Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام کا جواب ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام کا جواب ]

شیعہ کا یہ قول ہے کہ: ’’نماز میں آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کی بات غلط ہے۔ اس لیے کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان دیدی؛ توعائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنایا جائے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ راحت ہوئی تو آپ نے تکبیر کی آواز سنی۔توآپ نے پوچھا: لوگوں کونماز کون پڑھا رہا ہے۔کہنے لگے : ابوبکر ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے باہر لے چلو۔‘‘ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چلتے ہوئے باہر نکلے ۔‘‘ آپ نے ابوبکر کو قبلہ سے ہٹا دیا ۔اور انہیں امامت سے معزول کرکے خود نماز پڑھانے لگے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

[جواب اوّل]:....حد درجہ کی افتراء پردازی پر مبنی ہے۔تمام محدثین کے ہاں اس روایت کا جھوٹ ہونا معلوم ہے۔ [علاوہ ازیں یہ مکابرہ اور انکار متواتر کی بدترین قسم ہے]۔ ہم شیعہ مصنف سے اس کی صحت ثابت کرنے اور اس کی اسناد ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔یہ روایت مرسلاً صرف روافض کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے جو کہ سب سے بڑے جھوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سے جاہل ترین لوگ ہیں ۔یہ واقعہ[ ابن المطہر رافضی کے اساتذہ ]مثلاً شیخ المفید و کراجکی اور ان کے نظائر و امثال نے بیان کیا ہے جن کی تصانیف جھوٹ کا پلندہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اقوال اور اعمال کی معرفت سے سب سے بیگانے وبعیدہیں ۔ 

جواب دوم:....یہ ایسے جاہل انسان کا کلام ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت صرف ایک نماز سے تعلق رکھتی تھی [جس کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا جا سکے]۔ اہل علم اس حقیقت سے کلیۃً آگاہ ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبوی کریم صلی اللہ علیہ وسلم [کی بیماری کے شروع سے] وفات تک نمازیں پڑھائی تھیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق آپ کے حکم سے آپ کی نیابت میں لوگوں کونمازیں پڑھارہے تھے۔اس بارے میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے آپ سے بات بھی کی تھی۔ آپ نے کئی دن تک نمازیں پڑھائیں ۔ اس سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا نائب مقرر کرچکے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے ساتھ صلح کرنے کے لیے گئے تھے تو حضرت ابوبکر کو ہی نماز پڑھانے کے لیے امام مقرر کیاتھا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ سفر کے علاوہ اپنی عدم موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو امامت سونپی ہو۔ہاں غزوہ تبوک والے سال ایک بار قضاء حاجت کے لیے تشریف لے گئے تھے اورآپ کو دیر ہوگئی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں کوفجر کی نماز پڑھا دی ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ کے ساتھ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ؛اور ایک رکعت جو فوت ہوچکی تھی ؛ اسے پورا کیا ۔ نماز کے بارے میں لوگوں کا یہ اہتمام آپ کو بہت پسند آیا ؛ اورآپ نے اسے برقرار رکھا۔ یہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر بھی آپ کا اقرار ہے۔[الحدیث عن المغیرۃ بن شعبۃ رواہ مسلم کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلي بہم إذا تأخر الإمام۔ اس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا ۔یا یہ فرمایاکہ : تم نے حق کو پالیا۔]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے باہر کا سفر کرتے تو مدینہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر فرماتے جو لوگوں کونمازیں پڑھاتا۔ تو کبھی آپ نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا توکبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے کو اپنا نائب بنایا۔

جب کہ مدینہ میں موجود ہوتے ہوئے اپنی عدم موجودگی میں اور بیماری کی حالت میں صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھانے پر مامور فرمایا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ یاکسی اورکو نہیں ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بات تواتر سے ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ا س کے اثبات میں صحاح وسنن اور مسانید وغیرہ متعدد نصوص موجود ہیں ۔امام بخاری و مسلم اور ابن خزیمہ و ابن حبان نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے:

