب لغت میں لفظ ’’ مع‘‘ یعنی (ساتھ ) مصاحبت ‘ موافقت اور اقتران پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ عام استعمال میں یہ لفظ کسی موقع پر بھی یہ دلالت نہیں کرتا کہ پہلا دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ﴾۔[الفتح: ۲۹]

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ۔‘‘

اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذوات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ مختلط ہوگئی ہیں ۔

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ـاتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ﴾ [التوبۃ۱۱۹]

’’اللہ کا تقوی اختیار کرو ‘اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔‘‘

ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمْ﴾ [الأنفال۷۵]

’’اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمھارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ تم ہی سے ہیں ۔‘‘

ایسے ہی نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمان ِالٰہی ہے:

﴿وَ مَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ﴾ [ھود۴۰]

’’اور آپ کے ساتھ بہت ہی تھوڑے لوگ ایمان لائے۔‘‘

نیز نوح علیہ السلام کے بارے میں ہی فرمان ِالٰہی ہے:

﴿فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْفَلْکِ﴾ [ الأعراف ۶۴]

’’ہم نے [نوح علیہ السلام] کو اور ان کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا ۔‘‘

ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمان ِالٰہی ہے:

﴿فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا ﴾ [الأعراف ۷۲]

’’غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا۔‘‘

حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمان ِالٰہی ہے:

﴿ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ﴾ [الأعراف ۸۸ ]

’’ اے شعیب!ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ 

[النساء ۱۴۶ ]

’’ہاں جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لیے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [الانعام ۶۸]

’’ اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ ﴾ [ المائدۃ ۵۳]

’’اور ایماندار کہیں گے: ’’ کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿اَلَمْ تَری اِِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِِخْوَانِہِمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ﴾ [الحشر۱۱]

’’کیا آپ نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے ۔‘‘

اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمان ِالٰہی ہے:

﴿اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ﴾ [ہود ۴۸]

’’فر ما دیا گیا کہ اے نوح!ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر،جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وہ امتیں ہونگی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿وَ اِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُہُمْ تِلْقَآئَ اَصْحٰبِ النَّارِ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾

[ الأعراف ۴۷]

’’جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿ قُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا اِنَّکُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ﴾ [التوبہ۸۳]

’’ تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔ 

تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا ؛پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ﴾ [التوبہ ۸۷ ]

’’یہ تو خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے ۔‘‘

فرمان ِالٰہی ہے:

﴿لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ﴾ [ التوبہ۸۸]

’’لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کیساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ۔‘‘

اس طرح کی چیزیں کلام اللہ میں اورعام کلام عرب میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ۔

[عقیدہ وحدۃ الوجود پر رد]

جب لفظ ’’مع ‘‘ کا استعمال مخلوق کے مخلوق کے ساتھ ہونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو تب بھی یہ دو ذاتوں کے اختلاط پر دلالت نہیں کرتا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ زیادہ اولی ہے کہ خالق کے مخلوق کے ساتھ اختلاط پر دلالت نہ کرے۔ اس کے ظاہر ہونے کا دعوی دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے :

پہلی وجہ:....لغت عرب میں یہ اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا ۔اور نہ ہی استعمال میں اس کے ساتھ کوئی اور ایسا قرینہ ملاہوا ہے جو ظہورپر دلالت کرے۔ اس لیے ظہور کا دعوی ہر لحاظ سے ممنوع ہے۔

دوسری وجہ:....جب قریب کے معنی میں ظہور کی نفی ثابت ہوجاتی ہے تو دور کے معنی میں بطریق اولی ثابت ہوتی ہے۔

امردوم: قرآن کریم میں معیت خاصہ کا ذکر معیت عامہ کی نسبت بہت زیادہ آیا ہے۔اگر اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کا مخلوقات کے ساتھ اختلاط ہوتا تو پھر یہ معیت ہر ایک کے لیے عام اور برابر ہوتی ؛ تخصیص کی کوئی وجہ باقی نہ رہتی ۔

امر سوم: شروع سے آخر تک سیاق کلام معیت کے معانی پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمان ِالٰہی ہے:

﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی ثَلَاثَۃٍ اِِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ اِِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّیُٔہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ [المجادلۃ ۷]

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کوئی تین آدمیوں کی کوئی سر گوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں بھی ہوں ، پھر وہ انھیں قیامت کے دن بتائے گا جو کچھ انھوں نے کیا۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ نے علم سے ہی شروع کیا اور علم پر ہی ختم کیا۔تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان کے احوال کا جاننے والا ہے ‘ اس پر کوئی مخفی سے مخفی چیز بھی مخفی نہیں رہتی ۔ سلف صالحین امام احمد رحمہ اللہ اور ان سے پہلے کے علماء کرام جیسے ابن عباس‘ ضحاک اور سفیان ثوری رحمہم اللہ نے اس کی تفسیر ایسے ہی کی ہے۔

سورت حدید کی آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنْ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ [الحدید۴]

’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو ؛ اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘

اس آیت کو بھی اللہ تعالیٰ نے علم پر ہی ختم کیا ۔اور اس بات کی خبر دی کہ اس کے عرش پر مستوی ہونے کے باوجود ان تمام چیزوں سے وہ آگاہ ہے ۔

جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث اوعال میں فرمایا ہے :

’’ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے ‘ اوروہ تمہارے احوال کو جانتا ہے ۔‘‘[حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بطحاء میں ایک جماعت کیساتھ تھا؛ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے؛کہ ایک بادل کا ایک ٹکڑا گذرا آپ نے اس کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ بادل آپ نے فرمایا کہ: مزن ۔کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا کہ: عنان بھی کہتے ہو؟ کہا: جی ہاں عنان بھی۔ امام ابوداد فرماتے ہیں کہ مجھے عنان کے بارے میں صحیح یقین نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کے درمیان کتنی مسافت ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم نہیں جانتے آپ نے فرمایا کہ بیشک زمین و آسمان کے درمیان، اکہتر، یا بہتر، یا تہتر سال کی مسافت کا فاصلہ ہے پھر اس کے اوپر دوسرا آسمان بھی اتنے فاصلہ پر ہے یہاں تک کہ آپ نے ساتوں آسمان شمار فرمائے پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک دریا ہے جس کی تہہ اور سطح کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک فاصلہ ہے پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے (بصورت)بکروں ہیں جن کے کھروں اور پیٹھوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پھر ان کی پیٹھوں پر عرش الٰہی رکھا ہوا ہے جس کے اوپر اور نچلے کناروں کے درمیان ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ ہے پھر اللہ اس عرش پر مستوی ہیں ۔‘‘ سنن ابوداد: ح 1321۔ اس حدیث کو امام ترمذی [الجامع ‘ کتاب التفسیر‘ سورۃ الحاقۃ ‘ ۵؍۹۶]‘ اور ابن ماجہ نے [المقدمۃ؛ باب فیما أنکرت الجہمیۃ ۱؍۶۹پر] بھی روایت کیا ہے ۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ حدیث غریب ہے ؛ امام شریک نے سماک سے اس حدیث کا کچھ حصہ موقوفاً روایت کیا ہے۔ ولید بن ابی ثور کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔]

پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر سر گوشی کرنے والے کے لیے اپنے عام علم کی خبردی ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں کہ اس کے عرش پر مستوی ہونے کے باوجود وہ زمین میں داخل ہونے اوروہاں سے خراج ہونے والی ہر چیز کوجانتا ہے۔وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہوتا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

رہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ :

﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾ [النحل۱۲۸] 

’’بیشک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور جو احسان کرنے والے ہیں ۔‘‘

اس آیت کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ یہاں پر مقصود محض علم و قدرت نہیں ‘ بلکہ وہ اپنی تائید اور نصرت کے ساتھ ان کے ساتھ ہے ۔ اور یہ کہ وہ متقین لوگوں کے لیے مخرج پیدا کرنے والا ہے۔ اور انہیں ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے ان کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔ ایسی موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام سے یہ فرمانا کہ :

﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَا اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طہ :۴۶)

’’بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘

مراد یہ ہے کہ وہ قوم فرعون کے خلاف ان کا حامی و ناصر او رمددگارو مؤید ہے۔ جیسا کہ جب کوئی کسی خوف زدہ انسان کو دیکھ کر کہے کہ :’’ ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن کے خلاف تمہارے مددگار وحامی و ناصر ہیں ۔

ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ اپنی محبت اور رضامندی میں ان دونوں کے فعل پر خوش او ران کے موافق ہے۔اور ان کا حامی و ناصر مؤید مددگارہے۔

اس معیت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشارکت میں یہ نص صریح ہے۔ جو صرف حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص ہے ‘ اس میں مخلوق میں سے کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ہے۔

[مدح صدیقی کی منتہاء ]:

یہاں پر مقصود یہ ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ‘‘ یہ خاص معیت ہے۔ جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن پر ان کی مدد کرنے میں اور ان کی نصرت و اعانت اور تائید میں ان کے ساتھ ہے۔ پس اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خبر دے رہے ہیں کہ اے ابوبکر! بیشک اللہ تعالیٰ میری بھی مدد کرے گا اور تیری بھی مدد کرے گا اور دشمن کے خلاف ہماری نصرت کرے گا۔اور ہماری معاونت میں رہے گا۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ﴾ [غافر۵۱]

’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں ۔‘‘

یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدح و تعریف کی انتہاء ہے۔یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ :حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ایمان کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ‘ اور یہاں پر آیت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اللہ کی نصرت آپ کو بھی حاصل ہو۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے کمال ایمان کی گواہی کو بھی متضمن ہے جس کا تقاضا ہے کہ خصوصاً ایسے احوال میں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے ان کی بے نیازی کا ذکر کیا ہے ‘ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ نصرت الٰہی شامل ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾

’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے۔‘‘

محدث ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس آیت مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہتعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا سب لوگوں کو معتوب کیا ہے ۔‘‘

نیز آپ فرماتے ہیں : ’’ جو کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کو جھٹلا رہا ہے۔‘‘

اہل علم کا ایک گروہ جیسا کہ امام ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ معیت خاصہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور کے لیے ثابت نہیں ہوئی۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہنا کہ : ’’ ان دو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے ۔‘‘اس میں لفظی و معنوی طور پر ان دونوں ہستیوں کی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ محمد رسول اللہ ‘‘کے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کو ’’خلیفہ ء رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا جانے لگا۔ پس ’’خلیفہ‘‘کی اضافت اس ’’رسول‘‘ کی طرف کرتے جن کی اضافت اللہ کی طرف ہے۔یعنی مضاف إلیہ اللہ کی طرف مضاف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف یہ اضافت اس قول کی صحیح تحقیق و تطبیق بن کرسامنے آتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ نیز یہ قول کہ : ’’ان دو کے متعلقتیرا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرااللہ ہے ۔‘‘

ان کے بعد جب حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہیں امیر المؤمنین کہا جانے لگااور وہ مخصوص خطاب ختم ہوگیا جو کہ سارے صحابہ میں سے صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان تھی [یعنی خلیفہ ء رسول]۔

[صحابی کی تعریف]:

مزیداس چیز سے یہ مؤقف واضح ہوتا ہے کہ اس صحبت میں عموم و خصوص پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ :

’’فلاں کو ایک گھڑی کی صحبت نصیب ہوئی ہوئی؛ فلاں کو ایک دن کی صحبت نصیب ہوئی ؛ ایک ہفتہ کی ؛ ایک ماہ کی؛ اور سال کی صحبت نصیب ہوئی ۔ اور فلاں نے تمام عمر صحبت میں گزار دی ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ ﴾ [النساء۳۶] 

’’ اور پہلو کے ساتھی سے ۔‘‘

اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے: ’’ اس سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اس سے مراد بیوی ہے۔ ان دو میں سے ہر ایک کو قلیل و کثیر صحبت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی کو صاحبہ کے الفاظ سے بھی پکار ا ہے ۔ ارشاد فرمایا :

﴿ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ﴾ [الأنعام ۱۰۱] 

’’ اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں ۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الرسالۃ‘‘ جسے عبدوس بن مالک نے آپ سے روایت کیا ہے ؛ میں فرماتے ہیں :

’’ جس انسان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف ایک سال کے لیے حاصل ہوا ؛ یا ایک ماہ یا ایک دن یا ایک گھڑی کے لیے ؛ یا پھر ایمان کی حالت چہرہ نبوت کا دیدار بھی کرلیا‘ وہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوگا اور اس کے لیے صحبت کا اسی قدر اجر ہوگا جس قدر وقت اس نے آپ کی ہمراہی میں گزارا ہے۔‘‘ [یہ کتابچہ حافظ ابن ابی یعلی نے عبدوس بن مالک کے حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے نقل کیا ہے ۔ دیکھیں : طبقات حنابلہ ۱؍۲۴۱۔ ]

یہ جمہور اہل علم وفقہاء اور اہل کلام کا عقیدہ ہے۔وہ ہر اس انسان کو صحابی شمار کرتے ہیں [جس نے ایمان کی حالت میں دیدار نبوت کی سعادت حاصل کی ہو] بھلے اسے کم وقت صحبت میں رہنے کے لیے ملا ہو یا زیادہ۔ اس میں اختلاف بہت ہی ضعیف ہے۔ جمہور کے قول پر دلیل وہ حدیث ہے جسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((یأتِی علی الناسِ زمان یغزو فِئام مِن الناسِ؛ فیقال لہم: ہل فِیکم من رأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فیقولون : نعم ؛فیفتح لہم۔ ثم یغزو فِئام مِن الناسِ فیقال لہم: ہل فِیکم من رأی من صحِب رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فیقولون: نعم ؛ فیفتح لہم۔ ثم یغزو فِئام مِن الناسِ فیقال لہم: ہل فِیکم من رأی من صحِب من صحِب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ فیقولون :نعم؛ فیفتح لہم)) [صحیح مسلم:ح:1968۔]

’’ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگوں گا گروہ جہاد کے لیے نکلیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں ! ہے؛ تو پھر ان کو فتح حاصل ہوگی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہو؟

تو وہ کہیں گے کہ: جی ہاں ہے؛ تو پھر انہیں فتح حاصل ہو گی۔پھر کہیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے ساتھی(تابعی)کو دیکھا ہو؟

تو وہ کہیں گے کہ:’’ جی ہاں ہے! تو پھر انہیں فتح حاصل ہو گی۔‘‘

یہ صحیح مسلم کے الفا ظ ہیں ۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں ایک جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو لوگ کہیں گے کہ:’’ دیکھو کیا تمہارے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی صحابی ہے؟

تو ایک صحابی پایا جائے گا؛ جس کی وجہ سے ان لوگوں کو فتح حاصل ہوگی ۔پھر ایک دوسری جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو لوگ کہیں گے :’’کیا ان میں کوئی ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہو؟

تو کہیں گے : ہاں ؛ تو پھر اس کی وجہ سے ان کو فتح حاصل ہوگی۔‘‘ پھر ایک تیسری جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی؛ تو کہا جائے گا کہ:’’ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہے؟ اور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں ایک چوتھی جماعت جہاد پر بھیجی جائے گی تو ان سے کہا جائے گا کہ:’’ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی بھی ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے؟[یعنی تبع تابعین میں سے ہو] تو ان میں سے ایک ایسا آدمی بھی ہوگا جس کی وجہ سے ان کو فتح حاصل ہو گی۔‘‘ [صحیح مسلم:ح 1969]

صحیح بخاری کی روایت میں تین بار کا ذکر ہے ؛ جیسا کہ پہلی روایت میں گزر چکا۔ لیکن اس کے الفاظ میں ( یأتِی علی الناسِ زمان یغزو فِئام مِن الناسِ)وارد ہوا ہے۔دوسری او رتیسری بار بھی ایسے ہی کہا گیا ہے۔ اوراس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہ تمام صحابہ ہوں گے۔ تمام روایات کا صحابہ کرام ‘ تابعین اور تبع تابعین کے ذکر پر اتفاق ہے۔یہی وہ تین قرون ہیں [جن کے بہترین ہونے کی بشارت دی گئی ہے ]۔ جب کہ بعض روایات میں چوتھے قرن کا ذکر بھی آیا ہے۔ لیکن تین قرون پر تمام لوگوں کااتفاق ہے۔ اس کی کئی روایات ہیں ۔ 

جیسا کہ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد متصل ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔‘‘[صحیح بخاری:ح 868]۔

صحیحین میں ہی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میری امت میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد متصل ہوں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد متصل ہوں گے۔‘‘ 

حضرت عمران بیان رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ :’’مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قرن کے بعد دو مرتبہ قرن کا ذکر فرمایا تھا یا تین مرتبہ۔‘‘

پھر ارشاد فرمایا:’’ تمہارے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر طلب و خواہش کے گواہی دیں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور امین نہ بنائے جائیں گے۔ وہ نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہ کریں گے۔‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ وہ قسم أٹھائیں گے ‘ حالانکہ ان سے قسم کا نہیں کہا جائے گا۔‘‘[صحیح البخاری ‘ کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘ الباب الأول؛ [مسلم ؛ کتاب فضائل الصحابۃ ’باب : فضل الصحابۃ ....ثم الذین یلونہم؛ ح: 215]۔ ]

حضرت عمران رضی اللہ عنہ کو چوتھی بار[یعنی قرن چہارم ] کے متعلق شک ہے۔‘‘

حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ : ’’اور ان سے گواہی طلب کرنے سے پہلے وہ گواہی دیں گے ۔‘‘ بعض علماء کرام نے اسے مطلق گواہی پر محمول کیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی مکروہ سمجھا ہے کہ کوئی انسان حق گواہی بھی حق دار کے طلب کرنے سے پہلے دے؛ جب کہ اسے صحیح گواہی کا علم بھی ہو۔ اس کی تطبیق اس دوسری حدیث کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے ‘ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے:

(( ألا أخبرکم بخیر الشہداء ؟ الذي یأتي بالشہادۃ قبل أن یسألہا )) [مسلم کتاب الأقضیۃ ؛ باب بیان خیر الشہود ‘ ۳؍۱۳۴۴۔ سنن أبي داؤد ‘ کتاب الأقضیۃ ‘ باب في الشہادات ؛ سنن الترمذي ۳؍۳۷۳؛ کتاب الشہادات الباب الأول۔]

’’ کیا میں تمہیں بہترین گواہ کے بارے میں خبر نہ دو ں ۔ وہ جوکہ پوچھنے سے پہلے ہی گواہی ادا کرے ۔‘‘

ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ : یہاں پر مراد جھوٹ کی مذمت بیان کرنا ہے۔ یعنی وہ لوگ جھوٹی گواہی دیتے ہیں ۔جیسا کہ خیانت اور ترک وفاء پر بھی ان کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ امور منافقت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں :

’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے؛ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔ اور جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔‘‘ یہ صحیح بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔ [سبق تخریجہ]

جب کہ حق بات کی گواہی کے لیے گواہ جب اس کی ضرورت محسوس کرے ‘اور اسے پتہ چلے کہ جس کے حق میں گواہی دی جاری ہے وہ اس کا ضرورت مند ہے‘ مگراس نے گواہی دینے کے لیے سوال نہیں کیا ؛ تب بھی اس نے گواہی دیدی تو یقیناً اس نے عدل و انصاف قائم کیا۔ اور پوچھنے سے پہلے ہی اپنا واجب ادا کردیا۔یہ اس انسان سے افضل ہے جو صرف کہنے پر ہی حق ادا کرتا ہے ورنہ نہیں ۔ جیسا کہ وہ انسان جس کی امانت کسی دوسرے کے پاس ہو۔ اور وہ اس کے مانگنے سے قبل ہی اس کی امانت اس تک پہنچادے۔ یہ اس انسان سے افضل ہے جو کہ اس کے مالک کو مانگنے کی نوبت تک پہنچادے۔ دونوں اقوال میں سے یہ قول زیادہ ظاہرہے۔

یہ مسئلہ فقہاء کرام کے اس جھگڑے کے اختلاف سے مشابہت رکھتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی چیز کا دعوی کرے ‘اور حاکم مدعی علیہ سے سوال نہ کرے؛ تو کیا وہ خود جواب کا پوچھے گا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ اس سے جواب مانگے گا۔یہاں پر مدعی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ؛ اس لیے کہ احوال کی دلالت سوال سے بے نیاز کرتی ہے۔

سو پہلی حدیث میں ہے :((ہل فِیکم من رأی رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔)) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟اور پھر کہا : ((ہل فِیکم من رأی من صحِب رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟)) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہو ؟تو یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والا صحابی ہے۔

ایسے ہی تمام طبقات میں سوال کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔یعنی اس کے بعد ہے : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے ساتھی کو دیکھا ہو ؟یہاں پر صاحب سے مراد دیکھنے والا ہے۔

جب کہ دوسری حدیث میں ہے: ’’دیکھو کیا تمہارے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی صحابی ہے؟

پھر تیسری بارکہا جائے گا کہ:’’ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہے؟

یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر صحابی کے ساتھی کاحکم صرف دیدار کے ساتھ معلق ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار پریہ حکم بدرجہ اولی زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔

بخاری کے روایت میں ان تمام طبقات کے لیے’’ صَحِب‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ یہ تمام الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں جو کہ اس مسئلہ میں نص کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض الفاظ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے ہیں ‘اس لیے کہ آپ روایت کو بالمعنی نقل کرتے ہیں ۔ لیکن اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ ان میں سے ایک لفظ کے معانی دوسرے لفظ میں پائے جاتے ہیں ۔اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے گئے کلام کے معانی کے زیادہ واقف و عالم ہیں ۔ 

مزید برآں اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلنے والا لفظ ’’رأی۔‘‘’’دیکھا‘‘ تھا؛ تو بھی یقیناً مقصود حاصل ہوگیا۔ اور اگر کسی ایک طبقہ یا تمام طبقات میں یہ لفظ ’’ صَحِب‘‘ تھا تو تب بھی مقصود حاصل ہوگیا۔ اس لیے کہ اگر اس سے دیدار مراد نہ ہوتا؛ تو پھر آپ کا مقصود واضح نہ ہوتا۔ اس لیے کہ صحبت اسم جنس ہے جس کی شرعی حد مقرر ہے؛ نہ کہ لغت میں ۔جب کہ عرف میں یہ مختلف فیہ ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحبت کے لفظ کو کسی شرط کے ساتھ مقید نہیں کیا۔ اور نہ ہی اس کی کوئی تقدیر مقرر کی ہے۔ بلکہ اس کے حکم کو مطلق طور پر معلق رکھاہے۔اور دیدار سے بڑھ کر اس کااطلاق کسی اور چیز پر نہیں ہوسکتا۔

مزید برآں جو کہا جاتا ہے : ’’ ایک گھڑی کی صحبت ؛ سال کی صحبت اور مہینہ بھر کی صحبت ‘‘ تو یہ صحبت کے کم و زیادہ ہونے کی دلیل ہے۔جب اسے بغیر کسی شرط کے مطلق طور پر بیان کیاگیا ہے تو اسے بغیر کسی شرعی دلیل کے مقید کرنا جائز نہیں ۔بلکہ اسے تمام موارد استعمال کے درمیان مشترکہ معانی پر محمول کیا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف کسی کو دیکھ لینے سے یہ واجب نہیں کیاجاسکتا کوئی یوں کہے: فلاں اس کی صحبت میں رہا۔ لیکن جب وہ باقی لوگوں کوچھوڑ کر صرف اس کی اتباع و اقتداء کے نظریہ سے دیکھے ۔ تو خصوصیت صرف آپ کے ساتھ خاص ہے۔اس لیے کہ کفار اور منافقین میں سے جس کسی نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ان کا یہ دیکھنا معتبر نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان دیکھنے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی اتباع کرنا نہیں تھاکہ وہ آپ کے اعوان و انصار اور تصدیق کرنے والوں میں شامل ہو؛ آپ کے احکام میں آپ کی اطاعت گزاری بجالائے؛ آپ سے دوستی رکھے اورآپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اور آپ سے اپنی جان و مال اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تمام اہل ایمان میں یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے ؛ آپ نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا یہ حال ہے۔ اس لیے آپ صحابی تھے۔

اس کی دوسری دلیل صحیحین کی روایت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میں پسند کرتا ہوں کہ میں اپنے دینی بھائیوں کو دیکھوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کیا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم تو میرے صحابہ ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے؛ اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہوگا۔‘‘[سبق تخریجہ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:’’میرے بھائی ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ : آپ کی مراد وہ بھائی ہیں جو آپ کے صحابہ نہیں ہیں ۔ جب کہ ان لوگوں کے لیے صحبت کی خصوصیت ہے۔پھر آپ نے فرمایا: ’’وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے؛ اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہوگا۔‘‘اس جملہ کو آپ نے اپنے ان بھائیوں جن کو آپ دیکھنا چاہتے تھے ؛ اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین حد فاصل بنادیا۔یہ بھائی وہ لوگ ہیں جنہیں آپ نے نہیں دیکھا او رانہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔

[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور امور دعوت]:

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اسم جنس قلیل و کثیر صحبت کے لیے عام ہے۔اس کی سب سے کم مقدار یہ ہے کہ ایک تھوڑا سا وقت ہی آپ کی صحبت میں گزارا ہو۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس صحبت کی سب سے بلند چوٹی اور اعلی ترین مقام پر فائز ہیں ۔ اس لیے کہ آپ کو شرف صحبت بعثت نبوی سے لیکر وقت وفات تک حاصل رہا۔ لوگوں کا اجماع ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے آپ ہی ایمان لائے تھے۔ جیسا کہ اس بات پر بھی اجماع ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایمان لائی تھیں ؛ اور بچوں میں سے حضرت علی اور غلاموں میں سے حضرت زید بن حارثہ؛ رضی اللہ عنہم ۔ لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے کلمہ کس نے پڑھا؟ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے ایمان لائے تھے تو آپ کو صحبت میں سبقت حاصل ہوگئی۔ جیسا کہ آپ کو ایمان میں سبقت حاصل ہے۔ اور اگر پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے تو پھر بھی اس بات میں کوئی شک نہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحبت زیادہ کامل اور نفع بخش تھی۔ اس لیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دعوت کے کام میں شریک ہوگئے۔آپ کے ہاتھ پر اکابر اہل شوری اسلام لائے۔ جیسا کہ حضرت عثمان ‘ حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر‘حضرت سعد ‘ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم ۔ نیز آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایذاء رسانوں سے دفاع کرتے تھے اور آپ کے ساتھ قبائل کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے ؛ اور امور دعوت میں آپ کے معین و مددگار ہوتے۔

آپ ان لوگوں کو خرید کر آزاد کرتے جنہیں ایمان لانے کی پاداش میں عذاب دیا جارہا ہوتا؛ جیسا کہ حضرت بلال ‘حضرت عمار اور دیگر مظلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ۔ آپ نے سات ایسے لوگوں کوخرید کر آزاد کیاجنہیں اللہ پر ایمان لانے کے جرم میں ستایا جاتا تھا۔ آپ علی الاطلاق اپنی صحبت میں سب سے زیادہ نفع بخش انسان تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال جاننے والے اہل علم کے مابین اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کئی وجوہات کی بنا پر باقی تمام صحابہ کرام کی صحبت سے اکمل تھی۔

٭ ان میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ آپ دن اور رات ؛ سفر اور حضر میں ہر وقت سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے والے تھے۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ؛ آپ فرماتی ہیں :

’’ جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت میرے والدین اسلام لاچکے تھے؛ہم پر کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب صبح و شام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف نہ لاتے ہوں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب المسجد یکون فی الطریق....‘‘(ح:۴۷۶)۔]

سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع شروع میں صبح و شام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر جایا کرتے تھے۔ اس وقت اسلام بہت کمزور تھا‘ اور دشمنان دین بہت زیادہ تھے۔ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انتہاء درجہ کی فضیلت اور صحبت میں خصوصیت کی علامت ہے۔

[ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مشاورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ]:

مزید برآں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کے بعد بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے؛ اور مسلمانوں کے مختلف امور میں مشاورت اور بات چیت ہوتی۔یہ خصوصیت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہے کسی دوسرے صحابی کو نہیں ۔

مزید برآں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کرتے تو شوری میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کلام کرتے۔ بسا اوقات کوئی دوسرا پہلے بول پڑتا؛ اور بسا اوقات کوئی بھی آپ کے علاوہ نہیں بولتا ۔ تو پھر صرف آپ کی رائے کے مطابق ہی عمل کیا جاتا ۔اور جب کسی کی رائے آپ کی رائے کے خلاف ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالف کی رائے کو ترک کردیتے اور صرف آپ کی رائے کے مطابق عمل کرتے۔

پہلے واقعہ کی مثال؛ جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا ؛ تو سب سے پہلا مشورہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی دیا ۔ امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ :

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ جب بدر کے دن قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟‘‘

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں ۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کر لیں ؛ اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے؟

آپ نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں ۔ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کریں ؛وہ ان کی گردن مار دیں ۔اور عباس کو حمزہ کے سپرد کردیجیے وہ ان کی گردن اڑا دیں ۔ اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا کہ اسے میرے سپرد کردیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ [کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں ]۔

ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سب کو آگ میں جلادو۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف پیدا ہوا۔ان میں سے بعض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے رکھتے تھے اور بعض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے رکھتے تھے۔ اور بعض کی رائے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ والی تھی۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔‘‘اور پوری حدیث بیان کی۔ [اس روایت میں ہے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب آئندہ روز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیں تو سہی کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے دوست کو رلا دیا پس اگر میں رو سکا تو میں بھی رؤوں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربیی درخت سے بھی اور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ﴾ یہ بات نبی کی شان کے مناسب نہیں ہے کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں (کافروں کو قتل کر کے)زمین میں کثرت سے خون (نہ)بہائے۔ سے اللہ عزو جل کے قول پس کھا جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے پس اللہ نے صحابہ کے لیے غنیمت حلال کر دی۔]

اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ : جب حدیبیہ کے موقع پر مشورہ کیا گیاکہ : کیا ان لوگوں کے اہل و عیال پر شبخون مارا جائے جنہوں نے قریش کی مدد کی یا پھر بیت اللہ کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔ او رپھر جو کوئی اس راہ میں رکاوٹ بنے ‘ اس سے لڑائی کی جائے۔اہل علم : اصحاب تفسیر و حدیث ‘مغازی و سیر و فقہ کے ہاں یہ حدیث معروف ہے۔اسے امام بخاری و احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔

عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان سے روایت کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ:

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ حدیبیہ میں چودہ سو صحابہ کرام کی ہمراہی میں تشریف لے چلے ۔یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ پر پہنچے تو اپنے قربانی کوجانوروں کو ہار پہنائے اور انہیں نشانیاں لگائیں اور عمرہ کا احرام باندھا۔ اور اپنے آگے آگے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کو بطور جاسوس روانہ کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے احوال سے آگاہ کرے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر چلتے رہے یہاں تک کہ جب مقام غدیر الاشطاط میں پہنچے تو جاسوس نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ:’’ میں اپنے پیچھے قریش کواس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی نے بہت سے قبائل اور حبشیوں کو آپ سے لڑنے کے لیے اکٹھا کیا ہے۔‘‘

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یحیٰ بن سعید نے ابن المبارک سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ’’ انہوں نے بہت ساری جماعتوں کو جمع کررکھا ہے۔وہ آپ سے لڑنے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ آپ کوروکیں گے اور بیت اللہ تک نہیں جانے دیں گے۔‘‘

تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: لوگو!مجھے اس معاملہ میں بتاؤ کہ کیا کرنا چاہئے ؟کیا میں کافروں کے اہل و عیال پر ٹوٹ پڑوں اور ان کو تباہ کردوں [ جو ہم کو کعبہ سے روکنے کی تدبیریں کر رہے ہیں اور اگر وہ مقابلہ کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ مدد گار ہے اسی نے ہمارے جاسوس کو ان کے ہاتھ سے بچایا ہے] اگر وہ نہ آئے تو ہم ان کو سوئے ہوئے یا مفرور کی طرح چھوڑیں گے۔اور اگر بچ گئے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں توڑ کر رکھ دیگا۔یا پھر ہم بیت اللہ کی طرف سفر جاری رکھیں ‘ اور جو ہماری راہ میں رکاوٹ بنیں اس سے لڑیں ۔

اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! ہم تو صرف اللہ کے گھر کا ارادہ کرکے حاضر ہوئے ہیں کسی سے لڑنا اور مارنا یا اسے لوٹنا ہماری غرض نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلیں اگر کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بنے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’پھر اٹھو اور اللہ کا نام لے کر چلو۔‘‘

حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میں نے کسی ایک کو ایسا نہیں دیکھا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مشورہ کرتے ہوں ۔‘‘

حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم کی روایت میں ہے :

’’ پس وہاں سے اٹھ کر چلے یہاں تک راستے میں کسی جگہ پہنچے ۔‘‘

یہاں تک یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے آپ کی سند سے کتاب الحج اورمغازی میں نقل کی ہے۔

حضرت امام زہری رحمہ اللہ کی روایت جو کہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہے؛ اور جس پر امام بخاری اور امام احمد رحمہما اللہ کا اتفاق ہے ۔ اس روایت میں ہے :

’’اثنائے راہ میں بطور معجزہ کے خالد بن ولید (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے)کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : مقام غمیم میں قریش کے ساتھ مقدمہ جیش پر ہیں ۔ تم داہنی طرف چلنا اور ادھر خالد کو مسلمانوں کا آنا ذرا بھی معلوم نہ ہوا تھا جب لشکر کا غبار ان تک پہنچا تو انہیں معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ اسی اثنا میں فوراً ایک شخص قریش کو خبر دینے کیلیے چل دیا۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم برابر چلے جا رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ اس پہاڑی پر پہنچے جس کے اوپر سے ہو کر لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا:’’ حل حل(أٹھ اٹھ ؛ اور اسے اٹھانے کی) بہت کوشش کی گئی؛ مگر اس نے جنبش نہ کی صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قصویٰ بیٹھ گئی، قصوا بیٹھ گئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ قصوی خود سے نہیں بیٹھی نہ اس کی یہ عادت ہے بلکہ اسے اس نے روکا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔

پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کفار قریش مجھ سے جس بات کا سوال کرینگے اور اس میں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی تعظیم کریں گے تو میں ان کی اس بات کو منظور کرلوں گا۔ اس کے بعد آپ نے قصویٰ کو ڈانٹا تو اس نے جست لگائی، اور روانہ ہو گئی۔یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنارے ایک گڑھے پر بیٹھ گئی، جس میں پانی بہت ہی تھوڑا سا تھا، لوگ اس سے تھوڑا تھوڑا پانی لیتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے اس کو پی لیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی، تو آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کردیا، اور حکم دیا کہ اس کو اس پانی میں ڈال دیں ۔‘‘

پس اللہ کی قسم !پانی فوراً ابلنے لگا، یہاں تک کہ سب لوگ اس سے سیراب ہو گئے۔ اتنے میں بدیل بن ورقا خزاعی نے اپنی قوم خزاعہ کے چند آدمیوں کو جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ تھے اور تہامہ کے رہنے والے تھے،-امام احمد کے الفاظ کے مطابق ان میں مسلمان بھی تھے اور مشرک بھی- ساتھ لا کر کہا کہ:’’ میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ حدیبیہ کے گہرے چشموں پر فروکش ہیں ، ان کے ہمراہ دودھ والی اونٹنیاں ہیں ، ہر طرح سے ان کا سامان درست ہے اور وہ لوگ آپ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ، اور آپ کو کعبہ سے روکنا چاہتے ہیں ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہم کسی سے لڑنے کیلیے نہیں آئے ہم تو صرف عمرہ کرنے آئے ہیں ، در حقیقت قریش کو لڑائی ہی نے کمزور کردیا، اس سے ان کو بہت کچھ نقصان پہنچا ہے، اگر وہ چاہیں تو میں ان سے کوئی مدت مقرر کر لوں ، لیکن وہ میرے اور کفار عرب کے درمیان نہ پڑیں ۔ نتیجہ میں اگر میں غالب آ جاؤں اور اس وقت قریش چاہیں کہ اس دین میں داخل ہوں جس میں اور لوگ داخل ہوئے ہیں تو وہ ایسا کریں ۔ اور اگر میں غالب نہ آؤں تو پھر وہ آرام اٹھائیں ۔کیونکہ اس صورت میں ان کا مقصود پورا ہوجائے گا، اور اگر وہ اس کو منظور نہ کریں ، تو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنی اس حالت میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا، تاآنکہ قتل کردیا جاؤں ، اور بے شک اللہ اپنے دین کو جاری رکھے گا۔‘‘

بدیل نے کہا :’’جو کچھ آپ نے کہا میں قریش سے جا کر یہی کہہ دوں گا۔

چنانچہ وہ گیا اور قریش سے جا کر کہا کہ:’’ ہم تمہارے پاس اسی شخص کے پاس سے آرہے ہیں ، اور ہم نے انہیں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے، اگر تم چاہو تو ہم بیان کردیں ۔ تو ان کے بے وقوفوں نے کہا کہ ہمیں اس کی کچھ حاجت نہیں کہ کسی بات کی خبر دو۔ لیکن عقل مندوں نے کہا :’’ تم نے ان سے جو کچھ سنا ہے بیان کرو ۔ بدیل نے کہا:’’ میں نے ان کو یہ یہ کہتے سنا ہے؛ پھر جو کچھ آپ نے فرمایا تھا بیان کردیا۔

تو عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ لوگو! کیا میں تمہارا باپ نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں !

عروہ نے کہا: ’’کیا تم میری اولاد کی طرح نہیں ہو؟ انہوں نے کہا ہاں !

عروہ نے کہا: کیا تم مجھ سے کسی قسم کی بدظنی رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں !

عروہ نے کہا :کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری نصرت کے لیے بلایا مگر جب انہوں نے میرا کہا نہ مانا، تو میں اپنے اعزہ اور اولاد کو جس نے میرا کہنا مانا، اس کو تمہارے پاس لے آیا۔

انہوں نے کہا ہاں !یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

عروہ نے کہا :’’اچھا، اب میری ایک بات مانو! اس شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کومنظور کرلو، اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جاؤں ۔

سب نے کہا: اچھا آپ جائیے، چنانچہ عروہ آپ کے پاس آئے گفتگو کرنے لگے۔ آپ نے اس سے ویسی ہی گفتگو کی جیسی کہ بدیل سے کی تھی۔‘‘

عروہ نے کہا: اے محمد !یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنی قوم کی جڑ(بنیاد) بالکل کاٹ ڈالو گے؟ تو اس میں تمہارا کیا فائدہ ہوگا؟ کیا تم نے اپنے سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استحصال کیا ہو؟ اور اگر دوسری بات ہوجائے کہ تم مغلوب ہو جاؤ تو پھر کیا ہوگا؟ اور نتیجہ میں تو یہی آخری بات معلوم ہو رہی ہے، کیونکہ میں تمہارے ہمراہ ایسے لوگ اور ایسے مختلف آدمی دیکھ رہا ہوں جو بھاگ جانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ سنو!وہ تمہیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیں گے۔ - امام احمد رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں کہ: ’’ یہ ایسے لوگ ہیں جو بھاگ جائیں گے اور آپ کو اکیلا چھوڑ دیں گے - ۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)نے یہ سن کر عروہ سے کہا کہ:

’’ امصص ببظر اللات‘‘ (تو لات بتنی کی شرمگاہ چوسے! کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت سے بھاگ جائیں گے، اور انہیں تنہا چھوڑ دیں گے؟

عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عروہ نے کہا: قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھ پر تمہارا ایک احسان نہ ہوتا جس کا میں نے ابھی تک بدلہ نہیں دیا تو میں ضرور تم کو جواب دیتا ۔ [حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ] عروہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا اور جب وہ آپ سے بات کرتا تو ازراہ خوشامد آپ کی داڑھی میں ہاتھ ڈال دیتا۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے تھے، جن کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور خود ان کے سر پر تھا ۔جب عروہ اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کی طرف بڑھانے لگتا، تو مغیرہ نے اپنی تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ پر مارتے۔ اور کہتے کہ: عروہ اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے ہٹالے۔

عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا :یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ۔

عروہ نے کہا: اے بے وقوف کیا تو سمجھتا ہے کہ میں تیری بے وفائی کے انتقام کی فکر میں نہیں ہوں ۔

مغیرہ نے جو زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کے پاس نشست و برخاست کرتے تھے، انہوں نے کسی کو قتل کر ڈالا اور اس کا مال لے لیا تھا، اور اس کے بعد وہ مسلمان ہو گئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ تمہارا اسلام قبول کرتا ہوں ۔ جب کہ مال تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘

اس کے بعد عروہ گوشہ چشم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو دیکھنے لگا۔

راوی کہتا ہے کہ:’’ اس نے یہ حال دیکھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم لعاب تھوکتے، تو وہ صحابہ میں کسی نہ کسی کے ہاتھ پر پڑتا جس کو وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، اور جب آپ کوئی حکم دیتے تو وہ بہت جلد اس کی تعمیل کرتے۔ جب آپ وضو کرتے، تو وہ لوگ آپ کے وضو ء سے گرنے والے پانی پر لڑتے تھے (ایک کہتا تھا ہم اس کو لیں گے، دوسرا کہتا تھا کہ ہم لیں گے)۔

جب وہ لوگ بات کرتے تھے تو آپ کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔ اورآپ کی طرف بوجہ تعظیم آنکھ بھر کر نہ دیکھتے تھے۔ پھر عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ گیا اور کہا :’’اے لوگو اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے دربار میں گیا، قیصر وکسری اور نجاشی کے دربار میں گیا، مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کی یہ تعظیم کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! جب تھوکتے ہیں ، تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا ہے، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔ جب وضو کرتے ہیں ، تو ان کے غسالہ وضوء کیلیے لڑتے مرتے ہیں ۔ اپنی آوازیں ان کے سامنے پست رکھتے ہیں ۔ نیز بغرض تعظیم ان کی طرف دیکھتے تک نہیں ۔ بے شک انہوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ مسئلہ پیش کیا ہے، لہٰذا تم اس کو مان لو۔

