Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

آیات جہاد اور مذہب اہل سنت والجماعت

  مولانا اللہ یار خانؒ

آیاتِ جہاد اور مذہبِ اہلِ سنت والجماعت

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوصاف بیان کرتے وقت سب سے پہلے مقدمہ میں ان کے جذبہ جہاد فی سبیلِ اللہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی مناسبت سے اس رسالہ کا آغاز آیاتِ جہاد سے کر کے مذہب اہلِ السنت والجماعت کی حقانیت ثابت کی جائے گی اس سلسلہ میں تین آیتیں پیش کی جاتی ہیں۔

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوۡر۝۔(سورۃ الحج: آیت38)۔

ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے غلبہ کو ایمان والوں سے (عنقریب) ہٹا دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کبھی دغا باز کفر کرنے والے کو نہیں چاہتا۔ 

اُذِنَ لِلَّذِيۡنَ يُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّهُمۡ ظُلِمُوۡا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصۡرِهِمۡ قدِيۡرُ ۝ اۨلَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بِغَيۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَـعۡضٍ لَّهُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذۡكَرُ فِيۡهَا اسۡمُ اللّٰهِ كَثِيۡرًا‌ ؕ وَلَيَنۡصُرَنَّ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ۝۔(سورۃ الحج: آیت39۔40)۔

ترجمہ: لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دی گئی جن سے (کافروں کی طرف سے) لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر (بہت) ظلم کیا گیا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان کو غالب کر دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔(آگے ان کی مظلومیت کا بیان ہے) جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ (ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور گھٹواتا رہتا تو (اپنے اپنے زمانہ میں) نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے بیشک اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا جو اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اور غلبے والا ہے (وہ جسے چاہے غلبہ اور قوت دے سکتا ہے)۔

اَلَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ۝۔(سورۃ الحج: آیت41)۔

ترجمہ: یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم انکو دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ (خود بھی) نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور (دوسروں کو بھی) نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہی اختیار میں ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مظلوم مہاجرین و انصار سے تین مرتبہ وعدہ فرمایا کہ فتح و نصرت کے لئے ان کی مدد کی جائے گی۔ 

پہلی آیت میں فرمایا کہ مسلمانوں کی طرف سے مدافعت یوں کی جائے گی کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا اور کفار ہلاک و تباہ ہوں گے اس پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ اس کی صورت کیا ہوگی۔ 

تو دوسری آیت میں فرمایا کہ مظلوم مہاجرین پر گو اب تک ظالم کفار ظلم کرتے رہے اب انہیں ہم جنگ کی اجازت دیتے ہیں اب وہ کفار سے جہاد کر کے انہیں تہس نہس کردیں گے۔

پھر کفار کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اول تو کفار نے ان مہاجرین کو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیا اور وطن سے نکالنا تو قتل کے مترادف ہے کما قال تعالیٰ:

وَلَوۡ اَنَّا كَتَبۡنَا عَلَيۡهِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِيَارِكُمۡ الخ۔(سورۃ النساء: آیت66)۔

اس سے ظاہر ہے کہ قتلِ نفس اور گھر چھوڑانا برابر ہے پھر مہاجرین کا قصور بتایا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے یعنی توحید کےنشہ سے سرشار یہ اللہ کے مست بندے اس جرم کے مرتکب ہوئے۔ 

اس سے ایک بات اور بھی ظاہر ہے کہ مہاجرین کو اللہ تعالیٰ مؤحد اور اللہ پرست ہونے کا سرٹیفیکیٹ عطا فرما رہا ہے اب سوچنے کی بات ہے کہ ان لوگوں کو اگر ایمان سے خالی سمجھے تو گویا وہ اعلان کررہا ہے کہ وہ اللہ کا مخالف ہے اس کے فیصلوں کے مخالف ہے تو ایسے آدمی کا ایمان کہاں رہا پھر بتاکید فرمایا کہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے اور قادر مطلق اپنی قدرت کاملہ سے ان مہاجرین کو ایسی قدرت عطا فرمائے گا کہ کفار کو تباہ کردیں گے

پھر امداد کرنے کی وجہ بیان فرمائی کہ جن مساجد اور معابد میں میرا نام کثرت سے لیا جاتا ہے یہ لوگ ان کے محافظ ہیں جیسا کہ عہدِ فاروقیؓ  میں سینکڑوں مساجد تعمیر کی گئی ہیں گویا جہاد کی علت بھی بیان فرمائی کہ محافظ دین و معابد ہے اور مجاہدین کا وصف بیان فرمایا کہ وہ دین کے محافظ اور معابد کے پاسبان ہیں مہاجرین کا یہ وصف بیان کر کے ظاہر فرمایا کہ یہ لوگ صرف دیندار ہی نہیں دین کے محافظ بھی ہیں مگر یہ المیہ ہے کہ لوگ ان محافظین دین کے ایمان کا ثبوت طلب کرتے ہیں جیسے کوئی دوپہر کے وقت سورج کے وجود کا ثبوت طلب کرے ہاں نابینا آدمی اس معاملے میں معذور تصور کیا جائے گا۔

وعدہ نصرتِ الہٰی اور فتح کی ضمانت کے ساتھ ساتھ یہ بات وضاحت طلب معلوم ہوتی ہے کہ یہ مہاجرین انفرادی طور پر ایک ایک کافر کا صفایا کریں گے یا کوئی اجتماعی صورت ہوگی۔

