فصل:....[احوال ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق جھوٹا دعوی]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[احوال ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق جھوٹا دعوی]
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:یہ جھوٹ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے، اس لیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مال دار نہ تھے۔ آپ کا باپ انتہائی درجہ کا فقیر انسان تھا جو کہ ہر دن چند ٹکڑوں کے عوض عبداللہ بن جدعان کے دستر خوان پر منادی کیا کرتا تھا۔ اگر ابوبکر واقعی مال دار ہوتا تووہ اپنے باپ کی ضرورت پوری کرتا۔
٭ اوریہ کہ ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک پیشہ ور معلم تھے۔ اور اسلام لانے کے بعد درزی کا کام کیا کرتے تھے۔جب آپ مسلمانوں کے ولی الامر بن گئے تو لوگوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا۔ تو آپ کہنے لگے: مجھے تو اپنی روزی کے لیے ضرورت ہے ۔تو اس پر آپ کے لیے بیت المال سے یومیہ تین دراہم وظیفہ مقرر کردیا۔[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:کسی انسان کا قطعی و متواتر روایات جو کہ خاص و عام کے درمیان مشہور ہوں ؛ اور ان سے کتابیں ‘جیسے : کتب صحاح ‘مسانید؛ تفاسیر؛ فقہ اور فضائل و سیرت کی کتب بھری پڑی ہوں ؛کا انکارکرنا ایک عظیم مصیبت ہے۔اور پھر ایسی روایات کا دعوی کیا جائے جن کا علم محض رافضی دعوی کی بنیاد پر حاصل نہیں ہو سکتا۔اورنہ ہی اسے کسی معروف سند سے نقل کیا گیا ہے ۔ اورنہ ہی اسے کسی معروف اور ثقہ کتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ اورنہ ہی اسے یہ سمجھ آرہی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ یہ انسان مخلوق میں سے کسی جاہل ترین انسان سے بھی مناظرہ کرے تو اس کے لیے یہ کہنا بہت آسانی سے ممکن ہوگا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ [ہم شیعہ مصنف سے پوچھتے ہیں کہ] آخر کس ثقہ یا ضعیف راوی نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مفلس آدمی تھے؟
پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اپنا مال خرچ کرنے کے قصے تواتر کے صحیح احادیث میں کئی کئی اسناد سے منقول ہیں ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنافائدہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے۔‘‘[سبق تخریجہ]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’ ہم پر اپنی جان ومال سے لوگوں میں سب سے زیادہ احسان کرنے والے حضرت ابوبکر ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ اسی مال سے آپ نے حضرت بلال؛ عامر بن فہیرہ اور دیگر سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خرید کر آزاد کیا ۔
رافضی کا یہ قول کہ : آپ کا باپ ہر دن چند ٹکڑوں کے عوض عبداللہ بن جدعان کے دستر خوان پر منادی کیا کرتا تھا‘‘
[جواب ]:رافضی نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی جس سے اس کی صحت کی معرفت حاصل ہوسکے۔اور اگر ایسا ثابت بھی ہوجائے تو اس میں کوئی ضرر والی بات نہیں ۔اس لیے کہ ایسا کیا جانا جاہلیت میں تھا اسلام میں نہیں ۔ اس لیے کہ ابن جدعان کا انتقال اسلام سے پہلے ہوا ہے۔جب کہ عہد اسلام میں ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال تھا جو ان کی ضرورت پوری کرتا تھا۔ یہ بات ہر گز معلوم نہیں ہوسکی کہ حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے دست نگر رہتے ہوں ۔ اور حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے لمبی زندگی پائی ؛ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو آپ کو ان کی میراث میں سے چھٹا حصہ ملا۔جو کہ آپ نے اولاد ابوبکر رضی اللہ عنہ کوواپس کردیا ‘ اس لیے کہ آپ کے پاس بقدر کفایت مال ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ضرورآپ کی مدد کرتے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دور کی قرابت کی وجہ سے حضرت مِسْطَح رضی اللہ عنہ کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔مسطح بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے واقعہ افک میں کلام کیا تھا۔ توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھالی کہ وہ آئندہ ان کی مالی امداد نہ کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