(( مرض النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فاشتد مرضہ فقال: مروا أبا بکر فلیصل بالناس۔‘‘ قالت عائشۃ:’’یارسول اللّٰہ! أن أبا بکر رجل رقیق متی یقم مقامک لا یستطیع أن یصلی بالناس۔‘‘ قال: مري أبا بکر فلیصل بالناس۔ فإنکن صواحب یوسف۔))

’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کا مرض بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا :’’ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !بیشک حضرت ابوبکر نرم دل آدمی ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔‘‘ لیکن پھر بھی آپ نے فرمایا :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ‘‘اور تم تو وہ عورتیں معلوم ہوتی ہو جنہوں نے یوسف کو گھیر رکھا تھا ۔‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ نے تین بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تکرار کا ذکر کیا ہے۔[صحیح بخاری:ح 645۔مسلم‘کتاب الصلاۃ ‘باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بہم إذا تأخر الإمام ۱؍۳۱۷۔]

اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا پورا عرصہ نمازیں پڑھاتے رہے؛ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس لیے کہ وفات سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن بیمار رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا۔ ان ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی ایک نے بھی نمازیں نہیں پڑھائیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ شریفہ مسجد کے پہلو میں تھا۔جب احوال یہ ہیں تو پھر یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ اس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور نمازیں پڑھانے کا حکم دیا ہو؛ یا کسی نے آپ سے اس بارے میں بات کی ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوا کرتے تھے۔ اور ان دنوں میں سے کسی ایک دن میں ان کے ساتھ باہر نکلے بھی تھے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بیماری کے ابتدائی دنوں میں جمعرات کے دن کی بات ہے۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بلا خلاف دوسرے ہفتہ میں پیر کے دن ہوا تھا۔اس طرح آپ کی بیماری کے کل بارہ دن بنتے ہیں ۔

صحیح مسلم میں حضرت عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ فرمایا کیوں نہیں :

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسول!وہ توآپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے برتن میں پانی رکھ دو ۔ ہم نے ایسا ہی کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا ؛پھر آپ چلنے لگے تو بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر افاقہ ہوا تو فرمایا: کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہے ؟

ہم نے عرض کیا :نہیں ؛بلکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں بیٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشاء کی نماز کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ تو اس نے جا کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے اس لیے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ:’’ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :’’پھر ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دنوں میں نماز پڑھائی۔‘‘

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں کچھ کمی محسوس کی تو دو آدمیوں کے سہارے ظہر کی نماز کے لیے نکلے؛ ان میں ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہوں ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو فرمایا:’’ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دو؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرتے رہے ؛اورلوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کررہے تھے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔

عبیداللہ نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا :’’کیا میں آپ کی خدمت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کے بارے میں حدیث پیش نہ کروں جو آپ نے مجھ سے بیان کی ہے؟ تو انہوں نے کہا :لے آؤ۔ تو میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ان پر پیش کی؛ تو انہوں نے اس میں سے کسی چیز کا انکار نہیں کیا؛ سوائے اس کے کہ انہوں نے فرمایا:’’ کیاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تجھے عباس رضی اللہ عنہ کیساتھ جو آدمی تھااسکا نام بتایا ہے؟ میں نے کہا: نہیں ؛توابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:’’وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ [یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بخارِی میں مروی ہے۔۱؍۱۳۸۔کتاب الأذانِ،باب إِنما جعِل الإِمام لِیؤتم بِہ۔ مسلِم۱؍۳۱۳۔کتاب الصلاِۃ، باب استِخلافِ الإِمامِ إِذا عرض لہ عذر۔[ مسلم:ح931۔]

یہ حدیث جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اتفاق ہے ؛ اس میں یہ دونوں حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ؛ اورامامت ِ نماز میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کوبیان کر رہے ہیں ۔اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر نکلنے سے کئی دن پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کونماز پڑھاتے رہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے توآپ کو حکم دیا کہ پیچھے نہ ہٹیں ؛ بلکہ اپنی جگہ پر قائم رہیں ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پہلو میں بیٹھ گئے ؛ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کررہے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ۔