چنانچہ بنی کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ: مجھے بھی اجازت دو کہ میں بھی ان کے پاس جا کر ان کو دیکھوں ۔ تو لوگوں نے کہا کہ: اچھا تم بھی ان کے پاس جاؤ۔

جب وہ آنحضرت اور آپ کے اصحاب کے سامنے آیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے اور وہ اس قوم میں سے ہے، جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کیا کرتے ہیں ، لہٰذا تم قربانی کے جانور اس کے سامنے کرو، جب قربانی کے جانور اس کے سامنے لائے گئے اور لوگوں نے لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا، اس نے یہ حال دیکھا، تو کہنے لگا، سبحان اللہ!ایسے اچھے لوگوں کو کعبہ سے روکنا زیبا نہیں ہے، پھر جب وہ اپنے لوگوں کے پاس لوٹا توکہنے لگا کہ:’’ میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا کہ انہیں قلادے پہنائے گئے تھے اور ان کا اشغار کیا ہوا تھا (یعنی ان اونٹوں کے کوہان پر اس لیے زخم لگایا جاتا ہے تاکہ وہ حج کا ہدیہ متصور کیے جائیں ) ، لہٰذا میں تو یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے ۔‘‘

پھر ان میں سے ایک اور شخص کھڑا ہوا، جس کا نام مکر زبن حفص تھا؛ اس نے کہا کہ مجھے بھی اجازت دو کہ میں بھی محمد کے پاس جاؤں ۔لوگوں نے کہا کہ اچھا تم بھی جاؤ۔ چنانچہ جب وہ مسلمانوں کے پاس آیا، تو رسول اللہ نے فرمایا، یہ مکرز ہے، اور یہ ایک بدکار آدمی ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ سہیل بن عمرو نامی ایک شخص کافروں کی طرف سے آیا۔

معمر کہتے ہیں ، مجھ سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کرکے یہ بیان کیا کہ جب سہیل آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اب تمہارا کام آسان ہوگیا۔‘‘

معمر کہتے ہیں کہ: زہری نے مجھ سے اپنی حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ جب سہیل بن عمرو آیا، تو اس نے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان میں صلح نامہ لکھ دیجئے ۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ: لکھ :’’بسم اللّٰہ الرحمنٰ الرحیم‘‘

سہیل نے کہا:’’ اللہ کی قسم! ہم رحمن کو نہیں جانتے کہ وہ کون ہے؟، کفار نے یہ اس لیے کہا کہ وہ لفظ رحمن کو اللہ کا نام جانتے ہی نہ تھے۔ آپ یوں لکھوائیے:’’باسمک اللھم‘‘ جیسا کہ آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا: ہم تو بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ہی لکھوائیں گے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس پر اصرار نہ کرو، باسمک اللھم لکھ دو۔ پھر آپ نے فرمایا :لکھو:’’ ہذا ماقاضی علیہ محمد رسول اللہ ’’یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کررہے ہیں ۔‘‘ 

سہیل نے کہا اللہ کی قسم! اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو ہم آپ کو کعبہ سے نہ روکتے، اور نہ آپ سے جنگ کرتے، آپ من جانب محمد بن عبداللہ لکھیے۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کی قسم !بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اور اگر تم لوگ میری تکذیب ہی کرتے ہو، تو محمد بن عبداللہ لکھ لو۔‘‘

زہری کہتے ہیں کہ:’’ یہ سب باتیں آپ نے اس لیے منظور کرلیں کہ آپ فرما چکے تھے کہ وہ جس بات کی مجھ سے درخواست کریں گے، بشرطیکہ اس میں وہ اللہ کی حرمت والی چیزوں کی عظمت کریں تو میں اسے قبول کر لونگا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’علی ان تخلوا بیننا وبین البیت فنطوف بہ ۔‘‘

’’اس بات پر کہ اے کفار مکہ تم ہمارے اور کعبہ کے درمیان میں راہ صاف کردو، تاکہ ہم اس کا طواف کرلیں ۔‘‘سہیل نے کہا کہ:اللہ کی قسم!ہم یہ بات اس سال منظور نہیں کریں گے، کیونکہ ڈر ہے کہ عرب یہ نہ کہیں کہ ہم مجبور کردیئے گئے، بلکہ اگلے برس یہ بات پوری ہوجائے گی۔ چنانچہ حضرت نے یہی لکھوادیا۔

پھر سہیل نے کہا :’’یہ بھی لکھوا دیجئے کہ :’’وعلی أنہ لا یاتیک منا رجل وإن کان علی دینک إلارددتہ ۔‘‘’’اس بات پر کہ اے محمد ہماری طرف سے جو شخص تمہارے پاس جائے اگرچہ وہ تمہارے دین پر ہو تب بھی تم اسے ہماری طرف واپس لوٹا دینا۔‘‘

مسلمانوں نے کہا:’’ سبحان اللہ!وہ مشرکوں کے پاس کیوں واپس کردیا جائے گا، حالانکہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔اسی حالت میں ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں کو کھڑ کھڑاتے ہوئے مکہ کے نشیب سے آئے تھے مسلمانوں کے درمیان آگئے۔ تو انہوں نے کہا: محمد یہی سب سے پہلی بات ہے جس پر ہم آپ سے صلح کرتے ہیں کہ تم ابوجندل رضی اللہ عنہ کو مجھے واپس دے دو۔ جس پر رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نے ابھی تحریر ختم نہیں کی۔ ابھی سے ان شرائط پر عمل کیونکر ضروری ہوسکتا ہے؟

سہیل نے کہا:’’ اللہ کی قسم ہم تم سے کسی بات پر صلح کبھی نہ کریں گے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اچھا اس ایک آدمی کی تم مجھے اجازت دے دو۔‘‘

سہیل نے کہا: میں ہرگز اس کی اجازت نہ دونگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی اجازت دے دو۔

اس نے کہا میں نہ دونگا۔ مکرز نے کہا میں اس کی اجازت آپ کو دیتا ہوں ۔

ابوجندل رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمانو!کیا میں مشرکوں کے پاس واپس کردیا جاؤں گا؟ حالانکہ میں مسلمان ہو چکا ہوں ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے اسلام کیلیے کیا کیا مصیبتیں اٹھائی ہیں ۔ درحقیقت ابوجندل کو اللہ کی راہ میں بہت سخت تکلیفیں دی گئی تھیں ۔

حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا :’’ کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کیوں نہیں میں ضرور سچا نبی ہوں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ فرمایا:’’درست ہے‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم ذلت کو کیوں گوارا کررہے ہیں ؟

آپ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا فرستادہ ہوں ، اور اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ وہ میرا مددگار ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ ہمیں بتایا نہیں کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ پہنچ کر اس کا طواف کریں گے؟

آپ نے فرمایا: ’’یہ ٹھیک ہے۔ کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ امسال ہی طواف کعبہ کریں گے؟‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں ۔

آپ نے فرمایا:’’ تو آپ ضرور خانہ کعبہ جا کر اس کا طواف کریں گے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا:کیا محمد رسول اللہ سچے نبی نہیں ہیں ؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :بے شک۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہم سچے اور ہمارے دشمن جھوٹے نہیں ہیں ؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:یہ درست ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم ذلت کیوں گوارا کریں ؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انسان! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور حکم ربانی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اللہ ان کا ناصر ہے۔ لہٰذا ان کی رکاب تھام لیجیے، اللہ کی قسم! وہ حق پر ہیں ۔‘‘

میں نے کہا :’’کیا وہ ہم سے بیان نہ کرتے تھے کہ ہم کعبہ جائیں گے، اور اس کا طواف کریں گے۔

تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں کہا تھا؛ مگر کیا تم سے یہ بھی کہا تھا کہ تم اسی سال کعبہ جاؤ گے ۔

میں نے کہا: یہ تو نہیں کہا تھا۔ ابوبکر نے کہا :پھر تم کعبہ ضرور جاؤگے اور اس کا طواف کروگے۔‘‘

[زہری کہتے ہیں :] ’’ فاروق اعظم کہتے تھے:’’ اس گستاخی کے کفارہ میں میں نے بہت سی عبادتیں کیں ۔‘‘

راوی کا بیان ہے:’’ پھر جب صلح نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا :’’ اٹھو اور سر منڈوالو، اور قربانی پیش کرو۔‘‘

راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم! کوئی شخص بھی ان میں سے نہ اٹھا، یہاں تک کہ آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔ جب ان میں سے کوئی نہیں اٹھا، تو آپ خود ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ اور ان سے یہ سب پورا واقعہ بیان کیا، جو لوگوں سے آپ کو پیش آیا تھا۔ 

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ یہ بات چاہتے ہیں ، تو اچھا ذرا آپ باہر تشریف لیجائیے۔ اور ان میں سے کسی کے ساتھ کلام نہ کیجئے ۔یہاں تک کہ آپ اپنے قربانی کے جانورں کی قربانی کردیجئے اور سر مونڈنے والے کو بلائیے تاکہ وہ آپ کے سر کے بال صاف کر دے۔

چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اور ان میں سے کسی سے کچھ گفتگو نہیں کی، یہاں تک کہ آپ نے سب کچھ پورا کرلیا، یعنی قربانی کے جانور قربان کردیئے اور اپنا سر بھی مونڈوالیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ دیکھا تو اٹھے اور انہوں نے قربانیاں کیں ۔ایک نے دوسرے کا سر مونڈ دیا۔ اژدہام کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ ایک دوسرے کو مار ڈالے، (اس کے بعد)آپ کے پاس کچھ مسلمان عورتیں آئیں تو اللہ نے آیت نازل فرمائی :

﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّ فَاِِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِِلَی الْکُفَّارِ ........وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾ [الممتحنۃ ۱۰]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو، اللہ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے ۔پھر اگر تم جان لو کہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو، ........اور کافر عورتوں کی عصمتیں روک کر نہ رکھو۔‘‘ تک نازل فرمائی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن دو مشرک عورتوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں طلاق دیدی۔ ان میں سے ایک کے ساتھ تو معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ لوٹ کر آئے تو ابوبصیر رضی اللہ عنہ جو قریشی نسل تھے؛آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے؛وہ مسلمان تھے۔ کفار نے ان کے تعاقب میں دو آدمی بھیجے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوا بھیجا کہ ہم سے جو معاہدہ آپ نے کیا ہے اس کا خیال کریں ۔ چنانچہ آپ نے ابوبصیر کو ان دونوں کے حوالہ کردیا۔

وہ دونوں ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو لے کر چلے جب ذوالحلیفہ میں پہنچے؛ تو وہ لوگ اترکے اپنے چھوارے کھانے لگے ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک شخص سے کہا :’’ اے فلاں اللہ کی قسم تیری تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اس شخص نے نیام سے اپنی تلوار نکالی؛ اور کہا : ہاں اللہ کی قسم !یہ تلوار بہت عمدہ ہے میں نے اس کو کئی مرتبہ آزمایا ہے۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے دکھلاؤ۔ میں بھی اسے دیکھوں ۔

چنانچہ وہ تلوار اس نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو دیدی؛ ابوبصیر نے اسی سے اس کو مار ڈالا اور اس کو ٹھنڈا کردیا۔ لیکن دوسرا شخص بھاگ گیا اور مدینہ آکر ڈرتا ہوا مسجد میں گھس گیا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا: ’’ یہ کچھ خوف زدہ ہے۔‘‘ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو اس نے کہا :’’ اللہ کی قسم !میرا ساتھی قتل کردیا گیا؛ اور قریب تھا کہ میں بھی قتل کردیا جاتا۔‘‘

پھر حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ آئے ؛اور انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم !اللہ نے آپ کو بری کردیا آپ تو مجھے کفار کی طرف واپس کر چکے تھے؛ لیکن اللہ نے مجھے ان کافروں سے نجات دی ۔‘‘

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ لڑائی کی آگ ہے اگر کوئی مقتول کا مددگار ہوتا ‘تو یہ آگ بھڑک اٹھتی۔‘‘ جب یہ بات ابوبصیر نے سنی تو سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں کفار کی طرف واپس کردیں گے لہٰذا ۔وہ چلے گئے یہاں تک کہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔

اور اس طرف سے ابوجندل سہیل رضی اللہ عنہ بھی چھوٹ کر آرہے تھے؛ راستہ میں وہ بھی ابوبصیر سے مل گئے یہاں تک کہ جو قریشی مسلمان ہو کر آتا ابوبصیر سے مل جاتا۔ آخرکار ان سب کی ایک ٹولی ہوگئی۔ اللہ کی قسم! جب وہ کسی قافلہ کی خبر سنتے تھے کہ وہ شام کی طرف سے آرہا ہے تو وہ اس کی گھات میں لگ جاتے؛ اور ان کے آدمیوں کو قتل کردیتے اور ان کا مال لوٹ لیتے ۔

آخرکار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو بھیجا اور آپ کو اللہ کا اور اپنی قرابت کا واسطہ دیا کہ آپ ابوبصیر کو ان باتوں سے منع کریں آئندہ سے جو شخص آپ کے پاس مسلمان ہو کر آئے وہ بے خوف ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو منع کرا بھیجا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ....إلی قولہ تعالیٰ ....الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ﴾ [الفتح ۲۴۔۲۶]

’’ وہی ہے جس نے کافروں کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے....ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی۔‘‘ تک نازل فرما کر ان کے تعصب کے اس حال کو ظاہر کیا ۔

ان کی جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا مضمون قائم رکھا اور نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو قائم رکھا بلکہ مسلمانوں اور کعبہ کے درمیان حائل ہوگئے۔‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن محمد المسندی سے وہ عبدالرزاق سے وہ أحمد سے وہ عبدالرزاق سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ امام بخاری کے اساتذہ میں سے جلیل القدر شیخ ہیں ۔ان کی روایت میں جو الفاظ زیادہ ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں ثابت ہیں ۔

صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صلح نامہ لکھا اور لکھا:’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘

مشرکوں نے اعتراض کیا اور کہا:’’ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہ لکھو؛ اگر تم اللہ کے رسول ہوتے تو ہم تم سے جنگ نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اس کو مٹا دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ میں تو اس کو نہیں مٹاؤں گا۔ 

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس کو مٹا ڈالا ۔ اور ان لوگوں سے اس بات پر صلح کی کہ آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تین دن تک مکہ میں رہیں گے اور وہاں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ہتھیار جلبان میں ہوں گے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جلبان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیام اور وہ چیز جو اس میں ہے۔‘‘[صحیح بخاری: کتاب الصلح ‘ باب : کیف یکتب ہذا ما صالح فلان ابن فلان ....؛ ح 2538۔ مسلم کتاب الجہاد والسیر ‘ باب صلح الحدیبیۃ ۳؍۱۴۰۹۔ سنن أبي داؤد کتاب المناسک ‘ باب المحرم یحمل السلاح۴؍۲۸۹۔]

صحیحین میں حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’ ہم لوگ جنگ صفین میں شریک و موجود تھے کہ سہل بن حنیف نے کھڑے ہو کر کہا :لوگو! تم اپنی رائے کا قصور سمجھو ۔ہم لوگ تو جنگ حدیبیہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے ۔اگر جنگ کی ضرورت دیکھتے تو ضرور لڑتے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کی تھی۔ جہاں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سرور عالم سے کہا تھا: یا رسول اللہ!کیا ہم حق پر اور یہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ ارشاد ہوا: ہاں !

پھرانہوں نے کہا :کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مرے ہوئے لوگ دوزخ میں نہیں ہیں ؟

ارشاد ہوا:ہاں ! تو اس کے بعد انہوں نے پھر پوچھا بتائیے :تو پھر ہم اپنے مذہب کے بارے میں ان لوگوں سے کمزوریوں کو قبول کیوں کریں اور دین میں ان سے کیوں دبیں اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور ان کا فیصلہ کرے؛ کیا ہم واپس ہو جائیں ؟

تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب!میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی رسوا و ذلیل نہیں کرے گا۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صبر نہ ہوسکا اور غصہ ہی کی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:

اے ابوبکر!کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا :کیوں نہیں ۔

کہنے لگے :’’کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔

عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’پھر ہم کس وجہ سے اپنے دین میں کمزوری قبول کریں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا؟

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابن خطاب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سور فتح نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انہی سے وہ آیات پڑھوائیں ؛ تو انہوں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ فتح ہے آپ نے فرمایا جی ہاں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دلی طور پر خوش ہو کر لوٹ گئے۔‘‘[صحیح مسلم: ح:136 ۔ صحیح بخاری:ح:427۔]

[رائے کی غلطی]:

مسلم کی ایک روایت میں ہے: [حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا]: اے لوگو! اپنی رائے کو غلط سمجھو؛ اللہ کی قسم! ابوجندل کے دن کا واقعہ میرے سامنے ہے اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر سے لوٹا دینے کی طاقت ہوتی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دیتا۔

ایک روایت کے الفاظ ہیں :’’ اللہ کی قسم ہم نے اپنی تلواریں کسی کام کے لیے اپنے کندھوں پر کبھی نہیں رکھیں مگر یہ کہ ان تلواروں نے ہمارے کام کو ہمارے لیے آسان بنا دیا البتہ یہ معاملہ ( آسان )نہیں ہوتا۔‘‘ [صحیح مسلم:ح:137۔]

اور ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں :

’’[ (مگر اس جنگ صفین)کا عجیب حال ہے کہ] ہم ایک کام کو سنبھالتے ہیں تو دوسرا بگڑ جاتا ہے ہم حیران ہیں کہ اس کے انسداد کی کیا تدبیر کریں ۔‘‘[صحیح مسلم:ح:139۔صحیح بخاری: ح:1370۔]

یہ جملے آپ نے صفین کے موقع پر اس وقت ارشاد فرمائے جب حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے اصحاب کے مابین صلح کی وجہ سے خوارج کا ظہور ہوا۔

عمرہ حدیبیہ کے موقع کی یہ تمام ایسی روایات ہیں جن کے صحیح ہونے پر اہل علم محدثین کااتفاق ہے؛ اور ان سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔اس خصوصیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی دوسرا آپ کا شریک و سہیم نہیں ؛ نہ ہی حضرت عمر ‘ نہ ہی علی اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ کوئی۔

ان میں اللہ اور اس کے رسول پر آپ سے بڑھ کر ایمان رکھنے والا اور اللہ اور اس کے رسول کا آپ سے بڑا اطاعت گزار کوئی دوسرا نہیں تھا۔اور نہ ہی شوری میں آپ سے پہلے کوئی دوسرا بولتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف آپ کی رائے پر بہت بڑے کارناموں میں فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور آپ ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کلام شروع کیا کرتے ۔اور آپ ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں فتوی دیا کرتے تھے؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فتوی کی تائید فرماتے اور اسے برقرار رکھتے تھے۔ یہ مقام و مرتبہ آپ کے علاوہ کسی دوسر ے کے حصہ میں نہیں آیا۔

جب بنو خراعہ میں سے آپ کا جاسوس حاضر خدمت ہوا‘اور یہ بتایا کہ :’’ میں اپنے پیچھے قریش کواس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی نے بہت سے قبائل اور حبشیوں اوردیگر جماعتوں کو آپ سے لڑنے کے لیے اکٹھا کیا ہے؛ وہ آپ سے لڑیں گے اور بیت اللہ اللہ تک پہنچنے سے روکیں گے۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: لوگو!مجھے اس معاملہ میں بتاؤ کہ کیا کرنا چاہئے ؟کیا کافروں کے اہل و عیال پر ٹوٹ پڑیں اور ان کو تباہ کردیں ؛یا پھر ہم بیت اللہ کی طرف سفر جاری رکھیں ‘ اور جو ہماری راہ میں رکاوٹ بنیں اس سے لڑیں ۔ 

اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! ہم تو صرف اللہ کے گھر کا ارادہ کرکے حاضر ہوئے ہیں کسی سے لڑنا اور مارنا یا اسے لوٹنا ہماری غرض نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلیں اگر کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بنے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’پھر اٹھو اور اللہ کا نام لے کر چلو۔‘‘

اور ایسے ہی جب عروہ بن مسعود ثقفی جو کہ قبیلہ بنو ثقیف کا سردار تھا ؛جو کہ قریش کا حلیف قبیلہ تھا؛ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت کی اور کہا: یہ مختلف گروہوں سے ملے ہوئے لوگ ہیں ‘ اور امام احمد کی روایت کے متعلق اوباش قسم کے لوگ ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو بھاگ جائیں گے اور آپ کو اکیلا چھوڑ دیں گے - ۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)نے یہ سن کر عروہ سے کہا کہ:’’ امصص ببظر اللات‘‘ (تو لات بتنی کی شرمگاہ چوسے)! [حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ’’لات‘‘ بتنی کانام اس لیے لیا تھا کہ عروہ بن مسعود ثقفی کا تعلق بنو ثقیف سے تھا؛ اوریہ قبیلہ اسی بت کا پجاری تھا ۔ لہٰذا حقیقت میں یہ اس معنی میں گالی نہیں ہے جیسے ظاہری الفاظ سے نظر آرہا ہے ‘بلکہ یہ اس کے مشرک ہونے پر اسے عاردلائی جاری ہے کہ اگر تم لوگ مشرک ہوکر بھی یہ سمجھتے ہو کہ سب مل کر ہم سے لڑو گے تو کیا مسلمان موحد ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔‘‘تفکر و تدبر علی ہذا التاویل ۔[دراوی جی ]] کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت سے بھاگ جائیں گے، اور انہیں تنہا چھوڑ دیں گے؟

عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

عروہ نے کہا: قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھ پر تمہارا ایک احسان نہ ہوتا جس کا میں نے ابھی تک بدلہ نہیں دیا تو میں ضرور تم کو جواب دیتا ۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سے پہلے جناب عروہ بن مسعود کے ساتھ کوئی احسان کیا تھا۔ تو اس نے اس احسان کی حرمت کا احساس کرتے ہوئے اس بات پر کوئی جواب نہ دیا۔

اسی لیے علماء کرام رحمہم اللہ میں سے بعض نے کہاہے کہ : ’’ یہ حدیث مصلحت اور ضرورت کے پیش نظر شرمگاہ کا صراحت کے ساتھ نام لینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا شمار ممنوعہ فحاشی کے امور میں نہیں ہوتا۔

اور جیساکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جس انسان کو سنو کہ وہ جاہلیت کی طرح کی گریہ و زاری کررہا ہے تو اسے برا بھلا کہو‘ اور اس کی رعایت نہ کرو۔‘‘ [رواہ احمد ]

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو ایسے ہی آہ و بکاکرتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا: ’’اے فلاں ! تمہارے باپ کی ایسی تیسی ....۔‘‘ جب آپ سے کہا گیا کہ : آپ نے یہ کیا کہہ دیا ؟توآپ نے جواب دیا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘[مسند أحمد ۵؍۱۳۶۔]

پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ صلح کی تو ظاہری طورپر اس میں مسلمانوں کی ہزیمت اور پسپائی تھی ۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری میں اور اس کے وعدہ پر یقین کرتے ہوئے ایسا ہی کیا؛ آپ کویقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائیں گے۔حالانکہ باقی اکثر لوگوں کو اس بات پر غصہ آرہا تھا ‘اوران پر یہ بات بہت گراں گزررہی تھی۔ حتی کہ حضرت عمر‘ حضرت علی ‘ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم [اس بات کو برداشت نہیں کررہے تھے]۔یہی وجہ تھی کہ جب حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقی لوگوں پر آپ کی فضیلت کا اظہار کرنے کے لیے تکبیر کہی۔

پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لفظ رسول اللہ مٹادو۔‘‘تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وہ تحریر لے کر اس سے یہ جملہ مٹا دیا ۔

صحیح بخاری میں ہے :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ:’’ لفظ رسول اللہ مٹادو۔‘‘

تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا بخدا میں تو اسے کبھی نہیں مٹاسکتا، تو رسول اللہ نے وہ صلح نامہ لے لیا، حالانکہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے پھر بھی آپ نے یہ لکھا، یہ محمد بن عبداللہ کا صلح نامہ ہے۔‘‘[صحیح بخاری:ح: 1423]

حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر سے لوٹا دینے کی طاقت ہوتی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹا دیتا۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کررہے ہیں ۔آپ پوچھ رہے تھے: کیا ہم حق پر اور وہ ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ اور کیا ہمارے مقتولین جنت میں اوران کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ پھر ہم ذلت کو کیوں گوارہ کررہے ہیں ؟پھر آپ نے اپنی اس بات سے رجوع کرلیا ؛ اور اس غلطی کے کفارہ میں بہت سارے نیک اعمال کیے۔

[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت گزاری]:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے اطاعت گزار تھے۔ آپ سے کبھی بھی مخالفت نبوت میں کوئی حرکت سر زد نہیں ہوئی۔بلکہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کرنے کے بعد آپ سے مناظرہ کیا تو آپ نے وہی جواب دیا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا۔ حالانکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جواب نہیں سنا تھا۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت اور مطابقت پر سب سے واضح دلالت ہے۔اور یہ کہ آپ کا قول و عمل ؛ علم اورحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔اس لیے کہ آپ وہی بات فرمایا کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی۔اور وہی کام کیا کرتے تھے جو آپ کا کام ہوتا۔ خصوصاً ان مواقع پر جب دوسرے لوگوں پر آپ کی فضیلت ظاہر ہوئی۔تو کہاں آپ کا مقام و مرتبہ اور کہاں دوسرے لوگوں کا مقام و مرتبہ ؟

ایک آپ سے مناظرہ کررہا ہے تاکہ آپ اپنافیصلہ واپس لے لیں ۔ دوسرے کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ کا نام مٹاد ے‘ مگر وہ ایسا نہیں کررہا ۔دوسرا کہہ رہا ہے : اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا فیصلہ واپس کروا سکتا تو ضرور ایسا کروا دیتا۔ آپ لوگوں کوقربانیاں کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو لوگ توقف میں پڑے ہوئے ہیں ۔

اس میں بھی کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ جن لوگوں نے ایسے کیا اس کے پیچھے بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور کفار سے بغض و نفرت کا عنصر شامل تھا۔اور انہیں یہ بات محبوب تھی کہ ایمان کفر پر غالب اور سر بلند رہے۔اور یہ کہ اہل ایمان پر اہل کفر کی وجہ سے کوئی بزدلی ‘ کمزوری یا رسوائی داخل نہ ہو۔ اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان سے لڑ پڑیں تاکہ مسلمانوں کواس دبی ہوئی صلح کی وجہ سے بزدلی اور دب جانے کی عار لاحق نہ ہو۔

یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ نص کو رائے پر تقدیم حاصل ہوتی ہے؛ اور شریعت کوخواہشات نفس پر۔ وہ بنیادی اصول جس میں انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانے والے اور ان کا انکار کرنے والے متفرق ہوگئے ؛ وہ اصول یہی تھا کہ نصوص کو آراء پر شریعت کو أھواء پر تقدیم حاصل ہے۔ اور شر کی اصل بنیاد رائے کو نص ؛اورخواہشات کو شریعت پر مقدم کرنا ہے۔ پس جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے روشن کردیا ہو ‘ تو اسے نصوص و شریعت میں موجود خیر و بھلائی نظر آنے لگ جاتی ہے۔اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی نص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحکم شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اور ان کے ساتھ رائے یا خواہش نفس کی وجہ سے ٹکرایا نہیں جاسکتا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ: ’’ میں اللہ کا رسول ہوں ‘ اور ہرگزاس کی نافرمانی کرنے والا نہیں ۔ وہ میرا ناصر و مدد گار ہے ۔‘‘ تو آپ نے بیان کردیا کہ:’’ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اور آپ وہی کام کریں گے جس کا حکم رسولوں کودیا جاتا ہے۔ وہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے۔ اور آپ نے یہ بھی خبر دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کرتے ہیں ؛ نافرمانی نہیں کرتے؛ جیسا کہ خواہش پرست اور اپنی رائے پر چلنے والوں کا حال ہوتا ہے ۔ اور آپ نے یہ بھی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر اور مدد گارہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مدد پر پورا یقین تھا۔ پس اس موقع پر جو کچھ ہوا وہ ہر گز آپ کے حق میں ضرر رساں نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ دین کی سر بلندی کی مصلحت کومتضمن تھا ؛ جیسا کہ بعد میں یہ ظاہر ہوا۔حقیقت میں یہ فتح مبین تھی۔اگرچہ اس میں موجود حسن و خوبی کو بہت سارے لوگ سمجھ نہیں سکے تھے۔اور بلکہ اسے بزدلی ؛ عجز اورذلالت اور دب جانے سے تعبیر کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے اس موقع پر اعتراضات کیے تھے؛ بعد میں انہوں نے توبہ کی؛ رضی اللہ عنہم ۔ جیسا کہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رجوع کرنے کا واقعہ آتاہے۔اور ایسے ہی حدیث میں حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے اپنی خطاء کے معترف ہونے کا بھی ذکرہے۔ اس لیے کہ آپ نے آخر میں یہ کہا تھا: ’’ اللہ و رسولہ اعلم ۔‘‘

پھر ان کی رائے کو بعد میں آنے والوں کے لیے درس عبرت قرار دیا۔اور لوگوں کوحکم دیا کہ وہ اپنی رائے کی غلطی کا اعتراف کریں ۔اس لیے کہ رائے غلط بھی ہوتی ہے۔جیسا کہ حدیبیہ کے دن خود ان کی رائے کی غلطی سے ظاہر ہوگیا۔او رایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی تعمیل حکم نہیں کی۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حکم دیا گیا کہ : وہ اپنے سر منڈوا دیں اور قربانیاں ذبح کردیں ؛ توانہوں نے تعمیل حکم نہیں کی۔یہاں تک کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود اپنے بال منڈوا دیے ؛ اور پھر انہوں نے اپنی اس حرکت پر توبہ بھی کی ؛ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا اور ان کے گناہوں کومعاف کرنے والا ہے۔

یہ بہت ہی عظیم قصہ ہے۔جواس مقام تک پہنچا ہوا ہے کہ عام لوگ اس کے تحمل کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ وگرنہ یہی لوگ سب سے بہترین مخلوق تھے؛ اور لوگوں میں سب سے افضل لوگ تھے۔علم و ایمان میں سب سے پختہ اور بڑھے ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ببول کے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضامندی کے سر ٹیفکیٹ سے نوازاتھا۔ اور ان کے ثنائے خیر کی تھی ۔ یہی لوگ مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین تھے۔

[فضیلت کا اعتبار:]

فضیلت میں اعتبار کمال انتہاء کے لحاظ سے ہوتا ہے نقص ِ ابتداء کے لحاظ سے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے سامنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی توبہ اور ان کے احسن انجام ؛اور خاتمہ بالخیرکے واقعات بیان کیے ہیں ۔جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کرامات کا احسان کیا تھا؛اور انہیں بلند مقام و درجات سے نوازا تھا۔ حالانکہ ان کے مابین کئی واقعات بھی پیش آئے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے ان لوگوں سے بغض رکھنا ہرگز جائز نہیں ۔ اس لیے کہ اعتبار تو کمال ِ انتہاء کا ہے نقصِ ابتداء کا نہیں۔

یہی حال سابقین اولین کا ہے۔ جو کوئی ان کی ابتدائی زندگیوں کے اعتبار سے بغض رکھے؛ حالانکہ اعتبار تو انتہاء میں کمال کے لحاظ سے ہے ؛ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا؛ تو ایسا انسان جاہل ہے۔ لیکن یہاں مطلوب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے زیادہ اکمل و افضل اور خیروبھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی دوسرا انسان آپ کا ہم پلہ اور مثیل نہیں تھا۔

یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے جاہل کے علاوہ کوئی دوسرا انسان شک نہیں کرسکتا۔یا پھر کوئی ایسا خواہشات پرست انسا ن ہو جس کو اس کی خواہشات نے قبول حق سے روک رکھا ہو۔ وگرنہ جس انسان کے پاس علم اور عدل ہو ؛ وہ کسی طرح بھی اس معاملہ میں شک کا شکار نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اس مسئلہ میں اہل علم و ایمان شک نہیں کرسکتے۔ جیسا کہ اس دور کے تمام لوگ باقی صحابہ پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورتقدیم پر متفق تھے؛ اور بعد میں آنے والے اہل اسلام اور بہترین لوگ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کا بھی اس پر اتفاق تھا۔ یہی امام مالک او ران کے اصحاب‘ امام شافعی او ران کے اصحاب‘ امام احمد او ران کے اصحاب‘ امام داؤد او ران کے اصحاب‘ امام ثوری او ران کے اصحاب‘ امام اوزاعی او ران کے اصحاب‘ امام لیث او ران کے اصحاب‘ رحمہم اللہ اوران تمام علماء اسلام کا مذہب و مسلک رہا ہے جنہیں امت میں قبولیت حاصل ہے۔

جس کسی کا یہ خیال ہو کہ حدیبیہ کے موقع یا پھر دیگر مواقع پر مخالفین کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت؛ ایسا گناہ ہے جوکہ توبہ سے کبھی معاف نہیں ہوسکتا ‘ تو یقیناً ایسا انسان غلطی کا شکار ہے۔ جیسا کہ ان لوگوں کی بات بھی غلط ہے جو مخالفت حکم نبوی کے مرتکبین کی طرف سے عذر پیش کرتے ہوئے اور ان سے ملامت کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ: انہوں نے حلق اورقربانی میں تاخیر اس لیے کی کہ یہ لوگ انتظار کررہے تھے ؛ کہ شاید اس کی منسوخی کا حکم آجائے‘ یا پھر اس کے خلاف وحی نازل ہوجائے۔

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ آپ کی اطاعت سے پیچھے رہ جانے والے اس وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کی تعظیم کا لحاظ تھا‘ اس لیے آپ کانام نہیں مٹایا ۔یا پھر مشرکین سے صلح کے مسئلہ پرتکرار کرنے والوں کا مقصد کفر پراسلام کا غلبہ اور اسلام کے ظہور و پذیرائی کا تھا۔ یہ اس طرح کی دیگر توجہیات تھیں ۔

تو جواب میں یہ کہا جائے گاکہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امر جازم سے مراد ایجاب تھا۔ جوکہ باتفاق اہل ایمان موجب اطاعت تھا۔ اس میں بعض ان لوگوں نے تنازعہ کیا جن کا یہ خیال تھا کہ یہ ایسا حکم جازم نہیں جس کا ماننا واجب ہو۔ اگراس کا واجب اطاعت ہونا ظاہر ہوتا تو پھر کوئی ایک بھی اس کی تعمیل میں شک تک بھی نہ کرسکتا۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سر منڈوانے اور قربانیاں کرنے کا حکم صادر ہونا حکم جازم تھا ؛ جس کا تقاضا یہ تھا کہ فی الفور اس کی اطاعت کی جائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے تین بارایسا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جب ان میں سے کوئی ایک بھی اس حکم کی تعمیل کے لیے نہیں اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے؛ اور ان کے سامنے لوگوں کے اس رد عمل کا ذکر کیا ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں تھے؛ اور فرمایا : ’’ میں غصہ کیونکر نہ ہوں ‘ جب میں کسی بات کا حکم دیتا ہوں تو اس کی اتباع نہیں کی جاتی۔ ‘‘[سنن ابن ماجۃ ۲؍۹۹۳؛ کتاب المناسک ‘ باب فسخ الحج ۔]

یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمایاجب آپ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر لوگوں کو حلال ہونے کا حکم دیا تھا۔

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ عمرہ محصورہ سے تحلل کا حکم حج کے موقع پرعمرہ کے بعد تحلل کے حکم سے زیادہ مؤکد تھا۔

مزید برآں یہ کہ آپ کو اس موقع پر تحریر نامہ سے اپنا نام مٹانے کی ضرورت تھی تاکہ صلح اپنی منطقی انجام کو پہنچ سکے۔ اسی لیے آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔اور یہ حکم ایک امر جازم تھا؛ اس حکم کی مخالفت کرنے والا اگرچہ متأول تھا؛ اور اس کا گمان یہ تھا یہ حکم ماننا واجب نہیں ؛ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کمی آتی ہے۔ یا پھر اس میں عمرہ کا انتظار اور صلح کا عدم اتمام تھا۔ متاول کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے اجتہاد میں غلطی پر تھا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پختہ حکم دیا تھا؛ اور بات نہ ماننے والوں کی شکایت بھی کی تھی اور یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں غصہ نہ ہوں جب کہ میں ایک بات کا حکم دے رہا ہوں او رمیری بات نہیں مانی جارہی ۔‘‘ تو ایسے موقع پر آپ کے حکم کی مخالفت کرنے کی گنجائش کسی ایک کے لیے بھی نہ تھی۔ لیکن یہ ایسی لغزش تھی جس سے صحابہ نے توبہ کرلی جیسا کہ دوسرے گناہوں سے توبہ کرلی تھی۔

پس کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کو معصوم ثابت کرے جو کہ حقیقت میں معصوم نہیں ہے۔ پھر اس سے حقیقی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح وارد ہو۔ جیسا کہ ا ن توبہ کرنے والوں کے متعلق کیا گیا۔اس گناہ کی وجہ سے انہیں ایک قسم کی سزا ملی؛ اور ان لوگوں سے اس چیز کی نفی کرنے لگ گئے جس کی وجہ سے ان پر ملامت واجب ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کو ملامت کیاہے[یعنی اس کے بعد پھر ان لوگوں نے توبہ کرلی ؛ اور ان سے ملامت ختم ہوگئی ] مگریہ بشریت کی تعظیم میں اتنا آگے نکل گئے کہ اللہ رب العالمین کی شان میں قدح کرنے لگے ۔ [یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا اعتبار نہ رہا‘ اور گنہگار کو غیر گنہگار شمار کرنے لگے ]۔

اب جس انسان کو یہ علم ہو کہ کمال کا اعتبار آخر کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اور یہ کہ توبہ انسان کو اس کے سابقہ مقام سے بہت آگے لے جاتی ہے۔ تو پھراسے یہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کے ساتھ کیا ‘ وہ ان لوگوں پر اس کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک تھا۔

وہ مقامات جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف کوئی ایک ہی ہوتا تھاتو [اکثر وبیشتر] آپ [یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ]ہی ہوتے تھے۔ مثال کے طورپر ہجرت کا سفر۔ اور بدر کے دن آپ کے چھپر پر پہرہ داری ۔ ان مواقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا۔ اور قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے وقت آپ کے ساتھ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوا کرتے تھے۔

یہ خصوصیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی ۔ اس پر ان تمام لوگوں کا اتفاق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کوجانتے ہیں ۔ لیکن رہا وہ انسان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے جاہل ہو ‘ یا پھر جھوٹا ہو تو وہ اس شیعہ مصنف جیسی باتیں ہی کہے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]

’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

یہ صحبت صرف غار کے واقعہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے؛ بلکہ آپ مطلق صحبت رکھتے تھے۔ جو صحبت اپنے کمال میں اس درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ جس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ تو آپ اس کمال صحبت میں وحید ومختص ہیں ۔ [ اس قسم کے واقعات کی بنا پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کے لقب سے نوازا گیا]۔ 

بخاری میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ارے لوگو! ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قدر پہچانو، اللہ کی قسم اس نے کبھی مجھے الم و رنج نہیں پہنچایا۔ ارے لوگو! میں عمر و عثمان اور علی اور فلاں فلاں سے رضی اللہ عنہم سے راضی ہوں ۔ ‘‘[یہ روایت بخاری میں تو نہیں ملی۔مگر دوسری کتابوں میں سہل یوسف بن سہل کی سند سے روایت کی گئی ہے۔ اس روایت میں ہے: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس مدینہ تشریف لائے؛ تو آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے ؛ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا:’’ ارے لوگو!ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قدر پہچانو، اﷲ کی قسم اس نے کبھی مجھے الم و رنج نہیں پہنچایا۔ ارے لوگو! میں ابوبکر و عمر و عثمان اور علی طلحہ و زبیراور عبدالرحمن بن عوف اورمہاجرین اولین سے رضی اللہ عنہم سے راضی ہوں ‘ان کی قدر پہچانو۔‘‘معجم الصحابہ لابن قانع ؛ حدیث: 496۔المعجم الکبیر للطبرانی؛ حدیث : 5506۔ معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الأصبہانی ؛ حدیث : 2933۔سیرت نبویہ ازابن کثیر ۴؍۴۲۶۔]

اس سے واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بطور خاص ذکر کیا ہے‘ اگرچہ باقی لوگوں کو بھی اپنے صحابہ میں شمار کیا ہے ‘ مگر کمال صحبت کی خصوصیت صرف آپ کا شرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام فرماتے ہیں :

’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہ خصائص ہیں جن میں کوئی دوسرا آپ کا شریک و سہیم نہیں ۔‘‘

جو کوئی چاہتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منزلت وعظمت کی معرفت حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ ان صحیح احادیث مبارکہ پر غور و فکر کرے جنہیں اہل علم محدثین نے صحیح کہا ہے۔وہ محدثین جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کا مکمل علم تھا؛او ران کے دلوں میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل محبت موجود تھی۔ اور انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حق و سچ کی تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ اور ان کی خواہشات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے پیغام کے تابع ہوکر رہ گئی تھیں ۔ انہیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔اور اس میں جھوٹوں کے جھوٹ؛ غلط کاروں کے غلط کو پرکھنے اور علیحدہ علیحدہ کرنے کا فریضہ انجام دیا ۔ جیسا کہ صحاح کے مؤلفین جیسے امام بخاری ‘ ومسلم ‘ و اسماعیلی ‘برقانی؛ابی نعیم؛ دارقطنی؛اور جیساکہ ابن خزیمہ؛ابن مندہ ابو حاتم بستی ؛ اور حاکم وغیرہ ۔جب ایک سلیم العقل شخص بنظرغائر احادیث نبویہ کو جانچتا پرکھتا ہے تو صدق و کذب اس پر روشن ہو جاتا ہے۔

