Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کی قبرستان میں دفن کرنا


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک گورِ غریباں مسلمانوں کا جو سینکڑوں برس سے قائم مقام ہے، اور برابر اس میں میت مسلمانوں کی دفن ہوا کرتی ہے، بالفعل ایک مردہ غیر مسلم کا ہاتھ پیر باندھ کر ایک گڑھا کھود کر اس گورستان قدیم میں بٹھا کر مٹی سے ڈھانک دیا اور باوجود منع کرنے کے عام مسلمانوں کے زبردستی سے ایک مسلمان اہل دول کے یہ کام ہوا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ فعل اس مسلمان اہل دول نے جو کیا جائز کیا یا ناجائز کیا تو قابلِ ملامت ہے یا نہیں؟ اور سلف سے کیا انتظام گورستان کا چلا آتا ہے، عام گورستان مسلمانوں کا اور غیر مسلمانوں کا علیحدہ علیحدہ رہا کیا ہے یا نہیں؟

جواب: جاننا چاہیے کہ مسلمانوں کے مقبروں میں کفار و مشرکین کو دفن کرنا حرام ہے ہرگز جائز نہیں ہے اور اس فعل میں امواتِ مسلمین کے ساتھ بے حرمتی کرنا ہے، جس مسلمان نے ایسا فعل کیا ہے اس نے گناہ کبیرہ کیا اس کو توبہ لازم ہے۔

اموات مشرکین و کفار کو مقابرِ مسلمین میں دفن کرنے کی دلیل حرمت یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے امواتِ مسلمین کی زیارت کا حکم دیا ہے اور ان کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر ان کے لیے دعا کرنے کو فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مشرکین کی قبر کے پاس کھڑے ہونے کو منع فرمایا ہے اور حضور اکرمﷺ نے مشرکین کے قبور سے جلد گزر جانے کا حکم دیا ہے اور تاکید کیا ہے کہ ذرا بھی وہاں مت ٹھہرو۔ پھر جب اختلاط قبورِ مسلمین و مشرکین کا ہوگا تو مسلمان کیونکر امواتِ مسلمین کی زیارت کریں گے اور کیوں کر ان کی قبر کے پاس کھڑے ہو نگے۔ کیونکہ جب مسلمانوں کے قبر کے پاس کھڑے ہوں گے تو باعثِ اختلاط قبور مشرکین کے مشرکین کی قبر کے پاس بھی کھڑا ہونے لازم آئے گا۔ اور شریعت نے حکم دیا ہے کہ تم مشرکین کے قبر کے پاس سے بھاگو۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے سورہ توبہ میں فرمایا:

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ (سورۃ التوبہ: آیت، 84)

ترجمہ: اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے، تو تم اس پر کبھی نماز (جنازہ) مت پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔

ترمذی میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضور اکرمﷺ نے کسی منافق میت کی نماز نہ پڑھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حجر یعنی دیار ثمود کے پاس پہنچے جہاں پر قوم ثمود گڑی ہوئی تھی تو حضور اکرمﷺ نے اپنے اصحاب کو فرمایا: تم لوگ قوم ثمود کی قبروں کے پاس مت جاؤ اور خود حضور اکرمﷺ وہاں پر سے بہت تیز گزر گئے۔

حافظ عبد العظیم منذری نے کتاب الترغيب والترهيب میں باب باندھا ہے کہ ظالمین یعنی مشرکین و کفار کی قبور کے پاس سے گزر جانے میں خوف کرنا چاہیے، اور تیز چلنا چاہیے اور یہی حدیث سیدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی اس باب میں لائے ہیں۔

اور قدیم الایام رسولﷺ کے زمانہ مبارک سے اس وقت تک یہی دستور و عمل رہا کہ مسلمانوں کا مقبرہ مشرکین کی مقبروں سے علیحدہ ہے، کیونکہ شارع علیہ السلام نے امواتِ مسلمین کے احترام کرنے کا حکم دیا ہے، اور امواتِ کفار کا کچھ بھی احترام نہیں ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب منعقد کیا ہے: باب هل ينبش قبور مشركى الجاهليه ويتخذ مكانها مساجد اور اس باب میں حدیث قصہ بناء مسجد نبوی کا لائے ہیں اس کا جملہ اخیرہ یہ ہے

قال انس فكان فيه ما اقول لكم قبور المشركين وفي حزب وفيه نخل فامر النبيﷺ القبور المشركين فنبشت ثم بالحزب فسويت الحديث:

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ قبور مشرکین کے ساتھ کچھ احترام نہیں بلکہ وقت ضرورت مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر زمین کو برابر کر دینا جائز ہے۔

اور صحیح بخاری کے باب ما جاء فی قبر النبیﷺ وابي بكر و عمر میں ہے کہ قل يسأذن عمر بن الخطاب فأن اذنت لى فدفنوني والافردوني الى مقابر المسلمين انتهى: 

اس روایت سے مقابر مسلمین کا علیحدہ ہونا ثابت ہوا۔

(فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی: صفحہ، 130)