فصل:....آیت ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾اور شیعہ کا استدلال
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....آیت ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾اور شیعہ کا استدلال
[ اعتراض ]: شیعہ مصنف کہتا ہے: آیت قرآنی﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے ۔ آپ نے اپنے ایک پڑوسی کے لیے ایک کھجور کا درخت خریدا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کو اس کھجور کے درخت کے بدلہ میں جنت میں ایک درخت کی بشارت سنائی۔ جسے ابو دحداح نے سن لیا۔ اور ایک پورا باغ خرید کر اپنے پڑوسی کے لیے ہبہ کردیا۔ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بدلہ میں جنت میں ایک باغ کی خوشخبری سنائی ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[ جواب]: ایسا کہنا جائز نہیں کہ یہ آیت حضرت ابو دحداح رضی اللہ عنہ [حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابۃ۴؍۵۹ میں حضرت ابودحداح انصاری کے حالات زندگی تحریر کیے ہیں ۔امام احمد بن حنبل ‘ امام بغوی اور حاکم نے حمادبن سلمہ کی سند سے حضرت انس سے یوں روایت کیا ہے : ’’ ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی: یارسول اللہ ! فلاں انسان کے پاس کھجور کا ایک درخت ہے‘ اور میں اپنی دیوار بنانا چاہتا ہوں ۔ آپ اسے حکم دیں کے وہ درخت مجھے دیدے۔ تاکہ میں دیوار بنا سکوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ درخت اسے جنت میں ایک درخت کے بدلہ میں دے دو۔مگر اس آدمی نے انکار کردیا۔ پھر حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ اس کے پاس چلے گئے اور فرمانے لگے: یہ درخت مجھ پر میری چاردیواری کے بدلہ میں بیچ دو۔تو وہ اس پر راضی ہوگیا۔ حضرت ابودحداح واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: یارسول اللہ ! میں نے وہ کھجور اپنی چاردیواری کے بدلہ خرید لی ہے‘ اوروہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نے فرمایا: ’’ اوہ !ابو دحداح کے لیے جنت میں کتنی زیادہ اور میٹھی کھجوریں ہیں ۔‘‘ آپ نے یہ کلمہ کئی بار ارشاد فرمایا۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم ؛ کتاب البیوع؛ح 2137۔]کے ساتھ مختص ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسرین ‘قرآنی علوم کے ماہرین‘اوراسباب نزول جاننے والے تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ: مذکورہ سورت مکی ہے۔ اور ابوالدحداح رضی اللہ عنہ کا واقعہ بالاتفاق مدینہ منورہ میں پیش آیا۔کیونکہ آپ انصار میں سے ہیں ۔اور انصار کو شرف صحابیت مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حاصل ہوا تھا۔اور باغ وبستان وغیرہ مدینہ میں ہی تھے۔ پھر یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ یہ آیت حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کے قصہ کے بعد نازل ہوئی ہو۔
اگر کسی مفسر نے یہ کہا بھی ہے کہ یہ آیت ابو دحداح رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ آیت ابو دحداح کے واقعہ کو بھی شامل ہے۔ بعض صحابہ و تابعین جب کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی تو اس سے ان کامقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت اس واقعہ کو شامل ہے اور اس کے حکم پر دلالت کرتی ہے،یا یہ واقعہ بھی اس کے عموم حکم میں شامل ہے ۔بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت دو مختلف اسباب کی بنا پر دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ایک مرتبہ اس سبب کی بنا پر اور دوسری بار اس سبب کی بنیاد پر۔
اس قول کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ آیت دوبار نازل ہوئی ہو۔ان میں سے ایک بار حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہو۔ وگرنہ اہل علم میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت ابو دحداح کے مسلمان ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ بہت سارے علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ : یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اپنی سند سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ایسے ہی ابن ابی حاتم اور ثعلبی رحمہما اللہ نے بھی حضرت عبداللہ اورسعید بن مسیب رحمہما اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ : ہم سے ہمارے والد نے حدیث بیان کی ؛ ان سے محمد بن ابی عمر عدنی نے ‘ وہ محدث ابن عیینہ سے؛وہ حضرت عروہ رحمہ اللہ کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سات ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جن کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے جرم میں ستایا جاتا تھا۔ ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
بلال۔ عامر بن فہیرہ۔ نہدیہ۔ بنت نہدیہ۔ زنیرہ۔ ام عمیس رضی اللہ عنہم ۔ بنی مؤمّل کی ایک لونڈی۔[مستدرک حاکم(۳؍۲۸۴) سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۶۔۱۴۷)۔]