تمام علماء کرام کا اس حدیث کی صحت اور قبولیت پر اتفاق ہے۔اور اس حدیث سے کئی فقہی مسائل اخذ کیے ہیں ۔ان میں سے ایک یہ کہ : ۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھارہے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور باقی لوگ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے ؛ توکیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے؟یا یہ عمل آپ کی اس مشہور حدیث کے لیے ناسخ ہے جس میں آپ نے فرمایاہے:

((وإِذا صلَّی جالِساً فصلوا جلوساً أجمعون ))

’’ جب امام بیٹھ کرنماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کرنما ز پڑھو ۔‘‘

یا پھر دونوں باتوں کو جمع کیا جائے گا۔اور دوسری حدیث کو نماز کو بیٹھ کر شروع کرنے پر محمول کیا جائے گا۔ جب کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ جب نماز کے دوران بیٹھنے کی ضرورت پیش آجائے۔ اس مسئلہ میں علماء کرام کے تین اقوال ہیں ۔

پہلا قول امام مالک اور محمد بن الحسن رحمہما اللہ کا ہے۔ جب دوسرا قول امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کا ہے۔ اور تیسرا قول امام احمد بن حنبل ‘حماد بن زید ‘اوزاعی اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ کا ہے ؛ جوکہ مقتدیوں کو اس وقت بیٹھ کرنماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں جب امام کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو۔اور اس مسئلہ میں بھی علماء کرام نے کلام کیاہے کہ جب متعین امام نماز پڑہانے کے لیے کسی کواپنا جانشین مقرر کرے؛ پھر وہ نماز کے دوران خود بھی حاضر ہوجائے؛ تو کیا یہ امام ان کی نماز کو پورا کرے گا ؛ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کی حالت میں اور ایک دوسرے موقع پر بھی کیا تھا؛ جس کا ذکر عنقریب آرہا ہے۔ یا پھر ایسا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں دو قول ہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جس چیز کی خبر دی ہے؛ انہوں نے بالکل سچی خبردی ہے ۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے معمولی سی ناراضگی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کانام بھی نہیں لیا۔ جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل تھے ؛ اور آپ پر کسی قسم کی کوئی تہمت نہیں رکھتے تھے۔ مگر آپ نے اس کے باوجود جو کچھ ارشاد فرمایا بالکل سچ ارشاد فرمایا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لینے کے بجائے ایک دوسرا آدمی کہہ دیا۔مگر جو کچھ آپ نے بیان کیا اس میں نہ ہی کوئی جھوٹ بولا اور نہ ہی کوئی غلطی کی۔

صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے امام نہ بنانے پر) اصرار کیا ۔اور اس بار بار اصرار کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس بات کا خیال نہ تھا کہ آپ کے بعد لوگ اس سے محبت کریں گے جو آپ کے بعد آپ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ جو شخص آپ کی جگہ کھڑا ہوگا لوگ اس کو منحوس تصور کریں گے ۔ تو اسی لیے میں نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے سے معاف رکھیں تو مناسب ہوگا۔‘‘[یہ حدیث حضرت عائِشہ رضی اللہ عنہا سے بخاری میں مروی ہے۔۶؍۱۲۔کتاب المغازیِ، مرضِ النبِیِ صلي اللّٰه عليه وسلم ووفاتِہِ۔ مسلِم ۱؍۳۱۳۔ کتاب الصلاِۃ، باب استِخلافِ الإِمامِ إِذا عرض لہ عذر۔[ صحیح مسلم:ح 934۔]