﴿وَلَا یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوا اُوْلِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ[وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ] وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ﴾
(النور:۲۲)
’’ تم میں سے فارغ البال اشخاص اس بات کی قسم نہ کھالیں کہ وہ اپنے اقارب اور مساکین [ومہاجرین پر خرچ نہیں کریں گے۔ چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں بخش دے]اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ سن کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے، چنانچہ پھر مسطح کی مالی امداد شروع کردی۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک(ح:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ ، باب فی حدیث الافک(ح:۲۷۷۰)۔]
سات اشخاص جو غلام تھے، ا سلام کے جرم میں ان کو پیٹا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔[مستدرک حاکم(۳؍۲۸۴)، سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۷)]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تو[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس] جتنا مال تھا سب ساتھ لے لیا۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۵)ایک قول کے مطابق آپ کے پاس اس وقت چھ ہزار درہم تھے۔ آپ اس مال سے تجارت کیا کرتے تھے۔]
حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھنے لگے : ابوبکرخود تو چلا گیا‘ کیا اس نے اپنا مال تمہارے لیے چھوڑا ہے یا اسے بھی ساتھ لے گیا؟حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا: نہیں آپ مال چھوڑ گئے ہیں ۔اور میں نے ایک کونے میں کوئی چیز رکھ کر ان سے کہا: ان کا مال یہ پڑا ہوا ہے۔‘‘تاکہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے کہ آپ اپنے عیال کے لیے کچھ چھوڑ کر گئے ہیں ۔ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کیا۔یہ تمام باتیں دلالت کرتی ہیں کہ آپ مالدار انسان تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورپیشہء معلمی ؟:
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک پیشہ ور معلم تھے۔‘‘
[صاف جھوٹ ہے] اگر فی الواقع ایسا ہوتا بھی تواس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔
بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ علم و معرفت رکھنے والے انسان تھے۔مسلمان علماء کرام رحمہم اللہ کی ایک جماعت تھی جو لوگوں کو آداب سیکھایا کرتے تھے۔ان میں : ابو صالح ‘جو کلبی کے ساتھی تھے ؛ بچوں کوتعلیم دیا کرتے تھے ۔
ابو عبدالرحمن السلمی ان کا شمار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خواص میں سے ہوتا ہے۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ضحاک بن مزاحم اور عبداللہ بن الحارث بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ مگر اس پر کوئی اجرت نہیں لیتے تھے۔‘‘
ان ہی لوگوں میں سے ایک حضرت قیس بن سعد بھی تھے۔اور عطاء بن ابی رباح؛ عبد الکریم ابو امیہ ‘ حسین المعلم ابوذکوان ‘ قاسم بن عمیر ہمدانی ؛ حبیب المعلم مولی معقل بن یسار بھی تھے۔نیز حضرت علقمہ بن ابی علقمہ ؛ ان سے حضرت مالک بن انس بھی روایت کرتے ہیں ‘ آپ کا ایک مکتب تھا جہاں پر لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ ان میں سے ابو عبید القاسم بن سلام بھی ہیں ۔جن کی فضلیت و امامت پر اجماع ہے۔
توپھر جب یہ بات ہی خود ساختہ جھوٹ ہے تو ہم اس کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں ۔ [ابوبکر رضی اللہ عنہ اگرپیشہ ور معلم ہوتے تو قریش کے بہت سے لوگ لکھے پڑھے ہوتے۔ حالانکہ لکھنے والوں کی قریش میں بڑی قلت تھی]۔
بلکہ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل نچلے درجہ کے لوگوں میں سے بھی ہوتے تو پھر بھی یہ بات آپ کی شان میں قدح کا موجب نہیں ہوسکتی تھی۔اس لیے کہ حضرت سعد‘عبداللہ بن مسعود ‘ صہیب؛بلال ‘ رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دیگر کمزور لوگ بھی تھے جن کے متعلق قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کردیا ۔ فرمان ِالٰہی ہے:
﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ﴾....آگے تک....﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ﴾
[الانعام ۵۲۔۵۳]
’’اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں ، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں ۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں ....آگے تک ....کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْتُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰیہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا﴾ [الکہف ۲۸]