وہ احادیث جن کومتقدمین و متاخرین میں سے ان سے بھی جلیل القدریا پھر ان کے ہم پلہ ائمہ کرام رحمہم اللہ نے صحیح قراردیا ہے ‘جیسے : امام مالک ‘امام شعبہ ؛یحی بن سعید ‘ عبدالرحمن بن مہدی؛ ابن المبارک ؛ أحمد ؛ ابن معین ؛ اور ابن مدینی ابو حاتم ‘ ابو زرعہ رازی؛ اور اتنی بڑی تعداد میں علماء ہیں جن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی جانتا ہے ۔

جب ایک سلیم العقل شخص بنظرغائر احادیث نبویہ کو جانچتا پرکھتا ہے تو صدق و کذب اس پر روشن ہو جاتا ہے، اسی طرح جو شخص حفاظ حدیث کی صف میں شامل ہوتا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ کس اعزاز و اکرام کے سزا وار ہیں ۔جو کوئی چاہتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منزلت وعظمت کی معرفت حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ ان صحیح احادیث مبارکہ پر غور و فکر کرے جنہیں اہل علم محدثین نے صحیح کہا ہے۔وہ محدثین جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کا مکمل علم تھا؛او ران کے دلوں میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل محبت موجود تھی۔ اور انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حق و سچ کی تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ اور ان کی خواہشات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے پیغام کے تابع ہوکر رہ گئی تھیں ۔ انہیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔اور اس میں جھوٹوں کے جھوٹ؛ غلط کاروں کے غلط کو پرکھنے اور علیحدہ علیحدہ کرنے کا فریضہ انجام دیا ۔ جیسا کہ صحاح کے مؤلفین جیسے امام بخاری ‘ ومسلم ‘ و اسماعیلی ‘

جب ایک سلیم العقل شخص بنظرغائر احادیث نبویہ کو جانچتا پرکھتا ہے تو صدق و کذب اس پر روشن ہو جاتا ہے، اسی طرح جو شخص حفاظ حدیث کی صف میں شامل ہوتا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ کس اعزاز و اکرام کے سزا وار ہیں ۔ جو شخص اس میدان میں اترنے کی جرأت نہیں کر سکتا، اسے چاہیے کہ علم حدیث میں دخل اندازی نہ کرے اور اس فن کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کے اہل ہیں ۔ جس طرح علم طب و نحو اور نقد و جرح کا کام انہی لوگوں کو تفویض کیا جاتا ہے جو اس میں کامل بصیرت رکھتے ہیں ۔ جو شخص اس میدان میں اترنے کی جرأت نہیں کر سکتا، اسے چاہیے کہ علم حدیث میں دخل اندازی نہ کرے اور اس فن کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کے اہل ہیں ۔ جس طرح علم طب و نحو اور نقد و جرح کا کام انہی لوگوں کو تفویض کیا جاتا ہے جو اس میں کامل بصیرت رکھتے ہیں ۔حساب کا کام حساب دانوں پر چھوڑا جاتاہے۔اورفقہ کے مسائل فقہاء کے سپرد کیے جاتے ہیں ۔حالانکہ اس بات کاامکان رہتا ہے کہ ان تمام لوگوں سے کسی غلطی پر اتفاق ہوجائے۔سوائے فقہاء کے شرعی فتاوی کے اورمحدثین کی نقل حدیث کے ۔

یعنی سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ محدثین و فقہاء کے سوا جملہ ارباب فنون سے غلطی صادر ہو سکتی ہے ۔ محدثین و فقہاء کسی باطل مسئلہ پر جمع ہو سکتے ہیں نہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دے سکتے ہیں ۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تکذیب وتصدیق کے سلسلہ میں ان کااجماع معصوم ہوتا ہے۔جیسا کہ کسی فعل کے بارے میں خبردینے میں فقہاء کا اجماع معصوم ہوتا ہے۔اس میں امر و نہی اور حلال و حرام سب شامل ہیں ۔

احادیث نبویہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا اثبات:

اس سے بڑھ کر یہ کہ محدثین و فقہاء کے سوا جملہ ارباب فنون سے غلطی صادر ہو سکتی ہے ۔ محدثین و فقہاء کسی باطل مسئلہ پر جمع ہو سکتے ہیں نہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دے سکتے ہیں ۔

خلاصہ کلام !یہ کہ جو شخص بھی زحمت فکر و تامل گوارا کرتا ہے اس پر حضرت صدیق کے فضائل روز روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں ۔ یہ فضائل آپ کی ذات کے ساتھ مختص ہیں ۔ مثلاً یہ آیات و احادیث نبویہ:

1۔ آیت قرآنی:﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾[صحیح بخاری(۳۶۵۲)، مسلم(الزھد:۷۵؍۲۰۰۹)]

2۔ حدیث نبوی:’’ اِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیْلُ اللّٰہِ‘‘[صحیح مسلم(۷؍۲۳۸۳)]

3۔ یہ حدیث کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب مردوں سے محبوب تر تھے۔[صحیح بخاری (۳۶۶۲)،صحیح مسلم(۲۳۸۴) ]

4۔ وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو فرمایا کہ:’’ اگر مجھے زندہ نہ پاؤ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونا۔‘‘[ (۳۶۵۹) مسلم (۲۳۸۶) ]

5۔ وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے عہد نامہ لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔[صحیح بخاری(۵۶۶۶)،صحیح مسلم(۲۳۸۷)]

6۔ وہ حدیث جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سب سے پہلے ایمان لانے اور اسراء کی تصدیق کرنے کی وجہ سے لقب صدیق کا ذکر کیا گیا ہے۔[مستدرک (۳؍۶۲)،مجمع الزوائد(۹؍۴۱) ]

7۔ یہ حدیث’’فَہَلْ اَنْتُمْ تَارِکُوْا لِیْ صَاحِبِیْ‘‘[صحیح بخاری (۳۶۶۱)]

8۔ جس حدیث میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب عقبہ بن ابی معیط نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈالی تھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو چھڑایا؛ آپ نے اس وقت فرمایا تھا: ﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّی اللّٰہُ ﴾۔[غافر ۲۸]

’’کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔‘‘[صحیح بخاری(۳۶۷۸)]

9۔ جس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام صلوٰۃ [صحیح بخاری(۶۷۸)،صحیح مسلم (۴۱۸) ] اور امیر حج مقرر کرنے کا واقعہ مذکورہ ہے۔[البخاری(۴۳۶۳)،صحیح مسلم(۱۳۴۱) ]

10۔ وہ حدیث جس میں وفات رسول کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صبروثبات اوراستقلال اور امت کی فرماں برداری کا ذکر کیا گیا ہے۔[صحیح بخاری(۳۶۶۷،۳۶۶۸) ]

11۔ وہ حدیث جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ان اعمال صالحہ کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ نے ایک دن میں انجام دیے تھے؛ جس بھی انسان میں یہ تمام خصائل پائے جائیں ‘ اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔[صحیح مسلم (۱۰۲۸)۔]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کچھ فضائل ایسے بھی ہیں جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے سہیم و شریک ہیں ، چنانچہ یہ احادیث نبویہ ملاحظہ ہوں :

11۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما آئے میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما گئے۔‘‘[البخاری،باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۰۶)، مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب(ح۲۴۰۴)۔ ]

2۔ وہ حدیث جس میں کنوئیں سے پانی کھینچنے کا ذکر ہے۔[ بخاری،حوالہ سابق، (ح:۳۷۰۱)،صحیح مسلم۔حوالہ سابق (حدیث:۲۴۰۹)۔ ]

3۔ وہ گائے والی حدیث کہ:جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار وعلی رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۷۸)۔]ان کی مثالیں اور بھی ہیں ۔

صحاح ستہ میں فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیثیں صحیح ہیں :

۱۔ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ حضرت ہارون کوحضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے بس یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

۲۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ کل میں ایک شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوگا ‘ اور جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہوں گے۔‘‘

۲۔ مباہلہ میں آپ کا داخل کیا جانا۔

۳۔ ایسے ہی حدیث کساء [چادر میں ڈھانکنے والی روایت ]۔

۴۔ ایسے ہی یہ روایت : فرمایا: ’’ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ ۔‘‘’’تم مجھ سے ہو ‘اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘لیکن اس میں آپ کی فضیلت ہے خصوصیت نہیں ۔اور ایسے ہی یہ آنے والے حدیث:

۵۔ یہ صفت جو کہ ہر مؤمن و مسلمان کے لیے واجب اور باعث فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عہد ہے کہ :

’’صرف مومن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کریں گے اورصرف منافق آپ سے بغض رکھیں گے ۔‘‘

۶۔ وہ روایت جس میں اراکین شوری کا ذکر ہے ۔

۷۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خبر دینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو وہ حضرت عثمان ‘ حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر ‘ حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم سے راضی تھے۔[سبق تخریجہ] 

خاص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل کے متعلق صحاح ستہ میں وارد ہونے والی احادیث کی مجموعی تعداد دس تک پہنچتی ہے۔ان کے علاوہ بھی دیگر روایات ہیں مگر وہ آپ کے ساتھ مختص نہیں ۔ صحاح میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل سے متعلق بیس احادیث مذکور ہیں ، ان میں سے اکثر میں آپ کے خصائص بیان کیے گئے ہیں ۔

جو انسان یہ کہتا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے صحیح سند کے ساتھ اتنے فضائل ثابت ہیں جو کسی دوسرے کے لیے نہیں ؛ تووہ جھوٹ بولتا ہے۔ یہ بات امام احمد اور دوسرے ائمہ و محدثین نے نہیں کہی۔آپ کے حق میں بھی وہی روایات وارد ہوئی ہیں جو کہ آپ جیسے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے لیے ہیں ۔لیکن ان میں اکثر روایات ایسی ہیں جن کا جھوٹ اور غلط ہونا سب کو معلوم ہے۔ ایک ایسی دلیل جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو؛اور کسی بھی معارض سے خالی ہو ‘ وہ ان بیس دلیلوں سے بہتر ہے جن کے مقدمات باطل پر اور اسناد کمزور ہوں ۔ اوروہ ایسی صحیح احادیث سے ٹکراتی ہو جو کہ اس کے متناقض ہو۔

یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحبت ایمانی میں وہ اختصاص حاصل ہے جس میں مخلوق میں سے کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ نہ ہی قدر کے اعتبار سے نہ ہی صفت کے اعتبار سے او نہ ہی نفع مندی کے اعتبار سے ۔ اس لیے کہ اگروہ وقت جمع کیا جائے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل بیٹھا کرتے تھے ؛ اور پھر حضرت عثمان و علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اجتماع کا وقت جمع کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیا جانے والا وقت ان سب کے اوقات سے دوگنا ہی نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔

جب کہ ان سب کے مابین مشترکہ اوقات کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔

جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت ‘معرفت؛اور ہر معاملہ میں آپ کی تصدیق یہ سب پرایسے غالب اور ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال کی معرفت رکھنے والے کسی بھی انسان پر مخفی نہیں اور جس انسان کو اس قوم کے احوال کی معرفت نہیں ہے تو اس کی گواہی ناقابل قبول اورمردود ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی امور میں حاصل ہونے والی معاونت اور نفع کا بھی یہی حال ہے۔

ان امورکا شمار صحبت کے ان مقاصد اور محامد میں سے ہوتا ہے جن کی وجہ سے کسی صحابی کو دوسروں پر فضیلت دی جاسکتی ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے ہر لحاظ سے وہ اقدار و صفات وخصوصیات ثابت میں جن میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ۔ اس کی دلیل :بخاری و مسلم میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اسی دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے آئے اور اپنے دونوں زانو ننگے کردیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہارا ساتھی کسی سے جھگڑ پڑا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کے بعد عرض کیا: میرے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تنازع تھا۔ میں نے جلد بازی سے کام لیا، پھر مجھے ندامت کا احساس ہوا تو میں نے کہا:’’ معاف کردیجیے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، میں اس مقصد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے ابوبکر! اللہ تمھیں معاف فرمائے۔‘‘

پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کو آئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ پاکر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اللہ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری ہمدردی کی۔ اب کیا تم میرے رفیق کو میرے لیے رہنے دو گے یا نہیں ؟‘‘

آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے رنج نہ پہنچایا‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ’’ لو کنت متخذا خلیلاً(ح:۳۶۶۱)۔]

ایک دوسری روایت میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑائی ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چل دیئے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے ہولیے اور معافی چاہی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاف نہیں کیا اور دروازہ بند کرلیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے :یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اللہ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی۔‘‘ [بخاری]

یہ صحیح حدیث ہے ؛اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کی تخصیص ہے ۔ جیسا کہ خود فرمان نبوت سے ظاہر ہے :

’’ اے لوگو! کیا تم میرے لیے میری ساتھی کو نہیں چھوڑو گے۔‘‘ اور پھر اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا تو میں نے نبوت کا اعلا ن کہ: ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں ۔‘‘ تم نے مجھے جھٹلایا ۔ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں ۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی بات کو نہیں جھٹلایا۔اور جب تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلارہے تھے اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کررہے تھے ۔‘‘

یہ توایک کھلا ہوا معاملہ ہے۔ آپ نے ان تمام لوگوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی جن تک رسالت پہنچی تھی۔یہ حق بات ہے کہ آپ پہلے انسان ہیں جن تک جب اللہ کا پیغام پہنچا تو فوراً ایمان لے آئے۔ یہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے موافق ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا: یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ اس معاملہ میں اورکون ہے ؟توآپ نے فرمایا: ایک غلام اورایک آزاد ۔ اس دن آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما تھے۔‘‘[مسلم ۱؍۵۶۹؛ نسائی ۱؍۲۸۳] 

جہاں تک حضرت خدیجہ ‘ حضرت زیداور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا تعلق اس حدیث کے حوالے سے ہے ‘ توان حضرات کا شمار آپ کے کنبہ کے افراد میں ہوتا تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام ماجرا سنایا ۔ تو آپ نے تبلیغ کا حکم نازل ہونے سے قبل ہی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ پر ایمان لانا ابھی واجب نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ آپ پر ایمان لانا اس وقت سے واجب ہوا ہے جب سے تبلیغ رسالت کا حکم ملا۔ پس تبلیغ رسالت کا حکم ملنے کے بعدآزاد مردوں سب سے پہلے تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس لیے کہ اس وقت ابھی یہ واجب نہیں ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت بچے تھے؛ اور بچے پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہوتا۔

کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوتبلیغ رسالت اور ایمان کی دعوت سے پہلے کسی کو تبلیغ کی ہو یا پھر ایمان کی دعوت دی ہو۔لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پا رہے تھے ؛ جب آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ سے اس معاملہ کی خبرملی ہوگی تو آپ بھی تبلیغ رسالت سے قبل ایمان لے آئے ہونگے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ظاہر ہوتا ہے :

’’ اے لوگو! میں تمہاری طرف مبعوث ہوا؛ میں نے اعلان کیا : ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول ہوں ۔ توتم لوگوں نے مجھے جھٹلایا ‘ ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق کی۔‘‘

صحیحین میں بھی اس طرح کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ رسالت پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام لوگوں نے شروع میں آپ کی تکذیب کی تھی۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زیدو علی رضی اللہ عنہما آپ کے گھر میں تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تکذیب نہیں کی؛ اس لیے آپ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتاجن کو تبلیغ کی گئی ہو۔

یہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کہ: یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ اس معاملہ میں اورکون ہے ؟توآپ نے فرمایا: ایک غلام اورایک آزاد ۔‘‘

یہ مسلم شریف کی دوسری روایات کے موافق ہے۔اس سے مرادیہ ہے کہ : جن کو دعوت دی گئی اور جن تک تبلیغ رسالت کی گئی ان میں یہ دوحضرات شامل تھے۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا : ’’اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال و جان سے میری غمخواری کی ۔‘‘ یہ بھی آپ کی خصوصیت ہے‘ جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی دیگر متواتر روایات بھی نقل کی گئی ہیں ۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ پڑھا، تو فرمایا :

’’ یقین سمجھو کہ اللہ سبحانہ نے ایک بندہ کو دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا(چاہے جس کو پسند کرے) اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا، جو اللہ کے ہاں ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ (یہ سن کر)رونے لگے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ: ایسی کیا چیز ہے، جو اس بوڑھے کو رلا رہی ہے، اگر اللہ نے کسی بندہ کو دنیا کے اور اس عالم کے درمیان میں ، جو اللہ کے ہاں ہے،اس نے اختیار دیا اور اس نے اس عالم کو اختیار کر لیا، جو اللہ کے ہاں ہے(تو اس میں رونے کی کیا بات ہے، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ)۔وہ بندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے، پھر آپ نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم نہ روو کیونکہ یہ بات یقینی ہے سب لوگوں سے زیادہ مجھ پراحسان کرنے والا اپنی صحبت میں اور اپنے مال میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ میں اپنی امت میں اگر کسی کو خلیل بناتا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے لیکن اسلام کی محبت ( کافی ہے)مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے سوا کسی کے دروازہ کو بے بند نہ چھوڑا جائے۔‘‘[صحیح بخاری:ح 452]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض میں جس مرض میں آپ نے وفات پائی ہے، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے، پھر اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ:

’’لوگو!ابوبکر سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو یقیناً ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کی دوستی افضل ہے۔‘‘[صحیح بخاری:ج1:ح453]

دوسری روایت میں ہے : ’’ میں اپنی امت میں اگر کسی کو خلیل بناتا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے لیکن اسلامی بھائی چارہ ہی کافی ہے ۔‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ لیکن آپ میرے بھائی اور میرے صحابی ہیں ۔‘‘

ان تمام روایات سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کے فضائل و اختصاص آپ کے مناقب ؛دعوت میں کردار ‘ اور ادائے حقوق میں آپ کی وہ خصوصیات واضح ہوتی ہیں جن میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ہے۔ حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گوناگوں اوصاف و محامد کی بناپر خلیل رسول (آپ کے گہرے دوست) تھے۔ بشرطیکہ بنی نوع انسان میں آپ کا کوئی خلیل موجود ہو۔یہ تمام نصوص صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ : جناب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام مخلوق خدامیں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب اور آپ کے نزدیک سب سے افضل تھے۔جیسا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو غزوہ ذات السلاسل پر بھیجا۔حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا :

’’ یارسول اللہ ! ازواج مطہرات میں سے آپ کو کون عزیز تر ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا:’’عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ ‘‘ میں نے عرض کیا اور مردوں میں سے آپ کس کے ساتھ زیادہ محبت رکھتے ہیں ؟

فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔‘‘

میں نے عرض کیا ان کے بعد اور کس سے ؟ فرمایا:’’ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔‘‘

اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دریافت کرتے چلے گئے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درجہ بدرجہ متعدد صحابہ کا ذکر کیا ۔[صحیح بخاری۔ باب غزوۃ ذات السلاسل،(ح:۴۳۵۸) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۴)۔]

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : پھر میں اس اندیشہ کے تحت خاموش ہوگیا کہ کہیں آپ مجھے سب سے آخر میں نہ کر دیں۔‘‘[بخاری ۵؍۵؛ مسلم ۴؍۱۸۵۶] 

زیر تبصرہ آیت کی مزید توضیح:

٭ اس کی مزید وضاحت اس آیت قرآنی میں غار کے واقعہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ اس وقت میں جب کہ باقی تمام مخلوق آپ کی مدد سے عاجز آگئی ؛ اس وقت اس شخصیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی جنہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید حاصل تھی۔ جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے :

﴿اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾ [التوبۃ۴۰]

’’اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘

یعنی اس حالت میں آپ کو نکالا گیا جب آپ کے ساتھ صرف ایک آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اس لیے کہ ایک سب سے آخری کم عدد ہے جو کہ انتہائی قلت پر دلالت کرتاہے۔ پھر اس کے بعد ارشادفرمایا:

﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]

’’جب آپ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

آیت کھل کر دلالت کررہی ہے کہ آپ کے ساتھی کو آپ کے بارے میں خوف تھا؛ وہ آپ سے سچی محبت کرنے والے اور سچے مدد گار تھے ؛اسی لیے آپ کے معاملہ میں غمگین ہورہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالت خوف میں انسان اسی چیز پر غمگین ہوتا ہے جو اسے محبوب ہو۔ جب کہ اگر دشمن کی ہلاکت کے اسباب پیش ہورہے ہوں توپھر اس پر کوئی غمگین نہیں ہوتا ۔

اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوتے، جیسا کہ روافض کہتے ہیں ، تو وہ دشمن کی آمد پر ہمّ و غم کی بجائے فرح و سرور کا اظہار کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ سے یہ نہ فرماتے :’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اظہار غم کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ کی حفاظت ونصرت ان کے شامل حال ہے۔‘‘[البخاری(۳۶۵۲)، مسلم( الزھد:۲۰۰۹)۔]

پس یہ خبر دی جاری ہے کہ : اللہ تعالیٰ ان دونوں کیساتھ ہے اور ان کی مدد کررہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ اور اہل ایمان کے لیے اس حالت میں نصرت الٰہی کی خبر دیں کہ وہ باطن میں منافق ہوں ۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی بھی خبر دینے میں معصوم ہیں ۔آپ حق کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔یہ بات اگرچہ جائزہے کہ آپ پر بعض لوگوں کا حال مخفی رہ جائے ؛ مگر اس سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ لوگ منافق ہی ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ﴾ [التوبۃ۱۰۱] 

’’اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ۔‘‘

پس ان لوگوں کے متعلق ایسی خبردینا جائز نہیں جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تبوک والے سال جب پیچھے رہ جانے والے اپنے عذر پیش کرتے ہوئے قسمیں اٹھاتے ہوئے آئے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ظاہری باتوں کو قبول فرماتے رہے۔اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کرتے رہے۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی ایک تصدیق نہیں فرمائی۔ مگر جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ پیش خدمت ہوئے اور اپنا معاملہ سچائی کے ساتھ پیش کردیا تو آپ نے فرمایا: ’’ اس انسان نے سچ کہا۔‘‘

یا یہ الفاظ ارشاد فرمائے:’’ ان نے تم سے سچی بات کہی ۔‘‘[بخاری ۶؍۷؛ مسلم ۴؍۲۱۲۰]

ایسے ہی حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:

’’آپ نے فلاں اور فلاں کو تو دیا ‘ مگر فلاں انسان کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ مؤمن ہے ۔‘‘[سنن أبی داؤد ‘ کتاب السنۃ ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ ۴؍۳۰۴۔ سنن نسائی ‘کتاب الإیمان وشرائعہ باب تأویل قول اللّٰہ: قالت الأعراب آمنا۔۸؍۱۰۳....]

