Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

آیات قتال مرتدین اور مذہب اہل سنت و الجماعت

  مولانا اللہ یار خانؒ

آیاتِ قتال مرتدین اور مذہب اہلِ سنت و الجماعت

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَسَوۡفَ يَاۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَاۤئِمٍ‌ ؕ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ۝۔(سورۃ المائدہ آیت:54)۔

ترجمہ: اے ایمان والو! جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت ہوگی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی مہربان ہوں گے وہ مسلمانوں پر تیز ہوں گے وہ کافروں پر جہاد کرتے ہونگے اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ کسی ملامت کرنے والوں کی ملامت کا اندیشہ نہ کرینگے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہیں عطا کریں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے بڑے علم والے ہیں۔

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ۝۔(سورۃ المائدہ آیت:55)۔

ترجمہ: تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے رسول اور ایماندار لوگ ہیں جو اس حالت سے نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں کہ ان میں خشوع ہوتا ہے۔

وَمَنۡ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوۡلَهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۝۔

(سورۃ المائدہ آیت:56)۔

ترجمہ: اور جو اللہ سے دوستی رکھے گا اور اس کے رسول سے اور ایماندار لوگوں سے سو اللہ کا گروہ بیشک غالب ہے۔

 ربط آیات:

اس سے پہلے مومنوں کو اہلِ کتاب (یہودو نصاریٰ) کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع فرمایا۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ‌ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ‌ الخ (سورۃ المائدہ آیت:51)۔

ترجمہ: اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناو وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بیشک وہ انہی میں سے ہوگا۔

دوسری آیت کا ربط سابقہ آیات سے یہ ہے کہ تمہارے دوست تو اللہ اور رسول اور اہلِ ایمان ہیں نہ کہ اہلِ کتاب اس کے بعد آنے والی آیت میں اس کی علت بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں یہ کب دوستی کے لائق ہیں۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ‌ الخ۔(سورۃ المائدہ آیت:57)۔

ترجمہ: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے جو ایسے ہیں کہ انہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے ان کو اور دوسرے کفار کو دوست مت بناؤ۔

پھر دوسری علت بیان فرمائی کہ یہ تمہاری عبادات اذان و صلوٰۃ کا مذاق اڑاتے ہیں۔

تفسیرِ آیات:

آیت نمبر 1: مخاطب اہلِ ایمان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں انہیں بتایا گیا کہ تم میں سے جو مرتد ہوگیا انہیں سزا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ایک قوم لا کھڑی کرے گا جس کے اوصاف یہ ہوں گے۔ 

  • اللہ تعالیٰ کے وہ محبوب ہوں گے اللہ کو ان سے محبت ہوگی۔
  • انہیں رب العالمین سے محبت ہوگی۔
  •  اہلِ ایمان کے حق میں نرم اور شفیق ہوں گے۔
  • کافروں پر غالب ہوں گے اور ان کے حق میں سخت ہوں گے۔
  • وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔
  • کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دیں گے بس اپنی دھن میں مست ہوں گے۔

یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ جسے چاہے اس خدمت کے لئے انتخاب کرلے تاریخ نے اس حقیقت کے اظہار میں ذرہ بھر بھی بخل نہیں کیا کہ ان اوصاف کی حامل قوم خلفاء ثلاثہ اور ان کے متبعین کی جماعت تھی جو مرتدین کے خلاف جہاد کرتے تھے۔

اگر کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے یہ دعویٰ کرے یا یہ اعتقاد رکھے کہ خلفاۓ ثلاثہؓ اور ان کے متبعین (معاذ اللہ) مرتد ہوگئے تو اس کا فرض ہے کہ اس آیت کا مصداق اس قوم کی نشاندہی کرے جس میں مذکورہ اوصاف پائے جاتے ہوں اور انہوں نے خلفائے ثلاثہؓ اور ان کے متبعین کے خلاف جنگ کر کے انہیں سزا دی ہو ان کا قلع قمع کیا ہو ظاہر ہے کہ تاریخ سے کسی ایسی قوم کا سراغ نہیں مل سکے گا البتہ اس کے برعکس تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ یہ قوم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی جماعت تھی جس نے خلفائے ثلاثہؓ کی قیادت میں مرتدین سے قتال کیا ان کا قلع قمع کیا لہٰذا اس آیت کا مصداق صرف خلفائے ثلاثہؓ اور ان کے متبعین کی جماعت ہے اس حقیقت کا انکار صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو دن کو رات کہنے کی حماقت کر سکتا ہو۔

اگر یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ اس سے مراد سیدنا علیؓ ہیں تو الفاظ قرآنی اور تاریخی حقائق اس دعویٰ کی تردید کے لئے سامنے آجاتے ہیں اول یہ کہ آیت کا مصداق قوم ہے فسوف يأتی الله بقوم اور سیدنا علیؓ فرد واحد میں قوم نہیں جو اس قوم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے قرآن نے ضمیر جمع استعمال کی ہے یحبهم ھُم ضمیر کا مرجع فرد واحد نہیں ہو سکتا پھر ان کی صفات میں سے ایک صفتِ اعزة علی الکافرین ہے کہ وہ کافروں پر غالب آئیں گے مگر سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ کا عہد (بقول شیعہ) تقیہ کی اوٹ میں گزارا اور اپنے عہدِ خلافت میں کسی جنگ میں بھی کفار پر غلبہ حاصل نہیں کیا جب کفار سے جنگ ہی کوئی نہیں کی تو کفار پر غلبہ کا سوال ہی کب پیدا ہوتا ہے شیعہ عقیدہ کے مطابق تو سیدنا علیؓ کسی برائی کے روکنے پر بھی قادر نہ ہو سکے۔

جیسا کہ روضہ کافی صفحہ 51 پر ہے:

ثم اقبل بوجهه وحوله الناس من اهل بيته وخاصته وشيعة فقال قد عملت الولاة قبلی اعمالا خالفوا منها رسول الله متعمدين لخلافه و ناقضين لعهده مفيدين لسنة ولو حملت الناس على تركها وحولتها إلى مواضعها والى ما كانت فی عهد رسول الله ﷺ التفرق عنی جندى حتى ابقى وحدى۔

خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے اہلِ بیتؓ اور اپنے شیعہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ پہلے خلفاء نے عمداً ایسے کام کئے جو نبی کریمﷺ کی سنت کے سراسر خلاف ہیں اب اگر میں ان اعمال میں تبدیلی کر کے سنت کے مطابق کروں تو ڈرتا ہوں کہ فوج میرا ساتھ چھوڑ دے گی اور میں تن تنہا رہ جاؤں گا۔

ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ اپنے شیعہ کی ایسی جانباز فوج میں گھرے ہوئے تھے کہ کسی ایک حکم کو جسے وہ باطل سمجھتے تھے بدلنے کا اقدام نہیں کر سکتے ہیں تو ایسے بہادروں کے بل بوتے پر کفار سے جنگ کر کے ان پر غلبہ حاصل کرنے کی نوبت کیونکر آسکتی تھی۔

ان حقائق کے باوجود شیعہ مفسرین نے ایک روایت کا سہارا لے کر سیدنا علیؓ کو اس آیت کا مصداق قرار دینے کی کوشش کی ہے علامہ فتح اللہ کاشانی نے اپنی کتاب مسیح الصادقین میں اس آیت کے تحت یہ روایت نقل کی ہے لاعطين الراية عذا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله کہ خیبر کے دن نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا اس آدمی کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور رسولﷺ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسولﷺ اسے دوست رکھتے ہیں اس استدلال کے جواب میں چند امور قابلِ توجہ ہیں:

  1. یہ حدیث خبر واحد ہے اور ہمارا استدلال ظاہر قرآن سے ہے۔
  2.  حدیث میں لفظ رجلاً ہے رجل سے مراد قوم کبھی نہیں ہوتی۔
  3.  حدیث میں ضمیریں مفرد ہیں آیت میں سب ضمیر میں جمع کی ہیں۔
  4.  خیبر کی جنگ اہلِ کتاب کے ساتھ ہوئی مرتدین کے خلاف نہیں ہوئی۔
  5.  خیبر میں فوج کشی نبی کریمﷺ نے خود کی آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ مرتدین کے خلاف فوج کشی کرنے والی قوم غیر رسول ہوگی۔

لہٰذا اس خبر واحد کے سہارے آیتِ قرآنی کا مدلول سیدنا علیؓ کی ذات کو قرار دینا کسی پہلو سے بھی قابلِ اعتبار نہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیدنا علیؓ اس آیت کے مصداق اس بناء پر ہیں کہ انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں ان اوصاف کا مظاہرہ کیا۔

یہ دعویٰ بھی کئی وجوہ سے باطل قرار پاتا ہے مثلاً

  1. سیدنا علیؓ کے مقابل اہلِ قبلہ تھے۔
  2.  سیدنا علیؓ نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ جہاں تک ایمان کا تعلق ہے ان میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں نہ ان کا ایمان مجھ سے زیادہ ہے اور نہ میرا ایمان ان سے زیادہ ہے لہٰذا آیت کا مصداق نہیں قرار دیا جا سکتا۔
  3.  بفرضِ محال کالشریک الباری یہ مان لیں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ باغی تھے تو قرآنِ کریم باغی کو مومن کہتا ہے۔ 

وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ الخ۔

(سورۃ الحجرات آیت:9)۔

ترجمہ: پس یہ جنگ تو جنگِ فتنہ ہوگی مرتدین کے مقابلے میں جہاد فی سبیل اللہ کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا یہاں ایک اور نکتہ قابلِ غور ہے:

بقول شیعہ خلفائے ثلاثہؓ نے دین کو خراب کیا قرآن کی تحریف کی سنتِ رسولﷺ کو برباد کیا پھر بھی سیدنا علیؓ نے ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائی اور سیدنا امیرِ معاویہؓ پر تو ان میں سے کوئی بہتان بھی نہیں لگایا گیا پھر ان کے خلاف تلوار کیوں اٹھائی گئی ممکن ہے کوئی معقول وجہ بتائی جا سکے خلاصہ یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی سیدنا علیؓ کو اس آیت کا مصداق نہیں قرار دیا جا سکتا ہاں خلفائے ثلاثہؓ اس آیت کے مصداق ثابت ہو گئے مرتدین کے خلاف انہوں نے ہی تلوار اٹھائی ان پر غلبہ حاصل کیا ان کا قلع قمع کیا کسی قسم کی ملامت کی پروا نہ کی۔

علمائے شیعہ کے نزدیک آیات کی تفسیر:

 اب ہم اس آیت کی تفسیر شیعہ کتبِ تفسیر سے بیان کرتے ہیں۔

منہج الصادقین 3: 248۔

در تاریخ مذکور است کہ سیزده قبائل از اسلام مرتد شدند سہ در آخر عبد رسول اللہﷺ و قتل اسود درشبے واقع شد کہ در صبح آں رسول اللہﷺ بجوار رحمت ایزدی پیوست۔

تاریخ میں ذکر ہے کہ 13 قبائل مرتد ہوئے ان میں سے تین تو حضور اکرمﷺ کے عہد کے اواخر میں مرتد ہوئے اور اسود کا قتل اس رات واقع ہوا جس کی صبح کو حضورﷺ کا وصال ہوا۔

طلیحہ پر عہدِ نبوی میں حملہ ہوا مگر وہ زمانہ صدیقیؓ میں مسلمان ہوا اب رہا مسیلمہ کذاب کا معاملہ تو اس کے متعلق علامہ کاشانی لکھتے ہیں:

و بعد ازاں رسول خداﷺ بیمار شد و بجوار ایزدی پیوست و کار مسلیمہ قوت گرفت و ابوبکرؓ چوں مخلافت بنشت خالد ولیدؓ رابا جماعتے بجانب خیبر فرستادتا اور امقہور کردند۔

 اور اس کے بعد رسول کریمﷺ بیمار ہوگئے اور پھر حضورﷺ کا وصال ہوگیا اس دوران مسیلمہ نے قوت پکڑ لی جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے انہوں نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو ایک جماعت دے کر خیبر کی طرف بھیجا انہوں نے یہ بغاوت فرو کی۔

یعنی سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے مسیلمہ کا خاتمہ کیا جو کام نبی کریمﷺ نے شروع کیا اس کی تکمیل ان کے سچے جانشین سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کر دی اسی صفحہ 248 پر آگے لکھتے ہیں۔

 ودر عہدِ سیدنا ابوبکرؓ ہفت قبیلہ مرتد گشتند۔ 

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں سات قبیلے مرتد ہوئے۔

پھر صفحہ 249 حق تعالیٰ شرایشاں را کفایت کردو بردست مسلمانان بقتل آمدند۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے شر کو دور کیا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

یعنی ان سات مرتد قبائل کا قلع قمع سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے کیا ثابت ہوا کہ یہی وہ لوگ تھے یہی وہ قوم تھی جن کی صفات آیتِ مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں پھر اسی صفحہ پر ہے۔