’’ تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیاہے اور اسکا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔‘‘
نیزکمزور اہل ایمان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنْ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَo وَاِِذَا مَرُّوا بِہِمْ یَتَغَامَزُوْنَo وَاِِذَا انقَلَبُوْا اِِلٰی اَہْلِہِمْ انقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ٭وَاِِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْا اِِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَضَالُّوْنَo وَمَا اُرْسِلُوْا عَلَیْہِمْ حَافِظِینَo فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَo عَلَی الْاَرَائِکِ یَنظُرُوْنَ ﴾
[المطففین۲۹۔۳۴]
’’مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھ سے اشارے کرتے تھے۔اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تو ہنستے ہوئے جاتے تھے ۔اور جب ان کو دیکھتے توکہتے بیشک یہی گمراہ ہیں ۔ حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔پس آج وہ لوگ جو ایمان لائے کفار سے ہنس رہے ہوں گے۔مسندوں پر بیٹھے ہوئے اِن کاحال دیکھ رہے ہوں گے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ اللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ [البقرۃ ۲۱۲]
’’کافروں کو دنیا کی زندگی بھلی لگتی ہے اور وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو ایمان لائے حالانکہ جولوگ پرہیزگار ہیں وہ قیامت کے دن ان سے بالاتر ہوں گے اور اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ نَادٰٓی اَصْحٰبُ الأعراف رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَہُمْ بِسِیْمٰہُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَ مَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَo اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحْمَۃٍ اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَ لَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ﴾ [الأعراف ۴۸۔۴۹]
’’اور اعراف والے پکاریں گے جنہیں وہ ان کی نشانی سے پہچانتے ہوں گے کہیں گے تمہاری جماعت تمہارے کسی کام نہ آئی اور نہ وہ جو تم تکبر کیا کرتے تھے۔یہ وہی ہیں جن کے متعلق تم قسم کھاتے تھے کہ انہیں اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی (انہیں کہا گیا ہے)جنت میں چلے جا تم پر نہ ڈر ہے اور نہ تم غمگین ہو گے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرَی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّہُمْ مِنَ الْاَشْرَارِo اَأتَّخَذْنَاہُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ﴾ [ص ۶۲۔۶۳]
’’ نیز وہ کہیں گے:کیابات ہے کہ ہمیں وہ آدمی نظر نہیں آرہے جنہیں ہم بروں میں شمار کرتے تھے۔کیا ہم یونہی ان کا مذاق اڑاتے رہے؟ یا اب ہماری نگاہیں ہی ان سے پھر گئی ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قَالُوْا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ [الشعراء۱۱۱]
’’وہ بولے:کیا ہم تم کو مان لیں حالانکہ تمہاری پیروی رذیل لوگوں نے اختیار کی ہے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰیکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰیکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ﴾ [ھود ۲۷]
’’ تو اس کی قوم کے کافر سرداروں نے جواب دیا: ہم تو تجھے اپنے ہی جیسا آدمی خیال کرتے ہیں اور جو تیرے پیروکار ہیں وہ بادی النظر میں ہمیں کمینے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَo قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ﴾ [الأعراف ۷۵۔۷۶]
’’اس قوم کے متکبر سرداروں نے غریبوں سے کہا جو ایمان لاچکے تھے کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح کو اس کے رب نے بھیجا ہے انہوں نے کہا جو وہ لے کر آیا ہے ہم اس پرایمان لانے والے ہیں ۔متکبروں نے کہا جس پر تمہیں یقین ہے ہم اسے نہیں مانتے ۔‘‘
صحیحین میں ہے : ھرقل نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن حرب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تھا؛اور سوال کیا تھا: کیا آپ کی پیروی کرنے والے قوم کے بڑے لوگ ہیں یا پھرکمزور لوگ ۔ تو ابوسفیان نے کہا: ’’ کمزور لوگ ۔‘‘ اس پر ھرقل نے کہا: یہی لوگ رسولوں کی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں ۔
اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کمزور لوگوں میں سے تھے‘جیسا کہ حضرت عمار‘ حضرت بلال اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہم ؛ تو پھر بھی یہ چیز آپ کے کمال ایمان اورتقوی میں قدح کاموجب نہیں ہوسکتی۔جیسا کہ ان دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وتقوی اور اللہ کے ہاں کامل الخلق اور سب سے متقی ہونے میں کوئی چیزموجب قدح نہیں ہے۔
لیکن رافضیوں کاکلام عہدجاہلیت کے مشرکین کے کلام کی جنس سے ہوتا ہے۔یہ اپنے باپ دادا اور نسب کی وجہ سے تعصب برتتے ہیں دین کی وجہ سے نہیں ۔اور انسان پر کسی ایسی وجہ سے عیب لگاتے ہیں جس سے اس کے ایمان و تقوی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔یہ تمام جاہلیت کے افعال ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ روافض پر جاہلیت غالب ہوتی ہے۔ اور خودکئی ایک ان وجوہات کی بناپرکفار سے مشابہت رکھتے ہیں ؛جن میں انہوں نے اہل ایمان و اسلام کی مخالفت کی ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورپیشہ سلائی؟:
[اعتراض]:رافضی کا یہ کہنا ہے کہ: ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد درزی کا کام کیا کرتے تھے۔جب آپ مسلمانوں کے ولی الامر بن گئے تو لوگوں نے آپ کو درزی کا کام کرنے سے روک دیا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ درزی تھے۔اس دعوی کا جھوٹ ہونا ہر معرفت رکھنے والے انسان پر عیان ہے۔اور اگرحقیقت میں ایسا ہوتا بھی تو اس میں کوئی عیب والی بات نہیں تھی۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تاجر تھے درزی نہ تھے۔آپ کبھی اپنال مال تجارت لیکر خود سفر کرتے ‘ اور کبھی خود نہ بھی جاتے۔آپ نے عہد اسلام میں تجارت کی غرض سے شام کا سفر کیا۔تجارت قریش کے ہاں افضل ترین ذریعہ آمدن تھا۔ان کے مالداروں میں سے بہترین لوگ تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ اور عرب انہیں تاجروں کی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اس وقت بھی تجارتی مشاغل جاری رکھنا چاہتے تھے ‘ مگرمسلمانوں نے اس سے روک دیا؛ اور عرض گزار ہوئے کہ : یہ کام آپ کومسلمانوں کی مصلحت کے کاموں سے روک دے گا۔‘‘
درزی کایہ پیشہ قریش میں بڑاکم یاب تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش عام طور سے تہ بند باندھتے اور اوپر چادر اوڑھ لیا کرتے تھے۔[ اس لیے کپڑے سینے کی ضرورت ہی لاحق نہیں ہوا کرتی تھی]۔
مدینہ طیبہ میں ایک درزی ہوا کرتا تھا۔اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھرپر بھی بلایا تھا۔[حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مدینہ میں ایک درزی تھا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی۔میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا گیا ۔ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پلیٹ سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے کھارہے تھے۔تو اس وقت سے مجھے کدو سے محبت ہو گئی۔[بخاری‘ کتاب الاطعمہ ‘باب من تتبع حوالی القصعہ ۔وکتاب البیوع ‘ باب ذکر الخیاط۔نیز دیکھیں صحیح مسلم ‘ ۳؍۱۶۱۵۔]]
جب کہ مہاجرین میں سے کسی ایک کے متعلق ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ وہ درزی کاکام کرتا ہو۔حالانکہ درزی کا پیشہ بڑا ہی اچھا اور باعزت پیشہ ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی راہ میں خرچ کرناتواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اسے ہر خاص و عام جانتا ہے۔اسلام سے قبل آپ بڑے مال دار تھے۔ قریش آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے آپ کی تعظیم کرتے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔ آپ کو عربوں کے نسب اور ان کی لڑائیوں کے بارے میں بہت علم حاصل تھا۔لوگ آپ کے علم و احسان اور تجارتی مقاصد کی وجہ سے آپ کے پاس آتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مکہ سے نکلے تو ابن دغنہ نے کہا: ’’آپ جیسا آدمی نہ نکل سکتا اور نہ نکالا جاسکتا ہے ۔‘‘
