اہل بدعت جن کی بدعت حد کفر کو پہنچی ہو، ان کے ساتھ معاملہ کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمرو کہتا ہے کہ ذبیحہ اہلِ بدعت کا جن کی بدعت کفر کو پہنچ گئی ہے، حلال ہے، اور امامت نا درست ہے، اور نکاح ان کی عورتوں سے درست ہے. قياساً على اهل الكتاب پس حکم ان کا مانند اہلِ کتاب کے ہے، نہ مانند اہلِ ارتداد کے۔ اور زید کہتا ہے کہ قول عمرو کا سراسر خطا ہے، بلکہ کفر ہے، کیونکہ منکر ضروریاتِ دین کا مرتد ہے، اور مرتد کو حکم اہلِ کتاب کا دینا سراسر انکار ہے ضروریاتِ دین سے۔ پس ان دونوں میں سے کون سا مصیب ہے؟
جواب: زید مصیب ہے، اہلِ بدعت جن کی بدعت کفر کو پہنچتی ہے، کسی صورت سے اہلِ کتاب کا حکم نہیں پاسکتے، بلکہ مرتد کہلائیں گے، اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جاوے گا۔
منکر ضروریاتِ اسلام و مبتدع بہ بدعات مکفرہ کو اہلِ کتاب پر قیاس کرنا بالکل غلط اور بے اصل بات ہے، نہ کسی نے سلف و خلف میں سے ایسا قیاس کیا، اور نہ کوئی سمجھ دار کر سکتا ہے۔ اگر کتابی پر قیاس بھی کیا جاوے اور اس کو مثلاً یہودی اور نصرانی قرار دیا جاوے تو بھی وہ از روئے شریعت محمدیہ مرتد معدود ہوگا اور اس کا معاملہ مرتدین کا ہو گا۔ هو الموفق
یہ بات صحیح ہے کہ جن مبتدعین مسلمانوں کی بدعت کفر کو پہنچی ہے، وہ اہلِ کتاب کا حکم نہیں پاسکتے۔ رہی یہ بات کہ وہ مرتد کہلائیں گے یا نہیں؟ اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جاوے گا یا نہیں؟ سو اس میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی ایسے امر کا انکار کرے جس کا ثبوت علی سبیل التواتر، ہو اور اس کے ثبوت میں علماء کا اختلاف نہ ہو بلکہ اس کا ضروریاتِ دین سے ہونا متفق علیہ ہو تو ایسا شخص مرتد کہلاوے گا، اور اس کے ساتھ معاملہ مرتدین کا سا کیا جاوے گا، اور جو مسلمان شخص ایسا نہ ہو، وہ نہ مرتد کہلائے گا اور نہ اس کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جاوے گا۔
(فتاویٰ نذیریہ: جلد، 2 صفحہ، 343)