در زمانہ عمرؓ غسان قوم جبلہ بن الیم نصرانی شده

سیدنا عمرؓ کے عہد میں قبیلہ غسان نصرانی ہوگیا جو جبلہ بن الیم کا قبیلہ تھا۔

یعنی عہدِ فاروقیؓ میں مرتدین کی سرکوبی سیدنا فاروقؓ نے کی لہٰذا مفسر شیعہ نے تسلیم کر لیا کہ آیتِ مذکورہ کا مصداق شیخینؓ ہوئے اور ان اوصاف کے حامل بھی یہی قوم تھی جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے بلکہ آگے چل کر یہی مفسر واضح الفاظ میں اعتراف کرتا ہے۔

نقل کرده اند کہ آیت درباره ابوبکرؓ است و اصحاب او کہ با اهل رده کا راز کردند۔

نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا ابوبکرؓ اور انکے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مرتدین سے جنگ کی

لیجئے اب شک یا تاویل کی گنجائش کہاں باقی رہی مگر اس کے باوجود آدمی جب بہکنے لگے تو اسے کون روکے۔ چنانچہ تفسیرِ قُمی میں علی ابنِ ابراہیم قمی نے لکھا ہے کہ یہ آیت امام مہدی کے حق میں نازل ہوئی دلیل یہ دی ہے کہ آیت میں سوف کا لفظ ہے جو استقبال کو چاہتا ہے۔ بعد والا زمانہ مراد ہے لہٰذا اس کے مصداق امام مہدی ہونگے حیرت ہے کہ مفسر صاحب کی نگاہ من یرتد منکم پر کیوں نہ رکی کہا یہ جا رہا ہے کہ تم حاضرین میں سے جو مرتد ہوں گے ان کی سرکوبی کے لئے ایک قوم کھڑی کی جائے گی تو کیا اُس زمانہ کے مرتدین امام مہدی کے زمانہ تک زندہ رہیں گے اور ان کے زمانہ میں ارتدار کا اظہار کریں گے؟۔

دوسرا جواب یہ کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے صفین اور جمل دو جنگیں لڑیں اس پر بحث ہو چکی مگر ایک دو باتیں مزید بتا دینا مناسب ہے۔

 (1)۔ صاحب تفسر منہج الصادقین نے سیدنا علیؓ کے متعلق لکھا ہے:

ہم چنانکہ در زمانہ و رسولہ با کفار حرب کردو بعد از فوت آن حضرت نیز با فجار جہاد کرد (253:3)۔

رسول کریمﷺ کے زمانے میں جس طرح سیدنا علیؓ نے کفار کے ساتھ جنگ کی اسی طرح حضورﷺ کی وفات کے بعد فاجروں کیساتھ جہاد کیا۔

ان دو جملوں میں شیعہ مفسر نے دو امور کا اعتراف کیا۔

اول یہ کہ سیدنا علیؓ نے حضور اکرمﷺ کے بعد کفار کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی۔ 

دوم یہ کہ آپ کی جنگیں ان مسلمانوں کے خلاف تھیں جنہیں شیعہ مفسر فاجر کہتا ہے یعنی کافروں یا مرتدوں کے خلاف سیدنا علیؓ نے کوئی جنگ نہیں کی۔

پھر اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ:

نیز روزے صحابہؓ افرمود کہ منکم من يقاتل على تاويل القرآن كما قاتلت على تنزيله۔

حضورﷺ نے ایک روز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تم میں سے وہ لوگ ہونگے جو قرآن کی تفسیر و تاویل کے بارے میں اسی طرح جنگ کریں گے جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل کے بارے میں جنگ کی

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا مصداق خلفائے ثلاثہؓ ثابت ہوئے وہ اور ان کے متبعین ان اوصاف کے حامل قرار پائے جو آیت میں درج ہیں اور خلفائے ثلاثہؓ ہیں اذلۃ علی المومنین اور اعزة على الكافرین ثابت ہوئے اور یہی اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے اور مذہب اہلِ سنت کی حقانیت اس آیت سے ثابت ہوگئی۔

آیت نمبر 2:

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ الخ۔(سورۃ المائدہ آیت:55)۔

ربط آیات میں بیان ہو چکا ہے کہ آیاتِ یہود و نصاریٰ سے ترکِ موالات کے سلسلہ میں نازل ہوئیں جہاں تک شانِ نزول کا تعلق ہے یہ آیت سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے حق میں نازل ہوئیں جب انہوں نے یہود و نصاریٰ سے دوستی ترک کی۔

(تفسیر ابنِ کثیر 71:2)

وقد تقدم فی الاحاديث التی أوردناها ان هذه الايات كلها نزلت فی عبادہ بن الصامت رضی الله عنه حين تبرأ من حلف اليهود ورضى بولاية الله ورسوله والمؤمنين۔

ہماری بیان کردہ گزشتہ احادیث میں گزر چکا ہے کہ ساری آیتیں سیدنا عبادہ بن الصامتؓ کے حق میں نازل ہوئیں جب یہود کے حلیف ہونے سے براءت کا اظہار کیا اور اللہ و رسولﷺ کے ساتھ دوستی رکھنے پر راضی ہوئے۔

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کے حق میں نازل ہوئی پھر اور یؤتون الزكوٰۃ و هم راکعون کی تائید میں دو روایات پیش کرتے ہیں جن میں ذکر ہے کہ سیدنا علیؓ نے حالت نماز میں انگشتری بطورِ زکوٰۃ دے دی ان روایات کی حقیقت علامہ ابنِ کثیر سے سنیے۔ (تفسیر ابن کثیر 71:2)۔

وليس يصح شئ منها بالكلية لضعف استادها و جهالة رواتها ورجالها۔

يعنی جو روایات سیدنا علیؓ کی انگشتری کے متعلق بیان ہوئیں ان میں کوئی ایک بھی صحیح نہیں۔

ان کے استاد ضعیف راوی مجہول ہیں ان میں نکارت و جہالت ہے۔

آیتِ قرآنی کا مفہوم واضح ہے سیدنا عبادہؓ سے کہا گیا ہے کہ تمہارے دوست اللہ و رسولﷺ اور مومنین ہیں جو خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں وہی دوستی کے لئے کافی ہیں مگر ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس آیت کا سلسلہ سیدنا علیؓ کی ذات سے جوڑا جاتا ہے مگر اس کا انداز ذرا ملاحظہ ہو۔

(1)۔ منہج الصادقین 251:3:

رسول اللہﷺ نے سائل سے پوچھا کہ کچھ ملا تو جواب دیا ہاں چاندی کی انگوٹھی۔

 سائل کے جواب کے الفاظ یہ ہیں گفت نعم خاتم من فضہ داد۔

(2)۔ منہج الصادقین 258:3:

و خاتم عقیق خود راکہ در انگشت مبارک داشت بہ سائل داد۔

عقیق کی انگوٹھی جو آپکی انگلی میں تھی سائل کو دے دی۔

(3)۔ نماقب شہر بن آشوب 4:3:

هل اعطاك احد شيئاً قال نعم خاتم فضه فی روایاته خاتم من ذهب۔

پوچھا کیا کسی نے تمہیں کچھ دیا ہے کہنے لگا ہاں چاندی کی انگوٹھی اور روایت میں ہے سونے کی انگوٹھی ۔

(4)۔ تفسیر صافی 450:2:

وكان امير المؤمنين فی صلوٰۃ الظهر وقد صلى ركعتين وهو راكع و عليه حلة قيمتها الف دينار۔

اور سیدنا علیؓ نماز ظہر پڑھ رہے تھے دو رکعتیں پڑھ چکے تو رکوع میں تھے اور ان پر ایک چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار دینا تھی۔

(5)۔ اصول کافی صفحہ177 سیدنا جعفرؓ سے روایت ہے۔

فجاء السائل فقال السلام علیک يا ولی الله و اولى بالمؤمنين من انفسهم تصدق على مسكين فطرح الحلة اليه واما بيده ان احمل۔

سائل آیا اور کہا اللہ کے ولی اور جسے مومنوں پر ان کی ذات سے بھی زیادہ اختیار ہے تم پر سلام اس مسکین کو صدقہ دے تو آپؓ نے چادر اس کی طرف پھینک دی اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اٹھالے۔

اس روایت سے کئی نکات ظاہر ہوئے ہیں۔ 

اول یہ کہ سائل نے سیدنا علیؓ کو اس وصف سے مخاطب کیا جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا بیان فرمایا کہ:

اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ الخ۔(سورۃ الاحزاب آیت:6)۔

ترجمہ: تو معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ سائل کے نزدیک نبی تھے بلکہ النبی تھے جن کے متعلق اللہ نے قرآن میں یہ الفاظ بیان فرمائے۔

دوم یہ ہے کہ سائل ایسا بدتمیز تھا کہ انتظار بھی نہ کیا کہ آپؓ نماز سے فارغ ہو لیں۔

 سوم یہ کہ سیدنا علیؓ نے اپنے رب سے تعلق معطل کیا اور مخلوق کی طرف متوجہ ہوگئے۔

چہارم یہ کہ نماز کی حالت میں چادر اتاری اور سائل کی طرف پھینک دی۔ 

پنجم یہ کہ پھر اسے اشارہ کیا کہ چادر اٹھالے واقعی کیا عجب نماز تھی کیا سیدنا علیؓ کا عبادت کرنے کا یہی انداز تھا؟ 

  1. مجمع البحرين و مطلع امیرین صفحه 92 حاشیہ پر لفظ ولاء.

روى عن الصادق ان الخاتم الذی تصدق به امیر المؤمنین وزن حلقته اربعة مثاقيل فضه ووزن فضه الشام ستة مأته جمل فضة. واربعة احمال من الذهب وهو بطوار بن الحران قتله امیر المومنین واخذ الخاتم من اسبعته

 سیدنا جعفر صاقؓ سے روایت مروی ہے کہ جو انگوٹھی سیدنا علیؓ نے صدقہ میں دی تھی اس کے خراج حلقہ کا وزن چار مثقال چاندی کے برابر تھا اور اس کے نگینہ کا وزن شام کے خراج کے برابر يعنی 600 اونٹ کے بوجھ کے برابر چاندی اور چار اونٹوں کے بوجھ کے برابر سونا اور وہ انگوٹھی سیدنا علیؓ نے ایک کافر بطوار بن الحران کو قتل کر کے اس کی انگلی سے اتاری تھی۔

سیدنا جعفر صادقؓ کی اس روایت میں تو وہ کمال دکھایا ہے کہ باید و شاید مثلاً 

  1. خاتم کے حلقہ کا وزن چار مثقال چاندی تھا۔
  2.  خاتم کے نگینہ کا وزن شام کے خراج کے برابر تھا۔ یعنی 600 اونٹ چاندی اور چار

اونٹ سونے کے وزن کے برابر ہونا۔

  1.  یہ انگشتری ایک کافر طوار بن حران کی انگلی میں تھی کتنا دیوہیکل وہ کافر ہوگا جس کی ایک انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کے نگینہ کا وزن 604 اونٹ کے بوجھ کے برابر تھا۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ انسان ہوگا جس نے انگلی میں اتنا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ 
  2.  سیدنا علیؓ نے اسے قتل کیا اور انگوٹھی اتار کے خود پہن لی مالِ غنیمت سمجھا ہوگا مگر تاریخ میں کسی ایسے واقعہ کا سراغ نہیں ملتا کہ کسی تصادم میں سیدنا علیؓ نے اس نام کے کسی کافر کو قتل کیا اور مال غنیمت کے طور پر اس کی انگوٹھی اپنے قبضہ میں لے لی اور ظاہر ہے کہ یہ نبی کریمﷺ کے عہد کی بات ہے جس میں مال غنیمت کی تقسیم خود نبی کریمﷺ فرمایا کرتے تھے۔ 
  3.  کوئی ماہر ریاضیات اس معمہ کو حل کر کے دکھائے کہ ایک انسان جو نبی کریمﷺ کے دور کا ہو اپنے ہاتھ کی انگلی میں 604 اونٹوں کے بوجھ کے برابر وزنی انگوٹھی لٹکائے پھرے۔
  4.  یہ کوئی خواب نہیں بیان ہو رہا بلکہ سیدنا جعفر صادقؒ کی روایت ہے جو اس عالم ناسوت میں عالمِ بیداری سے تعلق رکھتی ہے۔
  5. سیدنا علیؓ نے وہ انگوٹھی اپنی انگلی میں کس نیت سے پہنی اگر زینت مقصد تھا تو یہ ناجائز ہے اور اگر اتباعِ سنت مقصد تھا تو حضورﷺ نے کب ایسی انگوٹھی پہنی اور دورِ نبویﷺ میں سیدنا علیؓ کو کب یہ ضرورت تھی کہ حکم ناموں پر مہر کرنے کے لئے انگوٹھی پہنتے یعنی جس کے تخمینہ کا وزن 604 اونٹ کے بوجھ کے برابر ہو۔ چنانچہ استبصار 189:2۔

يجوز ليس الخاتم اذ كان القصد السنت بدون ان يكون القصد به الزينة۔

اگر اتباعِ سنت کی نیت ہو زینت مقصد نہ ہو تو انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

اور فروع کافی 468:6:

عن ابی عبدالله عليه السلام قال قال رسول الله ﷺ لامير المؤمنين لا تخم بالذهب فانه زينتك فی الآخرة۔

ابو عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی كريمﷺ نے امیر المومنین سے فرمایا سونے کی انگوٹھی نہ پہن وہ تمہارے لئے آخرت میں زینت ہوگی۔

قال امير المؤمنین عليه السلام لا تختموا بغير الفضه وعن ابی عبدالله قال لا تجعل فی یدک خاتما من ذهب۔

امیر المومنین نے فرمایا چاندی کے بغیر کوئی انگوٹھی نہ پہنو اور سیدنا جعفرؒ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی نہ پہننا۔

تفسیر صافی صفحه 651:

ويمكن التوفيق بين مارواه في الكافی ان المصدقه به كان حلة و بين ما رواهانه خاتم لعله تصدق فی غيره نوعه مرة بالحلة واخرى بالخاتم۔

اصولِ کافی کی روایت کو چادر صدقہ میں دی تھی اور دوسروں کی روایت کہ وہ انگوٹھی تھی ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ایک بار چادر دی دوسری مرتبہ انگوٹھی دی۔

ان روایات کا سرسری جائزہ لیجئے:

  1. انگوٹھی عقیق کی تھی:
  2.  انگوٹھی چاندی کی تھی۔
  3.  انگوٹھی نہیں چادر تھی۔
  4. انگوٹھی چاندی کی تھی یا سونے کی تھی۔
  5.  انگوٹھی نہیں چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔
  6. چادر تھی جو نماز کی حالت میں پھینک دی گئی۔
  7.  انگوٹھی چاندی کی تھی جس کے حلقے کا وزن 4 مثقال اور نگینہ کا وزن 604 اونٹ کے بوجھ کے برابر تھا جو ایک کافر نے پہن رکھی تھی اور سیدنا علیؓ نے اسے قتل کر کے اس کے ہاتھ سے اتار لی۔

ان متضاد بیانات اور ناممکن الوقوع حالات میں سے حقیقت تلاش کیجئے ممکن ہے کسی نکتہ سنج کو حقیقت کی کوئی جھلک نظر آ جائے آخر دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔

آئیے دیکھیں کہ وہ سائل کون تھا جو اتناجری اور موقع شناسی واقعہ ہوا ہے۔

اصول کافی صفحہ 178 اور تفسیر صافی صفحہ 450:2:

والسائل الذی سأل امير المؤمنین عليه السلام من الملائكة۔(وه سائل فرشتہ تھا)۔

اور الصافی شرح اصول کافی 297:3 پر خلیل قروینی نے لکھا ہے:

سائل کے سوال کرد امیر المومنینؓ را از ملائکہ بود۔

زکوٰۃ وصدقہ شریعت کی رو سے صرف دے دینا کافی نہیں بلکہ صحیح محل پر دینا ضروری ہے ورنہ وہ صدقہ مقبول نہیں مردود ہے۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سیدنا علیؓ عالم ما كان و ما يكون تھے تو کیا انہیں علم نہ ہوا کہ یہ فرشتہ ہے انسان نہیں اور اگر علم ہوگیا تو کیا انہیں شریعت کے متعلق اتنی واقفیت بھی نہ تھی کہ فرشتہ کو اس کی احتیاج نہیں لہٰذا یہ محلِ صدقہ نہیں اور کیا انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ یہ عمل مقبول نہیں اگر علم تھا تو یہ نیکی شمار ہوگا یا فعل عبث ظاہر ہے کہ غیر محل پر صدقہ دینا فعل عبث ہے نا جائز ہے نا مقبول ہے کوئی نیکی نہیں تو ایسا فعل سیدنا علیؓ کی فضیلت کا باعث کیونکر بنا؟۔

اب آئیے آیت کے چند الفاظ پر غور کرتے ہیں آیت میں دوستی کے قابل اہلِ ایمان کے اوصاف میں سے دو وصف بیان ہوئے ہیں یقیمون الصلوٰۃ ويؤتون الزكوٰة۔

جس طرح اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ ایک خاص مقررہ ہٸیت سے عبادت کرنے کا نام ہے اسی طرح زکوٰۃ بھی اصطلاح شریعت میں اس صدقہ کو کہتے ہیں جو اس مال کا اڑھائی فیصد ہے جو آدمی کے پاس سال بھر جمع رہے اگر زکوٰۃ کا مدلول انگوٹھی یا چادر ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ سیدنا علیؓ کے پاس حضورﷺ کے زمانے میں کبھی نصاب کے مطابق مال جمع بھی رہا ہے پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر ایک ہزار دینار کی چادر تھی تو کتنے مال کا اڑھائی فیصد بنتا ہے اگر ان کے پاس مال ہی نہ تھا تو زکوٰۃ کسی کی اگر زکوٰۃ نہیں تھی تو آیتِ قرآنی کا مدلول کیونکر بنا۔

حضورﷺ کے زمانے میں تو سیدنا علیؓ کے تمول کے حالت یہ بیان ہوئی ہے کہ نکاح کے وقت سارا خرچ سیدنا عثمانؓ نے دیا ان کے پاس لے دے کے صرف ایک زرہ تھی اور آپ کے عہدِ خلافت کی حالت اصول کافی باب سیرۃ الامام میں یوں درج ہے۔

عن حماد بن عثمان قال حضرت ابا عبدالله عليه السلام فقلت له اصلحك الله ذكرت ان علیؓ بن ابی طالب كان يلبس الخشن يلبس القميض باربعة دراهم وما اشبه ذالك ونری علیک اللباس الجديد فقال له ان على ابن ابی طالب کان یلبس ذلک فی زمان لا ینکر علیه ولو لیس مثل ذلک الیوم شھر به فخیر لباس کل زمان لباس اھلة۔

خلاصہ یہ کہ سیدنا حعفرؒ نے تصدیق کی سیدنا علیؓ ایک روپیہ یا کم و بیش قیمت کی قمیض پہنا کرتے تھے تو ایک ہزار دینار طلائی کی چادر کس مال کی زکوٰۃ کے طور پر دے دی۔ 

یہ تو بالکل گورکھ دھندا سا بن جاتا ہے کاش کوئی اسے حل کر سکے۔

خاتم کے واقعہ میں مزید رنگ بھرنے کے لیے شیعہ کتب میں تقابل بیان ہوا ہے اس کا جائزہ لینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

تفسیر صافی 452:2:

روی عن عمر بن الخطابؓ انه قال واللہ لقد تصدقت باربعین ختما وانا راکع لینزل فی ما نزل فی علی فما نزل۔نزل

یعنی سیدنا عمرؓ نے حالت رکوع میں چالیس انگشتریاں صدقہ کیں کہ میرے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوجاۓ جیسی سیدنا علیؓ کے بارے میں نازل ہوئی مگر ناکامی ہوئی۔

اور تفسیر منہج الصادقین 363:3:

چوں صحابہؓ آنرا دید ہر کس کہ انگشتری داشت صدقہ بداد چہار صد انگشتری باعرابی رسید اعرابی شاد شد۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا علیؓ کی ریس کرتے ہوئے انگشتریاں صدقہ میں دے دیں اور اس طرح بدو کو 1400 انگشتریاں مل گئیں (یہ نہیں بتایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اپنے حق میں آیت نازل ہونے کے لئے یہ کام کیا تھا یا ویسے ہی ان کا جذبہ ایثار جوش میں آگیا۔) 

تقابل تو خوب ہے مگر اس سے کئی اور نتائج بھی نکلتے ہیں مثلاً:

  1.  سیدنا عمرؓ کے حق میں آیت نازل نہ ہوئی بھلا کیونکر ہو سکتی تھی ان کی انگوٹھی 6 ماشہ کی نہیں تو ایک تولہ کی ہوگی اس سے زیادہ کیا ہو سکتی 604 اونٹوں کے بوجھ کے برابر یا اس سے زیادہ وزنی ہوتی تو نزولِ آیت کی توقع کرنا بھی بجا تھا ایک ننھی منّی انگوٹھی خواہ وہ تعداد میں چالیس سہی آدھ سیر سے زیادہ پھر بھی نہیں ہوسکتی اس پر آیت کے نزول کی امید رکھنے میں کیا تک ہے۔
  2.  سیدنا عمرؓ کی وہ انگوٹھیاں اپنی ذاتی ہوں گی کسی کافر کے ہاتھ سے اتار کے دیتے تو کوئی بات بھی تھی پھر یہ کہ انہوں نے صدقہ دیا زکوٰۃ تھوڑی ہی دی اور اگر زکوٰۃ دیتے تو اس مال کی دیتے جو ان کے پاس سرے سے موجود ہی نہ ہوتا تب ممکن ہے آیت نازل ہو جاتی۔
  3. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا صدقہ اعرابی کو ملا یعنی شرعاً اپنے محل پر صرف ہوا لہٰذا مقبول ہوا اور سیدنا علیؓ نے زکوٰۃ دی فرشتے کو ظاہر ہے غیر محل پر صرف ہوئی اور غیر محل پر زکوٰۃ کب مقبول ہوتی ہے اس لئے صدقہ مقبول اور غیر مقبول کا کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ خاتم یا حلہ کا واقعہ فرضی ہے اس کا سارا تانا بانا فرضی ہے اور کسی صورت میں آیت کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا اور یہ کہنا کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کے حق میں نازل ہوئی محض افسانہ ہے۔

اہلِ سنت نے جہاں کہیں ایسی روایات کا ذکر کیا ہے ان میں راوی لازماً شیعہ یا مجہول ہے وہ روایت ضعیف یا موضوع ہے جیسا کہ علامہ ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں وضاحت کر دی ہے پھر ان روایتوں میں سائل کا فرشتہ ہونا کہیں مذکور نہیں۔

سائل کے متعلق ایک اور موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ فرشتہ امتحان کے لئے آیا تھا یہ موقف دو اعتبار سے بودا نظر آتا ہے اول جب مدعیان کو یہ تسلیم ہے کہ سیدنا علیؓ معصوم ہیں عالم ما کان و ما يكون ہیں تو امتحان کا مقصد کیا ٹھہرا۔

دوم یہ کہ امتحان کے لئے جن مواقع پر فرشتوں کا آنا فرض کرلیا گیا ہے وہاں تو فرشتوں نے کوئی دینوی چیز اپنے قبضہ میں نہیں کی مگر یہ فرشتہ تو انوکھا نکلا کہ چادر یا انگوٹھی لے کر چلتا بنا نہ جانے انہیں کہاں پھینکا ہوگا کیونکہ یہ دونوں چیزیں فرشتے کے کام کی تو تھیں نہیں چادر یا انگوٹھی آدمی کے کام تو آ نہ سکی کیونکہ سائل فرشتہ تھا اور فرشتے کے لئے بیکار تھی کہ اسے احتیاج نہیں تھی اللہ جانے رکوع کی حالت میں دی ہوئی زکوٰۃ کس کھاتے لگی۔

ربط آیات اور شان نزول بیان کرنے کے بعد اب اس آیت کی تفسیر کا ذکر کرنا ضروری ہے چونکہ انما ولیکم الله سے لے کر ان حزب الله هم الغالبون تک ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے اس لئے ان دو آیات کی تفسیر یک جا بیان کی جاتی ہے۔

دوسری آیت کے آخر میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھنے والوں کو حزب اللہ کہا گیا ہے اور ان کے غلبہ کا یقینی ہونا تاکید سے بیان ہوا ہے اہلِ ایمان کے لئے حزب اللہ کا سرٹیفیکیٹ اللہ و رسولﷺ سے محبت اور ان کی اتباع کی بناء پر دیا گیا لہٰذا رسولﷺ کے غلبہ میں تو شبہ ہی پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو رسولوں کے غالب رہنے کی بار بار خبر دی ہے اور دوسری طرف کسی رسول کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ مغلوب یا اپنے مشن میں ناکام رہا ہو چنانچہ ارشاد باری ہے:

  1.  وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِرُسُلِهِمۡ لَـنُخۡرِجَنَّكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا‌ ؕ فَاَوۡحٰۤى اِلَيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ لَــنُهۡلِكَنَّ الظّٰلِمِيۡنَۙ وَلَـنُسۡكِنَنَّكُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ‌ؕ ذٰلِكَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِىۡ وَخَافَ وَعِيۡدِ وَاسۡتَفۡتَحُوۡا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيۡدٍۙ۝۔

(سورۃ الابراہیم آیت:13)۔

ترجمہ: اور کفار نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ پس ان رسولوں پر ان کے رب نے (تسلی کے لئے) وحی نازل فرمائی کہ ان ظالمون کو ضرور ہلاک کر دیں گے اور ان کے ہلاک کرنے کے بعد تم کو اس زمین پر آباد رکھیں گے اور یہ ہر اس شخص کے لئے (عام) ہے جو میرے روبرو کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے وعید سے ڈرے۔

2. وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ‏۝۔(سورۃ الصافات آیت:171)۔

ترجمہ: اور ہمارے خاص بندوں یعنی پیغمبروں کے لئے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بیشک وہی غالب کئے جائیں گے اور (ہمارا تو قاعدہ عام ہے کہ ہمارا ہی لشکر غالب رہتا ہے۔

3۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوۡمِهِمۡ فَجَآءُوۡهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَانْتَقَمۡنَا مِنَ الَّذِيۡنَ اَجۡرَمُوۡا ‌ؕ وَكَانَ حَقًّا عَلَيۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۝۔(سورۃ الروم آیت:47)۔

ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر ان کی قوموں کے پاس بھیجے اور ان کے پاس دلائل لے کر آئے سو ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جو مرتکب جرائم ہوئے تھے اور اہلِ ایمان کا غالب کرنا ہمارے ذمہ تھا۔

اِنَّا لَنَـنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَيَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡاَشۡهَادُ۝۔(سورۃ الغافر آیت:51)۔

وَمَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِۙ‏۝۔(سورۃ آل عمران آیت:126)۔

ترجمہ: ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والو کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس روز بھی جس میں گواہی دینے والے (فرشتے جو اعمال نامے لکھتے تھے) کھڑے ہوں گے اور نصرت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکیم ہے۔

اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمۡ‌ۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖ الخ۔(سورۃ آل عمران آیت:160)۔

ترجمہ: اگر حق تعالیٰ تمہارا ساتھ دیں تب تو تم سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا اور اگر تمہارا ساتھ نہ دیں تو اس کے بعد ایسا کون ہے جو تمہارا ساتھ دے (اور غالب کردے)۔

اِسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ الشَّيۡطٰنُ فَاَنۡسٰٮهُمۡ ذِكۡرَ اللّٰهِ‌ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ الشَّيۡطٰنِ‌ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحَآدُّوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗۤ اُولٰٓئِكَ فِى الۡاَذَلِّيۡنَ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۝۔(سورۃ المجادلہ آیت:19)

ترجمہ: ان پر شیطان نے پورا تسلط کرلیا ہے سو اس نے ان کو اللہ کی یاد بھلا دی یہ لوگ شیطان کا گروہ ہے خوب سن لو کہ شیطان کا گروہ ضرور برباد ہونے والا ہے جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں یہ سخت ذلیل لوگوں میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکم ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور رسولﷺ کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کتبہ ہی کیوں نہ ہوں ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان (قلوب) کو اپنے فیض سے قوت دی ہے اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے۔

تفسیر ابنِ کثیر:71:2 میں اس حقیقت کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

فكل من رضی بولاية الله ورسوله والمومنين فهو مفلح فی الدین والآخرة ومنصور في الدنيا والآخرة ولذا قال ومن يتول الله رسوله والذين امنوا فان حزب الله هم الغالبون۔

اور ہر وہ شخص جو اللہ اس کے رسولﷺ اور اہلِ ایمان کی دوستی پر راضی ہوگیا وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے اور دنیا اور آخرت میں مدد پانے والا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو الله اس کے رسولﷺ اور اہلِ ایمان سے دوستی رکھے گا سو اللہ کا گروہ بلاشک غالب رہے گا۔

ان آیات میں سابقہ رسولوں اور ان کے متبعین کو غلبہ کی بشارت دی گئی ہے بلکہ یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے اور ساتویں آیت میں تو وضاحت سے دو جماعتوں کا ذکر ہے ایک حزب اللہ اور دوسری حزب الشیطان رسولوں اور ان کے متبعین کی جماعت ہی حزب اللہ ہے اور اسی کے لئے غلبہ مقدر ہوچکا ہے۔ اس جماعت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

  1. یہ جماعت ہمیشہ غالب رہے گی۔
  2.  انکی محبت اور دوستی اللہ و رسولﷺ کے بغیر کسی سے نہ ہوگی مقابلے میں خواہ ماں باپ ہوں یا اقرباء۔
  3. وہ جماعت اللہ کی پسندیدہ ہے اور اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے راضی۔
  4. ان کے دل قرآن کے نور سے منور ہوں گے۔
  5. یہ جماعت جنتی ہے۔

اس عمومی قانون کے علاوہ نبی کریمﷺ کے متعلق ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ الخ۔(سورۃ الصف آیت:9)۔

ترجمہ: وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت دی اور سچا دین (اسلام) دیگر (دنیا میں) بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔

اور حضورﷺ کھ متبعین کو حکم دیا:

وَقٰتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ‌ؕ الخ۔(سورۃ البقرہ آیت:193)۔

ترجمہ: اور تم ان (کفار) سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک) نہ ر ہے اور دین (خالص) اللہ ہی کا ہو جائے۔

اور ظاہر ہے کہ غلبہ اجتماعی قوت سے ہوتا ہے اور اجتماعی قوت کا مدار اتحاد و اتفاق اور باہمی الفت پر ہے لہٰذا حضورﷺ کی بعثت کے دوران یہ مقصد بیان ہوئے حضورﷺ نے قبائلِ عرب میں ایسا اتحاد قائم کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی وہ اوس و خزرج جو صدیوں سے آپس میں برسر پیکار تھے ایسے شیر و شکر ہوئے کہ دوئی کا نشان مٹ گیا اور اجتماعی قوت کا اظہار غزوہ تبوک تک اس انداز میں ہوا کہ آج تک ارباب سیاست انگشت بدنداں ہیں مگر عملاً یہ تمام پیشگوئیاں خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں پوری ہوئیں اس وقت کی منتظم اور جابر حکومتوں ایران و روم کو خلفائے ثلاثہؓ نے مغلوب کیا لہٰذا یہی جماعت حزب اللہ ہے ان آیات کی مصداق یہی جماعت ہے ان کا ہاتھ رسولﷺ کا ہاتھ ہے جس نے کفر کی کمر توڑ کے رکھ دی اور یظھر علی الدین کلہ کی عملی تفسیر کر کے دنیا کو دکھا دیا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیتؓ کی جماعت حزب اللہ ہے جس نے خلفائے ثلاثہؓ کی قیادت میں کتب الله لا غلبن انا و رسلی کی عملی تفسیر کر کے دکھا دی۔ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے اور ان آیات کا مصداق یہی ہے لہٰذا دین حق مسلک اہلِ سنت والجماعت یہی ہے۔

ان آیات کی روشنی میں مذہب شیعہ کے عقائد کا جائزہ لیا جائے تو عجیب مایوسی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیدنا سلمان فارسیؓ سیدنا مقدادؓ اور سیدنا ابوذرؓ کے سوا سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہوگئے اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو نبی کریمﷺ کی کامیابی کا ثبوت کہاں سے لائیں گے حضورﷺ کی 23 برس کی کوشش کا ما حصل صرف تین آدمی ہیں؟۔

پھر حضورﷺ کے بعد غلبہ تو خلفائے ثلاثہؓ کو ہی حاصل ہوا اگر معاذ اللہ یہ مرتد تھے تو غلبہ تو کفر کو ہوا پھر کتب الله لا غلبن انا و رسلی کیا نری شاعری ہے اور غلبہ جب حزب اللہ کے لئے مقدر ہوچکا ہے تو ان کے مخالفین کی جماعت کا نام کیا رکھو گے ان کے غلبہ سے انکار تو کیا ہی نہیں جاسکتا یہ تو ایک تاریخی حقیقت ہے۔

پھر اگر خلافت بلا فصل کے دعویٰ کو دیکھا جائے تو اس خلافت میں غلبہ چھوڑ امن بھی نصیب نہیں ہوا تو فان حزب الله هم الغالبون کی تفسیر کہاں تلاش کرو گے۔

پس حق یہی ہے کہ غلبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہی حاصل ہوا جن کی قیادت خلفائے ثلاثہؓ نے کی یہی جماعت حزب اللہ ہے ان آیات کا مصداق یہی جماعت ہے اگر خلفائے ثلاثہؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حزب اللہ نہیں مانو گے تو حزب الشیطان کی زد میں مغلوبین لازماً آئیں گے مگر اس توہین کا تصور وہی کر سکتا ہے جسے قرآن کی حقانیت پر ایمان نہ ہو۔

اس تفصیل سے آیت انما ولیکم الله ورسوله الخ کی کافی وضاحت ہو گئی کہ مرتدین کے خلاف لڑنے والی یہی خلفائے ثلاثہؓ کی جماعت تھی یہی اذلة على المومنین تھی یہی اعزة على الكافرين یہ اللہ کی پسندیدہ جماعت تھی کفار اور مرتدین پر غلبه اسی جماعت کو حاصل ہوا آیت کی مصداق یہی جماعت تھی اور یہی اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے اور یہی حق ہے۔

اس مقام پر اس دعویٰ کی تردید ذرا اور تفصیل سے کی جاتی ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ آیت کا مصداق سیدنا علیؓ ہیں انہوں نے جمل اور صفین میں جنگ کی حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے ایسی جنگوں کے متعلق وضاحت فرمادی کہ:

فَاِنۡ يَّتُوۡبُوۡا يَكُ خَيۡرًا لَّهُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ يَّتَوَلَّوۡا يُعَذِّبۡهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ ۚ وَمَا لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏۝۔

(سورۃ التوبہ آیت:74)۔

ترجمہ: سو اگر (اس کے بعد بھی) توبہ کریں تو ان کے لئے (دونوں جہان میں) بہتر ہوگا اور اگر رو گردانی کی تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا دے گا اور ان کا دنیا میں کوئی یار ہے نہ مددگار۔

صاف ظاہر ہے کہ مرتدین سے صلح کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا صورتیں دو ہوں گی یا تو وہ تائب ہوکر صحیح مسلمان بن جائیں یا انہیں قتل کر کے انکا صفایا کردو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ صفین کا نتیجہ کیا نکلا:

(1)۔ کیا سیدنا علیؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کی؟ اگر کی تو کیوں؟ اگر نہیں کی تو سیدنا امیرِ معاویہؓ تائب ہوئے اگر نہیں تو کیا سیدنا علیؓ نے انہیں قتل کر کے ان کا خاتمہ کیا؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو آیت کا مصداق سیدنا علیؓ کیونکر ٹھہرے؟۔

پھر آیت میں اعلان ہے کہ حزب اللہ غالب رہے گا تو کیا 24 برس تک سیدنا امیرِ معاویہؓ کے غلبہ کا انکار کیا جا سکتا ہے اگر سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر سیدنا امیرِ معاویہؓ تائب بھی نہ ہوئے اور سیدنا علیؓ ان کا خاتمہ بھی نہ کر سکے تو کس دلیل سے انہیں آیت کا مصداق قرار دیا جاتا ہے۔

آیت مندرجہ بالا فان يتوبوا الخ کا ترجمہ شیعہ تفسیر منہج الصادقین کے الفاظ میں پڑھئیے: پس اگر توبہ کنند از نفاق باشد آں بازگشت بتو مر ایشاں را واگر برگردند از توبہ و مصر باشند بر نفاق عذاب کنند خدا ایشاں را عذاب درد ناک در دنیا بکشتن و در آخرت بسوختن و نیست ایشاں را در زمین ہیچ دوستے و متولی امرے دیارے و مددگارے کہ عذاب از ایشاں باز دارد۔

اور شیعہ تفسیر صافی صفحہ 716 میں یہ ترجمہ درج ہے:

فان يتوبوا یک خیر الهم وان يتولوا بالاصرار على النفاق يعذبهم الله عذابا اليما في الدنيا و الآخرة اى بالقتل والنار وما لهم فی الأرض من ولى ولا نصیر اى فينجيهم من العذاب۔

سو اگر توبہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر نفاق پر اصرار کر کے رو گردانی کریں اللہ تعالیٰ انہیں دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا دے گا يعنی قتل اور جہنم کی سزا اور دنیا میں کوئی ان کا دوست ہوگا نہ مددگار یعنی جو انہیں سزا سے بچائے۔

ظاہر ہے کہ اس آیت کے مطابق منافقین کے خلاف جنگ کا نتیجہ یا تو ان کی توبہ کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے یا ان کے قتل کی صورت میں اور سیدنا علیؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کی جنگ میں ان میں سے کوئی صورت بھی پیش نہیں آئی لہٰذا اس آیت کو جنگ جمل یا صفین پر فٹ کرنا بالکل بے جوڑ کی بات ہے۔

جس کامل آیت کا یہ ٹکڑا ہے اس کے پہلے حصے پر غور کرنے سے کئی امور کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ الفاظ ہیں:

يَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوۡا ؕ وَلَقَدۡ قَالُوۡا كَلِمَةَ الۡـكُفۡرِ وَكَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِهِمۡ وَهَمُّوۡا بِمَا لَمۡ يَنَالُوۡا‌ ۚ وَمَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰٮهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ الخ۔ (سورة التوبہ آیت نمبر 74)۔

ترجمہ: وہ لوگ قسمیں کھا جاتے ہیں کہ ہم نے فلانی بات نہیں کی حالانکہ یقیناً انہوں نے کفر کی بات کہی تھی اور (وہ بات کہہ کر) اپنے اسلام (ظاہری) کے بعد (ظاہر میں بھی) کافر ہوگئے اور انہوں نے ایسی بات کا ارادہ کیا تھا جو ان کے ہاتھ نہ لگی اور یہ کہ انہوں نے صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ انہیں اللہ اور رسولﷺ نے رزق خداوندی سے مالدار کردیا۔