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ قریش یا کسی دوسرے نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کا کوئی عیب لگایا ہو۔نہ ہی کسی نے آپ میں کوئی نقص نکالا اورنہ ہی آپ کو حقیر سمجھا؛ جیسا کہ کمزور مسلمانوں کے ساتھ ان لوگوں کا رویہ رہتا تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے علاوہ کوئی قابل عیب بات نہیں تھی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے متعلق قریش کے ہاں کسی قسم کی کوئی عیب یا نقص والی بات یا مذموم چیز نہیں پائی جاتی تھی۔بلکہ آپ خاندان اور گھر بار کے لحاظ سے قابل صدتکریم وتعظیم تھے۔ آپ کے مکارم اخلاق صدق و وفاء اورامانت داری مشہور تھے۔ایسے ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے متعلق ان کے ہاں کوئی عیب والی بات نہیں تھی۔
ابن دغنہ علاقہ کا سردار اور اپنے قبیلہ کا رئیس تھا۔ اسے قریش میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؛ اس کی عزت و احترام کی وجہ قریش اس کو پناہ دیدیتے تھے جس کو یہ پناہ دے دیتا۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ :
’’جب قریش مکہ نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکلے۔جب برک غماد پہنچے تو ان سے علاقہ کے سردار ابن دغنہ کی ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ابوبکر رضی اللہ عنہ !کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ:’’ مجھ کو میری قوم نے نکال دیا ہے؛اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر کروں اور اپنے پروردگار کی عبادت کروں ۔‘‘
ابن دغنہ نے کہا کہ:’’ تم جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے اور نہ نکلا جا سکتا ہے؛ اس لیے کہ تم فقراء کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو اور عاجز و مجبور کا بوجھ اٹھاتے ، مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور حق(پر قائم رہنے)کی وجہ سے آنے والی مصیبت پر مدد کرتے ہو؛میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم لوٹ چلو؛اور اپنے ملک میں اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘
چنانچہ ابن دغنہ روانہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر واپس ہوا ؛اور کفار قریش کے سرداروں میں گھوما اور ان سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے جو تنگدستوں کے لیے کماتا ہے صلہ رحمی کرتا ہے، عاجزوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ راہ حق میں پیش آنے والی مصیبت میں مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ منظور کرلی ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے کر ابن دغنہ سے کہا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہہ دو کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں ، نماز پڑھیں ، لیکن ہمیں تکلیف نہ دیں اور نہ اس کا اعلان کریں ، اس لیے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور عورتیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔‘‘
ابن دغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہہ دیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور نہ تو نماز اعلانیہ پڑھتے اور نہ قرأت اعلانیہ کرتے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں کچھ خیال پیدا ہوا، تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور باہر نکل کر وہاں نماز اور قرآن پڑھنے لگے، تو مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے، ان لوگوں کو اچھا معلوم ہوتا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے رہتے ۔ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے آدمی تھے کہ بہت روتے اور جب قرآن پڑھتے تو انہیں آنسوں پر اختیار نہیں رہتا تھا۔ مشرکین قریش کے سردار گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلا بھیجا وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے ابن دغنہ سے کہا کہ ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کریں ، لیکن انہوں نے اس سے تجاوز کیا اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالی۔ اعلانیہ نماز اور قرآن پڑھنے لگے اور ہمیں خطرہ ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری عورتیں گمراہ نہ ہو جائیں ۔ اس لیے ان کے پاس جا کر کہو کہ اگر وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت پر اکتفا کرتے ہیں تو کریں اور اگر اس کو اعلانیہ کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ تمہارا ذمہ واپس کر دیں ، اس لیے کہ ہمیں پسند نہیں کہ ہم تمہاری امان کو توڑیں اور نہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اعلانیہ عبادت کرنے پر قائم رہنے دے سکتے ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ابن دغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذمہ ایک شرط پر لیا تھا، یا تو اسی پر اکتفا کرو یا میرا ذمہ مجھے واپس کر دو، اس لیے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب اس بات کو سنیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے ذمہ میں لیا تھا، اور میرا ذمہ توڑا گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تیرا ذمہ تجھے واپس دیتا ہوں اور اللہ کی پناہ پر راضی ہوں ۔‘‘