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’[مؤمن ہے ]یا مسلم ہے ؟‘‘آپ نے دو یا تین بار یہ کلمات دھرائے۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی خبر دینے کاانکار کیا اور ان کے بارے میں صرف ظاہری اسلام کے علم کا ہی اظہار کیا ۔

تو پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیسے یہ فرماسکتے تھے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ؛ اوراس کا کوئی علم آپ کو نہ ہوتا ۔ بغیر علم کے بات کرنا جائز نہیں ۔مزید برآں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو برقرار رکھا ہے؛ اس کا انکار نہیں کیا۔پس اس سے معلوم ہوا کہ : یہ فرمانا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ وہ سچی خبر ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور اس پر راضی رہا۔ان اخبار میں سے نہیں جن کا انکار کیا ہو‘اور عیب لگایا ہو۔ 

مزید برآں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ ایک شخص جو ہر طرف سے دشمنوں کے نرغہ میں ہو، اور تمام لوگ اس کے دشمن ہو‘ اور اسے قتل کرنا چاہتے ہوں ؛ اس انسان کے عزیز و اقارب و رشتہ دار اس کی مدد و نصرت پر قادر نہ ہوں ؛ایسا شخص دوران سفر اپنی رفاقت کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیسے کرسکتا ہے جو باقی لوگوں میں سے اکیلا محبت و دوستی اور غم وپریشانی کا اظہار کررہا ہو‘ لیکن باطن میں وہ پکا دشمن ہو۔اور ساتھ لے جانے والا یہ گمان کررہا ہو کہ وہ میرا دوست اور غمخوارہے۔ایسا تو کوئی بیوقوف ترین انسان بھی نہیں کرسکتا۔ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو جو اپنے کامل و اکمل باعلم و خبردار و ہوشیاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی جہالت و حماقت منسوب کرتے ہیں جس کا ارتکاب کوئی ادنی اور جاہل انسان بھی نہیں کرسکتا۔[یا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل و غبی تصور کرتے ہیں ]۔

مغل بادشاہ خدا بندہ کا عجیب قصہ :

مجھے مغل بادشاہ خدا بندہ ؛ جس کے لیے رافضی مصنف نے یہ کتاب تألیف کی تھی؛ اس کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ : جب اس کتاب کے رافضی مصنف نے اس کے سامنے اپنا جھوٹا کلام پیش کیا ؛ اور ابو بکر پر زبان طعن دراز کی ؛ اور کہا: ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اورآپ سے بغض رکھتے تھے؛ مگر اس کے ساتھ رافضی یہ بھی کہتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے عظیم سفر سفرہجرت میں آپ کو خوف کی وجہ سے اپنے ساتھ ہمراہی بنایا ۔تو اس کے جواب میں اس بادشاہ نے ایسی بات کہی جس کے بعد ان روافض کو ایسے بیہودہ جھوٹ گھڑنے اور بولنے سے رک جانا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی باتوں سے مبراء و منزہ رکھاہے۔لیکن رافضیوں کے اس من گھڑت جھوٹ نے اسے یہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا ؛ اس نے کہا: ’’ پھر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم عقل تھے ۔‘‘ [معاذ اللّٰہ] ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی رافضیوں کی بتائی ہوئی باتوں پر چلتا ہے وہ قلیل العقل ہی ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اورصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ایسی باتوں سے بری رکھا ہے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ رافضیوں کے کلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح لازم آتی ہے۔

صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عموم و خصوص:

یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی عموم و خصوص ہے۔جیسا کہ محبت اور ولایت میں اور ایمان میں اور ان دوسری صفات میں ہوتا ہے جن میں قدر ‘ نوع اور صفات کے اعتبار سے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں ۔اس کی دلیل صحیح بخاری کی روایت ہے ؛حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے مابین کچھ اختلاف ہوگیا‘ تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کوکچھ برا بھلا کہہ دیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لیے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالی کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن)یا آدھے(کے ثواب) کے برابر بھی(ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[صحیح بخاری:ج2:ح887]

خالد و عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کانام لینے میں امام مسلم منفرد ہیں ۔یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے فرما رہے ہیں میرے صحابہ کوبرابھلا نہ کہو۔یعنی عبدالرحمن بن عوف اور ان کے امثال کو ۔ اس لیے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے امثال سابقین اولین میں سے ہیں جو کہ فتح سے پہلے ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔یہ لوگ اہل بیعت رضوان ہیں ۔یہ حضرات ان لوگوں کی نسبت خاص ہیں اورافضل ہیں جو صلح حدیبیہ ؛یعنی اہل مکہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصالحت ‘کے بعد اسلام لائے ۔ان میں حضرت خالد بن ولید ‘ عمرو بن العاص ‘ اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم اور ان کے امثال صحابہ شامل ہیں ۔یہ ان لوگوں کی نسبت سبقت رکھتے ہیں جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے؛ اور انہیں طلقاء کا نام دیا گیا؛ جیساکہ سہیل بن عمرو ؛ حارث بن ہشام؛ ابو سفیان بن حرب ؛ اور اس کے دونوں بیٹے یزید اور معاویہ ؛ اور ابو سفیان بن الحارث؛ عکرمہ بن ابی جہل؛ اورصفوان بن امیہ رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام۔حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی تو جو علم کے لحاظ سے ان لوگوں پر سبقت لے گئے جو ان سے پہلے ایمان لائے تھے۔جیسا کہ حارث بن ہشام؛ ابو سفیان بن حارث ‘اور سہیل بن عمرو ۔یہ حضرات ان بعض لوگوں پر سبقت لے گئے تھے جو فتح سے پہلے ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے سے پہلے ایمان لانے والے کئی لوگوں پر علمی لحاظ سے سبقت لے گئے تھے۔

یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں صحبت کا شرف پانے والوں کو روک دیا تھا کہ وہ پہلے ایمان لانے والوں کی دل آزاری کریں ۔اس لیے کہ یہ لوگ پرانی اورسابق صحبت کی وجہ سے ایسی خصوصیت و امتیازیت رکھتے ہیں جس میں دوسرے لوگوں کے لیے ان کا سہیم و شریک ہونا ممکن نہیں ۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمادیا: ’’ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالی کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن)یا آدھے(کے ثواب) کے برابر بھی(ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

جب یہ حال ان لوگوں کا ہے جو فتح کے بعد اسلام لائے اوراللہ کی راہ میں جہاد کیا۔یہ لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے اور جہاد کرنے والے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [اصحاب سابقین] کے تابعین میں سے ہیں ۔تو پھر اس انسان کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کیسے کیا جاسکتا ہے جس کا شمار کسی طرح سے بھی صحابہ میں نہ ہوتا ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ’’میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو‘‘صحیحین میں کئی اسناد سے ثابت ہے۔ان میں سے ایک یہی سابقہ سند ہے جوکہ گزر چکی۔صحیح مسلم میں یہی روایت بعینہٖ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[سبق تخریجہ]

نبوت و صداقت کی رفاقت اوررافضی حسد:

[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رفیق سفر بنایا ہو کہ مبادا وہ آپ کے معاملہ کو ظاہر کردے۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں یہ چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔

پہلی وجہ:....قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کا سلوک کرتے تھے۔ ان کے مابین کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اس سے رافضی کا [دشمنی اور بغض کا]دعوی باطل ثابت ہوگیا۔

دوسری وجہ:....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مومن و محب رسول ہونا تواتر معنوی کے ساتھ معلوم ہے۔اوریہ کہ آپ کو تمام مخلوق میں خصوصیت حاصل تھی۔یہ تواتر اور اس کی شہرت حاتم طائی کی سخاوت اورعنترہ کی شجاعت؛اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور موالات کے تواتر سے بھی زیادہ ہے۔ان کے علاوہ دیگر بھی معنوی تواترات ہیں جن میں تمام اخبار و روایات کا ایک مقصود پر اتفاق ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی محبت میں شک کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بھی دوسرے کی محبت میں شک کرنا ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ۔، مگرروافض کے تعصب و عناد کا کیا علاج؟روافض کے عناد کا یہ عالم ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما حجرہ نبویہ میں مدفون ہیں ۔اور بعض آپ کے ساتھ غار میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موجود ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔ مگر رافضی قوم سے اس طرح کی بہتان تراشی کوبعید نہیں ہے ۔ اس لیے کہ روافض بہتان تراش قوم ہیں جو ایسی چیزوں کاانکار کرتے ہیں جن کا ثابت ہونا ضرورت کے تحت معلوم ہے ‘ اور معقولات و منقولات ایسی چیزوں کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جن کا منفی ہونا ضرورت کے تحت معلوم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کہنے والوں نے کہا ہے : اگر یہ کہاجائے: لوگوں میں سب سے بڑے جاہل کون ہوتے ہیں تو کہاجائے گا: رافضہ ۔یہاں تک کہ بعض فقہاء نے ایک فرضی مسئلہ لکھا ہے ۔ اگر کوئی انسان دنیا کے سب سے جاہل انسان کے حق میں وصیت کرجائے تو یہ کس کے لیے ہوگا؛ تو کہا: روافض کے لیے ۔لیکن ایسی وصیت کرنا باطل ہے۔ اس لیے کہ وصیت اور وقف گناہ کے کاموں میں نہیں ہوسکتے۔ بلکہ یہ چیزیں ایسے امور میں صرف کی جائیں گی جن میں شرعی طور پرکوئی قباحت نہ ہو۔ کسی جاہل ترین انسان کے حق میں وقف یا وصیت کرنے کا مطلب ہے کہ جاہلیت اور بدعت کو موجب استحقاق قراردینا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی سب سے بڑے کافر کے لیے کوئی وصیت کرے ‘ یا پھر مسلمانوں کو چھوڑ کرکفار کے حق میں وصیت کرے۔یعنی اپنے مال کا مستحق ہونے کے لیے کفر کو شرط قراردے۔یہ بات کسی طور پر بھی صحیح نہیں ہے۔

[مقام صحبت و ابوبکر رضی اللہ عنہ ]:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باقی تمام لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موالات اور دوستی رکھنے والے تھے۔ یہ بات اتنی مشہور ہے کہ اسے مسلمان اور کافر نیک اور بد ہر کوئی جانتا ہے۔حتی کہ میں زنادقہ کے ایک ایسے گروہ کو بھی جانتا ہوں جو کہتے ہیں : دین اسلام میں اندرون خانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضی اللہ عنہ کا اتفاق ہوگیا تھا؛ ان کے ساتھ تیسرے عمر رضی اللہ عنہ بھی مل گئے ۔ لیکن انہیں ان دو حضرات کے راز کی پوری طرح خبر نہ تھی۔‘‘جیسا کہ یہ بات اسماعیلیہ باطنیہ اور قرامطہ کی دعوت کا حصہ ہے۔پس ان میں سے جو کوئی اپنے امام کا جتنا مقرب ہوتا وہ امور دعوت کااسی قدر آشنا و رازدان ہوتا۔ اوروہ دوسروں سے بڑھ کر راز کو چھپانے والا ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے مراتب مقرر کیے ہیں ۔زنادقہ منافقین یہ بات جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دوست اور خاص الخواص میں سے تھے ؛ تو آپ کو ان لوگوں میں شمار کرنے لگے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی بات جانتے تھے اور اس کو دوسروں سے چھپاتے بھی تھے۔اوردوسروں کے برعکس اس مقصد کے حصول کے لیے آپ کے مدد گار بھی تھے۔

شیعہ مصنف نے اس ضمن میں جو کچھ کہا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ باطن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے، یہ اس کی جہالت کا بین ثبوت اور انتہائی بڑا بہتان ہے؛اورخود یہ مصنف روئے زمین کا سب سے بڑا بہتان تراش ہے؛ خصوصاً واقعہ ہجرت کے بارے میں اس نے جوہرزہ سرائی کی ہے وہ بھی اس کی جہالت کا آئینہ دار ہے۔ 

پھر اس بہتان تراش سے اگر یہی باتیں [الزامی جواب میں ] حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہی جائیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوباطن کا علم تھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمن رکھتے ہیں ۔اوریہ کہ خلفاء ثلاثہ کے دور حکومت میں آپ اپنی ملت کو مبتلائے فساد کرنے سے عاجز تھے۔جب اکابر صحابہ اس دنیا سے چلے گئے تو انہوں نے ملت میں فساد پیدا کرنا شروع کردیا ۔ امت کوہلاک کیا ‘مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا ۔اور آپ چاہتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی ہلاک و برباد کردیں مگر ایسا نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنے والے زندیق جیسے : قرامطہ؛اسماعیلیہ؛اور نصیریہ آپ کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ آپ کوئی بھی اسلام کا دشمن نہیں پائیں گے مگر وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے محبت علی رضی اللہ عنہ کی آڑ کا سہارا لیتا ہے۔اس کے لیے ایسا کوئی کام حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت و موالات کا اظہار کرتے ہوئے ممکن نہیں رہتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موالات کا شبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دشمنی کے شبہ سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ دونوں باتیں باطل ہیں ۔ان کا فاسد ہونا اضطراری طورپر معلوم ہے۔لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس قسم کے دعوی کو باطل کرنے والے دلائل موالات علی رضی اللہ عنہ کے دلائل سے زیادہ قوی اور صحیح ہیں ۔اور آپ کی دشمنی کے دلائل بھی باطل ہیں ۔ ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دشمنی کے دلائل باطل اور موالات و محبت کے دلائل درست اور صحیح ہیں ۔

سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رفاقت:

تیسری وجہ:....رافضی کا یہ احتمال کہ: ممکن ہے آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس خوف سے ساتھ لے لیا ہو کہ آپ کا معاملہ ظاہر نہ کردے ۔‘‘

جواب:....یہ حالات و واقعات سے بہت بڑے جاہل انسان کا کلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے ہجرت کا واقع صاف ظاہر اور واضح ہے۔ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں چھپے ہوئے تھے۔ اہل مکہ کو بھی اس کا پتہ چل گیا اور انھوں نے دونوں کو تلاش کرنے کے لیے ہرطرف آدمی بھیج دیے۔اس لیے کہ جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اس کی صبح ہی لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ابوبکربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔لہٰذا قریش مکہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص دونوں میں سے کسی کو پکڑ لائے گا اسے [دیت کے برابر]انعام دیا جائے گا۔پس انہیں کس چیز کا خوف تھا؟مشرکین کے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لانے پر انعام کے اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حب رسول سے آگاہ تھے۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ظاہری وباطنی طور پر مشرکین سے دشمنی رکھتے تھے۔ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باطن میں آپ مشرکین کے ساتھ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوتے تو قریش مکہ آپ کی گرفتاری کے لیے انعام کا اعلان نہ کرتے۔

چوتھی وجہ:....مزید براں آپ رات کے وقت نکلے تھے جب کہ کوئی شخص اس سے آگاہ نہ تھا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟

اگر شیعہ یہ کہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غالباً آپ کے گھر سے نکلنے کا علم ہوگیا تھا ۔تو ہم کہیں گے کہ:آپ کے لیے کسی ایسے وقت میں نکلنا ممکن تھا جب کسی کو علم نہ ہوپاتا۔ جس طرح مشرکین مکہ کو آپ کے گھر سے نکلنے کا علم نہ تھا اسی طرح آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی اس ارادہ کو پوشیدہ رکھ سکتے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ممکن تھا کہ آپ سے کوئی مدد نہ لیتے۔اور یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ بخاری ومسلم میں ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت نہ دی؛بلکہ فرمایا ذرا صبر کیجیے، آپ میرے ساتھ ہجرت کریں گے۔پھر ان دونوں حضرات نے اکٹھے ہجرت کی۔پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلوت کی حالت میں پہلے سے آپ کو ہجرت کی اطلاع دے دی تھی۔

[سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رفاقت]:

بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا ذرا صبر کیجیے، آپ میرے ساتھ ہجرت کریں گے۔[البخاری، کتاب مناقب الانصار۔باب ھجرۃ النبی رضی اللّٰہ عنہم واصحابہ الی المدینۃ (ح:۳۹۰۵) ]

صحیحین میں حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں :

’’(ایک دن)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس گھر تشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا پھر فرمایا:

اپنے بیٹے سے کہہ دو کہ وہ اس کو میرے ساتھ میرے گھر تک لے چلے۔میں وہ کجاوہ اٹھاکر چلا؛ اور میرے والد اس کی قیمت وصول کرنے کے لیے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ پھر ان سے میرے والد نے کہا :

’’مجھے بتلائیے جب آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کو چلے تھے تو اس وقت آپ دونوں پر کیا گزری۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام (حدیث: ۳۶۱۵)، صحیح مسلم۔ کتاب الزہد، باب فی حدیث الھجرۃ(حدیث:۷۵؍۲۰۰۹)۔]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:(غار سے نکل کر)ہم ساری رات چلے اور دوسرے دن بھی آدھے دن تک سفر کرتے رہے۔ جب دوپہر ہوگئی اور راستہ بالکل خالی ہو گیا اس پر کوئی شخص چلنے والا نہ رہا تو ہم کو ایک بڑا پتھر نظر آیا جس کے نیچے سایہ تھا دھوپ نہ تھی ہم اس کے پاس اتر پڑے۔اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے صاف و ہموار کر دی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سو رہیں ۔ پھر اس پر ایک پوستین بچھا کر عرض کیا: یا رسول اللہ!آپ تھوڑی دیر کے لیے آرام فرمائیے اور میں ڈھونڈ کر ادھر ادھر سے دودھ لاتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے اور میں دودھ لینے کے لیے ادھر ادھر چلا۔ ناگہاں میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو اپنی بکریاں لیے ہوئے اسی پتھر کی طرف آ رہا تھا وہ بھی اس پتھر سے وہی بات چاہتا تھا جو ہم نے چاہی تھی ۔

میں نے اس سے دریافت کیا تو کس کا غلام ہے؟ اس نے شہر مکہ والوں میں سے کسی شخص کا نام بتلایا میں نے اسے پہچان لیا ۔ میں نے پوچھا کیا تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: ہاں ۔

میں نے کہا تو دودھ دوہے گا؟ اس نے کہا: ہاں ۔یہ کہہ کر اس نے ایک بکری کو پکڑ لیا میں نے کہا اس کے تھن سے مٹی و نجاست اور بال صاف کرلو۔ اس نے تھن جھاڑ کر صاف کیا اور ایک پیالہ میں دودھ دھو دیا۔ میرے پاس ایک چھاگل تھی میں اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنے ہمراہ رکھتا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پانی پی سکیں اور وضو کر سکیں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور مجھے آپ کو بیدار کرنا اچھا نہ معلوم ہوا؛ لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ بیدار ہو چکے تھے۔

پھر میں نے دودھ کے برتن پر تھوڑا سا پانی ڈالا حتی کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا ؛اور پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! پی لیجئے۔

آپ نے پی لیا میں بہت خوش ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں آیا؟

میں نے عرض کیا: ہاں !وقت آگیا چنانچہ آفتاب ڈھل جانے کے بعد ہم نے کوچ کیا اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے لگ گیا ۔ہم اس وقت صحرائی علاقہ میں چل رہے تھے۔

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ!ہمارا کوئی تعاقب کر رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ پر بد دعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لیے بد دعا کی ہے تم میرے لیے دعا کرو تاکہ میں زمین سے نکل آؤں ۔اللہ کی قسم! میں تمہاری تلاش کرنے والوں کو واپس کر دوں گا۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی اور اس نے نجات پائی پھر سراقہ جس کسی سے ملتا تو کہتا میں تلاش کر چکا ہوں غرض جس سے ملتا اس کو واپس کر دیتا ابوبکر کہتے ہیں اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام (حدیث: ۳۶۱۵)، صحیح مسلم۔ کتاب الزہد، باب فی حدیث الھجرۃ (حدیث:۷۵؍۲۰۰۹)۔]

سراقہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا: آپ میرے اس ترکش سے ایک تیر لے لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فلاں فلاں مقام پر میرے اور میرے اونٹ اور غلام ملیں گے ان میں سے جتنی آپ کو ضرورت ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے تیرے اونٹوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ پھرجب ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے تو لوگ اس بات میں جھگڑنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کے پاس اتریں ؟آپ نے فرمایا:’’ میں قبیلہ بنی نجار کے پاس اتروں گا۔‘‘ وہ عبدالمطب کے ننھیال تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عزت دی۔ پھر مرد اور عورتیں گھروں کے اوپر چڑھے اور لڑکے اور غلام راستوں میں پھیل گئے اور یہ پکارنے لگے اے محمد اے اللہ کے رسول اے محمد اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔[براء ابن عازب کی روایت کے یہ الفاظ صحیح بخاری میں نہیں ‘صرف مسلم میں ہیں ۔صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3023۔]

صحیح بخاری میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں :

’’ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین حق پر ہی پایا۔‘‘ اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نہ آتے ہوں ۔ جب مسلمان سخت آزمائش(تکلیف)میں تھے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکلے۔ جب برک غماد پہنچے تو ان سے علاقہ کے سردار ابن دغنہ کی ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ: مجھ کو میری قوم نے نکال دیا اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر کروں اور اپنے پروردگار کی عبادت کروں ۔

ابن دغنہ نے کہا :’’ تم جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے اور نہ نکلا جا سکتا ہے اس لیے کہ تم بے مال والوں کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو اور عاجز و مجبور کا بوجھ اٹھاتے ، مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور حق(پر قائم رہنے) کی وجہ سے آنے والی مصیبت پر مدد کرتے ہو۔ میں تمہارا پڑوسی ہوں تم لوٹ چلو اور اپنے ملک میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ ابن دغنہ روانہ ہوا تو ابوبکر کو ساتھ لے کر واپس ہوا اور کفار قریش کے سرداروں میں گھوما اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے جو تنگدستوں کے لیے کماتا ہے صلہ رحمی کرتا ہے، عاجزوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے، راہ حق میں پیش آنے والی مصیبت میں مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ منظور کرلی ۔

اور ابوبکر کو امان دے کر ابن دغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو کہہ دو کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں ، نماز پڑھیں ، لیکن ہمیں تکلیف نہ دیں اور نہ اس کا اعلان کریں ، اس لیے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور عورتیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔ ابن دغنہ نے ابوبکر سے یہ کہہ دیا۔ چنانچہ ابوبکر اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور نہ تو نماز اعلانیہ پڑھتے اور نہ قرات اعلانیہ کرتے۔

پھر ابوبکر کے دل میں کچھ خیال پیدا ہوا، تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور باہر نکل کر وہاں نماز اور قرآن پڑھنے لگے، تو مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے، ان لوگوں کو اچھا معلوم ہوتا، اور ابوبکر کو دیکھتے رہتے ابوبکر ایسے آدمی تھے کہ بہت روتے اور جب قرآن پڑھتے تو انہیں آنسوں پر اختیار نہیں رہتا تھا، مشرکین قریش کے سردار گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلا بھیجا وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے ابن دغنہ سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کریں ، لیکن انہوں نے اس سے تجاوز کیا اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالی۔ اعلانیہ نماز اور قرآن پڑھنے لگے اور ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری عورتیں گمراہ نہ ہو جائیں اس لیے ان کے پاس جا کر کہو کہ اگر وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت پر اکتفا کرتے ہیں تو کریں اور اگر اس کو اعلانیہ کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ تمہارا ذمہ واپس کر دیں ۔ اس لیے کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہم تمہاری امان کو توڑیں اور نہ ہم ابوبکر کو اعلانیہ عبادت کرنے پر قائم رہنے دے سکتے ہیں ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ:’’ ابن دغنہ ابوبکر کے پاس آیا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذمہ ایک شرط پر لیا تھا، یا تو اسی پر اکتفا کرو یا میرا ذمہ مجھے واپس کر دو۔ اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب اس بات کو سنیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے ذمہ میں لیا تھا، اور میرا ذمہ توڑا گیا۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس دیتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں ۔‘‘

اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھایا گیا ہے، میں نے ایک کھاری زمین دیکھی، جہاں کھجوروں کے درخت ہیں اور دو پتھر یلے کناروں کے درمیان ہے جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی، جس نے بھی ہجرت کی مدینہ ہی کی طرف کی اور جو لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے وہ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی تیاری کی، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’تم ٹھہرو مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا۔‘‘

ابوبکر نے عرض کیا:’’ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا! آپ کو امید ہے کہ اس کی اجازت ملے گی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ چلنے کے لیے رک گئے اور دو اونٹ جو ان کے پاس تھے ان کو چار مہینے تک سمر کے پتے کھلاتے رہے۔

ابن شہاب بواسطہ عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ:

ہم ایک دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں ٹھیک دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا(دیکھو)وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پر چادر ڈالے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ آپ کی تشریف آوری ایسے وقت تھی جس میں آپ کبھی تشریف نہ لاتے تھے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان اللہ کی قسم!ضرور کوئی بات ہے جبھی تو آپ اس وقت تشریف لائے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی آپ کو اجازت مل گئی آپ اندر تشریف لائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اپنے پاس سے اوروں کو ہٹا دو۔‘‘ 

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ!میرے (ماں )باپ آپ پر فدا ہوں جائیں یہاں تو صرف آپ کی گھر والی ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے بھی رفاقت کا شرف عطا ہو ؟ آپ نے فرمایا: ہاں (رفیق سفر تم ہو گے)۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے (ماں ) باپ آپ پر قربان! میری ایک اونٹنی آپ لے لیجئے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہم تو بقیمت لیں گے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے ان دونوں کے لیے جلدی میں جو کچھ تیار ہو سکا تیار کردیا اور ہم نے ان کے لیے چمڑے کی ایک تھیلی میں تھوڑا سا کھانا رکھ دیا۔ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ازار بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس تھیلی کا منہ اس سے باندھ دیا اسی وجہ سے ان کا لقب(ذات النطاقین)دو ازاربند والی ہوگیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ جبل ثور کے ایک غار میں پہنچ گئے ۔اور اس میں تین دن تک چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ جو نوجوان ہشیار اور ذکی لڑکے تھے آپ حضرات کے پاس رات گزارتے اور علی الصبح اندھیرے منہ ان کے پاس سے جا کر مکہ میں قریش کے ساتھ اس طرح صبح کرتے جیسے انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔اور قریش کی ہر وہ بات جس میں ان دونوں حضرات کے متعلق کوئی مکر و تدیبر ہوتی یہ اسے یاد کرکے جب اندھیرا ہوجاتا تو ان دونوں حضرات کو آکر بتا دیتے تھے ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ان کے پاس ہی دن کے وقت بکریاں چراتے اور تھوڑی رات گئے۔وہ ان دونوں کے پاس بکریاں لے جاتے اور یہ دونوں حضرت ان بکریوں کا دودھ پی کر اطمینان سے رات گزارتے۔ حتی کہ عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے منہ ان بکریوں کو ہانک لے جاتے اور ان تین راتوں میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے (قبیلہ)بنو دیل کے ایک آدمی کو جو بنی عبد بن عدی میں سے تھا مزدور رکھا وہ بڑا واقف کار رہبر تھا اور آل عاص بن وائل سہمی کا حلیف تھا۔ اور قریش کے دین پر تھا ان دونوں نے اسے امین بنا کر اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالہ کردیں اور تین راتوں کے بعد صبح کو ان دونوں سواریوں کو غار ثور پر لانے کا وعدہ لے لیا(چنانچہ وہ حسب وعدہ آ گیا)۔اور ان دونوں حضرات کے ساتھ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور رہبر ان کو ساحل کے راستہ پر ڈال کر لے چلا۔‘‘

ابن شہاب نے فرمایا:’’ سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کے بھتیجے عبدالرحمن بن مالک مدلجی نے بواسطہ اپنے والد کے سراقہ بن جعشم سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں : ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آ پڑے (جو اعلان کر رہے تھے)کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتل کردے یا پکڑ لائے تو اسے ہر ایک کے عوض سو اونٹ ملیں گے۔ اسی حال میں میں اپنی قوم بنو مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوگیا؛ ہم بیٹھے ہوئے تھے ۔

اس نے کہا :اے سراقہ !میں نے ابھی چند لوگوں کو ساحل پر دیکھا ہے میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ہیں ۔سراقہ کہتے ہیں :’’ میں سمجھ تو گیا کہ یہ وہی لوگ ہیں (مگر میں نے )اسے دھوکہ دینے کے لیے تاکہ وہ میرے حاصل کردہ انعام میں شریک نہ ہو سکے؛اس سے کہا یہ وہ لوگ نہیں بلکہ تو نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں ۔ پھر میں تھوڑی دیر مجلس میں ٹھہر کر کھڑا ہوگیا اور گھر آکر اپنی باندی کو حکم دیا کہ وہ میرے گھوڑے کو لے جا کر(فلاں )ٹیلہ کے پیچھے میرے لیے پکڑ کر کھڑی رہے۔ اور میں اپنا نیزہ لے کر اس کی نوک سے زمین پر خط کھینچتا ہوا اور اوپر کے حصہ کو جھکائے ہوئے گھر کے پیچھے سے نکل آیا حتی کہ میں اپنے گھوڑے کے پاس آ گیا ۔بس میں نے اپنے گھوڑے کو اڑا دیا کہ وہاں جلد پہنچ سکوں جب میں ان حضرات کے قریب ہوا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر پڑا فورا میں نے کھڑے ہو کر اپنے ترکش میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے تیر نکالے ؛پھر میں نے ان تیروں سے یہ فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں ؟ تو وہ بات نکلی جو مجھے پسند نہیں تھی ۔

پھر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور میں نے ان تیروں کی فال کی پرواہ نہ کی اور گھوڑا مجھے ان کے قریب لے گیا حتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت (کی آواز)سنی آپ ادھر ادھر نہیں دیکھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ادھر ادھر بہت دیکھ رہے تھے ۔ میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں اس کے اوپر سے گر پڑا۔ میں نے اپنے گھوڑے کو للکارا جب وہ(بڑی مشکل سے)سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے اگلے پاؤں کی وجہ سے ایک غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان تک چڑھنے لگا پھر میں نے تیروں سے فال نکالی تو اس میں میری ناپسندیدہ بات نکلی۔

پھر میں نے ان حضرات سے امان طلب کرتے ہوئے پکارا تو یہ ٹھہر گئے۔ میں سوار ہو کر ان کے پاس آیا تو ان تک پہنچنے میں مجھے جو موانع پیش آئے ان کے پیش نظر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب ہوجائے گا ۔‘‘[صحیح بخاری:ج2:ح1108۔]

پانچویں وجہ:....جب آپ غار میں تھے تو آپ کے بیٹے عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ تک مشرکین کی خبریں پہنچایا کرتے تھے ۔ اور آپ کے ساتھ ایک غلام عامر بن فہیرہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ان کے لیے ممکن تھا کہ قریش کو آپ کے بارے میں خبر دیدیں ۔

چھٹی وجہ:....اگر معاملہ ایسے ہی تھا جیسے رافضی خبیث کا دعوی ہے‘ تو پھرایسا ہوسکتا تھا کہ : جب دشمن غار تک پہنچ گیا اور غار کے منہ پر ٹہلنے لگا۔تو اس وقت آپ کے لیے ممکن تھا کہ باہر نکل آتے اور دشمن کو آپ کی خبر کردیتے۔پس اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی دوسرا فرد و بشر نہیں تھا جو آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یا دشمن سے بچا سکتا۔ پس اس حالت میں غور کرنا چاہیے کہ اصل دشمن کون ہے وہ جو آپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہو‘اور ایسے موقع کو غنیمت جانے جب کوئی بھی دشمن اپنے حریف پر قابو پالیتا ہے تو پھر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں اکیلے تھے۔ اور دشمن غار کے دہانے تک پہنچ چکا تھا۔اور غار والے کو بچانے والا یا ان کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ اور دشمن بھی معمولی نہ تھے ؛ ایسے لوگ تھے جو اس وقت مکہ میں غالب تھے۔ اور اگروہ آپ کو پکڑ لیتے تو مکہ بھر میں کوئی انہیں آنکھ دکھانے والا بھی نہیں تھا۔اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باطن میں مشرکین کے ساتھ ملے ہوئے تھے ؛ تو یہاں پر اسباب اور وسائل و حالات اس قدر بھر پور تھے کہ آپ کو پکڑ کر دشمن کے حوالے کردیا جاتا ۔جب قدرت کامل ہو‘اور فعل کے دواعی موجود ہوں تو اس فعل کو پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔جب ایسا کچھ ہوا نہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کے دواعی موجود نہیں تھے یا پھر اس پر قدرت حاصل نہیں تھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت تو موجود تھی؛ تومعلوم ہوا کہ دواعی اور اسباب موجود نہیں تھے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس بات کو ہر انسان جانتا ہے۔ سواللہ کی ذات پاک ہے جس نے روافض کو بصیرت و فراست سے محروم کردیا۔

٭ ان بہتان تراشوں کا حال یہ ہے کہ :ان میں وہ لوگ بھی ہیں جوکہتے ہیں :ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی انگلی سے دشمن کی طرف اشارہ کررہے تھے تو سانپ نے آپ کو ڈس لیا ۔تو آپ نے انگلی پیچھے کھینچ لی۔اورآپ سے درد ختم ہوگئی ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا: ’’ اگر تم نے دوبارہ عہد توڑا تووہ تمہارا ہاتھ توڑ دے گا۔‘‘

اور آپ نے دوبارہ اس عہد کو توڑا ؛ پھر اسی سبب سے آپ کی موت واقع ہوئی۔

٭ اس بات کا جھوٹ ہونا کئی وجوہات کی بناپر ظاہر ہے ۔ ہم ان میں سے بعض کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔

٭ اور میں سے بعض کہتے ہیں کہ : آپ نے اپنا ٹخنہ ظاہر کیا تھا تاکہ دشمن کو پتہ چل سکے ؛ تو سانپ نے آپ کو ڈس لیا۔یہ بھی پہلے جھوٹ کی طرح کا ایک دوسرا جھوٹ ہے۔

[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بے صبری کی تہمت ]:

[اعتراض]:شیعہ کا یہ قول کہ: یہ آیت آپ کے نقص پر دلالت کرتی ہے ؛ اس لیے کہ آیت میں :﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ کے الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری ؛اللہ تعالیٰ پر عدمِ ایمان؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی؛ اور بے صبری کو ظاہر کر رہے ہیں۔‘‘

[جواب]:پہلی بات :....ہم کہتے ہیں : شیعہ کے اقوال باہم متناقض ہیں ، وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غار میں اپنے ساتھ اس لیے رکھا تھا کہ اگر وہ مکہ میں رہا تو آپ کے راز کو واشگاف کردے گا،اس لیے کہ ابوبکر آپ کے دشمن تھے‘اور درپردہ ان لوگوں سے ملے ہوئے تھے جو آپ کو تلاش کررہے تھے۔ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے تھے ؛ تو جب آپ کی تلاش میں وہاں پہنچ گیا تھا؛تو آپ کو خوش ومسرور ہونا چاہیے تھا؛ اور آپ کو اطمینان ملتا۔نیزیہ کہ دشمن غار کے دہانے تک پہنچا‘اور اوپر ادھر ادھر تلاش کرتے رہے ؛ تو یہ ایک بہترین موقعہ تھا کہ انہیں خبر کردی جاتی۔ نیز یہ کہ : آپ کا بیٹا عبداللہ قریش کی خبریں آپ تک پہنچایا کرتا تھا؛ آپ کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے ذریعہ سے دشمن کو خبر کردیتے۔

نیز آپ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آپ دونوں کی سواریاں تھیں ۔ آپ کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ اپنے غلام سے ہی کہہ دیتے کہ دشمن کو خبر کردو۔

اب کہہ رہا ہے کہ وہ ضعیف القلب اور قلیل الصبر تھے۔اس کا یہ قول اس قول سے متناقض ہے جس میں وہ کہتا ہے: کہ ابوبکر منافق تھے۔اوراب ثابت کررہا ہے کہ آپ مؤمن تھے۔[ اللہ کی قسم! شیعہ کے کس وصف پر رشک کیا جائے وہ علم و فہم دونوں سے یک سر بے گانہ ہیں ]

جان لینا چاہیے کہ مہاجرین صحابہ میں کوئی بھی منافق نہ تھا۔ [بلکہ یوں کہیے کہ نفاق کا وجود ان میں محال تھا۔ اس لیے کہ مشرکین مکہ قوت و شوکت سے بہرہ ور تھے اور جو شخص مشرف باسلام ہوتا اسے جی بھر کر سزا دیتے۔ اس لیے جو شخص بھی دین اسلام کو قبول کرتا تھا وہ رضائے الٰہی کے لیے یہ خطرہ مول لیتا تھا کسی کے ڈر سے نہیں ]۔

نفاق [کا آغاز اسلام میں مدنی زندگی سے ہوا؛اور مدینہ کے]بعض انصاری قبائل میں تھا۔

کسی بھی مہاجر نے اپنے اختیار کے بغیر ہجرت نہیں کی۔مکہ کے کفار ہجرت کو اختیار نہیں کرتے تھے۔نہ ہی وہ اپنا وطن اور اہل و عیال چھوڑ کر اپنے دشمن کی مدد کے لیے کہیں جاتے تھے۔بلکہ ہجرت کو ان لوگوں نے اختیار کیا تھا جن کا وصف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؛ فرمایا:

﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ (الحشر:۸)

’’(فئے کا مال)ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :

﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ٭نِ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا﴾ (الحج ۳۹۔۴۰)

’’ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لیے کہ یقیناً ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے۔ وہ جنھیں ان کے گھروں سے کسی حق کے بغیر نکالا گیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاتفاق مہاجرین [وانصار]میں سب سے افضل تھے۔

جب اس کلام کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صاحب ایمان ہونا لازم آتا ہے۔تو پس یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتہائی اہم اور پرخوف و خطر سفرہجرت؛وہ سفر جس نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا تھا؛لوگوں کے دلوں میں آپ کا جلال و قدر گامزن ہوئے‘ اسلام کا پرچم بلندکیا؛ایسے سفر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایسی ہستی کا ہی انتخاب کرسکتے تھے جو آپ کے خاص الخواص میں سے ہو۔ اور جس پر آپ کو بھر پور اعتماد اور اطمینان و بھروسہ حاصل ہو۔ اس لیے کہ تاریخ اسی چیز کو عزت کے ساتھ جگہ دیتی ہے جو تمام لوگوں کے سامنے عزت کے ساتھ عیاں و بیان ہو ۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل اور دوسرے لوگوں سے امتیازیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ایسی خصوصیت ہے جس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل و اشرف تھے۔

٭٭٭

[اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ ’’غم زدہ ہونا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘

[جواب]: ہم کہتے ہیں : پہلی بات: ناقص کی دو اقسام ہیں ۔[اول ]:وہ نقص جو ایمان کے منافی ہو۔ 

[دوم]: اوروہ نقص جوکامل کی نسبت کم ہو۔

اگرمصنف کی مراد پہلی قسم ہے ؛توپھریا باطل ہے ۔ کیونکہ اللہتعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ﴾ (النحل:۱۶؍۱۲۷)

’’ آپ غم نہ کریں اور جوتدبیریں وہ کر رہے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں ۔‘‘

عام اہل ایمان کے حق میں فرمایا:﴿وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْاوَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْن﴾(آل عمران:۱۳۹)

’’سستی نہ کرو اور غم زدہ نہ ہو اور تم ہی غالب رہو گے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْم٭لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الحجر:۸۷۔۸۸)

’’ نیز ہم نے آپ کو سات ایسی آیات دی ہیں جو بار بار دھرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم بھی دیا ہے۔لہٰذا ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو جو سامان حیات دے رکھا ہے ادھر نظر اٹھا کربھی نہ دیکھیں اور نہ ہی ان کے لیے غمزدہ ہوں اور ایمان لانے والوں سے تواضع سے پیش آئیے ۔‘‘ 

اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی ایک مواقع پر غمزدہ ہونے سے اور حزن و ملال کرنے سے منع کیا ہے۔ اہل ایمان کو بھی جملہ طور پر حزن و ملال سے منع کیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ حزن ایمان کے منافی نہیں ہے۔