صحیحین میں ہے آپ فرماتی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیماری میں سے کچھ افاقہ ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلانے کے لیے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نے عرض کی : ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے،تو لوگ ان کے رونے کے سبب سے ان کی آواز نہ سن سکیں گے، اس لیے اگرآپ چاہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ نماز پڑھائیں ۔ آپ نے فرمایا:’’ ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ حضرت ابوبکر بہت نرم دل ہیں ؛جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو ان کے رونے کے سبب سے لوگ ان کی آواز سن نہ سکیں گے۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں ۔‘‘ چنانچہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بیشک تم تو یوسف کی ساتھی عورتیں ہوں ۔‘‘ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔بخاری کی روایت میں ہے: چنانچہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ٹھہر جاؤ؛یقیناً تم یوسف کی ساتھی عورتیں ہوں ۔‘‘ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔‘‘حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی۔‘‘[صحیح بخاری:ح2178۔]

اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیااور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرنے کو کہا۔ اسی تکرار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملامت کیا‘ اوران کے تکرار کو ایسے باطل ٹھہرایا جیسے یوسف علیہ السلام کی ساتھی عورتوں نے باطل کی کوشش کی تھی۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کو نماز پڑھانے کے لیے آگے کرنا ایسا باطل ہے جوملامت کامستحق ہے۔جس طرح کہ باطل کی کوشش پر یوسف علیہ السلام کی ساتھی عورتوں کی مذمت و ملامت کی گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: نماز پڑھائیے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے نہیں بڑھے؛ بلکہ فرمانے لگے: آپ ہی اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔

جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدینہ طیبہ میں خطبہ-اس کا تذکرہ پہلے بھی گزر چکا ہے- کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

’’سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ: ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ہو۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح حضرت سعد رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو روک دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :اللہ کی قسم! میں نے یہ ارادہ اس لیے کیا تھا کہ میں نے ایک ایسا کلام سوچا تھا جو میرے نزدیک بہت اچھا تھا مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ وہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں پہنچیں گے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلام کیا جیسے بہت بڑا فصیح و بلیغ آدمی گفتگو کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہم لوگ امیر بنیں گے تم وزیر رہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں ؛اللہ کی قسم !ہم یہ نہ کریں گے بلکہ ایک امیر ہم میں سے بنا ایک امیر تم میں سے مقرر کیا جائیگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ نہیں بلکہ ہم امیر و صدر بنیں گے اور تم وزیر اس لیے کہ قریش باعتبار مکان کے تمام عرب میں عمدہ برتر اور فضائل کے لحاظ سے بڑے اور بزرگ تر ہیں ۔ لہذ اتم عمر رضی اللہ عنہ یا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے بیت کرلو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے:’’ جی نہیں ہم تو آپ سے بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار اور ہم سب میں بہتر اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے بیعت کرلی اور لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔ جس پر ایک کہنے والے نے کہا تم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:’’اللہ تعالیٰ نے ہی اسے قتل کردیا ہے۔‘‘

اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے سردار؛ ان سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ لہٰذا اس علت کی بنا پر آپ کی بیعت کی جائے۔اور پھر اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ بلکہ ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے اس لیے کہ آپ ہمارے سردار اور ہم سب میں بہتر اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں ۔‘‘ تاکہ لوگوں کے سامنے واضح ہوجائے کہ مامور بہ افضل کو ولایت تفویض کرنا ہے۔اورآپ ہی ہم سب سے افضل ہیں ‘ اس لیے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں ۔

صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟

تو آپ نے فرمایا: ’’ ابوبکر ۔‘‘ [البخارِی۵؍۱۶۵۔مسلِم۴؍۱۸۵۶]۔

صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘

محدثین کرام اس حدیث کے بارے میں قطعی طور پر کہتے ہیں : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے۔بھلے کوئی ایسا انسان بھی ہو جس کا علم ان کے علم جیسا نہ ہو اور اس نے یہ حدیث نہ سنی ہو‘یہ حدیث میں سچ اور جھوٹ کی پہچان سے عاری ہو ۔ تو اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں ‘ اس لیے کہ علم کے لیے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو علمی واجبات ادا کرتے ہیں ۔اور جنگوں کے لیے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ او ردیوان اور حساب کے لیے محاسب اور منشی ہوتے ہیں جو ان چیزوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں ۔

