فصل: ....[روافض کی کج فہمی]
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....[روافض کی کج فہمی]
[کج فہمی]:شیخ الاسلام مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بعض روافض کہتے ہیں :کہ﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔[التوبۃ۴۰]’’جب آپ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘کے الفاظ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ صاحب‘‘ رفیق اور ساتھی کو کہتے ہیں ۔ساتھی کبھی ایماندار بھی ہوسکتا ہے ‘ اور کبھی کافر بھی۔[یہ ضروری نہیں کہ وہ ایماندار ہو]۔جیسا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ اضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰہُمَا بَنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًاo کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُکُلَہَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْئًا وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَہْمَا نَہَرًاo وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًاOوَ دَخَلَ جَنَّتَۃٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھٰذِہٖٓ اَبَدًا﴾۔....آگے تک....﴿قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ [ثُمَّ سَوّٰیکَ رَجُلًا]﴾ (کہف ۳۲۔۳۷)
’’اور ان کے لیے ایک مثال بیان کیجیے، دو آدمی ہیں ، جن میں سے ایک کے لیے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے اور ہم نے ان دونوں کو کھجور کے درختوں سے گھیر دیا اور دونوں کے درمیان کچھ کھیتی رکھی۔دونوں باغوں نے اپنا پھل دیا اور اس سے کچھ کمی نہ کی اور ہم نے دونوں کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔اور اس کے لیے بہت سا پھل تھاتو اس نے اپنے ساتھی سے، جب اس سے باتیں کررہا تھا، کہا میں تجھ سے مال میں زیادہ اور نفری کے لحاظ سے زیادہ باعزت ہوں ۔اور وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ کبھی برباد ہوگا۔‘‘........’’اس کے ساتھی نے، جب کہ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، اس سے کہا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھرنطفہ کے ایک قطرے سے،[پھر تجھے ٹھیک ٹھاک آدمی کردیا]۔‘‘
[جواب]: ان سے کہا جائے گا: یہ بات معلوم شدہ ہے کہ : ’’صاحب کا لفظ ساتھی اور دوسروں سب کو شامل ہے۔ [اس آیت میں صاحب کا لفظ مطلق ساتھی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے]۔محض اس لفظ کے استعمال میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ کوئی دوست ہو یا دشمن ؛ یا پھر کافر ہو یا مؤمن ۔یہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب اس کے ساتھ وصف کو بھی ملا کر بیان کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وابن السبیل﴾ یہاں پر صاحب کا لفظ بیوی اور رفیق سفر دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے؛ اس میں کافر اور مؤمن کی کوئی تمیز نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی اس فرق کی کوئی دلیل موجود ہے۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی ٭مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ [النجم۱۔۲]
’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! تمھارا ساتھی نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ﴾ [التکویر۲۲]
’’اور تمھارا ساتھی ہرگز کوئی دیوانہ نہیں ہے۔‘‘
یہاں پر ساتھی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اس لیے کہ آپ نے بشر کی مصاحبت کی تھی۔ بیشک جب آپ لوگوں کے ساتھی تھے؛ اور آپ کے اور لوگوں کی ما بین مشارکت تھی ؛ تو جو وحی آپ لیکر آتے اس کا نقل کرنا ممکن ہوا۔ اورایسے ہی آپ کی جو بات سنتے اس کے معانی سمجھ سکتے۔ بخلاف فرشتہ کے جو کہ ان کے ساتھ نہیں رہا؛ اس لیے کہ لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ براہ راست اس سے تعلیمات اخذ کریں ۔
نیز یہ آیت اس بیان کو بھی متضمن ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کی جنس سے ایک بشر ہیں ۔ اور اس سے بھی خاص بات یہ ہے کہ آپ عربی ہیں ‘ اور اسی قوم کی زبان میں مبعوث ہوئے ہیں ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ ﴾ [التوبۃ ۱۲۸]
’’(لوگو)تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾ [ابراہیم۴]
’’ ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے لیے بیان کر دے ۔‘‘
جب آپ ان کی صحبت میں رہے تھے تو ان لوگوں کی زبان بھی سیکھی تھی۔اور آپ کے لیے یہ ممکن تھا کہ ان لوگوں کی زبان میں ان سے بات کرسکیں ۔تو اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں کی طرف ان کی زبان میں ہی رسول بناکر بھیجا تا کہ لوگ آپ کی بات سمجھ سکیں ۔پس اس لحاظ سے یہاں پر صحبت کا ذکر کرنا ان پر مہربانی اور احسان کے باب سے تھا۔ بخلاف اس کے کہ صحبت کی جو اضافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔ ’’گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[سبق تخریجہ]
جیسا کہ اس حدیث مبارک میں ہے: ’’ اے لوگو! کیا تم میرے لیے میری ساتھی کو نہیں چھوڑو گے۔‘‘اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب میں یا مسلمانوں کے خطاب میں صحبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مضاف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موالات اور دوستی کی صحبت کو متضمن ہے۔یہ دوستی اور موالات آپ پر ایمان لائے بغیر ممکن نہیں ۔پس صحابی کے لفظ کا اطلاق اس انسان پر نہیں ہوسکتا جو سفر میں آپ کا ساتھی بنا ہو اور وہ حالت کفر پر ہو [جیساکہ عبداللہ بن اریقط]۔
قرآن آپ کے بارے میں کہتا ہے:﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے ساتھی کے ساتھ ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ ساتھ نصرت اور تائید کو متضمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دشمن پر اور ان حضرات کے دشمن ہر کافر پر کامیابی عطافرمائیں گے۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نبی کے ساتھ بھی ہو اور اس کے دشمن کے ساتھ بھی۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے دشمن کے ساتھ ہوتا تو یہ بات موجب حزن و ملال تھی جس کی وجہ سے اطمینان و سکون ختم ہوجاتا۔پس اس سے معلوم ہوا کہ ’’صَاحِبِہٖ ‘‘ کا لفظ محبت اور دوستی کی صحبت کو متضمن ہے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کا ایمان لازم آتاہے۔
