بچپن میں سنی بچی کا نکاح شیعہ سے کر دیا تو بلوغت کے بعد نکاح کا حکم
اجمل العلماء حضرت علامہ مفتی الشاة محمد اجمل قادری رضوی سنبھلیؒ کا فتویٰ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیٹی ہندہ کا عمرو سے نکاح کر دیا سن صغیر میں، اب وقتِ بلوغت کے انکار کرتی ہے عمرو کے نکاح سے بسبب اختلاف مذہب کے، کیونکہ عمرو کا مذہب شیعہ ہے۔ اب ہندہ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے، نکاح فسخ ہو گا یا نہیں؟
جواب: شیعہ تبرائی جو حضرات شیخینؓ کی شان میں گستاخی کریں اگرچہ صرف اس قدر کہ انہیں امام و خلیفہ نہ مانے تو وہ کتب فقہ کی تصریحات اور ائمہ ترجیح و فتویٰ کی تصریحات پر کافر ہے۔
در مختار میں ہے: في البحر عن الجوهره معزيا للشهيد من سب الشيخينؓ او طعن فيهما كفر و لا تقبل توبته وبه اخذا الدبوسي وابو الليث وهو المختار للفتوىٰ. انتهى وجزم به في الاشباه واقره المصنف
ترجمہ: یعنی بحر الرائق میں بحوالہ جوہرہ نیز امام صدر الشہید سے منقول ہے کہ جو شخص حضرات شیخینؓ کو برا کہے یا ان پر طعن کرے وہ کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں اور اسی پر امام دبوسیؒ و امام فقیہ ابو اللیث سمرقندیؒ نے فتویٰ دیا ہے اور یہی قول فتویٰ کیلئے مختار کیا اور اسی پر اشباہ میں جزم کیا اور شیخ الاسلام امام غزے تمرتاشی نے اسے برقرار رکھا۔
اور شیعہ زمانہ تو صرف تبرائی ہی نہیں بلکہ علی العموم منکرین ضروریاتِ دین بھی ہیں۔ لہٰذا شیعہ سے نکاح حرام بلکہ خالص زنا ہے۔ چنانچہ علامہ شامیؒ نے محرمات نکاح میں تصریح کی کہ
ان الرافضي ان كمان ممن يعتقد الالوهية في علىؓ او ان جبرئيل عليه السلام غلط فى الوحى او كان ينكر صحبة الصديقؓ او يقذف السيدة الصديقةؓ فهو كافر لمخالفة والقواطع المعلومة من الدين بالضرورة
ترجمہ: یعنی اگر رافضی ایسا ہے کہ سیدنا علیؓ کے خدا ہونے یا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وحی میں غلط کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے یا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی صحابیت کا انکار کرتا ہے یا سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو متہم کرتا ہے تو وہ ایسی قطعی باتیں جن کا دین سے ہونا ضروری ہے ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔
حاصل جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔ اگر عمرو ایسا ہی شیعہ ہے تو اس کا ہندہ مسلمہ سنیہ سے نکاح ہی نہیں منعقد ہوا کہ ایسے کافر کا مسلمہ سے شریعت میں نکاح ہی نہیں ہو سکتا اور وقتِ بلوغ خیار فسخ کا حق تو ابتداء صحت نکاح و کو مستلزم ہے اور صورتِ مسئولہ میں ابتداء ہی سے نکاح کا انعقاد نہیں ہوا۔
(فتاویٰ اجمليہ: جلد، 1 صفحہ، 201)