اگر رافضی مصنف کی مراد یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے سے اکمل کی نسبت ناقص ہیں ؛ تو پھراس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے کامل ہیں ؛ اس میں اہل سنت والجماعت میں سے کسی ایک کا بھی کوئی اختلاف نہیں ۔لیکن اس میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں ہے جو حضرت علی ‘ یا حضرت عثمان یا حضرت عمر رضی اللہ عنہم یا پھر کسی دوسرے صحابی کے آپ سے افضل ہونے پر دلالت کرتی ہو۔ اس لیے کہ یہ لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں تھے۔اگرآپ کے ساتھ ہوتے بھی ؛ تو پھر بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان لوگوں کا حال حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے حال سے زیادہ اکمل ہوتا۔اس لیے کہ صحابہ کرام کے احوال اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حالت کے متعلق معروف یہ ہے کہ : خوف و خطرہ کے وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ باقی تمام لوگوں کی نسبت زیادہ کامل ایمان والے ‘ یقین و الے اور صبرو ثبات والے ہوا کرتے تھے۔ اور شک و شبہ کے اسباب کے وقت آپ کا ایمان و اطمینان سب سے بڑھ کر ہوا کرتا تھا۔ اور جب کبھی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز سے کوئی تکلیف پہنچتی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی و خوشنودی کے متلاشی ہوتے۔اور آپ کے لیے بھی تکلیف دہ چیز سے سب سے بڑھ کر دور رہنے والے ہوتے ۔

یہ بات ہر اس انسان کو معلوم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں اور وفات کے بعد کے احوال صحابہ کرام سے جانکاری رکھتا ہے۔ حتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ؛ تو آپ کی وفات اہل ایمان کے لیے بہت بڑی مصیبت اور آزمائش تھی۔ حتی کہ اکثر اعراب مرتد ہوگئے۔ پیکر ایمان جناب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حواس پر قابو نہ رکھ سکے ؛ حالانکہ آپ قوی ایمان اور یقین محکم رکھنے والے انسان تھے۔ مگر ان حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثابت قدم رکھا؛ جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ایمان میں دوسروں کی نسبت زیادہ کامل تھے۔ آپ کے یقین میں اطمینان ہوا کرتا تھا۔ اور آپ کا علم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کی نسبت زیادہ کامل تھا۔اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :

’’تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، نہیں مرے گا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا﴾ [آل عمران ۱۴۴]

’’(حضرت)محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف رسول ہی ہیں آپ سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جا گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔‘‘ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام سنح پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا۔آپ فرماتی ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ’’اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہی بات آئی تھی۔کہ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو دوبارہ مبعوث فرمائے گا‘ اور آپ منافقین کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے۔ پس اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا۔آپ کے چہرہ انور سے چادر اٹھائی پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرے کو بوسہ دیا پھر روئے اور فرمایا اے اللہ کے نبی آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! آپ نے پاکیزہ زندگی گزاری ‘اور پاکیزہ موت پائی۔مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا۔‘‘

پھرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے [اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے]، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ:اے قسم اٹھانے والے!جلدی نہ کرو۔چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا ؛اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی ؛ اور فرمایا:

’’تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، نہیں مرے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ﴾ [الزمر ۳۰]

’’یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ﴾

’’(حضرت)محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف رسول ہی ہیں آپ سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جا گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ۔‘‘

سب لوگ(یہ سن کر)بے اختیار رونے لگے۔[البخاری ۵؍۶]

مزیدبرآں یوم بدر میں جھونپڑے کا قصہ؛ اور حدیبیہ کے دن آپ کا اطمینان و سکون معروف قصے ہیں ؛ جن کی وجہ سے آپ کی خصوصیت تمام صحابہ سے نمایا ہوتی ہے ۔ پھر آپ کی طرف بزدلی [یا ایمانی کمزوری]کو کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے۔

نیز آپ کا مرتدین اور مانعین زکواۃ سے جہادکرنا؛اہل ایمان کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا؛اور اس کے ساتھ ہی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنا؛ ایسے امور ہیں جن سے آپ کا سب سے بڑا اہل ایمان ویقین ہونا واضح ہوتا ہے۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ : آپ سے کہا گیا: ’’آپ پروہ مصائب آئے کہ اگر پہاڑ پر آتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا؛ اور سمندر پر آتے تووہ خشک ہوجاتا ؛ لیکن ہم نہیں دیکھتے کہ آپ کمزور ہوئے ہوں ۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ غار والی رات کے بعد کبھی بھی میرے دل میں رعب داخل نہیں ہوا۔ بیشک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا حزن و ملال دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’ اے ابوبکر تم پر کوئی غم نہیں ہونا چاہیے۔بیشک اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے ۔‘‘

پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: جو کوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یقین و صبر کو دوسرے صحابہ کرام جیسے : حضرت عمر ‘ حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ عنہم سے تشبیہ دے ؛ یقیناً وہ بہت بڑا جاہل ہے۔اہل سنت کے ہاں حضرت عمر و عثمان اور حضرت رضی اللہ عنہم پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ۔لیکن رافضی نے جو یہ دعوی کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان صفات میں دوسرے تینوں صحابہ کرام سے اکمل و افضل ہیں ؛ یہ محض بہتان‘جھوٹ اور افتراء پردازی ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی بھی حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کی سیرت پر غور کرے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ مصائب ومشکلات میں یہ حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ کامل صبرو ثبا ت اور استقلال و استقامت والے ہوا کرتے تھے۔

لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گھیراؤ کیا؛ آپ سے مطالبہ کیا کہ یا خلافت چھوڑ دیں یا پھرقتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں ۔اوروہ برابرآپ کا محاصرہ کیے رہے یہاں تک کہ آپ کو قتل کردیا۔اس حالت میں بھی آپ لوگوں کو اپنے دفاع میں لڑنے سے منع کرتے رہے۔یہاں تک کہ آپ مظلومیت کی حالت میں شہید ہوگئے مگر اپنی ذات کا دفاع نہیں کیا۔تو کیا مصیبت میں اس سے بڑھ کر صبر کی بھی کوئی مثال ہوسکتی ہے۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صبر کی طرح نہیں تھا۔بلکہ آپ کے اہل لشکر اور آپ سے لڑنے والوں کو آپ کی وجہ سے بعض ایسی تکالیف بھی پہنچیں کہ ایسی تکالیف حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے نہیں پہنچی تھیں ۔حالانکہ جن لوگوں سے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑرہے تھے وہ کافر تھے۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ؛ وہ دشمن کی تعداد کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نسبت بہت کم تھے۔اور ان کا دشمن کئی گنا بڑی تعداد کا تھا۔جن کفار سے ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے جنگیں لڑیں وہ مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کالشکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نسبت بہت کم تھا۔

یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ : امام کو درپیش خوف کہ کفار مسلمانوں پر غلبہ نہ حاصل کرلیں ‘اس خوف سے بڑھ کر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ آپس میں ایک دوسرے پر غالب آجائیں ۔ اس لحاظ سے ائمہ ثلاثہ کا دشمن سے خوف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خوف سے کئی گنازیادہ تھا۔ اور اس خوف کا مقتضی بھی بہت بڑا تھا۔ مگر اس کے باوجود یہ لوگ اپنے دشمن اور پیش جنگ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں یقین و صبر استقامت اور ثابت قدمی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دشمن کے ساتھ برتاؤ میں نہ صرف کامل بلکہ اکمل تھے۔تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ یقین و ثبات اور صبر و استقامت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اور کامل تھے۔کیا یہ صرف حماقت و تکبر اور اخبار متواتر سے معلوم حقائق کے علاوہ بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

نبی کریم کے مقابلہ میں سب اہل اسلام ناقص ہیں ۔ مزید یہ کہ ہم عصمت ابی بکر کے قائل نہیں ہیں ۔

حزن ایمان کے منافی نہیں :

[اعتراض]: رافضی مصنف نے کہا ہے:’’یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری ؛اللہ تعالیٰ پر عدمِ ایمان؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی کوظاہر کر رہی ہے۔‘‘

[جواب ]: رافضی کی یہ تمام باتیں ایک کھلا ہوا جھوٹ ہیں ۔آیت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس دعوی پر دلالت کرتی ہو۔اس کی دو وجوہات ہیں : 

پہلی وجہ:....کسی چیز سے روکنا اس کے وقوع پذیر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔[یعنی ’’ لَا تَحْزَنْ ‘‘سے وقوع حزن لازم نہیں آتا]۔ بلکہ نہی کے الفاظ جہاں کہیں بھی وارد ہوئے ہیں ان سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ فعل ممنوع ہے تاکہ کہیں بعد میں اس فعل کا وقوع نہ ہوجائے۔ اس کی مثال سمجھنے کے لیے یہ آیات ملاحظہ ہوں : ۔

۱....﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ﴾ (الأحزاب:۱۰)

’’اے نبی ! اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو ؛ کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو۔‘‘

یہاں پریہ دلیل کہیں بھی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی اطاعت کرتے تھے۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

۲....﴿وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (القصص:۸۸)

’’اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکارنا۔‘‘

۳....﴿وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (القصص:۸۸)

’’اللہ کے ساتھ کسی اورکو معبود نہ بنانا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی بھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا ۔ خصوصاً نبوت کے بعد تو شرک سے معصوم ہونے پر تمام امت کا اتفاق ہے ۔ اس لیے کہ آپ کو شرکیہ اعمال سے منع کردیا گیاتھا۔اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿لَا تَحْزَنْ﴾؛کہیں بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتاکہ آپ واقعی غمگین ہوئے بھی تھے۔لیکن عقلی طور پر یہ ممکن ہے کہ آپ غمگین بھی ہوئے ہونگے۔لیکن اس قسم کی نہی اس لیے وارد ہوتی ہے کہ اس فعل کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ 

دوسری بات:....اگرفرض کیجیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غم زدہ ہوئے بھی تھے تو محض اس لیے کہ کفار کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہ کردیں ۔آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار تھے۔یہی وجہ ہے کہ:جب آپ ہجرت کے اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو دوران سفر ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگتے کبھی آگے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن عقب سے آپ پر حملہ آور ہو گا تو پیچھے چلتا ہوں اور جب اگلی جانب سے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپ کے آگے ہو جاتا ہوں ۔‘‘، جب غار کے قریب پہنچے تو عرض کیا کہ ٹھہریے! تاکہ میں غار میں داخل ہو کر اس کو صاف کرلوں ۔[سیرۃ النبی لابن کثیر(۱؍۴۵۲) مستدرک حاکم(۳؍۶) دلائل النبوۃ(۲؍۴۷۶)]

امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مناقب الصحابہ ‘‘ میں ذکر کیا ہے: فرماتے ہیں : ہم سے وکیع نے حدیث بیان کی ؛ وہ نافع سے اوروہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ؛ وہ ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں ؛آپ فرماتے ہیں :

’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو غار ثور کے راستہ پر چل پڑے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کے اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ دوران سفر ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگتے کبھی آگے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن عقب سے آپ پر حملہ آور ہو گا تو پیچھے چلتا ہوں اور جب اگلی جانب سے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپ کے آگے ہو جاتا ہوں ۔‘‘ جب غار کے قریب پہنچے تو عرض کیا کہ ٹھہریے! تاکہ میں غار میں داخل ہو کر اس کو صاف کرلوں ۔‘‘

امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھ سے ایک آدمی نے بیان کیا کہ: ابن ابی ملیکہ نے یہ بھی کہا ہے: اس موقع پرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غار میں ایک سوراخ دیکھا، اس کے آگے اپنا پاؤں رکھ کر اسے بند کردیا ؛ اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ! اس میں اگر سانپ یا بچھو وغیرہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے مجھ کو کاٹے۔‘‘[سیرۃ النبی لابن کثیر(۱؍۴۵۲)، مستدرک حاکم(۳؍۶) دلائل النبوۃ(۲؍۴۷۶)[فضائل الصحابۃ ۱؍۶۲]۔]

اس صورت میں واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات پر راضی نہ تھے۔ نہ ہی ان معنوں میں جیسا کہ رافضی خبیث افتراء پردازنے ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ آپ ہرگزاس بات پر راضی نہ تھے کہ وہ زندہ رہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے۔اورنہ ہی اس بات پر راضی تھے کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ بلکہ آپ چاہتے تھے کہ اپنی جان و مال اور اہل عیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردیں مگر آپ پر آنچ نہ آئے۔ ایسا کرنا ہر مؤمن پر واجب ہے ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام مؤمنین میں سے پختہ ایمان والے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ﴾ [الأحزاب۶]

’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں ۔‘‘

صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے والدین و اولاداور سب لوگوں سے بڑھ کر مجھے عزیز تر نہ سمجھے۔‘‘[البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان (ح:۱۴)، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب محبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۴۴)۔]

توابوبکر رضی اللہ عنہ غم زدہ ہونا آپ کے کمال ایمان و محبت اورموالات و خیر خواہی؛آپ کی حفاظت پر حرص‘ آپ کے دفاع؛اور آپ سے ہر قسم کی تکلیف و پریشانی دور کرنے پر مستعد ہونے کی دلیل ہے۔اگرچہ اس صورت میں غم کی وجہ سے انسان پرایک گونہ کمزوری آجاتی ہے ۔ پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ عدم حزن کے ساتھ ان صفات سے موصوف ہونا ہی آپ کے حق میں مامور بہ تھا۔ورنہ صرف غم و حزن سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اور اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں جس سے اس فعل کا گناہ ہونا لازم آتا ہو جس پر ملامت کی جاسکتی ہو۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غمگین ہونا انسان کی اپنی اولاد پر غمگین ہونے سے بڑھ کر ہے۔اس لیے کہ کسی بھی انسان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کی اولاد کے لیے محبت سے بڑا واجب ہے۔

٭ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں خبر دی ہے کہ آپ اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام پر غمگین ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ٭قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھٰلِکِیْنَ٭ قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ....﴾

[یوسف۸۴۔۸۶]

’’ ہائے میرا غم یوسف پر! اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں ، پس وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔انھوں نے کہا : اللہ کی قسم! تو ہمیشہ یوسف کو یاد کرتا رہے گا، یہاں تک کہ گھل کر مرنے کے قریب ہوجائے، یا ہلاک ہونے والوں سے ہوجائے۔اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں ۔‘‘

یہ اللہ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں ؛ وہ اپنے بیٹے پر اس قدر غمگین ہیں ۔لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سے آپ پر طعن و تشنیع کی جائے۔تو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر قتل کے خوف سے غمگین ہوں ؛تو آپ کو کیسے گالی و طعن تشنیع کی جاسکتی ہے؛ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت کی سعادت معلق ہے۔

پھر شیعہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر انتہائی غم و ہمّ کا اظہار کیا تھا اورایک غم خانہ بنایا؛ شب و روزاس ’’ بیت الاحزان‘‘(غم خانہ) میں گزارا کرتی تھیں ۔لیکن اس چیز کو قابل مذمت نہیں سمجھتے۔حالانکہ یہ غم ایک ایسی چیز پر ہے جو گزر چکی ہے؛ اور پھر کبھی واپس آنے والی نہیں ۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات پرخوف زدہ اور غمگین تھے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہ کردیا جائے۔یہ ایسا غم و حزن ہے جو آپ کی حفاظت و چوکیداری کو متضمن ہے۔اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ اس طرح سے غمگین نہیں ہوئے ؛جیسے پہلے ہوئے تھے؛ اس لیے کہ اب غمگین ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا غم و ملال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے غم و ملال سے زیادہ اکمل تھا۔ اگر آپ کاغم زدہ ہونا مذموم فعل تھا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تو غمگین ہوئی تھیں ۔وگرنہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر غم و اندوہ کا اظہار کیا ان کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کے سب سے بڑے حق دار ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے معاملہ میں غم و اندوہ میں مبتلاہونے پر آپ پر کوئی ملامت نہ کی جائے۔ [حقیقت یہ ہے کہ جاہل اپنے طور پر کسی کی مدح کرتا ہے دراصل وہ مذمت ہوتی ہے]۔

اگر شیعہ یہ کہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے قتل کیے جانے کا غم تھا۔‘‘

توہم کہیں گے:یہ تمہارے اس قول کے متناقض ہے کہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے انہیں ساتھ لے لیا تھا کہ کہیں آپ کا معاملہ ظاہر نہ کردیں ۔‘‘

یہ بھی کہا جائے گا کہ : جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر واجب کیا ہے ؛ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جو برتاؤ تواتر کے ساتھ معلوم ہے ؛ اس کی روشنی میں تمہارا یہ دعوی باطل ہے۔

پھر یہ بھی کہا جائے گا: مان لیجیے ! آپ اپنی جان پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غمگین ہوئے تھے ؛ تو کیا اس وجہ سے اس بات کے مستحق ہوگئے کہ آپ پرگالم گلوچ کی جائے۔بالفرض یہ مان بھی لیں کہ آپ کو اپنے قتل کیے جانے کے خوف کی وجہ سے غم و ملال تھا تو پھر بھی یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے آپ پر سب و شتم کیا جائے۔

٭ پھر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ غمگین ہونا گناہ کا کام تھا؛ تو تب بھی آپ اس پرمصر نہیں رہے؛ جب اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا تو آپ رک گئے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو بہت ساری چیزوں سے منع کیا تھا اوروہ ان باتوں سے رک گئے تھے۔ اور اس نہی سے پہلے جو کام انہوں نے کیے ان پر کوئی مذمت نہیں کی گئی۔

٭ مزیدبرآں روافض کہتے ہیں :حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما جاگیر فدک اور دوسری میراث کے چھوٹ جانے پر غم سے نڈھال ہوگئے۔اس کاتقاضا یہ ہے کہ یہ لوگ دنیاوی فوائد کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوئے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا آتَاکُمْ ﴾ [الحدید۲۳]

’’تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمھیں عطا فرمائے۔‘‘

اللہ تعالیٰ تو لوگوں کو اس طرف بلارہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹ جانے پر انہیں کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ دنیا کے چھوٹ جانے پر غم کرنے سے منع کرنا اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ کسی کو دین کے چھوٹ جانے پر غم کرنے سے منع کیا جائے۔

اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ آپ دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوئے تھے؛ تو کسی انسان کا اپنے جان پر قتل کیے جانے کے خوف سے غمگین ہونا اس بات کا زیادہ حق دار ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی انسان ایسی دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہو جو اسے ملی بھی نہیں ۔

٭ حقیقت یہ ہے کہ رافضی سب سے بڑے جاہل لوگ ہوتے ہیں ؛ جن سے محبت کرتے ہیں ‘ان کی مدح میں اور جن سے بغض رکھتے ہیں ان کی مذمت میں ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو حقیقت میں اس کے عکس پر ہوتی ہیں ۔ پس آپ نہیں دیکھیں گے جب بھی یہ لوگ کسی معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتے ہیں ‘اگروہ معاملہ واقعی مذموم ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زیادہ صادق آتاہے۔اور مدح کاکوئی پہلو ایسا نہیں ہوتا جس سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح کرنا چاہتے ہوں ؛ اوروہ حقیقت میں بھی مدح کا پہلو ہو تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ آپ تمام ممدوح امور میں زیادہ کامل ہیں اور تمام مذموم امور میں سب سے زیادہ بری ہیں ‘ خواہ یہ امور حقیقی ہوں یا خیالی ۔

[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بے صبری اوربے یقینی کی تہمت ]:

[اعتراض]: رافضی مصنف نے کہاہے: ’’ یہ آیت آپ کی بے صبری پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ 

[جواب]: رافضی کا یہ قول باطل ہے۔ آیت صبر کے معدوم [یاناقص] ہونے پردلالت نہیں کرتی۔ اس لیے کہ مصائب پر صبر کرنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں واجب ہے۔اور دل کا غمگین ہونا اس کے منافی ہر گز نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’ بیشک اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسو پر نہیں پکڑتا؛ اور نہ ہی دل کی غمگینی اورحزن و ملال پر پکڑتا ہے؛ لیکن وہ زبان [سے نکلنے والی آہ و بکا]پر پکڑتا ہے ؛ یا پھر رحم فرمادیتا ہے ۔‘‘ [البخاري ۲؍۸۴؛ ومسلم ۲؍۶۳۶]

[اعتراض]: رافضی مصنف نے کہاہے: ’’ یہ آیت عدم یقین باللہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ 

[جواب]: یہ بات جھوٹ اور بہتان ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام بھی غمگین ہوتے رہے ہیں ۔یہ ان کے عدم یقین باللہ کی دلیل ہر گز نہیں ہوا۔جیساکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔اور صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابراہیم کی وفات پر فرمایا تھا:

’’بیشک آنکھیں بہہ رہی ہیں ؛اور دل غمگین ہے؛اور ہم صرف وہی بات کہتے ہیں جو رب کو راضی کردے۔ اے ابراہیم! ہمیں تیری جدائی کا صدمہ ہے۔‘‘[البخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم ’’ انا بک لمحزونون‘‘ (حدیث:۱۳۰۳)، صحیح مسلم، کتاب الفضائل۔ باب رحمتہ رضی اللّٰہ عنہم الصبیان والعیال(حدیث:۲۳۱۵)۔]

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غم کھانے سے منع کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا :

﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ ﴾۔[النحل ۱۲۷]’’اوران پر غم نہ کھائیے۔‘‘

[اعتراض]:رافضی نے کہا ہے:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی؛ ظاہر کر رہے ہیں ۔‘‘

[جواب]: سابقہ کلام کی طرح یہ بھی جھوٹ اور باطل کلام ہے۔