یہی تین وہ لوگ ہیں جو صحیح مسلم میں ابن ابی ملیکہ کی سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے مقصود ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :

’’میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : ’’ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خلیفہ متعین کرتے تو کس کو کرتے ؟ فرمانے لگیں : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے بعد کسے بنایا جاتا ؟ فرمایا: ’’ عمر رضی اللہ عنہ کو ۔‘‘ پھر پوچھا گیا : اس کے بعد کسے خلیفہ بناتے ؟فرمایا: ’’ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو رضی اللہ عنہ ‘‘ اس کے بعد خاموش ہوگئیں ۔

یہاں پر مقصود یہ بتانا ہے کہ نماز میں جانشینی کئی دن تک رہی۔جیسا کہ اس روایت پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے ؛ اور یہ روایت صحاح ستہ کے مؤلفین نے حضرت ابوموسیٰ ‘ حضرت ابن عباس‘حضرت عائشہ ‘ حضرت ابن عمر ؛ حضرت أنس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے:’’رسول اللہ کا فرمان کہ :’’ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بار تکرار۔اوراسی قصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے:’’ یقیناً تم یوسف کی ساتھی عورتیں ہو۔ابوبکر کو حکم دو کہ تم لوگوں کو نماز پڑھا ئیں ۔‘‘اس پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے تمام دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کونمازیں پڑھاتے رہے۔ اورآخری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابوبکر کے پیچھے پیر کے دن فجر کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا؛ اور آپ کو یہ منظر بہت اچھا لگا اور اس پر بہت خوش ہوئے ۔ [البخارِی۱؍۱۳۲؛ کتاب الاذان‘ باب أھل العلم و الفضل۔مسلِم۱؍۳۱۳؛ کتاب الصلاۃ ‘ باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر۔ ]

اور صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ [ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور صحابی تھے] سے روایت ہے:

(( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب دو شنبہ کا دن ہوا اور لوگ نماز میں صف بستہ تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور ہم لوگوں کی طرف کھڑے ہو کر دیکھنے لگے اس وقت آپ کا چہرہ مبارک گویا مصحف کا صفحہ تھا پھر آپ بشاشت سے مسکرائے ہم لوگوں نے خوشی کی وجہ سے چاہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے میں مشغول ہوجائیں اور ابوبکر اپنے پچھلے پیروں پچھے ہٹ آئے تاکہ صف میں مل جائیں ۔وہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے آنے والے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کرلو ؛اور آپ نے حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا اسی دن آپ نے وفات پائی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) [صحیح بخاری:ح647]

بخاری شریف کی بعض روایات میں ہے: مسلمانوں نے خوشی کے باعث یہ قصد کیا کہ اپنی نمازوں کو توڑ دیں ۔‘‘ [مگر آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نمازوں کو پورا کرلو اور آپ نے پردہ ڈال دیا]۔یہ نماز فجر کا واقعہ ہے۔[صحیح بخاری:ح720]

صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : میں نے آخری نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیر کے روز اس وقت دیکھا جب آپ نے پردہ ہٹایا۔‘‘ [اس کی تخریج گزر چکی ہے ]

صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ مرض وفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیں دن باہر نہیں نکلے۔ ایک دن نماز کی اقامت ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے لگے اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کو پکڑا اور اس کو اٹھایا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نظر آتے ہی ہمارے سامنے ایسا خوش کن منظر آگیا کہ اس سے زیادہ خوش کن منظر کبھی میسر نہ آیا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ابوبکر کو اشارہ کیا کہ آگے بڑھ جائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا پھر آپ کو قدرت نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی۔‘‘[صحیح بخاری:ح648۔مسلم ح 98]