٭ ایسے ہی یہ لفظ : ﴿لاتَخْزَنْ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دوست تھے؛ اس لیے کہ آپ ان کے دشمن سے خوف زدہ تھے۔اسی لیے آپ سے کہا گیا:
﴿لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔ ’’گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوتے تو پھر صرف اسی صورت میں غمگین ہوتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قہر و جلال کے سامنے مغلوب ہوجاتے ؛ ورنہ نہیں ۔تو پھر ہر گز یہ بھی نہ کہا جاتا:
﴿لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔ ’’گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی کے ساتھ ہونا ایسی بات ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی پہنچتی ہے۔اور آپ کے دشمن کے ساتھ ہونا ایسا معاملہ ہے جس سے آپ کو تکلیف متوقع ہوسکتی تھی۔پس یہ بات ممتنع ہے کہ اللہ ایک ہی وقت میں آپ کے ساتھ بھی اور آپ کے دشمن کے ساتھ بھی۔خصوصاً جب کہ یہ کہا جارہا ہے : ﴿ لَاتَخْزَنْ ﴾پھر یہ فرمان :
﴿ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾ [التوبۃ۴۰]
’’اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا ،دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی مدد اس صورت میں نہیں ہوسکتی تھی کہ آپ کے دشمن کو آپ کے ساتھ ملا دیا جائے۔نصرت و مدد تو اسی صورت میں تھی کہ آپ کے دوست کو آپ کے ساتھ ملایا جائے اور دشمن سے نجات عطا کی جائے۔ دشمن پر آپ کی مدد و نصرت اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ دشمن مسلسل آپ کے ساتھ لگارہے۔دن اوررات میں کسی وقت بھی آپ سے جدا نہ ہوتا ہے ؛ خصوصاً جب کہ آپ اتنے اہم ترین اور خطرناک سفر میں تھے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہ الفاظ: ﴿ثَانِیَ اثْنَیْنِ﴾: دو میں سے دوسرا۔ ﴿ اَخْرَجَہ﴾کی ضمیر سے حال واقع ہورہا ہے ۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ لوگوں نے آپ کو نکالا اس حال میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو میں سے ایک تھے۔ آپ کو دو میں سے ایک کی صفت سے موصوف کیا گیاہے۔پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں اکٹھے نکالے گئے تھے۔ اس لیے کہ یہ ممکن نہ ہوسکتا کہ دومیں سے دوسرا نکلے؛ مگر ان کے ساتھ کوئی دوسرا نہ ہو۔اس لیے کہ صرف اگر آپ کونکالا گیا ہوتا توپھر دو میں سے دوسرے کی بات کرنا مناسب نہ ہوتی۔پس ان دونوں ہستیوں کو اکٹھے ہی نکالا گیا تھا ۔یہاں پر لفظ مع کا قرینہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔پس اس سے لازم آتا ہے کہ دونوں اکٹھے نکلے ہوں ۔
یہی حقیقت واقع ہے۔اس لیے کہ کفار نے تمام مہاجرین کونکالاتھا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا﴾ (الحشر:۸)
’’(فئے کا مال)ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌنِ٭ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ﴾ [الحج ۳۹۔ ۴۰]
’’جن(مسلمانوں )سے (کافر)جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے۔یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے :
﴿اِِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنْ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰی اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ﴾ [الممتحنۃ ۹]
’’اللہ تعالی تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکال دیا اور دیس سے نکال دینے والوں کی مدد کی ۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ : مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو مکہ میں ایمان کے ساتھ قیام کرنے سے روک دیا تھا۔اوران لوگوں کے لیے ایمان کو ترک کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔پس ان لوگوں کوان کے ایمان کی وجہ سے دیس سے نکالا گیا۔ پس یہ دلیل ہے کہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی کوبھی ایسے ہی نکالا تھا جیسے آپ کو نکالا تھا۔کفار نے صرف ان ہی لوگوں کو نکالا تھا جن کے ساتھ ان کی دشمنی تھی؛اپنے کافروں میں سے کسی ایک کو بھی انہوں نے نہیں نکالا ۔ پس اس سے بھی ظاہر ہوگیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت صحبت ِمحبت و ایمان موالات و دوستی تھی۔کفر کی صحبت نہیں تھی۔
٭ اگر اعتراض کرنے والا کہے کہ: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ آپ ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موافقت رکھتے تھے۔اوراس موافقت کا اظہار وہ انسان بھی کرسکتا ہے جو باطن میں منافق ہو؛ مگروہ بھی اصحاب کے لفظ میں داخل ہوتا ہے۔جیسا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض منافقین کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’ نہیں ؛ لوگ یہ کہتے پھریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو قتل کرتا ہے ۔‘‘
پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لفظ اصحاب میں بعض وہ لوگ بھی داخل تھے جو اصل میں منافق تھے۔
٭ اس سے کہا جائے گا کہ : ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مہاجرین میں کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سچے اہل ایمان کی نسبت منافقین بہت کم تعداد میں تھے۔اور ان میں سے بھی اکثر کا حال اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قرآن نازل کیا۔اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر ایک کو شخصی طور پر نہیں جانتے تھے ؛ مگرجن لوگوں کا ان کے ساتھ میل جول تھا وہ جانتے تھے۔
کسی انسان کے باطن میں اہل ایمان ‘یا کافر ‘ یا یہودی اور عیسائی یا پھر مشرک ہونے کا علم طویل صحبت کی صورت میں کسی پر مخفی نہیں رہتا۔اس لیے کہ کبھی بھی کوئی انسان اپنی اندر کی بات نہیں چھپاتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کے آثار اور زبان کی بول چال سے اسے ظاہر کردیتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَلَوْ نَشَائُ لَاَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ [محمد۳۰]
’’اور اگر ہم چاہیں توآپ کو وہ لوگ دکھادیں ،سویقیناً آپ انھیں ان کی نشانی سے پہچان لیں گے: اورآپ انھیں بات کے انداز سے ضرور ہی پہچان لیں گے‘۔‘‘