تو تیسری آیت میں وضاحت فرما دی کہ میں ان مظلوم مہاجرین میں سے خلفاء مقرر کروں گا انہیں تمکین فی الارض عطا کروں گا اقتدار اور حکومت دوں گا اور ان خلفاء کی قیادت میں کفار سے جہاد کیا جائے گا اور ان پر غلبہ عطا ہوگا آیت نمبر 2 کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا وعدہ بتاکید ان لوگوں سے کیا جو اس کے دین کی مدد کریں گے تیسری آیت میں ان خلفاء کا وصف بیان کیا کہ وہ دین کی اشاعت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں کوشاں رہتے ہیں۔

تیسری آیت سے مظلوم مہاجرین سے تمکین فی الارض یعنی حکومت و خلافت دینے کا وعدہ ظاہر ہے بلکہ اس میں اشارہ ہے کہ ان مظلوم مہاجرین میں سے جسے بھی خلیفہ بنادیا جائے وہ فرائضِ خلافت ادا کرنے کی اہلیت اور قوت رکھتا ہے یہ آیت خلفاء کی خلافت کی واضح دلیل ہے استدلال کی بناء دو باتوں پر ہے اول خلفائے ثلاثہؓ مہاجرین میں سے ہیں اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وعدہ خلافت مہاجرین سے ہے۔

دوسری یہ کہ اس تاریخی حقیقت کا کون انکار کر سکتا ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ نے 24 برس تک حکومت کی۔

پھر ان نائبانِ حق کے اوصاف بیان فرمائے کہ وہ خود عبادت گزار ہوں گے بلکہ عبادت کا نظام مستحکم کریں گے زکوٰۃ کا نظام رائج کریں گے دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کریں گے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وصف ان کی خصوصیات سے ہوگا۔

ان دو حقائق سے تیسری بات خود بخود ثابت ہوگئی یعنی ان کا دیندار ہونا عادل ہونا دین کا خادم ہونا مگر اس منطقی نتیجہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ وضاحت بھی کردی گئی کہ اقامتِ الصلوٰۃ نظامِ زکوٰۃ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان کی خصوصیات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمکین فی الارض کو ان تین شرطوں کے ساتھ مشروط فرما دیا اور یہ امر واقع ہے کہ شرط پائی گئی یعنی خلفاءِ ثلاثہؓ کو حکومت ملی تو جزاء یقیناً متحقق ہوگی ورنہ کلامِ باری تعالیٰ غلط قرار پائی جائے گی کیونکہ جو صفات اقامتِ الصلوٰۃ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حکومت ارضی سے مشروط تھیں وہ تو جزاء ہے اور شرط ہے حکومت کا ملنا جب شرط پائی گئی تو جزاء کے وجود سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔

قبائلِ عرب حکومتِ روم و ایران ممالک عراق یمن حبشہ وغیرہ خلفائے ثلاثہؓ کی کوشش سے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے مہاجرین کے ساتھ غلبہ عطا کرنے کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا وہ خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں پورا ہوا اور اس رنگ میں پورا ہوا کہ اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

آیت میں ایک اور لطیف اشارہ ہے کہ اقتدار کا نشہ انسان کو ایسا اندھا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بندوں کا خدا سمجھنے لگتا ہے مگر بندے کو خدائی کا سلیقہ کیسے آئے چنانچہ وہ فرعون بن کر درندگی کا اظہار کرنے لگتا ہے مگر ان مہاجرین میں سے جن کو تمکین فی الارض عطا ہوگی وہ اللہ کے بندے ہی نہیں بلکہ مثالی بندے ہوں گے اور محمد الرسول اللہﷺ کی تربیت کا رنگ ان پر ایسا چڑھے گا کہ وہ عدل و انصاف زہد و تقویٰ خدمتِ دین اور خدمتِ خلق میں مثالی کردار پیش کریں گے اور

وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبۡغَةً الخ۔(سورة البقرہ آیت نمبر 138)۔

کا لازمی اثر یہ ہے کہ اقتدار کا نشہ اس کے قریب بھی نہیں آسکتا ہے۔ 

جو دل بادلبرے آرام گیرد ز وصلے دیگرے کے کام گیرد۔

جب انسان کا دل اپنے دلبر کے وصال سے آرام حاصل کرتا ہے تو دوسروں کے وصل سے کب لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

نہی صددستہ ریحان پیش بلبل نخواہد خاطرش جز نگہتِ گل۔

تو بلبل کے سامنے ریحان کے سو (100) گلدستے رکھ دے اسے گلاب کے پھول کے بغیر سکون نہیں ملے گا۔

نبی کریمﷺ کی تربیت نے ان کی قلبی دنیا میں ایسا انقلاب برپا کردیا کہ وہ بالکل ہی ایک نئی قسم کی مخلوق نظر آنے لگے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال پیش فرمائی ہے: 

اِنَّ الۡمُلُوۡكَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡيَةً اَفۡسَدُوۡهَا وَجَعَلُوۡۤا اَعِزَّةَ اَهۡلِهَاۤ اَذِلَّةً  ‌ۚ وَكَذٰلِكَ يَفۡعَلُوۡنَ۝۔(سورۃ النمل: آیت 34)۔

ترجمہ: والیان ملک (کا قاعدہ یہ ہے) جب کسی بستی میں (مخالفانہ طور پر) داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں اور اس کے رہنے والوں میں جو عزت دار ہیں ان کو (انکا زور گھٹانے کے لئے) ذلیل کیا کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔

اس طرح مہاجرین و انصار کے دلوں پر جب اللہ اور رسولﷺ کی محبت نے حملہ کیا تو بالآخر اس پر قبضہ جما لیا اور تمام رزائل جن پر وہ ناز کیا کرتے تھے ان کو نکال باہر کیا اور فضائل جن کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے ان کے لئے مایہ ناز خزانہ بن گیا اور حضور اکرمﷺ کے رنگ میں یوں رنگے گئے کہ دوئی کا سوال ہی اٹھ گیا اسی بنا پر اہلِ السنت و الجماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محفوظیت مسلم ہے جس پر ہزار فرضی عصمتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ 

چنانچہ شیخ انور کاشمیری اپنی مشہور کتاب فیض الباری (378:2) میں خلفائے اربعہؓ کےمتعلق فرماتے ہیں: 

ثم ان من امر الخلفاء الأربعة فوق امر الامير وتحت التشريع فيتبع بهم في بعض الأمور الانتظاميه كالتشريع كالجماعة فی التراويح وامر كثيرا من الامور الانتظامية فعلها عمر رضى الله عنه فی زمنه ثم الحنفية جعلوها مذهبا وعاملوا معها ما يعامل مع الشرعيات ونظائرها توجد في المذاهب الأربعة وهكذا ينبغى لقوله عليه الصلوة والسلام اقتدوا بالذين من بعدی ابی بکر وعمر رضی الله عنهما ومنصبهما بین بین و مرالرازی على تفسير آيته الاطاعته اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ‌ۚ ثم فسر اولی الامر منکم بالاجماع وفسره في الآية الثانية لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡکُمۡ‌ انه ابوبكر رضى الله عنه مع انه لم يكن خليفه في حياته ولا حاكما۔

ترجمہ: خلفائے اربعہؓ کا حکم دوسرے حکام وقت کے حکم سے کئی درجہ فوقیت رکھتا ہے اور شریعت کے تحت ہوتا ہے۔ بعض امور انتظامیہ میں ان کی اتباع واجب ہے مثلاً نماز تراویح باجماعت مستقل طور پر سیدنا عمرؓ کے دور میں ہوئی اور بہت سے انتظامی امور میں میں دیکھتا ہوں کہ عہد فاروقیؓ میں جاری کئے گئے اور حنفیہ نے ان کو اپنا مذہب بنایا ان احکام کی بجا آوری اسی طرح کرتے ہیں جیسے شرعی امور کی اس کے نظائر چاروں مذہبوں میں پائے جاتے ہیں اور یہی حق ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی اقتدا کرو ان دونوں کا منصب اجتہاد اور شریعت کے درمیان ہے اور امام رازیؒ جب آیت اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ کی تفسیر لکھنے لگے تو اولی الامر کی تفسیر اجماع سے کی اور دوسری آیت لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡکُمۡ‌ سے مراد سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات لی حالانکہ اس زمانہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نہ خلیفہ تھے نا حاکم امام رازیؒ نے اس اطاعت کے چار مراتب پیش کئے ہیں۔ 

  • اول کتاب اللہ یہ اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ سے مراد ہے۔ 
  • دوم سنتِ رسولﷺ یہ اَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ ہے۔ 
  • سوم اجماع امت یہ اولی الامر ہے۔
  •  اور چہارم قیاس یہ فان تنازعتم فی شیںٔی ہے۔

اور فرمایا کہ اجماعِ امت معصوم ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جس حکم پر پوری امت کا متفقہ اجماع ہوجائے وہ حق ہو گا یہ مراد ہے معصوم ہونے سے بعض علماء کو یہ غلط فہمی ہوئی یہ کہ امام رازیؒ نے اولی الامر کو معصوم کہا ہے اس کی حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان ہو ٨چکی ورنہ عصمت خاصہ نبوت ہے اور کوئی فردِ واحد معصوم نہیں ہو سکتا اس سے مراد صرف یہ ہے کہ امت کا اجماعی فیصلہ حق ہو گا جو باطل کے مقابل میں ہے یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھ لی جائے حضور اکرمﷺ کے جانشینوں کی خلافت کا تعلق امورِ تکوینیہ سے ہے یہ بندوں کا فیصلہ نہیں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔

عصمت کے سلسلہ میں شیعہ ایک بودا سا سوال کرتے ہیں کہ امامت کی شان نبوت سے بلند ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔

قَالَ اِنِّىۡ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا الخ۔(سورۃ البقرہ: آیت124)۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تو تھے ہی بعد میں امام بنائے گئے اس لئے ظاہر ہے کہ نبوت کے بعد اگلا درجہ امامت کا ہے حقیقت تو ظاہر ہے مگر آدمی دھوکہ کھانا اور دھوکہ دینا چاہے تو کب رُک سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک نفسِ نبوت یا مطلق نبوت اور ایک ہے امامتِ نبوت تو مطلق نبوت سے امامتِ نبوت افضل ہے اس آیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامتِ نبوت ثابت ہے اس پر قیاسِ فاسد کر کے ایک خاندان کے جس فرد کو چاہا امام بنا دیا اور اس کے دوسرے افراد کو سخت سست کہنے سے بھی نہ چوکے جیسے نص سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت نبوت ثابت ہے اسی طرح اماموں کی امامت کا ثبوت لائیں یہ تو ہوئی نفسِ امامت کی بحث اب لیجئے عصمتِ امامت کا مسئلہ تو شیعہ بیچارے جس بھولے پن سے عصمتِ امامت کے قائل ہیں اگر سوچ کا انداز یہی اختیار کیا جائے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عصمت ثابت ہو سکتی ہے مگر اہلِ سنت حضرات سیدنا صدیقؓ سیدنا فاروقؓ کو دین مجسم سمجھتے ہوئے بھی معصوم نہیں سمجھتے حالانکہ امورِ انتظامیہ میں ان کے قول کو دین خیال کرتے ہیں کیونکہ نبی کریمﷺ اقتدوا بالذين من بعدى ابی بكرؓ و عمرؓ فرما کر اس کا پابند بنا دیا ہے۔

