حضرت مولانا شمس الحق عظیم آبادی کا فتویٰ تعزیہ پرستوں کے ساتھ اتحاد و محبت اور دوستی رکھنا، ان کے جلسوں میں شریک ہونا، ان کی دعوتیں کرنا ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے ساتھ میل جول رکھنا اور خلط ملط کرنا
حضرت مولانا شمس الحق عظیم آبادی کا فتویٰ
سوال: تعزیہ داری کرنا جس طرح کے اس ملک ہندوستان میں مروج ہے گناہ کبیرہ ہے یا نہیں؟ اور جو آدمی توبہ کرنے کے بعد اس فعل کا پھر مرتکب ہو، اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ اور جو لوگ مسلمان اہلِ سنت حنفی ہو کر تعزیہ داروں کے ساتھ اتحاد و محبت رکھتے ہیں اور رنج و راحت میں ان کے شریک ہوتے ہیں، ان کے ان افعال شنیعہ پر مانع نہیں ہوتے ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: اربابِ فطانت پر واضح ہو کہ تعزیہ پرستی کرنا جس طرح ملک ہندوستان وغیرہ میں شائع و ذرائع ہے، سرا سر شرک و ضلالت ہے۔ کیونکہ تعزیہ پرست لوگ اپنے فہم ناقص و خیال باطل میں سیدنا حسینؓ کی تصویر بناتے ہیں، اس طور پر کہ پانچویں تاریخ محرم کو تھوڑی مٹی کسی جگہ سے لاتے ہیں اور اس کو نعش سیدنا حسینؓ قرار دے کر نہایت عزت و احترام کے ساتھ ایک چیز بلند پر مثلِ چبوترہ وغیرہ کے اس کو رکھ کر ہر روز اس پر شربت و مٹھائی مالیدہ و پھول وغیرہ اپنے زعمِ فاسد میں فاتحہ و نیاز دیتے ہیں، اور کسی شخص کو اس چبوترہ پر جوتا پہنے جانے نہیں دیتے اور اس مٹی کے سامنے جس کو نعش قرار دیا ہے سجدہ کرتے ہیں اور ترقی و مال و دولت کو اس سے طلب کرتے ہیں، کوئی منت مانگتا ہے کہ سیدنا حسینؓ میرا فلانا مریض اچھا ہو جائے، کوئی کہتا ہے میری فلانی مراد بھر آئے، اسی طرح کوئی اولاد مانگتا ہے، کوئی اپنے اور مشکلات کے حل چاہتا ہے، الغرض جو معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ چاہیے تھا وہ سب معاملہ اس مٹی کے سامنے جس کو نعش قرار دیا ہے کرتے ہیں، اور پھر اس نعش کی دستار بندی کر کے سہرہ و مقنع باندھ کے خوب ڈھول باجے کے ساتھ تمام گشت کراتے ہیں اور نعرہ یا حسینؓ یا حسینؓ کا مارتے ہیں، علیٰ ھذا القیاس اسی قسم کے اور افعال شنیعہ و منکر کرتے ہیں۔
پس حقیقت تعزیہ پرستی کی یہ ہے تو اس کے شرک ہونے میں کیا شک و شبہ باقی رہا؟ ان تعزیہ پرستوں نے اپنی پرستش کے لیے نشانی ٹھہرایا، اب یہ تعزیہ بھی ایک فرد انصاب کا ہے اور یہ پوجنا نصب کا حرام ہے پس تعزیہ بنانا اور اس کا پوجنا بھی حرام ہوا اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (سورۃ المائدہ: آیت، 90)
ترجمہ: اے ایمان والوں! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
اور معنی انصاب کے صحاح جوہری میں یوں لکھا ہے النصب ما نصب فعبد من دون الله انتهى۔
یعنی جو چیز گاڑی جائے یا اس کی پرستش کی جائے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔
مجالس الابرار و مسالک الاخیار میں ہے کہ نصب وہ چیز جو گاڑی جاوے، اس کی عبادت کی جاوے، سوائے اللہ تعالیٰ کے جیسے درخت اور پتھر یا قبر اور جو چیز سوائے اس کے ہیں (اس کی عبادت کی جاوے) اور واجب ہے توڑ دینا اور ڈھا دینا ان سب چیزوں کا۔
اور حافظ ابنِ قیمؒ نے لکھا ہے:
ومن الانصاب ما قده نصب للمشركين من شجر او هود او دشمن، او خشية و نحو ذلك والواجب هدم ذلك نحو اثره۔
پس دیکھو حافظ ابنِ قیمؒ اور اور صاحبِ مجالس الابرار نے صاف لکھ دیا کہ جو چیز پوجی جاوے اللہ تعالیٰ کے سوا، خواہ درخت ہو یا پتھر ہو یا قبر ہو کسی کی یا لکڑی ہو یا جو چیز مثل اس کے ہو، سب نصب میں داخل ہے۔ اس کا توڑ دینا واجب ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے برائی، شراب اور انصاب اور جوا تینوں کی ایک ہی جگہ بیان فرمایا اور تینوں کو نجس و کام شیطان قرار دیا، تعزیہ کا بھی انصاب میں داخل ہونا یقینی ہے۔ کیونکہ پوجا جانا تعزیہ کا یعنی اس کو سجدہ کرنا ہے اور اس سے انواع و اقسام کی مدد چاہنا اظہر من الشمس ہے، پس ہر مسلمان کو چاہیے اس کو توڑ دیں اور خاک سیاہ کر دیں۔