اس روایت میں ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین روزہ وقفہ کے بعد دوسری بار حجرہ شریفہ سے باہر تشریف لانے کی خبر دے رہے ہیں ۔ان تین دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی ان لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے۔ جیسا کہ پہلی بار حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ باہر نکلنے سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نمازیں پڑھا یا کرتے تھے۔ یعنی اس سے پہلے بھی کئی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ یہ تمام روایات صحیح ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے انہیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ یہ آخری نماز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں نے ادا کی ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران یا اس سے پہلے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔

یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حکم بھی تھا جس کا پیغام لیکر آپ کا قاصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حکم نہیں پہنچایا تھا او رنہ ہی اپنے والد سے کہا تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ جیسا کہ یہ رافضی جھوٹے اپنی طرف سے افتراء پردازی کرتے ہیں ۔

ان جھوٹوں کا یہ کہنا کہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو حکم دیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کے لیے آگے بڑھائیں ؛ ایک کھلا ہوا اور واضح ترین جھوٹ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی حکم نہیں کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے کیا جائے۔ اورنہ ہی آپ حکم دیا کرتی تھیں ‘اور نہ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ سے احکامات وصول کیا کرتے تھے۔ بلکہ آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونماز کے وقت کی اطلاع دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حاضرین بشمول حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ یہ خطاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ اور نہ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ سے کوئی ایسی بات سنی تھی۔

رافضی کا یہ کہنا: ’’ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ نے تکبیر سنی ‘آپ نے پوچھا : ’’ نماز کون پڑھا رہا ہے ہے ؟ تو جواب دیا گیا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ مجھے باہر لے چلو۔‘‘

[جواب]: یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔وہ مشہور روایات جن کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ‘ان سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے سے کئی روز قبل بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کونمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے باہر تشریف لانے کے بعد بھی آپ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔آپ کی بیماری کے دوران کسی ایک دوسرے نے کوئی نماز نہیں پڑھائی۔

٭ پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گاکہ :یہ تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن تک بیمار رہے ؛ اور کئی دن تک آپ لوگوں کونماز نہیں پڑھا سکے۔تو پھر اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون تھا جو لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہا؟ کسی بھی سچے یا جھوٹے نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے نے نمازیں پڑھائی ہیں ‘ نہ ہی عمر نہ ہی علی اور نہ ہی کوئی دوسرا۔ رضی اللہ عنہم ۔ اوریہ لوگ باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے ‘ پس معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کو نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔

٭ یہ بات ممتنع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہ ہوا ہو۔اور نہ ہی مسلمانوں کو اس کی خبر ہوئی ہو۔ بلکہ یہ بات عادتاًممتنع ہے۔تو پتہ چلا کہ آپ کی اجازت سے ہی لوگوں کو نماز پڑھائی جارہی تھی۔جیساکہ صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے ‘اوریہ بھی ثابت ہے کہ اس بات پر آپ سے تکرار بھی کیا گیا تھا۔ اورکہا گیا: اگر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کو نماز پڑھانے کا حکم دیں ؟ تو آپ نے اس تکرار کرنے والے کو ملامت کی۔اور اس بات کو ایک برائی شمار کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استحقاق کا علم ہونے کے باوجود اس مسئلہ میں تکرار کیا جارہا ہے ۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ۔

امامت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور بشارتِ نبوت:

بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

’’اپنے والد اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں انھیں ایک تحریر لکھ دوں ، مجھے ڈر ہے کہ مبادا کوئی خواہش کنندہ اپنی خواہش کا اظہار کرے اور کہنے والا کہے کہ میں خلافت کے لیے موزوں تر ہوں ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول او ر اہل ایمان ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کرسکتے۔‘‘[البخاری ۷؍۱۱۹؛ مسلم ۴؍۱۸۵۷]۔