حضورﷺ نے یہ حکم دیتے ہوئے جس لفظ کا انتخاب فرمایا ہے خود اس میں لطیف نکتہ اطیعوا نہیں فرمایا اقتدوا فرمایا اطاعت اور اقتداء میں فرق سمجھنا ہو تو مطیع اور مقتدی کے الفاظ و اعمال پر غور کر لیجئے۔ اطاعت تو مطلق ہے مگر اقتداء تو ایسی اتباع ہے جس میں صرف پیچھے چلنا نہیں ہوتا بلکہ ہر حرکت اور ہر ادا کی نقل کرنا مطلوب ہوتا ہے اس لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی ہر ادا اور ہر حرکت دین ہے اس لئے ان کی اقتداء ان کی پیروی اور ان کا اتباع ہی اصل دین اور راہِ نجات ہے اور اس راہ سے ہٹنا نبی کریمﷺ کی نافرمانی اور مخالفت ہے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھنے والا یہ جرأت کیسے کر سکتا ہے حضراتِ شیخینؓ کے متعلق شیعہ عالم شیخ صدوق کی کتاب معانی الاخبار طبع طہران صفحہ 387 اور شیعہ کی کتاب عیون اخبار الرضا طبع نجف اشرف صفحہ 244 پر بیان ہوا ہے۔

عن الحسين بن على رضى الله عنهما قال قال رسول اللهﷺ ان ابابكرؓ منی بمنزلة السمع وان عمرؓ منى بمنزلة البصر وان عثمانؓ منى بمنزلة الفواد۔

ترجمہ: سیدنا حسینؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ میرے لئے بمنزلہ کان کے ہے سیدنا عمر فاروقؓ بمنزلہ آنکھ کے ہے اور سیدنا عثمانِ غنیؓ  بمنزلہ دل کے ہے۔ 

اصل حدیث اتنی ہے اس کے بعد راوی نے اپنی طرف سے پیوند لگایا۔

فلم كان من الغد دخلت اليه وعنده امير المومنين عليه السلام و ابوبكرؓ وعمرؓ عثمانؓ فقلت له يا ابت سمعتك تقول فی اصحابك هؤلاء قولا فما هو فقال عليه السلام نعم ثم اشار اليهم فقالى هم السمع والبصر والفؤاد ويسألون عن وصيى واشار الى على رضى الله عنه ثم قال ان الله تعالیٰ يقول ان السمع والبصر والفؤاد كل اولئك كان عنه مسئولا۔ 

ترجمہ: دوسرے روز میں نبی کریمﷺ کے پاس گیا خلفائے اربعہؓ حضورﷺ کے پاس موجود تھے میں نے سوال کیا کہ ابا جان! آپ نے کل اپنے اصحابؓ کے بارے میں جو فرمایا تھا اس کامطلب کیا ہے؟ حضورﷺ نے خلفائے ثلاثہؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ وہ میرے کان آنکھ اور دل ہیں عنقریب ان سے میرے وصی کے متعلق سوال ہو گا اور سیدنا علیؓ کی طرف اشارہ فرمایا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کان آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہوگا۔

اس اضافہ سے شیعہ کا مقصد تو ظاہر ہے مگر ایک بات اور بھی ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا حسینؓ کی زبان سے خلفائے ثلاثہؓ کے متعلق فی اصحابک ادا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے ہاں ان حضرات کا صحابی ہونا مسلم ہے پھر اصل حدیث میں"منی بمنزلہ" کے الفاظ ہیں یہی الفاظ ایک اور حدیث میں آتے ہیں یا علیؓ انت منی بمنزلته هارون من موسیٰ۔ 

جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اے سیدنا علیؓ تجھے میرے ساتھ ایسا قرب حاصل ہے جیسا حضرت ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھا پھر حدیث زیرِ بحث میں یہی الفاظ بالکل بدلے ہوئے معنیٰ کیساتھ کیسے آگئے یہاں وزن کے بات کیوں بدل گئے اسی ترازو میں انہی باتوں سے وزن کیجئے تو معنیٰ یہی ہوں گے کہ میرے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان اور میرا قرب اسی درجہ کا ہے جو میری آنکھ کان اور دل کا ہے۔

حضورﷺ کی تشبیہات کوئی شاعرانہ فنکاری نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر حقائق کی ایک دنیا لئے ہوتی ہیں یہاں حضورﷺ نے اصحابِ ثلاثہؓ کی ذات کو اپنے ظاہری اور باطنی اعضاء سے تشبیہ دی ہے ظاہر ہے کہ دل کی حرکت پر تو حیات کا مدار ہے اور آنکھ اور کان کے بغیر فرد کی حقیقی زندگی کی تکمیل نہیں ہو پاتی گویا حضورﷺ کا مطلب یہ تھا کہ میری دینی اور تبلیغی زندگی کے مشن کی تکمیل اصحابِ ثلاثہؓ کی کوششوں سے ہوگی ان کی سوچ ان کا دیکھنا اور سننا سب تکمیل دین کے لئے ہوگا