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفر چھپانے والا اپنے ٹیڑھے اور کمزورقول کی وجہ سے پہچانا جاتاہے۔جب کہ چہرہ کے آثار سے کبھی کوئی پہچان سکتا ہے اور کبھی نہیں ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّاللّٰہُاَعْلَمُ بِاِِیْمَانِہِنَّ فَاِِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِِلَی الْکُفَّارِ﴾ [الممتحنۃ ۱۰]
’’اے ایمان والو!جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو؛دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔‘‘
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں جو صحابہ معروف و مذکور ہیں ‘ اور جن کی دینداری کی وجہ سے مسلمان ان کی تعظیم کرتے ہیں ؛ یہ تمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے سچے مومن تھے۔الحمد للہ کہ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی منافق کی تعظیم نہیں کی۔کسی انسان کے ایمان کا بھی ایسے ہی پتہ چل جاتا ہے جیسے اس باقی تمام احوال قلب دشمنی اور دوستی ؛ غم و خوشی ؛ بھوک و پیاس اور دوسرے امور کا پتہ چل جاتا ہے۔اس لیے کہ ان امور کے کچھ ظاہری لوازم ہیں ۔ اور ظاہری امور باطنی امور کو مستلزم ہوتے ہیں ۔یہ بات وہ تمام لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اس کا تجربہ کیا ہواور اسے آزما یا ہو۔
٭ [اولاً]:ہم اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ‘ ابن عباس‘ انس بن مالک ‘ابو سعید خدری ؛ اور جابر رضی اللہ عنہم اور ان کے امثال دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ایمان رکھنے والے؛آپ کی تعظیم کرنے والے اور آپ سے سچی محبت کرنے والے تھے۔ ان میں کوئی بھی منافق نہیں تھا۔ تو پھر ان خلفاء راشدین کے یہ احوال کیونکر معلوم نہیں ہوسکتے تھے جن کے ایمان بالرسول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اورنصرت کی خبریں زمین کے مشرق ومغرب میں معروف ہیں ۔
٭ ایسی باتوں کو تو معروف ہوناچاہیے۔منافقین کا وجود ان پاکباز لوگوں کے ایمان میں شک و شبہ کا موجب و سبب نہیں بن سکتا جنہیں امت میں صداقت و امانت کے ساتھ قبولیت اور شہرت حاصل ہے۔بلکہ ہم ضروری طور پر سعید ابن مسیب ‘حسن بصری ‘ علقمہ ‘ اسود‘ مالک ‘شافعی ‘ احمد بن حنبل‘فضیل اور جنید رحمہم اللہ اور جو لوگ ان سے بھی کم مرتبہ کے ہیں ‘ ان کا مسلمان اورصاحب ایمان ہونا جانتے ہیں ۔تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اہل ایمان ہونا کیونکر معلوم نہیں ہوسکتا۔ اور ان بہت سارے لوگوں کا صاحب ایمان ہونا بھی جانتے ہیں جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔
٭ اس موضوع پر کئی جگہ ہم مفصل بات کرچکے ہیں ۔اورہم نے یہ بیان کیا ہے کہ خبر دینے میں سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ جیساکہ کسی کا جھوٹی نبوت کا دعوی وغیرہ ؛ ایسے امور ہیں جو کئی اسباب کی بنا پر اضطراری طور پر معلوم ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے اظہار کاتعلق بھی اسی باب سے ہے؛ کوئی انسان سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا۔
٭ ثانیاً: نیز ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے علماء کرام نے لکھا ہے :ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں ہوسکا کہ مہاجرین میں ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اس لیے کہ مہاجرین نے اس وقت اپنے اختیار سے ہجرت کی تھی جب مکہ میں ان پر ایمان لانے کی پاداش میں تکالیف ڈھائی گئیں ۔اس وقت مکہ میں کوئی اپنے اختیار کے بغیر اسلام قبول نہیں کرتا تھا۔بلکہ وہاں مشکلات اور تکلیف کے احتمال کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ایمان کا اظہار کرتا ہو اورا س کے دل میں کفر پوشیدہ ہو۔خصوصاً جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہجرت تک کرنا پڑی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت کی تووہاں پر آپ کوقوت وطاقت حاصل ہوگئی۔جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا؛ اورانصاری قبائل میں اسلام پھیل گیا تو بعض وہ لوگ جو کہ صدق دل سے ایمان نہیں لائے تھے وہ اپنی قوم کے ساتھ موافقت کے لیے اسلام کا اظہار کرنے لگے۔اس لیے کہ اہل ایمان و قوت و سطوت حاصل ہوگئی تھی۔ اور ان کے ہاتھ میں اب تلوار بھی آگئی تھی ؛اوریہ کفر کی وجہ سے لوگوں سے جہاد بھی کرتے تھے۔
٭ ثالثاً: عام طور پر بنی آدم کے اہل خرد و دانش اور اصحاب عقل لوگ جب کچھ عرصہ تک دوسروں کے ساتھ رہتے ہیں تو انہیں دوسرے انسان کی محبت اور دوستی یا نفرت اور دشمنی کا پتہ چل جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیرہ برس تک ان کی صحبت میں رہے۔توکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے دوست ہیں یا دشمن ؟اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک دار خوف میں اکٹھے بھی ہیں ۔کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح نہیں ہے؟
٭ پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : تمام لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے لیکر وقت وفات تک آپ کا سب سے بڑا دوست اورآزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں ۔آپ نے دوسرے لوگوں کو بھی یہ دعوت پیش کی حتی کہ وہ بھی ایمان لے آئے۔ آپ نے کمزور مسلمانوں کومظالم سے نجات دلانے کے لیے اپنا مال خرچ کیا۔جیسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ نیز آپ موسم حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے اور مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ صبح یا شام کو آپ کے گھر تشریف لاتے۔آپ کو کفار نے ایمان لانے پر مشق ستم بھی بنایا ۔حتی کہ آپ ہجرت کی غرض سے نکلے تو راستہ میں عرب امراء میں سے ایک امیر ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ اپنے علاقہ کا بڑا انسان تھا۔ اس نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے ؟........یہ پوری روایت پہلے گزر چکی ہے۔