دیکھو! جناب نبی کریمﷺ سال فتح مکہ میں، مکہ معظمہ کو تشریف لے گئے، آپﷺ بیت اللہ کے اندر داخل نہ ہوئے بسبب اس کے کہ بیت اللہ کے چاروں طرف 360 تصویریں (بت) رکھی تھی، جن میں تصویر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی بھی تھی۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ ساری تصویریں نکالی جاویں اور توڑی جاویں، چنانچہ تصویریں نکالی گئی اور آپﷺ ان تصویروں کو لکڑی سے مارتے تھے، کسی تصویر کی آنکھ میں ٹھوکر لگاتے تھے، پس سب بت گرتے جاتے تھے اور جو تصویریں کہ دیواروں پر منقش تھی ان کو پانی سے دھو دینے کا حکم دیا۔
ابو داؤد طیالسی نے لکھا ہے کہ اسامہ نے کہا ہم حضورﷺ کے پاس گئے کعبہ میں پس دیکھیں آپﷺ نے بہت سی صورتیں تو ایک ڈول پانی مانگا، ہم نے لا دیا، آپﷺ نے پانی چھینٹا ان صورتوں پر، وہ تصویریں جن میں تصویر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی بھی تھی، حضورﷺ نے باقی نہ رکھا، بلکہ تصویریں ذی جسم کو توڑ دیا اور ذی نقش کو پانی سے دھو دیا۔
پس اب تعزیہ کو توڑنے میں کسی قسم کا تردد و شبہ باقی نہیں رہا، کیونکہ ان تصویروں کی پرستش ہوتی تھی اسی لیے حضور اقدسﷺ نے ان کو توڑا اور مٹا دیا۔ وہی وجہ بعینہ تعزیہ میں بھی موجود ہے اور قطع نظر پرستش کے جس گھر میں ذی روح کی تصویر ہوتی ہے، وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ پس جس جگہ تعزیہ وغیرہ صورت ذی جان کی ہو وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں۔
تمام ممالک ہندوستان وغیرہ میں جہاں جہاں تعزیہ داری ہوتی ہے ہزاروں در ہزار آدمی شرک میں گرفتار رہتے ہیں، کوئی اس کو سجدہ کرتا ہے، کوئی اولاد اس سے چاہتا ہے، کوئی ترقی و مال دولت، کوئی صحتِ مریض، کوئی کچھ اور کوئی کچھ اور ایسی عظمت و تعظیم جو خاص واسطے باری تعالیٰ کے لائق ہے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ذرا سی بے ادبی کرنے میں قہر و بلا نازل ہونے لگے گی۔
اب اے غافل لوگوں! تم سب متنبہ و تیار ہو جاؤ کہ تم لوگ کیسے عظیم گناہ میں مبتلا ہو، ہوشیار ہو جاؤ۔ دیکھو اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (سورۃ الفاتحہ: آیت، 5)
ترجمہ: (اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں اور فرمایا:
فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ اَنۡدَادًا وَّاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ(سورۃ البقرہ: آیت، 22)
ترجمہ: لہٰذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو۔ اور فرمایا:
وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا (سورۃ النساء: آیت، 36)
ترجمہ: عبادت کرو اللہ کی اور مت ٹھہراؤ اس کے ساتھ شریک۔
اور فرمایا:
قُلۡ اَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمۡلِكُ لَـكُمۡ ضَرًّا وَّلَا نَفۡعًا (سورۃ المائدة: آیت، 76)
ترجمہ: (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ:کیا تم اللہ کے سواء ایسی مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتی ہے اور نہ فائدہ پہنچانے کی
اور فرمایا:
وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَوَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ بِخَيۡرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ (سورۃ الانعام: آیت، 17)
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو خود اس کے سواء اسے دور کرنے والا کوئی نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہی ہے۔
اور فرمایا:
وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۔ (سورۃ التوبہ: آیت، 31)
ترجمہ: اور حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک اللہ تعالیٰ کی، نہیں کوئی قابل عبادت کے مگر وہی۔