نبوت کی ذمہ داریوں کا مدار بھی انہی اعضاء پر ہے نزولِ وحی کا تعلق دل سے ہے یعنی دولتِ وحی کے امین ہیں وحی کے الفاظ صاحبِ وحی سے سننے والے اور صاحبِ وحی کو دیکھنے والے اور اس کی تکمیل کرنے والے اصحابِ ثلاثہؓ ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت وہی ہے جو میرے نزدیک میرے دل آنکھ اور کان کی ہے لہٰذا یہ پیوند کاری اضحوکہ سے بڑھ کر کچھ حیثیت نہیں رکھتی پھر پیوند کی عبارت پر غور کیجئے هم السمع والبصر والفوءاد۔ هم ضمیر کا مرجع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات ہے السمع والبصر مصدر ہے اور محمل مصدر کا ذات پر جائز نہیں جیسا یہ کہنا که زید علم غلط ہے بلکہ زید عالم چاہئیے اس لئے یہاں ھم کے ساتھ سامعون چاہئیے لہٰذا یہ الفاظ افصح العرب کے نہیں بلکہ کسی اناڑی راوی کے دستِ کرم کا نتیجہ ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اگر اصحابِ ثلاثہؓ کو آنکھ کان اور دل محض سیدنا علیؓ کی خلافت کے متعلق سوال کرنے کے لئے فرمایا جاتا تو لفظ منی بمنزلہ ہرگز نہ ہوتا کیونکہ اس سے تو لازماً شان ظاہر ہوتی ہے پھر آیتِ قرآنی یہاں پیش کرنا بالکل بے محل ہے آیت کا مفہوم تو یہ ہے کہ انسان کی ذات کی طرح یہ تمام اعضاء بھی مکلف ہیں ان اعضاء سے بھی توحید اور دین کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ 

اصل حدیث کا حقیقی مفہوم صاف ہے کہ حضورﷺ نے واضح فرما دیا کہ سیدنا عثمانؓ میرا راز دار ہے جیسے دل سیدنا صدیقؓ بمنزلہ میرے کان کے ہے جیسے میرے کانوں نے وحی سے حق سنا ہے سیدنا صدیقؓ بھی حق سنتا ہے جیسے میری آنکھ نے حق دیکھا سیدنا عمرؓ کی آنکھ بھی حق کا مشاہدہ کرتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے خلفائے ثلاثہؓ کے احکام کی تعمیل اسی طرح صدقِ دل سے کرنا جیسے میرے احکام کی تعمیل کرتے ہو کیونکہ ان کی ذات میرے دل میری آنکھ اور میرے کان کی حیثیت رکھتی ہے یہی مطلب ہے اقتدوا بالذی من بعدی ابی بکرؓ و عمرؓ کا۔ 

پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضورﷺ کے قول میں کونسی پیچیدگی تھی کہ سیدنا حسینؓ کو پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ فما ھو ظاہر ہے کہ سیدنا حسینؓ کو تو ضرورت نہیں تھی البتہ راوی کو ضرورت تھی کہ ریت کی بنیاد پر ایک فرضی محل تعمیر کر سکے انتہائی جواب یہ ہے کہ یہ پیوند کاری تقیہ ہے۔ 

بخاری میں ایک حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس ولی اللہ کو قربِ فرائض کے بعد قربِ نوافل حاصل ہو جائے تو میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے الخ 

یہ حدیث کتبِ شیعہ میں بھی موجود ہے جب اللہ تعالیٰ انسان کامل کے ہاتھ پاؤں بن سکتا ہے تو خلفائے ثلاثہؓ نبی کریمﷺ کے کان آنکھ اور دل کیوں نہیں بن سکتے لہٰذا حضورﷺ کی نگاہ میں خلفاء مجسم دین تھے۔ 

اب ہم شیعہ کتبِ تفسیر اور علمائے شیعہ سے ان آیات کی تفسیر پیش کرتے ہیں۔ 

منہج الصادقین علامہ فتح اللہ کاشانی۔ 177:6۔ 

(1)۔ حق تعالیٰ دریں آیت وعده داده مظلوماں صحابه رابه نصرت و ایفاء وعده آن کرده چه تسلط مہاجر و انصار نمود بر صنادید عرب واکابر اکاسره عجم و قیاصره ایشاں راو زمین ودیار ایشاں را بمسلمانان تفویض فرموده پس اخبار است بظہر غیت از آنچه بعد ازیں بظہور رسید از استیلائے اہل اسلام بر اہل کفر و نصرت و غلبہ ایشاں بر مشرکان و سائر کافراں ودگر بارہ در صفت مہاجراں کہ ماذونند بقتال می فرماید که الَّذِينَ إِن مَّكَّنَاهُمْ اى أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ يا بدل من ينصره اى ولينصرن الله الذين إِن مّكناهم پس معنی آیت آنست که جماعت مازون آن کسانے اند که اگر قدرت و تمکین و ہیم آنہارا فی الارض وزمین و زمام حکومت در کف کفایت ایشاں رانہیم یعنی اعطاء نمائیم الخ۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعہ مفسر نے یہ بتایا:

  1.  آیت الَّذِينَ إِن مَّكَّنَاهُمْ کا تعلق أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ ہے۔ 
  2.  یا بدل ہے من ینصرہ سے۔ یعنی دونوں کا مطلب ایک ہی ہے کہ حکومت کے حقدار مظلوم مہاجرین ہیں۔
  3.  جب میں انہیں حکومت دوں گا تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے یعنی وہ مجسم دین ہوں گے۔
  4. اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ انہیں حکومت دے کر ان کی کھلی کھلی مدد کروں گا چنانچہ یہ وعدہ پورا فرمایا مہاجرین کو حکومت عطا فرمائی ان کی مدد فرمائی اور انہوں نے کفارِ عرب پر غلبہ پایا بلکہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں پر غلبہ حاصل کیا شیعہ مفسر کی اس صراحت کے باوجود شیعہ یہ کہا کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں مکہ فتح ہوا خیبر فتح ہوا لہٰذا عہدِ نبوت میں ہی غلبہ حاصل ہو گیا مگر شیعہ مفسر نے اس وعدہ کے ایفاء کی صورت تفسیر کے دوران یہ بیان کی مہاجرین کو تسلط دے کر اللہ تعالیٰ نے صنادید عرب کے علاوہ قیصر و کسریٰ پر غلبہ عطا فر مایا لہٰذا آیت اور تفسیر سے صاف ظاہر ہے کہ:
  5.  خلفائے ثلاثہؓ مہاجرین اولین ہیں۔
  6. اللہ تعالیٰ نے انہیں تمکین فی الارض عطا فرمائی۔
  7. ان کے عہد میں کفر کی بڑی بڑی حکومتیں مغلوب ہوئیں اور قرآن کریم کی آیت:

هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ الخ۔(سورۃ الصف: آیت9)۔

كی تکميل ہوئی اسی بناء پر اہلِ سنت کا عقیدہ صداقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ہے۔ 

اب اس آیت کی تفسیر سیدنا جعفر صادقؓ کی زبانی بیان کی جاتی ہے کتاب فروع کافی 13:5 کتاب الجہاد ایک طویل حدیث ہے جو صفحہ 13 سے صفحہ 19 تک چلی گئی ہے اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت کا نقشہ ملاحظہ ہو۔

ابو عمر زبیدی نے سیدنا جعفرؓ سے سوال کیا کہ تبلیغِ دین دعوتِ دین اور جہاد فی سبیل اللہ ہر ایک مسلمان کے لئے جائز ہے یا کسی خاص جماعت کے لئے ہے؟ اس کے جواب میں سدنا نے یہ طویل بیان دیا۔ 

 انما اذن للمومنين الذين قاموا بشرائط الايمان التی و صفناها وذلك انه لا يكون ماذونا فی القتال حتىٰ يكون مظلوما ولا يكون مظلوما حتىٰ يكون مومنا ولا يكون مومنا حتىٰ يكون قائما بشرائط الايمان التی اشترط الله عزوجل على المومنين والمجاهدين فاذا تكاملت فيه شرائط الله عزوجل كان مومنا حقا و اذا كان مومنا كان مظلوما واذ كان مظلوما كان ماذونا فی الجهاد لقوله تعالیٰ عزوجل اُذِنَ لِلَّذِيۡنَ يُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّهُمۡ ظُلِمُوۡا‌ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصۡرِهِمۡ لَـقَدِيۡرُ۔

(سورۃ الحج: آیت39)۔

وان لم يكن مستكملا، شرائط الايمان فهو ظالم فلما نزلت هذه الآية اذن للذين فی الۡمُهٰجِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ اهل مكة مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاَمۡوَالِهِمۡ احل لهم جهادهم بظلمهم اياهم واذن لهم فی القتال فقلت فهذه نزلت فی المهاجرين بظلم مشركی اهل مكة لهم فمالهم فی قتالهم كسرى و قيصر ومن دونهم من مشركی قبائل العرب ولكن المهاجرين ظلموا من جهتين ظلمهم اهل مكة باخراجهم من ديارهم واموالهم فقاتلوهم باذن الله لهم فی ذلك وظلمهم كسرى و قيصر ومن كان من دونهم من قبائل العرب والعجم بما كان فی ايديهم مما كان المومنون احق به منهم فقد قاتلوهم باذن الله عزوجل لهم فی ذلك وبحجة هذه الآية يقاتل المومنون كل زمان و انما اذن الله عزوجل للمومنين الذين قاموا بما وصفها الله عز وجل من الشرائط التی شرطها الله على المومنين فى الايمان والجهاد ومن كان قائما بتلك الشرائط فهو مومن وهو مظلوم وما ذون له فى الجهاد بذالك المعنىٰ۔