محدث سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’زنیرہ رومی الاصل اور بنی عبد الدار کی مملوکہ تھی۔ جب اسلام لائیں تو ان کی بصارت جاتی رہی۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ لات و منات نے اسے اندھا کردیا۔ زنیرہ نے کہا میں لات و منات کو معبود نہیں تصور کرتی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ قوت بینائی عطا فرمائی۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۷)۔]
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدا تو وہ پتھروں میں دبے ہوئے تھے۔ ان کے مالک نے کہا اگر کوئی شخص مجھے ایک اوقیہ بھی دے تو میں بلال رضی اللہ عنہ کو فروخت کردوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ اگر آپ ایک سو اوقیہ بھی طلب کریں تو میں دے کر انھیں خرید لوں گا۔ فرماتے ہیں اسی ضمن میں مذکورہ صدر آیت: ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾ آخر سورت تک نازل ہوئی۔
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو اس وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، وہ سب آپ نے راہِ الٰہی میں صرف کردیے ۔کئی اور وجوہات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے:
پہلی وجہ :....فرمان الٰہی ہے : ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی﴾؛اور یہ بھی فرمایا ہے: ﴿إِن أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ بیشک تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘تو یہ ضروری ہے کہ امت کا سب سے بڑا متقی اس آیت کے ضمن میں داخل ہو؛ اوروہی اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا بھی ہوگا۔ کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ سابقین اولین مہاجرین ؛حضرت ابوبکر و عمر‘عثمان وعلی رضی اللہ عنہم سے زیادہ افضل اور عزت والے تھے ۔بلکہ تمام امت کیا اہل سنت اورکیا غیراہل سنت سب کا اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا صحابہ کرام اوران کے امثال مہاجرین حضرت ابو دحداح رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ تو پھر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ بڑا متقی جس نے زکواۃ ادا کرکے تزکیہ نفس کیا ہے ‘وہ ان ہی میں سے ایک ہو۔
٭ اس بات کا دعویدار کہتا ہے کہ :یہ آیت حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔جب کسی مسئلہ میں دو قول ہوں ۔ایک کہنے والا کہہ رہا ہوکہ یہ ابودحداح رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور دوسرا کہہ رہا ہو: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ تو یہ دوسرے قول والے کی تائید قرآن سے ہوتی ہے۔ اور اگراس آیت کو ان دونوں حضرات کے لیے عام سمجھا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس آیت کی فضیلت میں داخل ہونے کے حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق دار ہیں ۔[ لہٰذا ان مفسرین کا قول زیادہ قرین صحت و صواب ہے جو کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس لیے آپ امت بھر میں اتقیٰ و اکرم تھے۔[دلدار]]
اور یہ کیونکر نہیں ہوسکتا جب کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘[سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب(۱۵؍۳۴)، (حدیث:۳۶۶۱)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۹۷)، من طریق آخر۔]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے مال سے ایسا فائدہ حاصل ہونے کی نفی کی ہے جیسا فائدہ آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے حاصل ہوا تھا۔تو پھراصلی اور فائدہ بخش اموال کو چھوڑ کر فاضل اموال کو اس آیت کے عموم میں کیسے داخل کیا جاسکتا ہے؟
دوسری وجہ:....جب سب سے بڑا متقی وہی تھا جس نے اپنا مال دیا اور تزکیہ نفس کیا؛وہ مخلوق میں سب سے بڑا با عزت اور متقی تھا؛ تو وہی لوگوں میں سب سے افضل بھی ہوا۔اس آیت میں دو قول مشہور ہیں ۔اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد] مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔اور شیعہ کایہی عقیدہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے۔ پس پھر یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی مخلوق میں ان دوحضرت سے بڑھ کر کوئی متقی اور عزت والا ہو۔ان دونوں میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو اس آیت کے موجب میں داخل ہو۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور ایسا ہونا چاہیے جو اتقی کے معنی و مفہوم میں داخل ہو تو واجب ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس آیت کے موجب میں داخل ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ اس تعریف و تفسیر کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس کے کئی ایک اسباب ہیں :