اگر بقول شیعہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ نبی کریمﷺ کی آنکھ بند ہوتے ہی خلفائے ثلاثہؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہوگئے اور نفاق کی زندگی بسر کرنے لگے تو وہ و کفروا بعد اسلامھم کے مصداق بن گئے تو آیت میں ان کے متعلق ارشاد ہے۔

(1)۔ وهموا بمالم ينالوا یعنی جس کام کا قصد کیا اس میں ناکام ہوئے اپنے دینوی مقصد میں انہیں بھی کامیابی نصیب نہ ہوگی تو اب دیکھنا یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ نے کس امر کا قصد کیا اور اس میں نا کام ہوئے کیا انہیں خلافت ملنا ان کی ناکامی کی دلیل ہے یہ جو غصب فدک کا قصہ گھڑ لیا گیا ہے یہ ان کی ناکامی کی دلیل ہے یہ ایک لاکھ کئی ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ان کے ساتھ متفق ہو جانا یہ ان کی ناکامی کی دلیل ہے اگر ہر پہلو میں ان کی کامیابی سامنے آتی ہے تو آیت کی مصداق تلاش کیجئے ذرا پلٹ کے اپنے اس دعویٰ پر غور کرو کہ خلیفہ بلا فصل کی خلافت چھین لی گئی پھر اسے کیا کہیں گے؟ حصولِ فدک کے لئے کتنا زور مارا مگر نہ ملا تو اسے کیا کہیں گے؟ اس لئے آیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو یہ سب افسانے ثابت ہوتے ہیں لہٰذا حقیقت ظاہر ہے کہ نہ وہاں ارتداد و نفاق کا سوال پیدا ہوتا ہے نہ یہاں خلافت کے لئے جتن کرنے اور خلافت کے غصب ہو جانے کا حقیقت سے کوئی تعلق ثابت ہوتا ہے اور اگر حقائق سے صرف نظر کر کے فرضی داستانوں پر یقین کر لیا جائے تو معاذ اللہ فرمان خداوندی بے معنیٰ ثابت ہوتا ہے۔

(2)۔ دوسرا حصہ ہے يعذبهم الله عذاباً اليما فی الدنیا ان کی دنیوی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے گا تو کیا بقول شیعہ تمام مرتد ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قتل کیا گیا اور بچ گئے تو وہی تین چار جو ارتداد سے بچے اگر ایسا نہیں تو آیت کا مصداق کون ہے؟۔

(3)۔ ومالهم فی الأرض من ولى ولا نصیر تیسری صورت بتائی کہ دنیا میں کوئی ان کا یارو مددگار نہ ہوگا مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پورا ملک اور ساری آبادی ان کے ساتھ اور ان کی مہموں میں ممد و معاون رہی اور دوسری طرف بقول شیعہ حالت یہ ہے کہ چالیس روز تک سارے شہر میں پھرایا گیا مگر کسی نے حامی نہ بھری اس عقدے کا حل تو تلاش کیا ہوتا۔

اس آیت کی تفسیر کہئے یا تائید یا تفصیل ایک اور آیت سے ہوتی ہے۔

لَئِنۡ لَّمۡ يَنۡتَهِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِيۡنَ فِى قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ وَّالۡمُرۡجِفُوۡنَ فِى الۡمَدِيۡنَةِ لَـنُغۡرِيَـنَّكَ بِهِمۡ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوۡنَكَ فِيۡهَاۤ اِلَّا قَلِيۡلًا مَّلۡـعُوۡنِيۡنَ ‌ۛۚ اَيۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَقُتِّلُوۡا تَقۡتِيۡلًا سُنَّةَ اللّٰهِ فِى الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُۚ وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبۡدِيۡلًا۝۔(سورۃ الاحزاب آیت:60)۔

ترجمہ: یہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے اور لوگ جو مدینہ میں (جھوٹی) افواہیں اڑایا کرتے ہیں اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم ان پر آپ کو مسلط کریں گے پھر یہ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں بہت ہی کم رہنے پائیں گے پھر وہ بھی (ہر طرف سے) پھٹکارے ہوئے جہاں ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جاوے گی اور اللہ تعالیٰ نے ان (مفسد) لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور رکھا ہے جو پہلے گزرے ہیں اور آپ اللہ کے دستور میں کسی شخص کی طرف سے رد و بدل نہ پائیں گے۔

اس آیت سے منافقین کی تین قسمیں معلوم ہوتی ہیں۔

  1. جن کے افعال و اعمال سے نفاق ظاہر ہو جاتا ہے۔
  2.  جن کے دلوں میں نفاق چھپا ہوا تھا۔
  3. جو افواج اسلامی کے خلاف بری خبریں پھیلاتے تھے۔

آثار و علامات گو مختلف ہیں مگر نفاق سب میں قدر مشترک ہے ان کے متعلق ارشاد ہے کہ:

اگر یہ نفاق سے باز آجائیں تو بہتر ورنہ:

  1.  ہم آپ کو انہیں قتل کر دینے کا حکم دیں گے۔
  2.  یہ لوگ مدینہ میں آپ کے قرب و جوار میں قیام نہیں کر سکیں گے۔
  3.  اگر تھوڑی سی مدت کے لئے وہ بھی گئے تو ملعون ہو کر رسوا ہوکر رہیں گے۔
  4.  پھر مدینہ سے باہر بھی جہاں پائے جائیں گے قتل کر دیئے جائیں گے۔
  5. یہ سنت اللہ ہے تو ہمیشہ سے جائز ہے لہٰذا منافقین مدینہ کے حق میں بھی اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

شیعہ کی مستند تفسیر صافی سے اس آیت کے متعلق ایک جھلک دیکھ لیجئے لنغرینک بهم ای لنا مرنک بقتالهم واجلاتهم من الله ذالك في الاسم الماضية وهو ان يقتل الذين نافقوا الانبياء وسعوا في وهنهم بالارجاف۔

(صفحہ367)۔

ترجمہ: یعنی ہم آپ کو یقیناً ان کے قتل کرنے اور جلا وطن کر دینے کا حکم دیں گے اللہ کا یہ طریقہ پہلی امتوں میں بھی رہا ہے کہ جو لوگ انبیاء سے منافقت کرتے ہیں ان کو قتل کیا جاتا ہے یہ منافقین بری خبریں پھیلا کر انبیاء اور مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں پھر تفسیر شیعہ منہج الصادقین سے اس کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

اگر منتهی نشوند منافقان و اسلام در جفان از امور منہیه بر آںٔیند ترابقتال ایشاں تحریص کنیم و بعد ازاں مجاورت و ہمسائیگی نکنند با تو در مدینہ مگر زمانہ اندک دیا

مجاورت اندک چہ در اندک فرصتے مستاصل گردند ہرگاه یافت شوند ایشاں کشتہ شوند و سنت نہادہ است خدا قتل منافقاں را یعنی مقرر کرده در اہم ماضیہ کہ انبیاء بکشتند منافقاں عبد خودرا۔

عجیب اتفاق ہوا کہ میں نے قرآن کریم کی یہ آیتیں ایک موقعہ پر ملک العلماء مولوی فیض احمد شیعہ اور سلطان المناظرین مرزا احمد علی لاہوری کے سامنے پیش کر کے ان کی امور کی وضاحت طلب کی کہ:

  1. خلفائے ثلاثہؓ بقول آپ کے جب منافق تھے تو انہیں کیوں نہ قتل کیا گیا۔ 
  2. انہیں مدینہ سے کیوں نہ نکالا گیا کہ ان کے لئے مجاورت نبوی ممنوع تھی۔
  3. جو مجاورت خلفائے ثلاثہؓ کو حاصل ہوئی یہ زمان اندک ہے یا مجاورت اندک ہے زندگی بھر ساتھ رہے برزخ میں بھی ساتھ ہیں پھر اس اندک کی پیدائش کس پیمانے سے کی گئی ہے۔

پھر اس کے برعکس نہ آپکے عقیدہ اور واقعات کے مطابق:

  1.  سیدنا علیؓ مدینہ سے دور باہر شہید ہوئے۔
  2.  سیدنا حسینؓ بھی مدینہ سے باہر دیار غیر میں شہید ہوئے۔

تو اس وثوق سے اللہ تعالیٰ کی پیش گوئی اور اس کی غیر متبدل سنت کا عقدہ حل فرمائیے مولوی فیض احمد صاحب کوئی دلیل تو نہ دے سکے البتہ خفت مٹانے کے لئے فرمانے لگے دیکھو اور یہ سیدنا علیؓ اور سیدنا حسینؓ کو منافق کہتا ہے میں نے کہا میرا عقیدہ یہ ہے کہ ان مقدس ہستیوں کو جو شخص منافق کہے یا مجھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے میں نے آپ سے آپ کے عقیدہ اور مذہب کی وضاحت طلب کی ہے اس کا جواب دیجئے۔ مگر جواب کہاں؟۔ 

مرزا احمد علی صاحب نے جواب بتایا کہ خلفائے ثلاثہؓ ان منافقین میں سے تھے جو ایذا نہ دیتے تھے اور یہ حکم ایذا دینے والے منافقوں کے لئے ہے۔ 

اس پر میں نے سوال کیا کہ آیت میں سے وہ الفاظ پیش کریں جن سے آپ کی بیان کردہ تخصیص ثابت ہوتی ہے۔ آیت میں تو عموم ہے یہ حکم تو سب منافقین کے لئے ہے کہ قتل ہوں یا مدینہ سے اخراج ہو۔

اس پر مرزا صاحب کہنے لگے کہ دیکھ لو سیدنا عمرؓ مارے گئے سیدنا عثمانؓ مارے گئے میں نے کہا مرزا صاحب! آپ علم کے زور سے کیا کہہ رہے ہیں ذرا الفاظِ قرآن پر غور کریں ارشاد ہے لنفرینك ثم لا يجاورونک مخاطب نبی کریمﷺ کے ہیں کہ ہم آپ کو ان کے قتل کا حکم دیں گے پھر یہ آپ کے پڑوس میں نہیں رہیں گے تو کیا سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کو نبی کریمﷺ نے قتل کیا تھا اللہ نے ان کو حکم دیا تھا کہ ان کو قتل کریں قتل کے بارے میں تو آپ نے اپنی قرآن فہمی کا ثبوت دے ہی دیا اس مجاورت کے عقدے کا حل بھی بتا دیں سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کو مدینہ سے نبی کریمﷺ نے کب خارج کیا تھا کیا سیدنا عمرؓ کی قبر مدینہ سے کہیں باہر ہے؟ کیا جنت البقیع مدینہ کی حدود سے خارج ہے ان کو تو ایسی مجاورت حاصل ہوئی اور اس مجاورت کا سلسلہ یہاں تک دراز ہوا کہ برزخ میں بھی مجاورت ختم نہیں ہوتی موت سے تو کسی کو مفر نہیں اس موت کے ساتھ جو قعود بیان ہوئی ہیں ان پر آپ کی نگاہ کیوں نہیں لگتی پھر منافقین کی جو علامات بیان ہوئی ہیں کہ جس چیز کا قصد کریں گے انہیں نہیں ملے گی ان کا کوئی یارو مددگار نہیں ہوگا کیا سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے ساتھ یہی حالات پیش آئے۔

اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ شیخینؓ کے ساتھ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا پورا کر دکھایا۔

وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّهُمۡ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً‌ ؕ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُ‌ۘ الخ۔(سورۃ النحل آیت:41)۔

ترجمہ: يعنى مظلوم مہاجرین جنہوں نے راہ اللہ میں ہجرت کی ان کو ہم دنیا میں نہایت عمدہ جگہ دیں گے آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔

زندگی میں امتِ مسلمہ کی قیادت اور حضورﷺ کا قرب اور بعد موت روضہ رسولﷺ جس کی شان عرشِ معلٰی سے بھی بلند ہے اور جوار رسولﷺ نصیب ہوا دوسری طرف بقول آپ کے خلافت بلا فصل کا قصد کیا مگر نہ ملی اںٔمہ نے امامت کا قصد کیا نہ ملی اور جوار رسولﷺ سے بھی محروم رہے اس پر مرزا محمد علی صاحب نے میزان الاعتدال کی ایک عبارت پڑھی کہ سیدنا عمرؓ نے کہا: 

يا حذيفة بالله انا من المنافقين۔

 میں نے کہا کتاب دکھائیے کیونکہ اس وقت میرے پاس یہ کتاب نہ تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا آخر ثالث کے ذریعے کتاب حاصل کی گئی تو دیکھا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ عبارت کے بعد یہ الفاظ لکھے ہیں۔

وهذا محال اخاف ان يكون كذبا یعنی سیدنا فاروقؓ کی زبان سے ایسی بات نکلنا محال ہے مجھے اندیشہ ہے کہ یہ حدیث جھوٹی ہے یہ قول سیدنا عمرؓ کا نہیں تو معلوم ہوا لا تقرب و الصلوٰۃ پر رک جانے کی تکنیک سے فائدہ اٹھانے میں اہلِ علم کا کچھ نہیں بگڑتا۔