بخاری میں حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’ہائے میرا سر۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگرتو اسی درد میں مبتلارہ کر مرگئی تو تیرے لیے دعائے مغفرت کروں گااور دعا کروں گا ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’افسوس ! اللہ کی قسم! میرا تو خیال ہے کہ آپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو اسکے دوسرے ہی دن آپ اپنے دوسری بیویوں کے ساتھ رات گزاریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’ نہیں بلکہ میں خود بھی درد سر میں مبتلا ہوں ۔ اور میں نے چاہا کہ ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور ان کو وصیت کروں تاکہ کوئی کہنے والا کچھ کہہ نہ سکے اور نہ کوئی آرزو کرنے والا اس کی آرزو کرسکے۔ پھر میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ دوسرے کی خلافت کو ناپسند کرتا ہے اور مومن ہی اس کو نامنظور نہ کریں گے یا یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دفع کرے گا اور مسلمان بھی پسند نہ کریں گے۔‘‘[صحیح بخاری:ح632]

یہ صحیح حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے ایک تحریر لکھوا دیں ۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں ان سے زیادہ حق دار ہوں ۔ پھرفرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان اس کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘

اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (بنابر وحی) معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی اختیار کریں گے؛اور اہل ایمان آپ کو بالاتفاق خلیفہ تسلیم کرلیں گے اور آپ کی بیعت پر راضی ہو جائیں گے، تو آپ نے دستاویز لکھنے کی ضرورت نہ سمجھی ۔ سو ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوری ہوئی جو اللہ اوراس کے رسول اور اہل ایمان کے اختیار پر راضی نہیں ۔ [آپ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں دوبار اس بات کاارادہ کیا تھا۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا بھی تھا کہ اپنے والد او ر بھائی کو بلا لو۔یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شکایت سے پہلے کا معاملہ ہے۔اس وقت تو آپ نے فرمایا تھا: میرا ارادہ تھا کہ میں ابوبکر کے لیے ایک تحریر لکھوا دوں ۔‘‘ پھر آپ نے جمعرات کے دن اس چیزکا دوبارہ ارادہ کیا تھا۔صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:آپ فرماتے ہیں :’’ جمعرات کا دن؛ اور آہ!جمعرات کا دن بھی کیسا تھا؟[ اور پھر اتنا روئے کہ ان کے آنسوں سے سنگریزے تک بھیگ گئے اور پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن] رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’ لکھنے کے لیے کوئی چیز لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہی میں کبھی نہ پڑ سکو گے۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اختلاف نہ کرنا چاہیے۔ لوگ بولے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ پوچھو لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا ۔[اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے]۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم لوگ مجھے بلا رہے ہو۔‘‘ اور آپ نے بوقت وفات تین وصیتیں کیں مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں انعام دیا کرتا تھا اور تیسری وصیت میں خود بھول گیا ۔‘‘[صحیح بخاری:ح306]

صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ[ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا]تو گھر میں بہت سارے افراد موجود تھے‘ ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ میں تمہارے لیے ایک وصیت لکھ دوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہے وصیت لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے کتاب اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے بعد گھر میں موجود لوگ جھگڑنے لگے کوئی کہتا تھا: ہاں لکھوا لو اچھا ہے تم گمراہ نہ ہوں گے۔کوئی عمر رضی اللہ عنہ والی بات ہی کہتا۔ کسی نے کچھ اور کہا۔ اور باتیں بہت ہی زیادہ ہونے لگیں ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘

عبیداللہ بن عبداللہ زہری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے بعد افسوس سے کہا :’’یہ کیسی مصیبت ہے کہ جو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور آپ کی وصیت لکھوانے کے درمیان حائل کردی۔‘‘ [صحیح بخاری :ح1586]