پہلا سبب:....اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴾۔[اللیل ۱۸]’’ جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے ۔‘‘صحاح ستہ اور دوسری کتابوں میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور اس باب میں آپ سب صحابہ سے بڑھ کر پیش پیش رہتے تھے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں اپنے سر پر ایک کپڑا باندھے ہوئے گھر سے نکلے؛ مسجد میں آئے اور منبر پر بیٹھ کراللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا:
’’کسی شخص نے اپنی جان و مال سے مجھ پر اتنا احسان نہیں کیا جتنا ابوبکربن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما نے کیا ہے۔‘‘ اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، مگر دین اسلام کی بنا پر جو دوستی استوار کی جائے وہی اچھی ہے۔ مسجد کی جانب کھلنے والی سب کھڑکیاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کے سوا بند کردی جائیں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم’’ سدوا الابواب الا باب ابی بکر‘‘ (ح:۳۶۵۴)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)۔]
بخاری و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ صحبت ورفاقت اور انفاق مال کے اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے سب سے بڑے محسن ہیں ۔‘‘
اور بخاری میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا:
’’ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا تو میں نے نبوت کا اعلا ن کہ: ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں ۔‘‘ تم نے مجھے جھٹلایا ۔ اور انہوں نے اپنے مال و جان سے میری خدمت کی۔ پس کیا تم میرے لیے میرے دوست کو چھوڑ دو گے یا نہیں ۔‘‘ دو مرتبہ(یہی فرمایا)۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔‘‘ [البخاری ۵؍۵]
اور صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘
تو اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے ‘ اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اور میرا مال تو صرف آپ کے لیے ہی تو ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے بروایت صحیحہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صدقہ کا حکم دیا ۔ اتفاق سے میرے پاس مال موجود تھا۔ میں نے کہا اگر میں کبھی صدقہ دینے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ سکا تو وہ آج ہی کا دن ہوگا۔ چنانچہ میں نے آدھا مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ نبی کریم نے پوچھا ’’گھر میں کیا چھوڑا ؟ ‘‘ عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس کے برابر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب مال لا کر بارگاہ ِنبوی میں حاضر کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! گھر میں کیا باقی رکھا؟‘‘ عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے کہا:’’آئندہ میں کبھی آپ کا مقابلہ نہیں کروں گا۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب الرخصۃ فی ذلک(حدیث:۱۶۷۸)، سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب(۱۶؍۴۳)، (حدیث:۳۶۷۵)۔]
یہ نصوص صحیح ‘ متواتر اور صریح ہیں ‘اور اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی میں اپنا مال خرچ کرنے میں سب لوگوں سے پیش پیش رہتے تھے۔
جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ ایسا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ پر احسانات تھے ؛ جب مکہ میں بھوک کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حضرت ابو طالب سے لیکر اپنی کفالت میں تربیت کی ۔اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی تک حضرت علی رضی اللہ عنہ فقیر ہی رہے۔یہ بات اہل سنت اور شیعہ کے ہاں معروف ہے۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عیال میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے پاس اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ اگر آپ کے پاس مال ہوتا تو آپ ضرور خرچ کرتے ؛ مگر آپ پر مال خرچ کیا جاتا تھا؛ آپ [ابھی تک] انفاق والوں میں سے نہیں تھے۔
دوسرا سبب:....اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی﴾۔[اللیل ۱۹]’’ حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔‘‘یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان ہے ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نہیں ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یہ احسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بدولت انہیں ایمان کی دولت سے نوازا۔یہ ایسی نعمت ہے جس پر مخلوق میں سے کوئی ایک بھی بدلہ نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس نعمت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجر صرف اللہ تعالیٰ پر ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ﴾ (ص ۸۶)
’’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘
اورارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ﴾ (سباء۴۷)
’’ فرما دیجئے: جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے۔‘‘