پھر مرزا صاحب نے ابنِ کثیر کے حوالہ سے فرمایا:

قال عمرؓ لحذيفةؓ انشدك الله منهم انا۔

سیدنا عمرؓ نے سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا کیا میں ان میں سے ہوں؟۔

یہاں پھر وہی تکنیک اختیار کی واقعی "اوڑھ لی لوئی تو کیا کرے گا کوئی"

ابنِ کثیر 385:2 پر پوری عبارت یہ ہے:

وذكر لنا ان عمر بن الخطاب رضی الله عنه كان اذا مات رجل فمن يرى انه منهم نظر الى حذيفةؓ فان صلى عليه والا تركه وذكر لنا ان عمرؓ قال لحذيفةؓ انشدك الله منهم انا قال لا۔

یعنی ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ سیدنا عمرؓ کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی آدمی مر جاتا اور اس کے متعلق خیال ہوتا کہ منافق ہے تو آپؓ سیدنا حذیفہؓ کی طرف دیکھتے اگر سیدنا حذیفہؓ اس کی نماز جنازہ پڑھتے تو سیدنا عمرؓ بھی پڑھ لیتے ورنہ نہ پڑھتے اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا کیا مجھ میں کوئی علامت نفاق کی ہے تو آپں نے جواب دیا کہ کوئی نہیں یعنی آپؓ علامت نفاق سے پاک ہیں۔

معلوم ہوا کہ سیدنا حذیفہؓ کا جواب قال لا مرزا صاحب کو نظر آیا یا مرزا صاحب نے اپنی کتاب میں سے پہلے ہی یہ الفاظ کھرچ دیئے تھے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

بہرحال مرزا صاحب کی دیانتداری کا خوب شہرہ ہوا پھر اس روایت میں اٰمنهم انا کے الفاظ کے مفہوم میں ہمزہ استفہام کو آپ گول کر گئے اور سیدنا عمرؓ کے استفسار کو اقرار بنا دیا اور استفسار کی بنیاد کمال احتیاط اور کمالِ تزکیہ کے بغیر اور کوئی ہو نہیں سکتا مگر مرزا صاحب نے کوئی بڑی بددیانتی نہ کی صرف ایک چھوٹا سا ہمزہ ہضم کر گئے اور یہ سمجھا کہ سننے والے بھلا اتنی باریکیوں میں کہاں جاتے ہیں۔ 

بات اتنی ہے کہ صالح انسان خوفِ الٰہی ورع تقویٰ کی وجہ سے اپنے عیب بھی دوسروں سے پوچھتے رہتے ہیں مگر جہاں سارا کاروبار ہی تقیہ پر مبنی وہاں تقویٰ کو کون پہچانے۔ 

پھر مرزا صاحب نے امام غزالیؒ کی احیاء العلوم سے ایک اقتباس پیش کیا۔ 

وكان عمرؓ يسأل حذيفةؓ ويقول له انت صاحب سرّ رسول الله فی المنافقين فهل ترى على شيئاً من آثار النفاق۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ میزان الاعتدال میں اس قسم کی روایت کی تردید آ چکی ہے کہ یہ جھوٹی روایت ہے پھر احیاء العلوم میں یہ بات کہیں عقائد کے باب میں نہیں آئی کسی صحابی پر کفر و نفاق کا فیصلہ دینے کے لئے دلائل قطعیہ درکار ہیں ایک روایت وہ بھی جھوٹی کیا فیصلہ بنیاد بن سکتی ہے احیاء العلوم میں تزکیہ نفوس کے سلسلے میں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کو نفاق کے بارے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئیے اور احتیاط کرنی چاہیے کہ اس میں نفاق کی کوئی علامت تو نہیں پائی جاتی نفاق کی کئی علامات ہیں مثلاً نماز نہ پڑھنا یا ریا کی خاطر پڑھنا خیانت کرنا جھوٹ بولنا تقیہ کرنا کتمان حق دوسروں پر لعن طعن کرنا اخیار کو گالی دینا وعدہ خلافی کرنا وغیرہ سیدنا فاروقؓ اس معاملے میں اتنے محتاط تھے کہ سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا کہ اس قسم کی کوئی علامت نفاق تو مجھ میں نہیں پاتے کیونکہ بعض اوقات انسان کو اپنی خامیوں اور نقائص کا علم اور احساس نہیں ہوتا۔ 

پھر یہ کہ نفاق دو قسم کا ہے اعتقادی اور عملی اعتقادی نفاق کفر ہے اور اس کی واقعیت دوسروں کو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ دوسروں کو اس کے دل کا حال کیونکر معلوم ہوا اور اس کے متعلق تو دوسرے سے پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ نفاق کی ظاہری علامات کے متعلق پوچھا جا سکتا جو روز مرہ کے افعال و اعمال سے ظاہر ہوسکتی ہے اس لئے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا سوال ہو بھی تو ان ظاہری علامات کے متعلق ہے اور یہ کمال احتیاط اور تزکیہ نفس کی دلیل ہے۔ 

اس آیت کے متعلق ایک شیعہ عالم حکیم امیر الدین نے اپنی مایہ ناز کتاب فلک النجاة میں لکھا ہے کہ یہ آیت منافقوں کے متعلق ہے جو جنگ کے متعلق بری خبریں پھیلاتے تھے اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے ایذا رسانی کرتے تھے پھر وہ لوگ ان شرارتوں سے باز آگئے لہٰذا ان کو مدینہ سے خارج کرنا قتل کرنا مشروط تھا جب وہ باز آگئے تو یہ حکم بھی ختم ہو گیا نیز جو منافق خفیہ تھے ان کا علم خود رسولﷺ کو بھی نہیں تھا ان کو مومن خیال کرتے تھے جیسا قرآن میں ہے:

لا تعلمهم نحن نعلمهم (86:1) 

حکیم صاحب کی اس نادر تحقیق سے ایک عجیب نکتہ حاصل ہوا کہ نفاق فی نفسہ بری چیز نہیں البتہ نفاق کے آثار یعنی جھوٹی خبریں پھیلانا اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ بری چیز ہے جب یہ برائی ختم ہوگئی تو نفاق بیشک رہے اللہ کو پسند ہے شہر مدینہ سے اخراج کی ضرورت نہ قتل کرنے کا حکم یعنی سایہ کو ختم کرو دیوار قائم رہے دھوئیں کو ختم کرو آگ جلتی رہے بات یہ ہے کہ یہ تینوں امور تو اثر نفاق میں باعتبار ذات کے تو منافق کی ایک ہی قسم ہے باعتبارِ صفات کے تو تین قسم ہو گئے قرآن کا اعلان یہ ہے کہ منافق اپنے نفاق سے باز نہ آیا تو اس کے لئے حکم ہے کہ اسے آپ کا جوار نصیب نہ ہوگا وغیرہ رہی دوسری بات کہ رسولﷺ کو منافقوں کا علم نہیں تھا پھر سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس یہ اطلاع کسی ذریعہ سے پہنچی کہ خلفائے ثلاثہؓ منافق تھے اپنے رسولﷺ سے بڑھ کر آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خصوصی مراسم ہیں کیا؟ مگر آپ کے ہاں تو صورتِ حالات اس سے بھی عجیب تر ہے مثلاً:

(1)۔ اصولِ کافی 432:2 طبع جدید معہ فارسی:

عن ابی عبد الله علیه السلام قال انا لنعرف الرجل بحقيقة الإيمان و حقيقة النفاق.

سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں کہ ہم ہر آدمی کو جانتے ہیں کہ مومن ہے یا منافق ہے ہم حقیقت ایمان اور حقیقت نفاق سے واقف ہیں۔

یعنی امام ہر شخص کے متعلق جانتے ہیں کہ مومن ہے یا منافق۔  

معانی الاخبار142:1:

عن عبد الله بن سنان قال كنا جلوسا عند ابی عبدالله علیه السلام اذ قال رجل من الجلساء جعلت فداك يا بن رسول الله اتخاف على ان اكون منافقا فقال اذ خلوت فی بیتک نهارا او لیلا اليس تصلى قال بلى لمن تصلی قال الله عزوجل قال فكيف تكون منافقا انت تصلى الله عزوجل۔

 عبد اللہ بن سنان نے کہا ہم سیدنا جعفرؒ کے پاس بیٹھے تھے ہم میں سے ایک آدمی نے کہا میں قربان جاؤں کیا آپ کو میرے متعلق اندیشہ ہے کہ میں منافق ہوں سیدنا جعفرؒ نے فرمایا کیا تو اپنے گھر میں دن یا رات کے وقت اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے؟ کہا ہاں پڑھتا ہوں آپ نے فرمایا جب تم اللہ کیلئے نماز پڑھتے ہو تو منافق کیسے؟

سیدنا جعفرؒ نے معیار تو خوب بتایا مگر اس معیار پر شیعہ کو پرکھیں تو معاملہ چوپٹ نظر آتا ہے اور اگر اس معیار پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خلفائے ثلاثہؓ کو پرکھیں تو نفاق کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے شیعہ حضرات سیدنا جعفرؒ کے معیار کو غلط کہتے ہوں جبھی تو خلفائے ثلاثہؓ کو منافق کہتے ہیں۔

(3)۔ عن ابی جعفر علیه السلام قال حج النبیﷺ‎ فاقام بمنى ثلاثا يصلى ركعتين ثم صنع ذلك ابوبکرؓ و صنع ذلک عمرؓ و صنع ذلك عثمانؓ ستة سنين۔

پھر سیدنا جعفرؓجعفر نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بھی ایسا کیا پھر فرمایا:

اما تعلمون ان رسول اللهﷺ في هذا المكان ركعتين و ابوبكرؓ و عمرؓ وصلى صاحبكم عثمانؓ سنة سنين كذلك افتأمرونی ان أو دع سنة رسول اللهﷺ‎ له وما صنع ابوبكرؓ وعمرؓ و عثمانؓ سنة سنين۔

خلاصہ یہ ہے کہ منٰی کے مقام پر نبی کریمﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سیدنا ابوبکرؓ نے پھر سیدنا عمرؓ نے یہی معمول رکھا پھر سیدنا عثمانؓ نے بھی یہی معمول کچھ سال رکھا کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں نبی کریمﷺ کی سنت اور خلفائے ثلاثہؓ کاطریقہ چھوڑ دوں۔

اس روایت سے کئی امور کی وضاحت ہوتی ہے۔

  1. سیدنا جعفرؒ نے خلفائے ثلاثہؓ کی نماز کا اعتراف کیا۔ لہٰذا سیدنا جعفرؒ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق منافق وہی کہ سکتا ہے جو سیدنا جعفرؒ کو جھوٹا سمجھتا ہو۔
  2.  سیدنا جعفرؒ نے سنت خلفاء کو چھوڑنا پسند نہیں کیا۔
  3.  سیدنا جعفرؒ نے واضح کیا خلفائے ثلاثہؓ حضورﷺ کے سچے متبع تھے حضورﷺ کی ہر حرکت کی تقلید کرتے تھے لہٰذا ان کے طریقہ کو چھوڑنا گویا نبی کریمﷺ کے طریقہ کو چھوڑنا ہے۔ 
  4. سیدنا جعفرؒ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ذکر بھی اسی اتباع کے سلسلے میں کیا لہٰذا انہیں منافق سمجھنا بھی امام کو جھٹلانا ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ کی نماز کا کیا کہنا حضورﷺ نے خود انہیں نماز کے لئے امام مقرر کیا اور نبیﷺ‎ اپنی خواہش سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بامر الٰہی کرتا ہے لہٰذا ابوبکرؓ کو خود اللہ تعالیٰ نے امام مقرر کیا۔

سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ بھر سیدنا ابوبکرؓ کی اقتدا میں نماز پڑھتے رہے اور اس حقیقت کا اعتراف سیدنا علیؓ کی طرف منسوب نہج البلاغہ کی شرح درۃ النجفیہ میں موجود ہے دیکھئے صفحہ 224

والصحيح عندى وهو الأظهر اشهر انها لم تكن آخر الصلوٰة في حياتهﷺ‎ بالناس جماعة وان ابابكرؓ صلى بالناس بعد ذلك يومين ثم مات۔

میرے نزدیک صحیح اور مشہور ترین بات یہ ہے کہ یہ نماز رسول کریمﷺ کی حیات میں سیدنا ابوبکرؓ کی آخری نماز نہیں تھی جو انہوں نے امام کی حیثیت سے پڑھائی بلکہ سیدنا ابوبکرؓ نے حیات نبویﷺ میں اس کے بعد بھی دو دن لوگوں کو نماز پڑھائی اس کے بعد حضورﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اس فیصلے کی روشنی میں ذرا پلٹ کے سیدنا جعفرؒ کے مقرر کردہ معیار پر نگاہ کریں تو اس میں کوئی معقولیت نظر آتی ہے کہ شیعہ تو گھر میں رات یا دن میں کوئی ایک نماز پڑھ لے (خواہ بھولے سے) تو وہ منافق نہیں ہو سکتا مگر سیدنا ابوبکرؓ کو نبی کریمﷺ بحکمِ اللہ امام مقرر کریں وہ ساری عمر مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھائی سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ ہمیشہ مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھایں پھر بھی وہ منافق سیدنا جعفرؒ کے معیار کو مردود قرار دے کر یا تو کوئی اپنا معیار وضع کیجئے یا امام کی مخالفت سے باز آجائیے۔