یہاں سے شک پیدا ہوا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ’’ میں تمہارے لیے کتاب لکھوادوں جس کے تم گمراہ نہ ہوگے۔‘‘ یہ مرض میں تکلیف کی وجہ سے کہہ رہے تھے‘ یا یہ وہ حق تھا جس کی اتباع ضروری تھی؟جب شک واقعہ ہوگیا تو مقصود حاصل نہ ہوسکا۔ اور آپ بھی اس تحریر کے لکھوانے سے رک گئے۔اور یہ امت پر آپ کی شفقت و رحمت تھی کہ آپ ان سے اختلاف کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا بھی کیا کرتے تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ اختلاف ہو کر رہنا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں ؛پس دو چیزیں مجھ کو عطا کردیں گئیں اور ایک چیز سے مجھے روک دیا۔ میں نے اپنے رب سے مانگا کہ:’’ میری امت کو قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کرے ۔‘‘پس یہ مجھے عطاء کردیا گیا اور میں نے اللہ عزوجل سے مانگا کہ:’’ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے۔‘‘ پس اللہ عزوجل نے یہ چیز بھی مجھے عطا کر دی۔میں نے اللہ عزوجل سے سوال کیا کہ:’’ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی نہ ہو۔‘‘ تو مجھے اس سوال سے منع کردیا گیا۔‘‘[صحیح مسلم:ح2761]

یہی وجہ ہے کہ سیّدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :ہر طرح کی بدبختی اس انسان کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریرمیں حائل ہوا ؛ اس سے اختلاف ختم ہوجاتا۔ ہاں یہ بد بختی اس انسان کے حق میں ہے جوکوئی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک اور قدح کرے۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تحریر لکھوا دیتے تو اس کی وجہ سے شک کرنے والوں کا یہ شبہ بھی ختم ہوجاتا۔ اور یہ قول حق کیساتھ کہا جاسکتا کہ : آپ کی خلافت صریح نص جلی سے ثابت ہے۔جب یہ نص موجود نہیں ہے تو پھر یہ بدبختی بغیر کسی افراط و تفریط کے شک کرنے والے انسان کے حق میں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کھل کر پہنچادی تھی۔ اور بہت ساری ادلہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے حق دار اور دوسروں سے افضل تھے۔ یہ بدبختی ان اہل تقوی کے حق میں نہیں ہے جو کتاب و سنت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے لیے بد بختی ہے جس کے دل میں مرض پایا جاتا ہے۔جیساکہ قرآن کے وہ احکام جو اللہ تعالیٰ نے منسوخ کیے اورقرآن نازل کیا‘احد کے دن مسلمانوں کو پسپائی ہوئی۔ اور اس طرح کے دیگر واقعات اوردنیاوی مصائب ان لوگوں کے حق میں مصیبت ہیں جن کے دل مرض سے بھرے پڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ﴾

’’پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے۔‘‘ [آل عمران۷]

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اموران لوگوں کے حق میں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہو‘ ان کے علم و ایمان میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں ۔یہ ایسے ہی ہیں جیسے انسانوں اور جنات کے ساتھ شیاطین کا وجود؛ اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت کرنے اوران کے ساتھ مجاہدہ کرنے کی وجہ سے اہل ایمان کے درجات بلند کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان شیاطین کا وجود بھی ایک فتنہ اور آزمائش ہوتی ۔بہت سارے لوگوں کو یہ بہکاتے او رگمراہ کرتے ہیں ۔ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:

﴿جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِیْمَانًا ﴾

’’ اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں ۔‘‘ [المدثر۳۱]

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ ﴾’’جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے۔‘‘ [البقرۃ۱۴۲] 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنْ ہِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِہَا مَنْ تَشَآئُ وَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَآئُ﴾ [الأعراف ۱۵۵]

’’ یہ واقعہ محض تیری طرف سے امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَہُمْ﴾ [القمر ۲۷]’’بیشک ہم ان کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیجیں گے۔‘‘ ....اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : 

﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰٓی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمo لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍo وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَیُؤْمِنُوْا بِہٖ فَتُخْبِتَ لَہٗ قُلُوْبُہُمْ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم﴾ [الحج ۵۲۔۵۴]

’’ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے۔ یہ اس لیے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں ۔اور اس لیے بھی کہ جنہیں علم عطا فرمایا گیا ہے وہ یقین کرلیں کہ یہ آپ کے رب ہی کی طرف سے سراسر حق ہی ہے پھر اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کی طرف جھک جائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو راہ راست پر رہبری کرنے والا ہے۔‘‘