٭ پس رہی وہ نعمت جس پر کوئی بدلہ دے سکتا ہے وہ دنیا کی نعمت و احسان ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دنیاوی احسان نہیں تھا۔بلکہ دینی احسان تھا۔بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ آپ پر [دینی احسان کے ساتھ ساتھ ]دنیاوی احسان بھی تھا ؛ جس پر بدلہ دیا جانا ممکن تھا۔
تیسرا سبب:....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کوئی ایسا سبب نہیں تھا جس کی وجہ سے دوستی رکھتے اورپھر اپنا مال خرچ کرتے [جان و مال سے نثار ہوتے] سوائے ایمانی سبب کے۔آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نصرت نہیں کی جیسے ابو طالب نے قرابت کی وجہ سے نصرت کی تھی۔ بلکہ آپ کا عمل کامل اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے ہوا کرتا تھا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے :
﴿ اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ [اللیل ۱۷۔۲۱]
’’وہ تو صرف اپنے رب بلندو برتر کی رضامندی کے لیے دیتاہے ۔ اوریقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا ۔‘‘
ایسا ہی معاملہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ۔اور کبھی بیوی کو اپنے شوہر پر خرچ کرنا پڑتا ہے ؛ بھلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی دوسرا بھی ہو۔
بالفرض اگر مان بھی لیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے ؛ کبھی ان اسباب کی طرف فعل کو مضاف کیا جاتا ہے۔بخلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ؛ اس لیے کہ آپ کے لیے ایمان باللہ کے سواء کوئی دوسرا سبب نہ تھا۔تو آپ اس فرمان ِالٰہی کی روشنی میں سب سے بڑے اور سچے متقی تھے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی﴾ [اللیل ]
’’وہ تو صرف اپنے رب بلندو برتر کی رضامندی کے لیے دیتاہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیo اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo﴾ [اللیل ۱۷۔۲۰]
’’ اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔ حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر وہ تو اپنے بزرگ و برتر رب کی رضامندی طلب کرنے کے لیے د یتا ہے ۔‘‘
یہاں پر استثناء منقطع ہے ۔اس کا معنی یہ ہے : اس کی عطاء صرف اس انسان تک نہیں جس کا اس پر کوئی احسان ہے کہ اسے کوئی بدلہ دے۔سو بیشک آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا کرنا تو لوگوں پر عدل واجب میں سے ہے جو کہ ایجاریا خریدو فروخت میں معاوضہ کی منزلت پرہے۔ ایسا کرنا ہر ایک کے حق میں دوسرے پر واجب ہے ۔ اور جب کسی ایک پر کسی کا کوئی احسان نہ ہو جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو؛ تو اس وقت یہ معاوضہ کی صورت باقی نہیں رہتی۔ پس اس صورت میں دینے والے کی عطاء صرف اللہ رب العالمین کی رضامندی کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ بخلاف اس انسان کے جس پر کسی کا احسان ہوتو اسے اس احسان کا بدلہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ باہم بدلہ دینا ضروریات میں سے ہے۔
یہ انسان جس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ اس کا بدلہ دیا جائے۔اورجب وہ مال دیتا ہے تو اس کی طہارت کے لیے دیتا ہے۔اس کا معاملہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا رہتا ہے‘وہ انہیں اچھا بدلہ دیتاہے‘ ان کااحسان چکاتا ہے؛ اوران کو مال دیتے وقت ان کی بھلائی کا معاوضہ دیتا ہے ۔لیکن کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ جائے۔
نیز اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ : صدقہ کرنے میں فضیلت اس وقت ہے جب انسان واجب معاوضات ادا کر دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ [البقرۃ۲۱۹]
’’ اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں ، فرما دیجیے جو زیادہ ہو۔‘‘
پس جس انسان پر قرض یا ادھار یا دیگر کوئی واجبات یا دیگر ادائیگیاں ہوں ؛ تووہ صدقہ کو ان واجبات کی ادائیگی پر مقدم نہیں کرسکتا۔اگر کوئی انسان ایسا کر گزرے تو کیا اس کا صدقہ اسے واپس کیا جائے گایا نہیں ؟ اس میں علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین دو قول مشہور ہیں ۔اس آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایسے آدمی کے صدقات اسے واپس کردیے جائیں گے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنا مال اس حالت میں صدقہ کرتے ہیں کہ ان پر کسی قسم کاکوئی واجب نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی احسان ہوتا ہے۔ اور اگر اس پر کسی کا کوئی احسان ہو تو واجب ہوتا ہے کہ پہلے احسان کا بدلہ چکائے پھر اپنا مال طہارت حاصل کرنے کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اگر اس نے احسان کا بدلہ چکانے سے پہلے اپنا مال حصول طہارت کی نیت سے خرچ کردیا تو اس آیت کی روسے قابل تعریف لوگوں کی صف میں اس کا شمار نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسے انسان کا یہ عمل مردود ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:
(( من عمِل عملا لیس علیہِ أمرنا فہو رد))۔
