Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[ صدقات ابوبکر رضی اللہ عنہ ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[ صدقات ِ ابوبکر رضی اللہ عنہ ]

[اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ: ’’اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوتے تو ان کے بارے میں اسی طرح قرآن نازل ہوتا جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیت﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ﴾ اتری تھی۔

[جواب ]:اس کا جواب یہ ہے کہ: جس حدیث میں مذکورہ آیت :﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ﴾ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل ہونے کا ذکر ہے ؛اس کے موضوع[من گھڑت] ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔اس کا تذکرہ وہی مفسرین کرتے ہیں جن کی عادت ہے کہ وہ موضوع روایات کو بھی [بغیر کی تحقیق وبیان] کے جمع کردیتے ہیں ۔اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ : ﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ﴾ کے مکی سورۃ ہونے پر لوگوں کا اتفاق ہے؛ جو کہ ہجرت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے سے پہلے نازل ہوئی ہے۔اس وقت ابھی تک حسن و حسین رضی اللہ عنہما پیدانہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلہ پر ہم کئی ایک مقامات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کر چکے ہیں ۔قرآن کی کوئی ایک آیت بھی خصوصی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انفاق فے سبیل اللہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ اس وقت میں آپ کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔بلکہ ہجرت سے پہلے آپ کا شمار بھی عیال نبوت کے ساتھ ہوتا تھا۔ اور ہجرت کے بعد کبھی کبھار آپ مزدوری بھی کیا کرتے تھے ۔ ایک کھجول کے بدلے ایک ڈول پانی نکالا کرتے تھے۔جب آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو آپ کے پاس مہر دینے کے لیے سوائے ایک درع کے کچھ بھی نہیں تھا۔آپ نے اپنی شادی پر وہ مال خرچ کیا جو آپ کو غزوہ بدر میں مال غنیمت سے آپ کوملا تھا۔

صحیحین میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:آپ فرماتے ہیں :

’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے دن غنیمت میں ایک اونٹنی ملی، اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹنی اور دی۔ جب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنا چاہی تو نبی قینقاع کے ایک سنارکے ساتھ وعدہ طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے گا؛ تاکہ ہم اذخر لاکر سناروں پر بیچیں گے اور اس پیسہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ کی دعوت میں مدد لوں گا۔جب میں اپنی اونٹنیوں کے لیے سازو سامان تیار کررہا تھا اوران دونوں اونٹنیوں کو میں نے ایک انصاری کے دروازے پر بٹھایاتھا۔اورفرمایا: حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی گھر میں شراب پی رہے تھے‘ ان کیساتھ ایک گانے والی تھی جو گا رہی تھی ’’ألا یا حمز لِلشرفِ النِوائِ ۔‘‘اے حمزہ ! آگاہ ہو؛دو فربہ اونیٹناں لے لو۔‘‘حمزہ ان دونوں اونٹنیوں کی طرف تلوار لے کر جھپٹ پڑے ان کی کوہان کاٹ ڈالے اور کولہے کاٹ دیئے ....۔‘‘پھر پوری حدیث بیان کی۔یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔‘‘[صحیح بخاری:ح2237]

جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ مختلف ہے ‘ ہر وہ آیت جو انفاق فے سبیل کرنے والوں کی مدح میں نازل ہوئی ہے ‘ تو اس امت میں اس آیت کے سب سے پہلے مقصود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔مثلاً اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :

﴿ لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا﴾ [الحدید۱۰]

’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ﴾ [التوبۃ۲۰]

’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی﴾ [اللیل۱۷۔۱۸]

’’اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔‘‘

مشہور مفسرین جیسے ابن جریر الطبری‘ عبدالرحمن بن ابی حاتم ؛ اور دوسروں نے اسناد کیساتھ حضرت عبداللہ بن زبیر ‘ عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب رحمہم اللہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ [طبری۳۰؍۲۲۸]