خلفائے ثلاثہؓ کے متعلق دو قسم کا بہتان لگایا جاتا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ 

  1.  خلفائے ثلاثہؓ ابتدا ہی سے منافقانہ ایمان لائے تھے تو دیکھنا یہ ہے کہ بعد وفات رسول اللہﷺ‎ علی الاعلان مرتد ہوگئے تھے یا اسی طرح منافق ہی رہے۔ 
  2.  ابتدا میں تو صحیح ایمان لائے تھے مگر بعد وفات رسولﷺ کے مرتد ہوگئے۔

صورتِ اول کے متعلق مزید یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے منافقانہ ایمان کا علم رسول کریمﷺ کو تھا یا نہیں۔

اگر علم تھا تو لنغرينك ثم لا يجاورونک فیھا پر عمل کیوں نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کرنے کے باوجود حضورﷺ کو ان پر تسلط ہی نہ دیا یا تسلط ملنے کے باوجود حضورﷺ نے اللہ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے نہ انہیں قتل کیا نہ اخراج مدینہ کا اقدام کیا پہلی صورت میں اللہ کی یقین دہانی محض دل بہلاوا ثابت ہوتی ہے دوسری صورت میں اللہ کا رسول اللہﷺ کا نافرمان ثابت ہوتا ہے کون مسلمان ہے جو ان میں سے کوئی صورت قبول کرنے یا اس کا تصور کرنے کے لئے بھی تیار ہو۔ 

ع یہ ان کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔

منافقوں کے لئے دو سزائیں ہیں قتل جلا وطن کرنا اگر بنظر غور دیکھا جائے تو دونوں سزائیں برابر ہیںوطن سے اخراج بھی قتل کے برابر ہے كما قال تعالیٰ۔

وَلَوۡ اَنَّا كَتَبۡنَا عَلَيۡهِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِيَارِكُمۡ مَّا فَعَلُوۡهُ۔(سورۃ النساء آیت:66)۔

اللہ کے اعلان لنغرینک الخ۔ میں دونوں سزائیں مطلق نفاق کے جرم کی تھیں یا نفاق کے ساتھ ارجاف مدینہ اور عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی قید سے تھیں؟۔

اگر منافق ان دونوں جرموں سے باز آجائے تو سزا واپس تو معلوم ہوا کہ سزا نفاق کی نہیں بلکہ ان دو جرموں کی ہے نفاق کا جرم تو قابلِ معافی ٹھہرا لہٰذا یہ دو جرم جب بھی ہوں ان کی یہی سزا ملنی چاہئیے مگر یہ حکم عام نہیں بلکہ زمانہ رسولﷺ کے لئے ہے رسول کریمﷺ خود مخاطب ہیں اور یہ سزا نفاق کی ہے ارجاف ہو یا نہ ہو اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضورﷺ نے خلفاے ثلاثہؓ کو قتل نہیں کیا انہیں مدینہ سے خارج نہیں کیا بلکہ انہیں ایسا جوار نصیب ہوا جو زوئے زمین میں کسی کو نصیب نہ ہوا اس لئے انہیں منافق کہنا خدا کے کلام کی تکذیب ہے رسولﷺ کی رسالت کی توہین ہے۔

رسول کریمﷺ کا اپنی حیاتِ دنیوی میں خلفائے ثلاثہؓ کو قتل نہ کرنا اور مدینہ سے نکالنے کا حکم نہ دینا ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہاں جوار فی المدفن کو بے اثر بنانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ سیدہ عائشہؓ کا مکان تھا انہوں نے اجازت دے دی اس لئے لا یجاورونک پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

چلئے رسول کریمﷺ نے اللہ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے (معاذ اللہ) خلفائے ثلاثہؓ کو مدینہ سےنہ نکالا بلکہ ثانی اثنین کو اپنے مصلی پر کھڑا کر کے گئے مگر آپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اللہ کو تو اپنی بات کی لاج رکھنی چاہئیے تھے اور شیخینؓ کو حضورﷺ کے پاس نہ دفن ہونے دیتا اگر سیدہ عائشہؓ بھی ایسی جابر تھیں کہ اللہ کی بات نہ چلنے دی اور اللہ بھی لا یجاورونک کہنے کے باوجود سیدہ عائشہؓ کے سامنے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تفسیر بن گیا (العیاذ باللہ

پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ کو علم تھا کہ سیدہ عائشہؓ اجازت دے دیں گی؟۔

اگر علم تھا تو ثم لا یجاورونک کا اعلان کیوں کیا؟ اس جگ ہنسائی کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر علم نہیں تھا تو ایسے بھولے بھالے سیدھے سادھے اللہ سے کسی بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے اللہ تو وہ چاہئے جو علیم بھی ہو خبیر بھی ہو علام الغیوب بھی ہو اور علیم بذات الصدور بھی ہو تاکہ تدبیر کائنات کے منصب کا حق ادا کر سکے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے بڑے دھڑلے سے اعلان تو فرما دیا کہ لنغرینک ثم لا یجاورونک مگر حضور اکرمﷺ کی حیاتِ دنیوی میں اللہ اور رسولﷺ دونوں خلفائے ثلاثہؓ کے مقابلے میں دبے رہے اور حضورﷺ کے وصال کے بعد اکیلا اللہ اکیلی عورت سیدہ عائشہؓ کے سامنے بے بس ہو گیا کون سمجھے اور کون مانے۔

صاحبِ فلک النجاة نے 86:1 پر جہاں فرمایا کہ منافق ایذا رسانی سے باز آ گئے اس لئے سزائیں نہ دی گئیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔

(1)۔ قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِهَتِىۡ يٰۤاِبۡرٰهِيۡمُ‌ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ لَاَرۡجُمَنَّكَ‌ الخ۔(سورۃ المریم آیت:46)۔

ترجمہ: یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے کہا کہ اے ابراہیم اگر تو ہمارے بتوں کے معاملہ میں اپنی روش سے باز نہ آیا تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔

(2)۔ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ يٰـنُوۡحُ لَـتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِيۡنَؕ۝۔(سورۃ الشعراء آیت:116)۔

ترجمہ: قوم نوح نے حضرت نوح سے کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو رجم کئے جاؤ گے۔

(3)۔ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ يٰلُوۡطُ لَـتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُخۡرَجِيۡن۝۔(سورۃ الشعراء آیت:167)۔

ترجمہ: قوم لوط نے کہا کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو تم شہر بدر کر دیئے جاؤ گے۔

(4)۔ وَاِنۡ لَّمۡ يَنۡتَهُوۡا عَمَّا يَقُوۡلُوۡنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ۝۔(سورۃ المائدہ آیت نمبر 73)

ترجمہ: یعنی اگر عیسائی یہ کہنے سے باز نہ آئے کہ اللہ تین میں تیسرا ہے تو انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا

اصل معاملہ یعنی منافقین کو سزا دینے کا حکم اور یہ مثالیں سامنے رکھی جاتیں تو صورت کچھ اس قسم کی نظر آتی ہے جیسے کہا گیا ہے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کوئی پوچھے کہ:

  1.   کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی روش سے باز آگئے؟ ظاہر ہے کہ باز نہ آئے مگر سزا بھی نہ لی۔
  2.   اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کیا باز آگئے؟ ظاہر ہے کہ باز نہ آئے مگر رجم بھی نہ ہوا۔
  3.  اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کیا اپنی روش سے باز آ گئے؟ باز بھی نہ آئے اور اخراج بھی عمل میں نہ آیا۔

تو ان آیات کو منافقین عہد رسول کریمﷺ کے معاملے میں استدلال کے طور پر پیش کرنا علم کی کونسی قسم ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ تینوں اعلان کفار کی طرف سے ہوئے مگر لنغرینک ثم لا يجاورونک کا اعلان رب العالمین کی طرف سے ہو رہا ہے کافر تو اپنے اعلان کے باوجود قتل رجم یا اخراج کچھ بھی نہ کرسکے کیا قادر قیوم اللہ بھی اسی طرح عاجز آ گیا۔

یہ آیات تو رسول کریمﷺ کی تسلی کے لئے ہیں کہ آپ دیکھیں میرے رسولوں کے مقابلے میں کفار شیخیاں بگھارتے رہے مگر ہم نے ان کو ہلاک کر کے رکھ دیا یہی صورت آپ کے مخالفوں کے ساتھ پیش آئے گی آپ بے فکر ر ہیں۔ 

چوتھی آیت اہلِ کتاب نصاریٰ کے حق میں ہے ان کے متعلق جب صاف حکم آگیا کہ:

قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ وَلَا يَدِيۡنُوۡنَ دِيۡنَ الۡحَـقِّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ۝۔(سورۃ التوبہ آیت:29)۔

ترجمہ: اہلِ کتاب جو کہ نہ اللہ پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پہ اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے حرام فرمایا ہے اور نہ سچے دین اور اسلام کو قبول کرتے ہیں ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہوکر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں۔

اور اللہ کے اس حکم کی تعمیل ہو کے رہی اور نصاریٰ اس ذلت سے نہ بچ سکے کفار کی جن دھمکیوں کا ذکر تین انبیاء کے حق میں کیا گیا ہے یہ صورت تو تمام انبیاء کو ہی پیش آتی رہیں کما قال تعالیٰ: 

وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِرُسُلِهِمۡ لَـنُخۡرِجَنَّكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا‌  الخ۔(سورۃ الابراہیم آیت:13)۔

یہ قضیه مالعنه الجمع ہے یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے دین پر بھی رہو اور وطن میں بھی مقیم رہو۔

واقعی بڑی دھونس دکھائی مگر جواب ملا:

لَــنُهۡلِكَنَّ الظّٰلِمِيۡنَۙ وَلَـنُسۡكِنَنَّكُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ‌ الخ۔(سورۃ الابراہیم آیت:14)۔

ترجمہ: کہ ہم یقیناً ان ظالموں کا خاتمہ کر دیں گے اور اے ہمارے رسل تمہیں ان کی جگہ پر آباد کریں گے۔

مگر معاملہ رسولوں تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ فرمایا: ذٰلِكَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِىۡ وَخَافَ وَعِيۡدِ۝۔(سورۃ ابراہیم آیت نمبر14)۔

 یہ انعام تو آپ کے متبعین کو بھی ملے گا جو میری ذات پر اور میرے سامنے جواب دہی پر کامل یقین رکھتے ہوں یعنی کامل الایمان متبعین کو یہ انعام عطا کریں گے اس آیت نے تو حقائق کا ایک وسیع باب کھول دیا مگر یہاں اجمالی ذکر پر ہی اکتفا کی جائے گی۔

نبی کریمﷺ کے عہد میں عرب کے پڑوس میں کہیے بلکہ روئے زمین پر دو ہی منتظم اور متکلم حکومتیں تھیں یعنی ایران و روم اور ان دونوں حکومتوں نے حضورﷺ کو جو ھمکیاں دیں تاریخ میں محفوظ ہیں کسریٰ ایران نے حضورﷺ کے نامہ مبارک کا جواب دیتے ہوئے جو الفاظ کہے اور جو رویہ اختیار کیا یہ تو دھمکی کی حدود سے بھی تجاوز کر کے عملی اقدام کے ضمن میں آ جاتا ہے۔

گر چشم فلک نے دیکھ لیا ک جو نفوس قدسیہ لمن خاف مقامی و خاف و عید کے مصداق تھے انہوں نے ان دونوں سلطنتوں کو مغلوب کر کے اللہ تعالیٰ کے ولنسكنكم الارض کی عملی تفسیر کر کے دکھا دی مگر یہ بھی ڈھونڈںٔیے یہ کون تھے؟ یہ حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جنکے قائد خلفائے ثلاثہؓ تھے جنہوں نے مصر شام ایران عراق روم حبشہ تک دین حق پھیلایا

اور اس دار الاسباب میں لنهلكن الظالمین کے وعدہ خداوندی کے پورا ہونے کا سبب بنے۔

یہی تو رسول کریمﷺ کی دعوت کو روئے زمین پر پھیلانے والے تھے یہی تو حضورﷺ کے سچے جانشین اور خلفائے برحق تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ سے جو وعدے کئے وہ انہی خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ سے پورے ہوئے آیاتِ قرآنی کی مصداق یہی جماعت ہے اور یہی اہلِ سنت کا مذہب ہے۔

مگر عجب ستم ظریفی ہے ان تمام حقائق سے آنکھ بند کر کے لوگ یہ کہنے میں باک نہیں سمجھتے کہ یہ سب منافق تھے یا مرتد تھے مگر اس امت کی بد نصیبی کا ٹھکانا کہ اللہ کا آخری رسولﷺ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے مصلیٰ پر ایک منافق کو (نعوذ باللہ) امت کی امامت کے لئے کھڑا کر گیا اور کسی مسلمان نے عمر بھر اس کے خلاف لب کشائی نہ کی۔