اس روایت میں ابن دغنہ قبائل قریش کے سرداروں کی موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہ اوصاف بیان کرتے ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اس وقت بیان کیے تھے کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ’’ مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہونے لگا۔‘‘تو آپ فرمانے لگیں :
’’ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہر گز آپ کو پریشان نہیں کرے گا ؛ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ؛ کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ؛ بے آسرا کا سہارا بنتے ہیں ۔ اور حق کے کاموں پر مدد کرتے ہیں ۔‘‘
یہ صفات اس نبی کی صفات ہیں جو افضل الانبیاء ہیں اور اس صدیق کی صفات ہیں جو افضل صدیقین ہے۔
صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور فرمایا:
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کو دنیا اور اس چیز کے درمیان جو اللہ کے پاس ہے اختیار دیا ہے تو بندہ نے اس چیز کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘
پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے؛ اور فرمانے لگے: ’’ ہمارے ماں باپ آپ پرقربان جائیں ۔‘‘
بعد میں معلوم ہوا وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب میں زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ رونا نہیں ۔‘‘اورفرمایا:
’’ سب لوگوں سے زیادہ اپنی صحبت اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اگر میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے سوا خلیل بناتا تو بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ لیکن اخوت اسلامی اور مودت(مساوی درجہ کی برقرار )ہے آئندہ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے علاوہ کوئی دروازہ ایسا نہ رہے جو بند نہ کیا جائے۔‘‘ [صحیح بخاری:ج:ح871]
صحیحین میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : آپ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا اٹھائے ہوئے تشریف لائے ....پھر پوری حدیث بیان کی ؛ اس میں ہے :
’’ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ؛تو تم لوگوں نے کہا جھوٹا ہے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ سچ فرماتے ہیں ۔ اور انہوں نے اپنے مال و جان سے میری خدمت کی۔ پس کیا تم میرے لیے میرے دوست کو چھوڑ دو گے یا نہیں دو مرتبہ(یہی فرمایا)۔‘‘[سبق تخریجہ]
جیسا کہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں اپنے سر پر ایک کپڑا باندھے ہوئے گھر سے نکلے؛ مسجد میں آئے اور منبر پر بیٹھ کراللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا:
’’کسی شخص نے اپنی جان و مال سے مجھ پر اتنا احسان نہیں کیا جتنا ابوبکربن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما نے کیا ہے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے ابو معاویہ سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے اعمش سے ‘ وہ ابو صالح سے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘
تو اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے ‘ اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اور میرا مال تو صرف آپ کے لیے ہی تو ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
حضرت زہری نے سعید بن مسیب رحمہما اللہ سے روایت کیا ہے :وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسلمانوں میں سے کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا، جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے ہوا۔‘‘
اسی مال سے آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال کے متعلق ایسے فیصلہ کرتے تھے جیسے کو ئی انسان اپنے ذاتی مال کے متعلق فیصلہ کرتا ہے ۔‘‘