توکیا پھر جس انسان کے پاس ادنیٰ سی عقل بھی ہو؛ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دوستی ومحبت جانثاری اور فدائیت میں معمولی سا شک بھی کرسکتا ہے؟حالانکہ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دوستی کی وجہ سے آپ نے اپنی قوم اور خاندانی سے دشمنی مول لے رکھی تھی۔اوران کی طرف سے ملنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے اور اہل ایمان بھائیوں میں سے ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے۔
٭ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی دوسرے سے دوستی تو رکھتے ہیں ‘مگر مشکلات اور امتحان کے وقت میں ؛ لوگوں کی دشمنی مول لیکر ان کاساتھ نہیں دیتے۔ اورنہ ہی کسی ایسی چیز کااظہار کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دشمن بن جائیں ۔اس کے برعکس جب اس طرح سے موافقت اور اتباع کااظہار بھی کرے جس کی وجہ سے لوگ دشمن بن جائیں اور ان کی دشمنی پر صبربھی کرے؛ اور پھر اپنی اس موافقت پر اپنا مال بھی خرچ کرے؛ اوراس مال خرچ کرنے کا کوئی دنیاوی سبب بھی موجود نہ ہو۔اس لیے کہ آپ کے مال خرچ کرنے سے مکہ میں آپ کو کوئی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہوا؛ نہ ہی مال ملا‘ نہ ہی مقام و مرتبہ ؛ نہ ہی کوئی دوسری چیز۔ بلکہ دنیاوی چیزوں میں سے آپ کو آزمائش و امتحان اور تکلیف و شدائد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا۔
ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کوئی انسان کسی دوسرے کے ساتھ اپنی موافقت کااظہار کسی دنیاوی یا دوسری غرض کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اس لیے بھی موافقت کااظہار کرسکتا ہے تاکہ حیلہ کرکے اور چال چل کر اسے قتل کردے۔ [یا پھر کوئی تکلیف پہنچائے]۔ مکہ مکرمہ میں ان جملہ امور میں سے کوئی ایک بھی بات نہیں ہوئی۔اس لیے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیا کرتے تھے وہ ایمان لانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی سب سے بڑھ کر دشمنی رکھنے والے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ان لوگوں سے کوئی ایسا تعلق بھی ہر گزنہیں تھا جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے۔ اور نہ ہی اہل مکہ کو ایسے کام کرنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کوئی ضرورت تھی۔ بلکہ وہ خود اس بد بختی پر پوری طرح سے قدرت رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات یا دن میں یاخلوت یا جلوت میں اجتماعی یا انفرادی حالت میں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔حالانکہ-معاذاللہ ؛ [جیسے رافضی خباثت بکتے ہیں ]- اگر آپ چاہتے تو زہر دینا یا قتل کرنا یا کوئی اور چال چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دینا حضرت کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔
٭ مزید برآں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت اور تائید حاصل تھی؛ اس کا تقاضا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی برائی کا ارادہ کرنے والے انسان سے آپ کو مطلع کردیتے ؛اگر کسی کا کوئی برا ارادہ ہوتا۔جیسا کہ:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے ابی عزہ کے ارادہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کر دیا تھا جب وہ ایمان کا اظہار کرتے ہوئے برے ارادہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیاتھا۔اتنا تو ایک ہی مجلس میں ہوگیا۔
۲۔ایسے ہی حنین کے موقع پر جب مسلمان پسپا ہوگئے تو حجبی برے ارادہ سے آگے بڑھا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دیدی۔
۳۔فتح مکہ کے موقع پر عمیر بن وہب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اچانک حملہ کرنا چاہتا تھا اوروہ اپنے آپ کومسلمان ظاہر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس سے آگاہ کردیا۔
۴۔غزوہ تبوک سے واپسی پر جب منافقین نے چاہا کہ آپ کی اونٹنی کی مہار کاٹ کر آپ پر حملہ کردیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے ارادہ سے آگاہ کردیا ‘[اور ان لوگوں کے نام بھی بتادیے ]۔
٭ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سفر و حضرت میں دن و رات ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ خلوت وجلوت میں آپ کے ساتھی تھے۔بدر کے دن آپ اکیلے ہی جھونپڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کررہے تھے۔اگر آپ کے دل میں ذرا بھر بھی کوئی میل ہوتی تو پھر کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر نہ ہوتی ۔ جس انسان کوادنی ذہانت بھی حاصل ہو‘وہ اس سے بہت کم وقت کی ہمراہی میں ایسی باتوں کاادراک کرلیتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایسا گمان صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو لوگوں میں سب سے بڑا جاہل اورسب سے بڑا بیوقوف ہو‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سب سے بڑا گستاخی کرنے والا اور عیب لگانے والا ہو ۔اس سے بڑا کوئی طعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نہیں ہوسکتا۔بھلے ایسا کہنے والا جاہل اور بیوقوف انسان محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویدار ہی کیوں نہ ہو۔اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے : ’’ عقلمند دشمن جاہل و بیوقوف دوست سے بہتر ہوتاہے ۔‘‘
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے محبین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تعلق بنی ہاشم اوردوسرے قبائل سے تھا شیعہ ہوگئے تھے۔ان لوگوں نے پھر خود دیکھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سب سے بڑی گستاخی کرنے والے رافضی ہی ہیں ۔اس لیے کہ رافضیت کی اساس زنادقہ نے رکھی ہے جو کہ دین اسلام کو ختم کرنااور رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جرح وقدح کرنا چاہتے تھے ۔ جیسا کہ بہت سارے علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔
٭ رافضیت کی ابتداء عبد اللہ بن سباء زندیق سے ہوئی ۔ سو اس نے اسلام کا اظہار کیا ۔ اور یہودیت کو چھپائے رکھا۔ اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی ۔ جس طرح پولس عیسائی نے [جو کہ یہودی تھا]عیسائی مذہب کو مٹانے کی کوشش کی۔‘‘[مجموع الفتاوی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ رافضیت کی اصل -جڑ- منافقین اور زندیقوں سے نکلتی ہے ۔ بیشک اسے ابن سباء زندیق نے ایجاد کیا ؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ، ان کی امامت اور اس کے بارے میں واضح نصوص ہونے کے دعوی سے غلو کا اظہار کرنے لگا ، اور ان کے معصوم ہونے کا دعوی کیا ۔ اس لیے جب اس کی بنیاد ہی نفاق پر تھی تو بعض سلف رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے ، اور ان سے عداوت نفاق ہے ، ،۔ اور بنی ہاشم سے محبت ایمان ہے ، اور ان سے بغض نفاق ہے۔‘‘مجموع الفتاوی : ۲۸؍ ۴۸۳۔ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ شرح عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں : ’’بیشک رافضیت کی بنیادیں ایک منافق زندیق نے رکھی ہیں ۔ جس کا مقصد دین اسلام کو ختم کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر تنقید کرناتھا۔ جیسا کہ علماء کرام نے بیان کیا ہے ۔ اس لیے کہ جب عبد اللہ بن سباء نے اسلام کا اظہار کیا ؛ تو اپنی خباثت اور مکر کی بنا پر اس کاارادہ دین اسلام ختم کرنے کا تھا۔ جیسے کہ پولس - یہودی- نے عیسائیوں کے ساتھ کیا ۔ اس نے اپنا عبادت گزار ہونا ظاہر کیا ۔ پھر لوگو ں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے لگا، حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی سازش کی ، جس کے نتیجہ میں آپ قتل ہوئے ....‘‘۔ شرح العقیدۃ الطحاویۃ (ص ۵۷۸)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے طلب کیا تھا تاکہ اسے بہت سخت سزا دیں ۔ لیکن یہ -بد بخت - کوّے سے زیادہ چوکنا رہتا تھا۔ وہ وہاں سے بھا گ گیا اور وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا ۔ اس کا بھاگنا اس خطرناک سازش کو تر ک کرنا اور شکست تسلیم کرنا نہیں تھا ، بلکہ وہ اپنے ان افکار کو مسلمانوں کو گمراہ کرنے ، اور فتنہ پیدا کرنے ، او ر اپنے پلان کو انجام تک پہنچانے کے لیے تھا تاکہ وہ اس کے لیے یہ ملامت و عار اور عذاب نار قیامت تک باقی رہے۔‘‘رافضیت کی بنیادعبد اللہ بن سباء یہودی کے ہاتھوں رکھے جانے کا بڑے شیعہ علماء اور مؤرخین نے(]
اس نے اپنے آپ کو ایک عابد و زاہد کے طور پر ظاہر کیا ۔ لوگوں میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا اظہار کرنے لگا۔یہاں تک کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ بپاکرنے اور آپ کوقتل کروانے میں کردار ادا کیا۔ پھر اس کے بعد کوفہ چلا آیا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلوکا اظہار کرنے لگا۔ اور آپ کے امام منصوص ہونے کا دعوی کیا۔تاکہ اس طرح سے وہ اپنی غرض تک پہنچ جائے۔ یہ باتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچیں ۔ آپ نے اسے بلایا تھا تاکہ اسے قتل کیا جاسکے مگروہ قرقسیا کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے قصے بڑے معروف ہیں جنہیں کئی علماء نے ذکر کیا ہے۔
٭ جس انسان کو دین اسلام کے متعلق ادنیٰ سا علم بھی حاصل ہو وہ جانتا ہے کہ رافضی مذہب دین اسلام کے متناقض ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ زندیق لوگ جو دین اسلام میں فساد پیدا کرنا چاہتے تھے وہ اپنے پیروکاروں کوشیعیت کے اظہار کاحکم دیتے تھے۔اوروہ اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے شیعیت کا راستہ ہی استعمال کرتے تھے۔ جیسا کہ ’’بلاغ اکبر ‘‘اور ناموس اعظم کے مصنف نے ذکر کیا ہے۔
[باطنیہ کا شیعہ مذہب کے ذریعہ پھیلاؤ]:
٭ علامہ قاضی ابوبکر بن طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تمام باطنیہ ‘ان کے ہر مصنف اورقلم نگار کااس گمراہ کن دعوت کی نشرو اشاعت کے اسلوب وترتیب پر اتفاق
[اعتراف کیا ہے ۔ الکشی ایک مشہور شیعہ مؤرخ اور حالات ِ زندگی کے ماہر ہیں ، جس کا شمار چوتھی صدی کے علماء میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مذہب کے بعض علماء سے یہ نص نقل کرتا ہے ؛ وہ کہتا ہے:’’ بعض اہل علم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ : بیشک عبد اللہ بن سباء یہودی تھا؛ اس نے اسلام کا اظہار کیا ، اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرنے لگا اور جب وہ یہودی تھا تویوشع بن نون کے متعلق غلو کرتے ہوئے کہا کرتا تھا:’’ وہ موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ‘‘ اور اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا۔ یہی وہ پہلا انسان نے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا قول ایجاد کیا۔اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کیا ۔ اور ان کے مخالفین کا پردہ چاک کیا ، اور انہیں کافر قراردیا ۔ سواس بنیاد پر شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ :’’ شیعیت اور رافضیت کی اصل یہودیت سے مأخوذ ہے۔‘‘ (رجال الکشی ص: ۷۱) یہ عبارت رافضی علماء کے ہاں مشہور ہے ، جسے ان کے علماء نقل کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کی معتمد اور ثقہ کتابوں میں سے کئی ایک میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ ۔شیعہ عالم۔ اشعری قمی نے ’’ المقالات و الفرق (ص۲۱۔۲۲)میں سے ذکر کیا ہے ، اور نو بختی نے ’’ فرق الشیعۃ(ص ۲۲) میں ذکر کیا ہے ، اور مامقانی نے ’’ تنقیح المقال (۲؍ ۱۸۴)‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔ یہ رافضیوں کے بڑے علماء اور مؤرخین ابن سباء کا یہودی ہونا تسلیم کرتے ہیں ۔ اور یہ بات مانتے ہیں کہ جب تک وہ یہودی تھا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے وصیِ موسیٰ علیہ السلام ہونے کا کہا کرتا تھا۔ اور اپنے اسلام کے اظہار کر دور میں یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ۔ اور یہ کہ یہی وہ پہلاانسان ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کا نعرہ بلند کیا اور ان کے مخالفین سے برأت کا اظہارکیا ۔پھر اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ :’’ اسی وجہ سے رافضیت کو یہودیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔‘‘ رافضیوں کے ان بڑے علماء نے جس بات کا اعتراف کیا ہے ، ہم اسے یہاں پر درج کررہے ہیں ۔[دراوی جی ]]
ہے کہ ان کے داعی کا اپنے مذہب کی نجاست؛جو کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے ادیان اور شرائع مطہرہ کے برعکس ایک دین ہے؛ کی طرف دعوت دینے کا طریق کار یہ ہے کہ : داعی کو چاہیے کہ لوگوں کو دعوت دیتے وقت ان کے احوال اور مذہب کا استعمال کریں ۔ان کی اپنے ہر داعی کو جو نصیحت ہوتی ہے وہ میں ان کے ہی الفاظ میں بغیر کسی کمی و بیشی کے نقل کرتا ہوں ؛ تاکہ ان کے کفر اور تمام انبیاء و مرسلین کے دین اور تمام ملتوں سے ان کی نفرت اور حسد کااندازہ ہوسکے۔یہ لوگ اپنے داعی سے کہتے ہیں :