’’ جس انسان نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں وہ کام مردود ہے ۔‘‘[عن عائِشۃ رضی اللہ عنہا فِی: البخارِیِ184؍3۔کتاب الصلحِ، باب ِذا اصطلحوا علی صلحِ جور۔مسلِم1343؍3 ِکتاب الأقضِیۃِ، باب نقضِ الأحکامِ الباطِلۃِ وردِ محدثاتِ الأمور۔سننِ بِی داود2؍280ِکتاب السنۃِ، باب فِی لزومِ السنۃِ۔سنن ابن ماجہ؛ المقدِمۃ، باب تعظِیمِ حدیثِ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، والتغلِیظ عل من عارضہ، المسندِ۔]
چوتھا سبب:....اگر مان لیا جائے کہ اس آیت کے مصداق میں کئی ایک صحابہ داخل ہیں ؛ تو یہ بھی حق ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پوری امت میں سے اس آیت کے مصداق میں داخل ہونے کے سب سے پہلے حق دار ہیں ۔ آپ ہی اس امت کے سب سے بڑی متقی ہیں ۔ پس اس بنا پر آپ ان سب میں سے افضل ہوں گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ’’الأتقی‘‘ سب سے بڑے متقی کی جو صفات بیان کی ہیں ؛ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں پوری امت میں سب سے بڑے کامل ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیo اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی o﴾
[اللیل ۱۸۔۲۰]
’’جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔ حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر وہ تو اپنے بزرگ و برتر رب کی رضامندی طلب کرنے کے لیے د یتا ہے ۔‘‘
جہاں تک مال خرچ کرنے کا تعلق ہے ؛ تو صحاح ستہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انفاق فی سبیل اللہ دوسروں کے انفاق سے افضل تھا۔اور یہ کہ اپنی جان و مال کیساتھ آپ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت فرمائی دوسروں کی معاونت سے اکمل و افضل تھی۔
رہا ایسے احسان کی تلاش میں رہنا جس پر بدلہ دیا جائے؛ سو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کا کوئی دنیاوی مال طلب نہیں کیا۔اور نہ ہی کسی دنیاوی حاجب کی چاہ میں رہے۔بلکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرنے کی تلاش میں رہتے تھے ؛ جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہو:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ)) [بخاری:834، مسلم2705۔]
’’ اے اللہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا بہت زیادہ ظلم ؛اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ؛ تو مجھے بخش دے بخشش تیرے پاس سے؛ اور مجھ پر رحم فرمایا بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی ایسا مال نہیں دیا جو صرف آپ کے ساتھ خاص ہو۔بلکہ جب آپ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت حاضر ہوتے تو آپ کی بھی وہی حیثیت ہوتی جو کسی بھی غنیمت پانے والے مجاہد کی حیثیت ہواکرتی تھی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے سارا مال لے لیا تھا۔ جب کہ آپ کے علاوہ جو دوسرے لوگ خرچ کرنے والے ہوا کرتے تھے- خواہ انصار میں سے ہوں یا بنی ہاشم میں سے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کچھ ایسے عطیات بھی دیا کرتے تھے جودوسروں کو نہیں دیتے تھے۔آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو خمس کے مال میں سے وہ مال دیا جو دوسروں کو نہیں دیا گیا۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری لگائی اور اس پر انہیں وظیفہ دیا۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی کچھ بھی نہیں دیا۔ سو ابوبکر رضی اللہ عنہ بدلے والے احسان سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے اور ایسی چیزسے سب سے زیادہ قریب تھے جس پر کوئی بدلہ نہیں دیا جاتا۔
جہاں تک اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے آپ کے اخلاص کا تعلق ہے؛ تو آپ کا اخلاص پوری امت میں سب سے زیادہ کامل و اکمل تھا۔پس معلوم ہوا کہ آپ ان لوگوں میں سب سے زیادہ کامل ہیں جو ان آیات میں مذکور اوصاف کے مصداق میں شامل ہیں ۔ جیسا کہ آپ اس آیت میں شامل ہونے والوں میں سب سے کامل ہیں:
﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الزمر۳۳)
’’اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پکے متقی ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کایہ فرمان:
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحدید۱۰]
’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کایہ فرمان :
﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ﴾ (توبۃ۱۰۰)
’’اور جو مہاجرین اور انصارمیں سے سابق اور مقدم ہیں ....۔‘‘
ان کی امثال دیگروہ آیات جن میں اس امت کے اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے؛ سو ابوبکر رضی اللہ عنہ ان صفات میں سب سے زیادہ کامل و اکمل ہیں جن کی وجہ سے اہل ایمان کی تعریف کی گئی۔ اور آپ ان آیات کے مصداق میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔اور جو لوگ ان آیات کے مصداق میں داخل ہیں ‘ ان میں سب سے اکمل ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