ترجمہ: ان مسلمانوں کو جہاد کی اجازت ملی جو ان شرائط ایمان سے متصف تھے جو ہم نے بیان کی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کی اجازت اس وقت تک نہیں جب تک مظلوم نہ ہو اور جب تک مومن نہ ہو مظلوم نہیں اور مومن تب ہوتا ہے جب ان ایمانی اوصاف سے متصف ہو جو اللہ تعالیٰ نے مومن مجاہدین کے لئے مقرر فرمائے ہیں جب ان شرائط میں مکمل ہو گیا تو مومن ہوگا اور جب مومن ہوگا تو لازماً مظلوم ہوگا اور مظلوم کو جہاد کی اجازت ملی ہے کیونکہ ارشاد باری ہے کہ ان لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن سے جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے اور جس میں یہ شرائط نہ پائی گئیں وہ خود ظالم ہے پس یہ آیت ان مہاجرین کے حق میں نازل ہوئی جنہیں گھروں سے نکالا گیا اور اہلِ مکہ نے انہیں گھروں سے نکالا اور مال چھینے تو اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم مہاجرین کو جہاد کی اجازت دے دی راوی کہتا ہے میں نے امام سے سوال کیا تو مکہ والوں نے تو ان پر ظلم کئے اس لئے مکہ والوں سے جنگ کرنے کی اجازت تو اس آیت سے ظاہر ہے مگر انہوں نے قیصر و کسریٰ اور دوسرے عرب قبائل سے جنگ کس بناء پر کی تو امام نے جواب دیا کہ مہاجرین تو دو طرح سے مظلوم ہیں اول اہلِ مکہ نے ان پر ظلم کیا انہیں گھروں سے نکالا ان کے مال ہتھیائے اس وجہ سے اہلِ مکہ سے وہ لوگ باذنِ اللہ جنگ کرتے رہے اور قیصر و کسریٰ قبائل عرب وغیرہ کا ظلم یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر ناحق قابض تھے ان کے مقابلے میں مسلمان اس کے زیادہ حقدار تھے لہٰذا ان کے خلاف مہاجرین کی جنگ بھی باذنِ اللہ تھی اور ہر زمانے میں جو مومن ان شرائط کو پورا کرے گا وہ اسی آیت کی دلیل سے جنگ کرے گا جو شخص ان شرائط سے متصف ہے وہ مومن ہے وہ مظلوم ہے اسے کفار سے اس بنا پر جہاد کی اجازت ہے۔

مہاجرین کے ایمان قتال فی سبیلِ اللہ اور مظلومیت کی تصدیق سیدنا جعفرؓ نے تو کر دی مگر شیعہ کے سلطان العلماء مولوی سید محمد کی تسلی نہ ہوئی چنانچہ اپنی کتاب تشئید المبانی میں لکھتے ہیں کہ: 

  1.  اس حدیث سے مہاجرین کا ملک کسریٰ ایران و قیصر روم و دیگر ممالک کفار پر تسلط ہونا تو ثابت ہوتا ہے مگر اصحابِ ثلاثہؓ کی خلافت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔ 
  2.  خلفائے ثلاثہؓ چونکہ سیدنا علیؓ کے مشورہ سے جہاد کرتے تھے اس وجہ سے ماذون فی الجہاد تھے۔
  3. اور یہ باتیں بھی اس حالت میں قابلِ تسلیم ہیں کہ تقیہ سے صرفِ نظر کر لیا جائے۔ 

مجتہد صاحب کا تیسرا سوال کہیئے یا تحقیق سب سے زیادہ لطیف ہے یعنی ہم کیسے تسلیم کریں کہ امام نے جو کچھ کہا وہ تقیہ کے طور پر نہیں کہا یعنی مجتہد صاحب کو یقین نہیں کہ امام نے سچ بولا ہو مگر اس بے یقینی کا نتیجہ تو یہی نکلا کہ امام کے دل میں کچھ اور تھا زبان سے کچھ اور ادا ہوا پھر مجتہد صاحب امام کو نفاق سے کیونکر بری قرار دیں گے کیا نفاق کے کوئی سینگ ہوتے ہیں پہلے دو سوالوں کے جواب پیش کرنے سے پہلے وہ دس شرطیں ملاحظہ ہوں جن کی طرف امام نے یہ کہہ کراشارہ کیا کہ التی وصفناها جب تک یہ اوصاف نہ ہوں گے آدمی مومن نہیں ہوگا۔ 

  1.  غیر اللہ کی عبادت نہ کرے۔ 
  2. ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہ ہو۔
  3.  مسلمانوں کے لئے نرم دل اور کافروں کے لئے سخت ہو۔
  4. اللہ کی رضا کا طالب ہو۔
  5.  ناحق قتل نہ کرے۔
  6. زانی نہ ہو۔
  7.  اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہو۔
  8.  ہر حال میں شاکر ہو۔
  9.  نماز روزہ کا پورا پابند ہو۔
  10. عبادت میں خشوع حاصل ہو۔

جب یہ اوصاف ہوں گے تو وہ مومن ہوگا مظلوم ہوگا اور ماذون فی الجہاد ہوگا اور اذن للذين يقاتلون کی آیت ان مہاجرین کے حق میں نازل ہوئی مہاجرین نے باذن اللہ جہاد کیا لہٰذا وہ کامل مومن ثابت ہے پس یہ دس صفات ان میں لازماً ثابت ہو گئیں جبھی تو نصرتِ خداوندی سے انہیں غلبہ بھی حاصل ہوا تسلط بھی ملا اور حکومت بھی ملی اب مجتہد صاحب کے پہلے سوال پر غور کیجئے کہ اس آیت سے مہاجرین کا ماذون من اللہ ہونا اور ان کا تسلط ہونا تو ثابت ہے مگر خلافتِ خلفائے ثلاثہؓ مستفاد نہیں ہوتی۔