’’ تم پر واجب ہوتا ہے کہ اگر جس کو دعوت دے رہے ہو ؛ اسے مسلمان پاؤ تو اس کے سامنے اپنا دین و شعار شیعیت ظاہر کرو ۔اور اس کی شکار کرنے کا پہلا حربہ سلف کے ظلم کی صورت میں استعمال کرو؛کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ان کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنایا ؛اوراس کے ساتھ ہی بنی عدی ‘ بنی تیم ‘ بنی امیہ اور بنی عباس سے برأت کااظہارکرو۔اور تشبیہ و تجسیم ؛ بداء و تناسخ اوررجعت کا عقیدہ ظاہر کرو۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرو کہ وہ علم الغیب جانتے ہیں ؛اورکائنات کی تخلیق کا کام آپ کے سپرد ہے۔اور اس طرح کے دیگر شیعہ کے عجیب و غریب عقائد اور جہالتوں کااظہار کرو۔اس طریقہ سے لوگ بہت جلد آپ کی دعوت قبول کریں گے۔یہاں تک کہ جب اپنے مقصد میں اور اپنے بعدآنے والے اپنے ثقہ لوگوں کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوجاؤ ؛ تو پھر انہیں تدریجاً چیزوں کے حقائق کی طرف لیکر جاؤ۔اور ایسا نہ کرنا جیسے مسیح نے اپنی ناموس میں تورات اور یوم السبت کے عقیدہ کو جھٹلانے میں جلدی کی۔پھراسی جلد بازی میں وہ حد سے نکل گیا تو وہ حادثہ پیش آیا جو سب کے سامنے ہے۔ یعنی کہ بنی اسرائیل نے آپ کو جھٹلانے کے بعد قتل کر دیا ۔اور اس کے دین ومذہب کو رد کردیا۔اوروہ لوگ متفرق ہوکر بٹ گئے۔جب آپ محسوس کریں کہ بعض شیعہ آپ کی دعوت پر کان دھرنے لگے ہیں ؛اور اسے ماننے لگے ہیں ؛ تو پھر اسے مثالب علی اور اولاد علی کی راہ پر لاکھڑا کرو۔اور اسے بتاؤ کہ حق کیا ہے ؟اورحق کس کے لیے ہے؟ اور اہل ملت محمدیہ اور دوسرے انبیاء کے تمام امور کو باطل بتاؤ۔اور جس کسی کو صابیء پاؤ تو اس کو پھنسانے کے لیے ستاروں کی تعظیم کے راستے سے داخل ہوجاؤ۔بیشک یہ ہمارا دین ہے؛اورہمارے مذہب کے اکثر معاملات پہلے وار پر منحصر ہوتے ہیں ۔ اور اسے کواکب کی تعظیم کی راستہ سے بہت زیادہ قریب لانے میں مدد ملے گی۔اور جس کسی کو مجوسی پاؤ توآپ اس کے ساتھ اصل میں متفق ہیں ۔چوتھے درجہ میں آگ اور نور ؛اور شمس و قمر کی تعظیم آتی ہے۔ پھر اسے وہی پرانی کہانی سناؤ۔ او راسے بتاؤ کویہ نہر اسی کی طرف سے ہے جسے وہ جانتے ہیں ۔اور ان کے یقین کے مطابق ثالث مکنون اور ظلمت مکتوب وہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صابی تمام امتوں سے بڑھ کر ہمارے قریب؛ اور ہمارے محبوب ہیں ۔اوراگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر اس کی جہالت کی وجہ سے اس پر تنقید کرو۔‘‘
اور کہتے ہیں : اگر آپ کو کوئی یہودی مل جائے توپھر اس کے سامنے انتظار مسیح کا راستہ اختیار کرو۔ اور کہو کہ یہی وہ مہدی بھی ہے جس کا انتظار مسلمان لوگ کررہے ہیں ۔اور اس کے سامنے یوم السبت کی تعظیم کرو؛ اور اس طرح کے حیلوں سے اسے اپنے قریب لاؤ۔ اور اسے یہ بتاؤ کووہ ممثول کے متعلق ان کی رہنمائی کرے گااور ممثول ساتویں منتظر کے متعلق ان کی رہنمائی کرے گا۔ اس سے ان کی مراد محمد بن اسماعیل بن جعفر ہوتے ہیں ۔ اورکہتے ہیں : یہ دور اسی کا دور ہے ‘اوروہی مسیح منتظر ہے۔وہی مہدی بھی ہے؛ اس کی معرفت حاصل ہو جانے پر تمام اعمال سے راحت مل جاتی ہے۔ اور تکلیفات ترک کردی جاتی ہیں ۔جیسا کہ ہفتہ کے دن انہیں آرام کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔اور یوم سبت میں راحت وآرام ساتویں منتظر کے دور میں تکلیفات اورعبادات سے راحت پر دلالت کرتی ہے۔ اوران کے سامنے نصاری اور جاہل مسلمانوں پرتنقید کرکے ان کی قربت حاصل کریں ؛ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے ؛ اور ان کا کوئی باپ نہیں ۔ اور ان کے دل میں یہ عقیدہ مضبوط کرو کہ یوسف نجار ہی آپ کا والد ہے۔ اورمریم ان کی ماں ہیں ۔اور یوسف نجار ان کے ساتھ ویسے ہی کرتا تھا جیسے مرد خواتین کے ساتھ کرتے ہیں ۔اور اس طرح کی دیگر باتیں بھی کریں ؛ زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ یہ لوگ تمہاری اتباع کرنے لگ جائیں گے۔‘‘
اورکہتے ہیں : اگر آپ کو کوئی نصرانی مل جائے ؛ تو اس کے سامنے یہودیوں اور مسلمانوں دونوں پر طعن و تشنیع کرو۔اور ثالوث کے متعلق ان کے عقیدہ کو صحیح بتاؤ۔اورکہوکہ : باپ ؛ بیٹا؛ اور روح القدس یہ تینوں ٹھیک ہیں ۔ اور ان کے سامنے صلیب کی تعظیم کرو‘اور اسے تأویل سکھاؤ۔
اور اگرکوئی دو خداؤں کا ماننے والا مل جائے تو ان کے سامنے ایسی باتیں کرو جنہیں وہ جانتے ہیں ۔اس کے سامنے امتزاج و اختلاط اور درجہ سادسہ میں اور اس کے بعد بلاغ کی باتیں کرو۔ اور بتاؤ کہ روشنی اور اندھیرا کیسے آپس میں ملے۔ اس طرح آپ اس پر قابو پالیں گے۔ جب آپ اس میں کچھ مانوسی محسوس کریں تو پھر تمام پردے ختم کردیں ۔
اور جب کبھی آپ کاکسی فلسفی سے واسطہ پڑ جائے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلاسفہ ہی ہمارے لیے بنیاد اور اہم کردار ہیں ۔ ہم اور فلاسفہ نوامیس انبیاء کے ابطال اورقدم العالم کے عقیدہ پر یک زبان ہیں ۔اگران کی بعض باتیں ہماے خلاف نہ ہوتیں ‘ جیسا کہ وہ کہتے ہیں : اس عالم کا کوئی مدبر ہے ‘ جسے وہ نہیں جانتے ۔[ہمارے مابین کوئی بڑا اختلاف تونہیں تھا]۔ اگروہ مدبر عالم کی نفی پر آپ کے ساتھ اتفاق کرلیں ‘ تو ہمارے اور ان کے مابین موجود شبہ بھی زائل ہوجاتا ہے ۔
اور اگر آپ کو کوئی ثنوی(دو معبودوں کا ماننے والا) مل جائے تو پھر آپ کو مبارک ہو؛ یقیناً آپ کامیاب ہوگئے اور اب اس کے ساتھ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔آپ اس کے ساتھ توحید کے ابطال پر گفتگوکاآغاز کریں ۔اور سابق و تالی کا عقیدہ بیان کریں ۔اور یہ تمام چیزیں اس ترتیب کے ساتھ بیان کریں جو کہ بلاغ کے درجہ ثانیہ وثالثہ میں تمہارے لیے درج کی گئی ہیں ۔