الغرض: ہزاروں آیتیں ہیں جن سے یہ ثابت ہے کہ مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا چاہیے اور اسی سے استعانت و مدد، و طلبِ روزی، اولاد و صحتِ امراض، كرنا چاہیے، اور اس کے سواء کسی کو خواہ انبیاء کرام علیہم السلام، اولیائے کرامؒ، و قطبؒ ہوں، علمِ غیب حاصل نہیں کہ مصیبتوں کے وقت جب وہ پکارے جاوے تو وہ سنیں اور مدد کریں، اور ان کو ذرا بھی اختیار حاصل نہیں کہ کسی کو نفع و نقصان پہنچائیں۔
تعزیہ پرستوں، قبر پرستوں نے خالق و مخلوق کو برابر کر دیا، بلکہ مخلوق سے زیادہ ڈرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کی کچھ قدر نہیں پہچانتے۔
اور اگر فرضاً کوئی شخص تعزیہ وغیرہ بہ نیت پرستش و عبادت و تعظیم لغیر اللہ کی نہ بناوے بلکہ اپنے زعم فاسد میں ماتم سیدنا حسینؓ قرار دے یا صرف بنا بر رسم و رواج و طمع دنیاوی کے بناوے تب بھی گناہ کبیرہ ہونے سے خالی نہیں۔ اور بنا بر رسم و رواج کے تعزیہ بنانا یہ بھی معصیت میں داخل ہے، کیونکہ یہ فعل اس کا معين على الشرك ہے اور پابندی رسم و رواج کی در باب امور شرکیہ کے خود شرک ہے، اور وہ داخل ہے اس آیت کریمہ میں:
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّبِعُوۡا مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا بَلۡ نَـتَّبِعُ مَآ اَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا۔(سورۃ البقرہ: آیت، 170)
ترجمہ: اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں!ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔
پس تعزیہ پرستوں پر واجب ہے کہ تعزیہ بنانے اور اس کی پرستش کرنے سے توبہ کرے، اور عذاب آخرت اپنی گردن میں نہ لیں، اور جو آدمی بعد توبہ کرنے کے تعزیہ پرستی کے پھر مرتکب اس کا ہوا اور تعزیہ پرستی کرنے لگا، اس شخص کا وہی حکم ہے جو تصریحاً اوپر بیان ہوا اور وہ انہی صورتوں میں داخل ہوا (العياذ بالله)اور جو لوگ اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں ان کا تعزیہ پرستوں کے ساتھ اتحاد و محبت کرنا گناہ ہے، اور جائز نہیں کہ ان کے جلسے میں شریک ہوں، اور نہ ان کی دعوتیں کرے بلکہ ان کے اس فعل شنیع پر مزاحمت کریں، ورنہ انہی تعزیہ پرستوں کے ساتھ قیامت میں اٹھائے جائیں گے۔
سیدنا ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا مت ساتھ کر کسی کا سوائے مومن کے اور مت کھلا اپنا کھانا مگر پرہیزگار کو۔
یعنی بد کاروں کی دعوت نہ کرے، اور ان کی صحبت میں نہ بیٹھے، نہ ان کے ساتھ خلط ملط رکھے، ورنہ ان کی عادتیں اس میں بھی اثر کریں گی۔
علامہ خطابیؒ صاحب لکھتے ہیں کہ بد کاروں کی دعوت نہ کرے، کیونکہ حضور اکرمﷺ نے بدکاروں کے ساتھ رہنے، ان کے ساتھ میل جول رکھنے اور کھانے پینے کو اس واسطے منع فرمایا کہ ان لوگوں سے دوستی و محبت نہ ہو جائے ۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوگا تو دیکھ لیں کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔
یعنی سمجھ بوجھ کر دوستی کرے، ایسا نہ ہو کہ مشرک و بدعتی سے دوستی کرے پھر اس کے ساتھ آپ بھی جہنم میں ہو جائے۔
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو آدمی کسی قوم کو دوست رکھتا ہے وہ اسکے ساتھ قیامت میں اٹھایا جائے گا۔
سیدنا جریرؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور کریمﷺ سے سنا کہ جو شخص کسی قوم میں برے کام کیا کرتا ہو، اور قوم والے باوجود قدرت کے اسکو اور اس کے کام کو نہ بگاڑے تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب ان پر ان کی موت سے پہلے پہنچاتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ان مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مذکورہ بالا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بدعتیوں اور بدکاروں کے ساتھ محبت و دوستی، و کھانا پینا نہ رکھے اور نہ ان کے برے کاموں اور بدعتوں پر راضی ہو اور نہ ان کو شریک کرے ورنہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو گا۔
(فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی: صفحہ، 186)