آدمی کو عقل عامہ سے اگر برائے نام بھی حصہ ملا ہو تو وہ سوچ سکتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ مہاجرین کو تو تسلط باذن اللہ ملا مگر مہاجرین کا حکمران اس تسلط سے محروم ہے دنیا کا کوئی با ہوش انسان یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ رعایا کو تو تسلط حاصل ہے مگر راعی کو نہیں کیوں نہیں؟ کیا رعایا اپنے حکمران سے بے نیاز ہو کر از خود جنگ کرتی رہی اپنا ہی حکم چلاتی رہی یا حکمران کی اطاعت میں سب کچھ کیا اگر حکمران کی ہدایت کے تحت ہی سب کچھ کیا تو حکمران کا مسلط ہونا اور ماذون ہونا کیوں مستفاد نہیں ہوتا یا حکمران مہاجرین میں سے نہیں تھے؟ اگر تھے تو وہ اس اذن سے کیسے مستثنیٰ قرار دیئے گئے مگر مجتہد صاحب بس صرف زور علم سے یہ بات کہہ گئے جو صرف اس زبان سے نکل سکتی ہے جس کے ہوش ٹھکانے نہ ہوں پس اس آیت سے مہاجرین خواہ رعایا ہو یا راعی سب کامل الایمان ماذون فی الجہاد ثابت ہوتے ہیں۔

دوسرا سوال اس سے بھی عجیب تر ہے کہ سیدنا علیؓ کے مشورہ سے جہاد کرتے تھے اس لئے ماذون تھے اذن صیغہ مجہول ہے اس کا فاعل یا نائب فاعل اللہ ہے یا سیدنا علیؓ ہیں؟ سیدنا علیؓ وزیر یا مشیر تھے تو دیکھنا یہ ہے کہ وزیر یا مشیر حکومت کا وفادار ہوتا ہے یا باغی مطیع ہوتا ہے یا نا فرمان؟ اگر وہ باغی نہیں تھے تو سیدنا علیؓ لازماً خلفائے ثلاثہؓ  کے وفادار وزیر تھے۔

پھر جب اللہ تعالیٰ اذن دے رہا ہے تو اس میں سیدنا علیؓ کے مشورہ کی کیا ضرورت؟۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ "هذا كله اغضاء النظر من احتمال التقيته فی ذلك الحديث" یعنی یہ تمام جوابات اسی وقت درخور اعتنا ہیں جب تقیہ کے احتمال سے آنکھ میچ لی جائے اس سے مجتہد صاحب کی مراد یہ ہے کہ امام نے تقیہ کیا دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکذیب تھی اور زبان پر تصدیق تھی اگر امام کے متعلق یہ صورت مان لی جائے تو امام کو نفاق سے بری کیونکر قرار دیا جائے گا غرض اس تیسرے سوال کا ما حصل امام کی توہین کے بغیر کچھ نہیں کتنے جری ہیں یہ لوگ جو ایسی مقدس ہستیوں پر اتنے بڑے بہتان باندھتے ہیں۔ 

خلاصۂ مبحث:

  1.  مہاجرین کو اللہ کی طرف سے جہاد کی اجازت ملی اور وہ جہاد کرنے پر مامور ہوئے آیت قرآنی اور سیدنا جعفرؓ کی حدیث سے اس کی وضاحت ہوگئی۔ 
  2.  مہاجرین کو اذنِ جہاد ملنا ان کے کامل الایمان ہونے کی دلیل ہے اور اس امر کا بین ثبوت ہے کہ وہ دینِ حق پر تھے اور دینِ حق کی اشاعت کے لئے انہیں اذنِ جہاد ملا۔ لہٰذا خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں جو مہاجرین ان جہادوں میں مارے گئے وہ شہید ہوئے۔ 
  3. باطل کے خلاف ان جنگوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو مال غنیمت ملا وہ حلال اور جائز ہوا۔ 
  4.  مہاجرین نے اس دین کی تعلیم و تبلیغ و اشاعت کی جو انہیں نبی کریمﷺ نے سکھایا تھا اور ان کے دست حق پرست پر جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے وہی دین حق قبول کیا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریمﷺ سے سیکھ کر انہیں پہنچایا اس حقیقت کا اقرار تو علامہ نوری مجتہد شیعہ نے اپنی کتاب فصل الخطاب میں کھلے الفاظ میں کیا ہے:

وكون كثير من البلاد فتح في خلافة عمرؓ وتلقين اصحاب تلك البلاد سنن عمرؓ فی خلافة نوابه رهبة و رغبة كما يلقنوا شهادة ان لا اله الا الله وان محمد رسول الله فنشاء عليها الصغير ومات عليها الكبير۔

ترجمہ: اکثر ممالک خلافتِ فاروقی کے دور میں فتح ہوئے اور ان ممالک میں جس طرح شہادتین کی تبلیغ و اشاعت کی گئی اس طرح سیدنا عمرؓ کے نائبین نے سنتِ عمرؓ کی تبلیغ کی اور اس دین پر چھوٹوں نے نشوونما پائی اور بڑوں نے وفات پائی۔

مجتهد شیعہ تسلیم کرتے ہیں عہدِ فاروقیؓ میں جس قدر شہر فتح ہوئے ان میں دینِ عمر پھیلایا گیا یعنی وہی دین جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کامل الایمان قرار پائے اور ماذون فی الجہاد ہوئے تاکہ اس دین حق کو پھیلائیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہ دینِ حق وہی تھا جسے آج تک اہلِ سنت والجماعت نے سینے سے لگا رکھا ہے پس اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کامل الایمان تھے اس بناء پر اذن جہاد ملا انہوں نے دینِ حق پھیلایا دینِ شیعہ کا تو وجود ہی نہیں تھا سیدنا جعفرؓ کی حدیث چونکہ قرآن کے موافق ہے اس لئے تائید کے طو پر پیش کی گئی ورنہ اصل استدلال آیت قرآنی سے کیا گیا کہ دین حق وہی ہے جو مذہب اہلِ سنت و الجماعت ہے۔