’’اس کا طریقہ ہم بیان کرتے ہیں : آپ ان سے انتہائی پختہ عہد و پیمان لیں ؛ اور پکی قسمیں اٹھوائیں ۔پختہ عہد تمہارے لیے جنت اور مضبوط قلعہ ہے۔اور اپنے ماننے والوں پر ان اشیاء سے حملہ نہ کردیں جنہیں وہ برا سمجھتے ہوں ؛ تاکہ آپ انہیں اعلی مراتب تک لے جائیں ۔بلکہ دھیرے دھیرے اور درجہ بدرجہ انہیں ایسے آگے لیکر چلیں جیسے ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ ہر فریق کے ساتھ اس کے احتمالات کے مطابق پیش آؤ۔ اگر کسی ایک انسان کے ساتھ اس سے آگے نہ بڑھیں کہ وہ محمد بن اسماعیل کو اپنا امام ماننے لگ جائے؛اوراس کے شیعہ میں سے ہوجائے۔ اوریہ کہ امام زندہ موجود ہے۔ بس اس حد سے آگے نہ بڑھیں ۔ خصوصاً ایسے لوگوں کے سامنے کثرت کے ساتھ امام کا تذکرہ کیا جائے؛ اور درہم و دینار سے اپنی پاکدامنی ظاہر کی جائے۔ اور اس کے پاس اپنا آنا جانا کم کردیں ۔ بس ایک بار ’’صلاۃ سبعین ‘‘ کے موقع پر کافی ہے۔ اسے جھوٹ ؛ زنا‘ لواط‘ اور شراب نوشی سے بچ کر رہنے کی تلقین کریں ۔ اور نرمی ‘ پیار و محبت اور صبر و تحمل کا حکم دیں ۔ اوراس خود بھی اس کے ساتھ صبر سے پیش آئیں ۔اگروہ آپ کا متبع ہوگا تو آپ اس کے پاس سعادت پائیں گے۔اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا مدد گار رہے گا۔اور ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض دوسرے ادیان کے پیروکار تمہارے ساتھ دشمنی رکھیں ‘یا پھر اسے تمہاری دشمنی پر ابھاریں ۔ اس لیے آپ اسے ایک الہ کی عبادت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے اظہار‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں کی امامت کے عقیدہ سے باہر نہ نکالیں ۔اور اس پرسات ائمہ کے حق میں دلیل قائم کریں ۔ اوراسے انتہائی دقت کے ساتھ نماز و روزہ اور شدت اجتہاد پر لگائیں ۔ایسے انسان پر وہ وقت بھی آئے گا کہ اس کا مال تو کیا اگر آپ اس سے اس کی بیوی بھی مانگیں گے تو وہ انکار نہیں کرے گا۔ اور اگر اس کی موت کا وقت آجائے گا تو وہ اپنا مال تمہارے نام کرجائے گا۔آپ اس کے وارث بن جاؤگے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک آپ سے زیادہ قابل اعتماد کوئی دوسرا نہیں ۔اور پھر آہستہ آہستہ اسے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے منسوخ ہونے کے عقیدہ کی طرف لے کر جائیں ۔ اور یہ کہ ساتواں امام ہی آخری رسول ہے۔اور یہ بھی ایسے ہی بولتا ہے جیسے اس سے پہلے کے ائمہ بولا کرتے تھے۔اور یہ امام نئے احکام لے کر آیا ہے۔اور یہ کہ محمد کا دور چھٹا ہے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ امام نہیں تھے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی امور کے ذمہ دار تھے۔
ان کے متعلق ابتدائی طور پر سیاسی اور اچھی اچھی باتیں کہو۔اس میں کوئی شک نہ کہ یہ بہت بڑا دروازہ ہے ‘ اور اس میں کام بہت بڑا ہے۔یہاں سے انسان اس سے بڑے اور عظیم امور کی طرف نکل سکتا ہے۔ اور یہی بات ان چیزوں کوختم کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے جو آپ سے پہلے کے لوگ بتا گئے ہیں ۔جیسا کہ نبوات کا زوال وغیرہ؛ جس منہج پر وہ قائم ہے۔
خبردار! اس دروازے سے آگے نہیں بڑھنا۔ ہاں صرف ان لوگوں کے لیے جن میں آپ کوئی صلاحیت پاتے ہوں ۔اور اس کی آخری منزلت قرآن اور اس کے مؤلف اور سبب تألیف کی معرفت ہے۔
خبردار! ان بہت سارے لوگوں سے بھی بچ کر رہنا جو آپ کے ساتھ اس منزلت تک پہنچے ہوں ؛ کہ انہیں اس سے اگلے درجہ تک لے کر چلو‘ اوران کے ساتھ موانست و مدارست اوران پر اعتماد کرنے میں غلطی کرجاؤ۔ایسا کرنا امور نبوت اوران کے دعوی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتب کو باطل ثابت کرنے کے لیے آپ کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔ اور اس کی آخری منزلت یہ ہے کہ امام مرچکاہے؛ اوریہ کہ وہ روحانی طور پر قائم ہوگا؛اوریہ کہ تمام مخلوق روحانی طور پر اس کی طرف رجوع کرے گی۔اوروہ اللہ کے حکم سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔اور پھر روحانی صورت میں کافراور مؤمن میں فرق کرے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ تمہارے لیے معاد اور آخرت کے عقیدہ اور قبر سے دوبارہ اٹھائے جانے کا عقیدہ باطل ثابت کرنے کے لیے مدد گار ہوگا۔
اس سے اگلی منزل آسمانوں میں ملائکہ اور زمین میں جنات کے وجود کوباطل ثابت کرناہے؛اوریہ کہ آدم سے پہلے بہت ساری بشریت تھی۔اور اس پر وہ دلائل قائم کریں جو کہ ہماری کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ امور وحی اور ملائکہ کے بشریت کی طرف آنے کے عقیدہ کومعطل ثابت کرنے کے لیے آپ کے مدد گار ثابت ہوں گے۔جس سے عالم کے قدیم ہونے کا عقیدہ ثابت کرنے میں مدد ملے گی۔
اس کا اگلا درجہ اوائل توحید کاہے۔اس عقیدہ کو باطل ثابت کرنے کے لیے وہ کچھ بیان کرکے سہارا لیں جو ان کی مترجمہ کتب جیسے : ’’الدرس الشافی للنفس ‘‘میں بیان ہوا ہے۔یعنی نہ ہی کوئی معبود ہے نہ ہی کوئی صفت ہے اورنہ ہی کوئی موصوف۔ یہ بیان ’’البلاغ ‘‘ میں بیان کردہ عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے تمہارا مدد گار ثابت ہوگا۔
اس کے علاوہ دیگر امور میں بھی یہ اپنے داعی کے لیے لازمی ٹھہراتے ہیں کہ وہ درجہ بدرجہ منزلیں طے کرتا جائے۔یہاں تک کہ وہ امام ناطق کے درجہ تک پہنچ جائے۔اورپھرر وحانی الہ بن جائے۔اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے۔
اور کہتے ہیں : ’’ جس کوتم اس مقام تک لے جاؤ ‘تو اس کے سامنے امامت کی وہ حقیقت بیان کرو جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔اوریہ بتاؤ کہ اسماعیل اور اس کا والدمحمد یہ دونوں اس کے نواب تھے۔’’البلاغ ‘‘ کے مطابق یہ عقیدہ اولاد علی سے امامت کا ابطال ثابت کرنے میں آپ کا مدد گار ہوگا۔پھر ایسے ہی درجہ بدرجہ اسے لیکر آگے بڑھتے رہیں یہاں تک کہ اس آخری درجہ تک پہنچ جائیں جیسا کہ آنے والے صفحات میں ہم بیان کریں گے ۔‘‘[انتہیٰ کلام الباطنیہ]
قاضی ابو طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ باطنیہ کی یہ وصیت ان کے مذہب کے تمام داعیوں کے لیے ہے۔اس میں ہر عاقل کے لیے ان لوگوں کے کافر اور ملحد ہونے کی کھلی دلیل موجود ہے۔جس میں یہ لوگ صراحت کے اس عالم کے مخلوق ہونے اور اس کے پیدا کرنے والے کی نفی کرتے ہیں ۔اور ملائکہ ومرسلین کاانکار کرتے ہیں ۔آخرت اور ثواب و عقاب کے منکر ہیں ۔یہ ان تمام لوگوں کااصول ہے جسے وہ اول وثانی اور ناطق و اساس اور دوسرے رموز سے تعبیر کرتے ہیں ۔جس کے ذریعہ سے کمزور لوگوں کودھوکہ دیاجاتاہے۔ حتی کہ جب کوئی ایک ان کی بات مان لیتا ہے تو یہ لوگ اسے دھریت اور تعطیل کی منزلت تک پہنچاکر دم لیتے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد میں ان کا تمام انبیاء ومرسلین علیہم السلام پر سب و شتم کرنا بھی ذکر کروں گا۔اوریہ کہ ان لوگوں کی دعوت کا منتہاء اللہ تعالیٰ کی وحدانیت [اوراس کے وجود]کا انکارہے۔جیسا کہ دین سے ان کی بیزاری و کفر اور عناد کو ہر وہ انسان جانتا ہے جسے علم سے واسطہ ہے۔‘‘
