اہل سنت والجماعت مرد یا عورت کا شیعہ کے ساتھ نکاح کرنا، جس سنی مرد یا عورت کا نا واقفی یا غلطی سے رافضی تبرائی مرد یا عورت سے عرفاً نکاح ہو چکا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً جدا ہو جائے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اہلِ سنت و جماعت مرد و عورت کا نکاح شیعہ کے ساتھ ہوتا ہے یا نہیں؟ اور ایسا نکاح منعقد ہوچکا ہوں تو ان کا شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: تبرائی شیعہ کافر و مرتد ہیں۔ ملا علی قاریؒ شرح شفاء میں فرماتے ہیں سبّ الشیخینؓ کفر شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں قد ذکر فی کتب الفتاوىٰ ان سبّ الشيخينؓ كفر و كذا انکار امامتهما کفر اسی میں ہے لو انکر خلافة الشيخينؓ عنهما يكفر
فتاویٰ بزازیہ میں خلاصہ سے ناقل ہیں ان الرافضي اذا كان يسبّ الشيخينؓ او يلعنهما فهو كافر
لہٰذا تبرائی شیعہ کتب معتمد و فقہ حنفیہ کی تصریحات اور تمام ائمہ کی ترجیح و فتویٰ کی تصریحات کی بناء پر بلا شک کافر و مرتد ہیں۔
بالجملہ جب شیعہ کا بدلائل صریحہ کافر و مرتد ہونا آفتاب سے زیادہ روشن طور پر ثابت ہو چکا تو ان کفار و مرتدین سے کسی اہلِ سنت و جماعت مرد یا عورت کا نکاح کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟
خود حدیث شریف میں یہ مسئلہ موجود ہے، سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ان اللہ اختارني واختار لى اصحابا و اصهارا وسيأتى قوم يسبونهم وينتقصونهم فلا تجالسوهم ولا تشاربوهم ولا تؤاكلوهم ولا تناكحوهم
اسی حدیث شریف سے شیعہ کا حکم صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ ان سے نکاح کرنے کی صریح ممانعت وارد ہے۔
بالجملہ اس حدیث شریف نے تمام لوگوں کو گمراہوں بے دینوں مرتدوں سے نکاح کرنے، ان کے پاس بیٹھنے، ان کے ساتھ کھانے پینے کی ممانعت فرمائی۔
اس صریح حدیث شریف کے بعد کسی اور عبارت کے پیش کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن اطمینان خاطر کے لئے چند فقہ کی کتابوں کی عبارات بھی پیش کی جاتی ہیں۔
هدايه متن هدايه میں ہے ولا يجوز ان يتزوج المرتد مسلمة ولا كافرة مرتدة وكذا والمرتدة لا يتزوجها مسلم ولا كافرملتقى الابحر میں ہے: ولا يصح تزوج المرتد ولا المرتدة احدا:
کنز الدقائق اور اس کی شرح عینی میں ہے و لا ینکح مرتد ولا مرتدة احدا مطلقاً لا مسلما ولا كافرا ولا مرتد الان النكاح ينعقد الملة ولا ملة له
تنویر الابصار اور اس کی شرح در مختار میں ہے ولا يصح ان ينكح مرتد او مرتدة احد من الناس مطلقاً شامی میں ہے قوله مطلقا ای مسلما او کافر او مرتدا
خلاصہ مضمون ان عبارات کا یہ ہے کہ مرتد کا نکاح کسی مسلمان عورت یا کافرہ اور مرتدہ سے جائز نہیں، اسی طرح مرتدہ کا کسی مسلمان اور کافر مرد سے نکاح صحیح نہیں مخلوق میں سے کسی کے ساتھ مرتد و مرتدہ نکاح کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لئے کہ نکاح مذہب پر اعتماد کو چاہتا ہے اور مرتد کا کوئی مذہب ہی نہیں اور اسی طرح عالمگیری، قاضی خان، بحر وغیرہ کتب میں ہے۔
حاصل جواب یہ ہے کہ شیعہ تبرائی کافر و مرتد ہیں اس لئے ان سے کسی اہلِ سنت و جماعت مرد یا عورت کا نکاح ناجائز و غیر صحیح و باطل ہے۔
بالجملہ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کا کافر ہونا قطعی یقینی ہے اور علمائے کرام تو ایسے گمراہوں سے نکاح کرنے کی ممانعت فرماتے ہیں جن کو بتاویل کافر کہتے ہیں۔
چنانچہ علامہ قاریؒ شرح شفا میں تحریر فرماتے ہیں:
اهل البدع على رائ من كفرهم بالتاويل ولا تحل أى لاحد من أهل السنة مناكحتهم ولا اكل ذبائحهم ولا الصلوة على ميتهم.
لہٰذا جب اہلِ سنت کا ایسے گمراہوں سے نکاح حلال نہیں تو جو بلا تاویل کافر یقینی طور پر کافر ہیں ان سے کس طرح حلال ہو سکتا ہے؟
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جس سنی مرد یا عورت کا ناواقفی یا غلطی سے شیعہ تبرائی مرد یا عورت سے عرفاً نکاح ہو چکا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً جدا ہو جائے، کیونکہ یہ وطی زنا ہے، اور اس سے جدا ہونے کے لئے طلاق کی بھی ضرورت نہیں، طلاق تو جب ہو کہ عند الشرع نکاح ہوچکا ہو، اور یہ جو رسم کے طور پر نکاح ہوا تھا وہ شرعاً نکاح باطل تھا جو سرے سے ہوا ہی نہیں تو طلاق کی کیا حاجت؟ نہ اسے عدت کی ضرورت کہ زنا کیلئے عدت نہیں۔ اس کا حکم صاف بکثرت کتابوں میں موجود ہے، یہاں بخیال اقتصار صرف ایک عبارت نقل کرتا ہوں۔
فقہ کی مشہور کتاب در مختار میں ہے: في مجمع الفتاویٰ نكح كافر مسلمة فولدت منه ولا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لانه نكاح باطل۔
رد المحتار میں لانه نکاح باطل کے تحت فرماتے ہیں: ای فالوطى فيه زنا لا يثبت به النسب۔
مجتمع فتاویٰ میں ہے کہ کافر نے مسلمان عورت سے نکاح کیا، اس سے اولاد پیدا ہوئی تو نسب ثابت نہیں ہوگا، اور نہ عدت واجب ہوا، اس لئے کہ یہ نکاح باطل ہے، اس میں وطی زنا ہے۔
(فتاویٰ اجملیہ: جلد، 1 صفحہ، 202)