[باطنیہ کے عقیدہ پر ابن تیمیہ کا رد]:
میں کہتا ہوں : ’’یہ تمام امور واضح ہیں ۔باطنیہ اسماعیلیہ اور دوسرے ملحدین جیسے غالیہ ‘ نصیریہ ؛اور دوسرے لوگ جو کہ شیعیت کااظہار کرتے ہیں ؛ درحقیقت باطن میں وہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ شیعیت کفر و نفاق کی دھلیز ہے۔
[منقبت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ]:
٭ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرتدین کے ساتھ قتال کے امام تھے۔پس یہ لوگ مرتدین ہیں ۔اورحضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے دشمن ہیں ۔
٭ یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ : اس آیت میں مذکور صحبت :
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اپنے ساتھی کے ساتھ محبت و الفت اور موالات اور اس کی سچی اتباع کی صحبت ہے۔جس کا نفاق سے یا محض سفر کے ساتھی کی صحبت سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ وہی صحبت ہے جو کوئی بھی انسان کسی کو اپنا دوست بناتے ہوئے پیش نظر رکھتا ہے۔جیسا کہ علم ضروری کے طور پر تمام خلائق کے ہاں مشہور و معروف ہے۔ اور کئی امور کی بناپر اسے تواتر کی حیثیت حاصل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت وموالات اور آپ پر صدق ایمان [کمال کی معراج پر تھے]؛ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابن عم کی محبت و الفت سے بہت بڑھ کر تھے۔
٭ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان:﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔’’بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘یہ محض ایسی ظاہری صحبت نہیں تھی جس میں متابعت نہ پائی جاتی ہو۔ایسی صحبت تو کافرکے ساتھ بھی ہوسکتی ہے جب وہ کسی مؤمن کے ساتھ چلے۔مگر اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔بلکہ یہ معیت باطنی معیت تو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اقتداء اور محبت پائے جاتے تھے۔
پس اسی لیے جو کوئی رسول کا سچا متبع ہوتا ہے؛تو اللہ تعالیٰ اس کی اتباع کے حساب سے اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾[الأنفال ۶۴]
’’اے نبی! بے شک آپ کو اللہ ہی کافی ہے۔ اوران مومنوں کو بھی جنہوں نے آپ کی اتباع کی۔‘‘
یعنی اللہ آپ کوبھی کافی ہے ‘اور آپ کے ماننے والے اہل ایمان کو بھی کافی ہے۔ پس اہل ایمان میں سے جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کریگا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجائے گا یہ معنی ہے اللہ تعالیٰ کی معیت کا۔
پس یہ کفایت مطلقہ اتباع مطلق کے ساتھ معلق ہے۔اور ناقص ناقص کیساتھ ۔پس جب آپ کے بعض اتباع کاروں کو اس اتباع کی وجہ سے لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کفایت کرجاتا ہے اوروہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔اور اس کے لیے اس آیت کی معنویت میں حصہ ہوتا ہے :
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ ۴۰]
’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے :گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اس لیے کہ اس آدمی کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موافقت کرتا ہے۔اگرچہ وہ جسمانی طور پر آپ کے ساتھ نہیں ہوتا ؛ مگر دل کا تعلق ہی اصل اور مقصود ہوتا ہے۔
جیسا کہ صحیحین میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ نہ ہی تم کوئی منزل طے کرتے ہو اورنہ ہی کوئی وادی پار کرتے ہو ‘ مگر وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ’’اوروہ مدینہ میں رہ کر بھی ہمارے ساتھ ہیں ‘‘؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں وہ مدینہ میں رہ کر بھی ؛انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔ ‘‘[عن أنسِ بنِ مالِک رضی اللہّٰ عنہ فِی: البخاری 4؍26کتاب الجِہادِ، باب من حبسہ العذر عنِ الغزوِ۔سننِ أبِی داؤود3؍17۔18 کتاب الجِہادِ، باب فِی الرخصۃِ فِی القعودِ مِن العذر۔سنن ابن ماجہ 2؍923 ۔کتاب الجِہادِ، باب من حبسہ العذر عنِ الجِہاد۔ وحدیث آخر بِألفاظ مقارِب عن جابِرِ بنِ عبدِ اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ فِی: مسلِم3؍518۔ کِتاب الإِمارۃِ، باب ثوابِ من حبسہ عنِ الغزوِ مرض و عذر آخر۔]
یہ لوگ اپنے دلوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے۔ ان لوگوں کو غزواۃ میں معنوی صحبت حاصل تھی۔پس اس معنوی صحبت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا۔
اگر کوئی انسان بعض شہروں میں یا بعض اوقات میں اکیلا ہو؛اور وہ اس حق پر قائم ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ؛ اور لوگ اس پر اس کی مدد نہ کریں ۔پس بیشک اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اور اس کا اس آیت میں معنوی طور پر حصہ ہوتا ہے :
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]
’’اگر تم ان(نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘ ’’ جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے: گھبرائیے نہیں ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت سے مراد حقیقت میں آپ کے دین کی نصرت ہے جو دین آپ لیکر آئے ہیں ؛ خواہ کوئی جہاں کہیں بھی اور کسی بھی زمانہ میں ہو۔پس جو کوئی اس نصرت دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موافق ہو؛ اسے معنوی صحبت حاصل ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس دین کو ایسے قائم کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ؛ تو بیشک اللہ تعالیٰ اس دین کے ساتھ ہوتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ‘اور جو انسان اس دین کو قائم کرتا ہے۔
اس سچے متبع رسول کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے ہی کافی ہوجاتا ہے جیسے اپنے رسول کے لیے کافی تھا۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأنفال ۶۴]