 "ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہیں مرغ قبلہ نما آشیانے میں"

صاحب فلک النجاہ نے منافقین کو سزا دینے کے لئے ایذاء رسانی کی قید تو لگا دی اور یہ ثابت کر دیا کہ رسول کریمﷺ نے انہیں اس لئے جوارِ رسولﷺ سے محروم نہ کیا کہ وہ ایذاء رسانی سے باز آ کر اس سزا کی زد سے بچ گئے۔

مگر دوسری طرف جب خلفائے ثلاثہؓ کی ایذا رسانی کا قصہ چھیڑتے ہیں تو وہ داستان ختم ہونے کو نہیں آتی اور ایذائیں بھی شدید کہ خلفائے ثلاثہؓ کے بغیر روئے زمین پر اس کی نظیر نہیں ملتی۔

مثلاً مشتے نمونہ از خردارے یہ ہے کہ

  1.  سیدنا علیؓ سے خلافت چھین لی۔
  2.  سیدہ فاطمہؓ سے باغِ فدک چھین لیا۔
  3. سیدنا علیؓ کی گردن میں رسی ڈال کر جبراً بیعت لی۔
  4. جنازہ رسولﷺ نہ پڑھا۔سنتِ رسولﷺ کو بدل دیا۔
  5.  قرآن میں پانچ قسم کی تحریف کردی۔

ان دعاوی کی حقیقت خواہ کچھ بھی نہ ہو مگر شیعہ کے عقائد اور مسلمات میں داخل ہیں اس لئے آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ایذاء رسانی سے باز آ گئے ظاہر ہے کہ ایذاء رسانی بقول شیعہ جاری رہی مگر اللہ تعالیٰ ثم لا يجاورونک کا اعلان کرنے کے بعد بھی اور خلفائے ثلاثہؓ کی ایذا رسانی جاری رکھنے کے باوجود بھی انہیں جوارِ رسولﷺ سے محروم نہ کر سکا اگر صاحبِ فلک النجاة کا دعویٰ تسلیم کریں تو اللہ عاجز ماننا پڑتا ہے اور اگر ومن اصدق من الله قیلا پر ایمان رکھتے ہوئے اللہ کے اعلان کو بھی تسلیم کریں تو صاحبِ فلک النجاۃ اور ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو جھوٹا سمجھے بغیر چارہ نہیں

پھر ایک اور نکتہ بیان فرمایا کہ(85:1)

شیخینؓ کو روضہ رسولﷺ میں دفن ہونے سے جو شرف حاصل ہوا وہ کعبہ میں بتوں کو بھی حاصل تھا مگر وقت آنے پر بتوں کو نکال دیا گیا اسی طرح وقت آنے پر شیخینؓ کو بھی نکال دیا جائے گا یعنی زمانہ رجعت میں امام مہدی انہیں نکال دیں گے۔ 

نکتہ تو بڑا باریک ہے بلکہ باریک تر از مُو ہے مگر پہلے تو اپنے امام مہدی کی تلاش کیجئے امام کی آمد ہی ملتوی پر ملتوی ہوتی جا رہی ہے اور اللہ کو بدا پر بدا ہوتا جا رہا ہے اس التوا کے ختم ہونے کی کوئی ضمانت ہے؟ خود امام کی آمد کا معاملہ ایسا دلچسپ ہے کہ تفصیل در کار ہو تو ہماری کتاب تحذیر المسلمین کا مطالعہ فرمائیں۔

پھر آپ کی بات میں وزن تو اس وقت پیدا ہوگا جب امام غائب آیا اس نے اپنے انقلابی کام کا آغاز کیا قبریں اکھیڑیں مردے نکالے نعشیں جلائیں اور اس سلسلے میں شیخینؓ کی طرف بھی دست کرم بڑھایا پھر آپ کہہ سکیں گے کہ لو دیکھ لو ہماری تحقیق درست نکلی فی الحال تو آپ اپنے عظیم راویوں کی طفل تسلیوں پر ہی گزارہ کریں۔

معلوم ہوا کہ بات بنانے کے لئے متعدد روپ بدلے گئے مگر ریت پر کبھی قلعے تعمیر ہوئے ہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منافق ثابت کرنے کے لئے تو پورے قرآن کے خلاف جنگ لڑنی پڑے گی مگر پھر بھی خالق کے مقابلے مخلوق کی کیا حیثیت ہے قرآن نے چار ایسے محل بیان فرمائے ہیں جن پر رسول کریمﷺ کو تلوار اٹھانے کا حکم ملا۔

  1.  مجاہر جیسے عرب ایران وغیرہ۔ 
  2.  دشمن اہلِ کتاب جیسے روم و مصر وغیرہ۔
  3. منافقین۔
  4. باغی مرتد۔

اگر خلفائے ثلاثہؓ ان میں سے کسی شق میں آتے تو نبی کریمﷺ کی تلوار سے نہ بچ سکتے اس کے برعکس ہوا یہ کہ خلفائے ثلاثہؓ کو اللہ و رسولﷺ نے یہ کام سونپا کہ اس کام کو تکمیل تک پہنچائیں چنانچہ خلفائے ثلاثہؓ نے ان سب کے خلاف تلوار اٹھائی کسی کو مغلوب اور زیرنگین کیا کسی کو تہِ تیغ کیا اور اللہ تعالیٰ کی پیشنگوئی لیظهره علی الدین کلہ کو پورا کر کے دکھا دیا۔ 

پھر مناظرِ شیعہ نے چاند کے چہرہ پر خاک پھینکتے ہوئے سیدنا عمرؓ کے خلاف معالم التنزیل اور مظہری کا حوالہ پیش کیا۔

وهو هذا وقد كان اصحاب رسول اللهﷺ خرجوا وهم لا يشركون في الفتح لرؤيا رای ﷺ فلما رأو ما رأو من الصلح والرجوع دخل الناس من ذلك عظيم قال عمرؓ والله ما شككت مذا سلمت الا یومٸذ۔

(مہم حدیبیہ پر) اصحاب رسولﷺ مدینہ سے نکلے تو ان کو مکہ کی فتح ہونے میں ذرا برابر شک نہ تھا اس خواب کی بنا پر جو نبی کریمﷺ نے دیکھا تھا مگر جب صلح اور واپسی کا معاملہ پیش آیا تو وہ بہت غمگین ہوئے سیدنا عمرؓ نے کہا کہ جب سے اسلام لایا ہوں (کسی خبر یا حکم میں) ایسا شک نہیں ہوا جیسا آج (فتح مکہ کی خبر میں) شک ہوا۔

در منثور میں یہ روایت یوں ہے (77:6)۔

قال الزهرى فقال عمر ماشككت منذ اسلمت الا يومئذ قال عمرؓ لرسول اللهﷺ اولیس كنت تحدثنا انا سناتی البيت و نطوف به قال بلی افاخبرتک انک تأتيه العام قلت لا قال فانک اتیه و معطوف به۔

زہری کا بیان ہے کہ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ جب سے اسلام لایا ہوں مجھے ایسا شک نہیں ہوا جیسا آج سیدنا عمرؓ نے رسول کریمﷺ سے عرض کیا کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ عنقریب بیت اللہ میں جا کر طواف کریں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں کہا تھا مگر کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال طواف کرو گے؟ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ یہ تو نہیں فرمایا تھا تو حضورﷺ نے فرمایا تم طواف بھی کرو گے اور مکہ بھی فتح ہوگا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کی نقل زہری نے کی ہے اور زہری منفرد ہے اور کسی نے یہ روایت نقل نہیں کی اور شیعہ تسلیم کرتے ہیں کہ زہری شیعہ تھا اس لئے اس کی کیا ضمانت کہ یہ تقیہ سے خالی ہو؟ اس لئے حجت نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ شکست کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ مشکوک فیہ تلاش کیا جائے مکالمہ سے ظاہر ہے کہ مشکوک فیہ طواف بیت اللہ ہے یا فتح مکہ جیسا کہ سیدنا عمرؓ کے سوال سے ظاہر ہے اگر کسی کو دعویٰ ہو کہ مشکوک فیہ نبوت ہے تو ثبوت پیش کرے نرا دعویٰ بلا دلیل کسی کام کا؟

حقیقت صرف اتنی ہے کہ حضورﷺ نے اپنا خواب بیان فرمایا پھر مکہ کی طرف روانگی ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا حضورﷺ کی روانگی وحی کی بنا پر ہے حالانکہ آپ کی روانگی از قبیل مسارعتہ الی الخیر تھی۔

پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خواب اور روانگی کو ملا کر یہ سمجھا کہ اسی سال فتح مکہ ہوگی اس لئے جب صلح ہو گئی اور واپسی کی ٹھہری تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ملول ہوئے حضورﷺ نے جب وضاحت فرما دی کہ میرے خواب میں کہیں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس سال ہو گی تو سمجھ گئے کہ یہ ہماری اجتہادی غلطی تھی اور دفور محبت میں ایسا ہو جانا کوئی بعید نہیں کہ آدمی پوری بات پر غور نہیں کرتا اور اپنی پسند کے کسی ٹکڑے پر ہی ذہن جم جاتا ہے۔

پھر روایت میں سیدنا عمرؓ کی طرف سے مشکوک فیہ کا اظہار کر دیا گیا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ اسی سال مکہ فتح ہو گا اور طواف کریں گے مگر وہ نہ ہوا پھر جب حضورﷺ نے سوال کیا کہ کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سال ہو گا تو سیدنا عمرؓ نے جواب دیا لا ظاہر ہے کہ شک رفع ہو گیا شک کی بنیاد تھی اپنی رائے اور رائے کی غلطی کی بنیاد تھی وفور شوق میں حضورﷺ کی پوری بات پر غور نہ کرنا اور مشکوک فیہ تھا طواف بیت اللہ یا فتح مکہ لہٰذا اس روایت کی بنا پر سیدنا عمرؓ کے ایمان کو مشکوک ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کوہ کندن اور کاه برآوردن سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔

چند الفاظ کی وضاحت:

اب تک ہم نے آیت انما ولیکم الله الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں شیعہ مفسرین اور علماء کے اقوال پیش کئے اب اس آیت کی حقیقی تفسیر کے لئے چند کلیدی الفاظ کی تشریح کرتے ہیں۔

ولی:

 آیت میں لفظ ولی حاکم یا متصرف کے معنوں میں نہیں اور شیعہ یہیں سے اپنے مفروضہ محل کی تعمیر شروع کرتے ہیں کہ ولی کے معنی حاکم اور دلیل دیتے ہیں۔

ايما أمراة نكحت بغير اذن وليها فنكاحها باطل (الحديث ترمذی)۔

نکاح میں ولی بمعنی وارث قریبی مراد ہوتا ہے۔ حاکم و متصرف عام مراد نہیں ہوتا۔

حکومت و ریاست تو عام ہوتی ہے فرض کیجئے نکاح میں مہر میں میراث میں تنازعہ ہو جائے تو فیصلہ وہی ولی یا خاوند کرتا ہے یا حکومت کی عدالت میں جانا پڑتا ہے اگر ولی ہی حاکم ہے تو ایک اور حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کیا ضرورت ہے۔

 آیت میں ولی کے ساتھ ضمیر کم بھی موجود ہے تو ان مخاطبین کے حاکم ہونے چاہئیں آنے والی نسلوں اور کفار کے حاکم نہیں کیونکہ شیعہ یہاں حصر حقیقی مانتے ہیں حالانکہ اللہ و رسولﷺ اور حاکم وقت تو ساری رعایا کا حاکم ہوتا ہے۔ 

 والمومنون: صیغہ جمع کا ہے اس سے مفرد یعنی سیدنا علیؓ کی ذات مراد لیتا کیونکر درست ٹھہرا؟ جب کہ کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں۔

شیعہ اس کا حل یہ بتاتے ہیں کہ جمع کی ضمیر اس لئے لائی گئی ہے کہ اس میں آئندہ گیارہ امام بھی داخل ہیں خوب سوجھی مگر علم کی بات کرنے اور تک بھڑانے میں فرق ہے علم کہتا ہے کہ مرجع ضمیر غائب کا ذات ہوتی ہے جو موجود ہو اور گیارہ امام تو اس وقت تصورات کی دنیا میں بھی نہیں تھے۔

پھر کُم کی ضمیر چاہتی ہے کہ صرف تم مخاطبین کے حاکم ہوں گے تو کیا ان مخاطبین کے حق میں کہیں مرزا غالب کی دعا قبول ہوگئی کہ۔

"تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار"

کاش ایسا ہوجاتا اور ہم گناہ گار بھی آج ان مقدس صورتوں کو دیکھ لیتے اور امام مہدی تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان تابعین شمار ہوتے کیونکہ اس حساب سے ان کی عمر میں ایک لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو اٹھاسی برس سے زیادہ بنتی ہیں۔ 

 اگر ولی بمعنی حاکم ہے اور المومنون میں باقی گیارہ ائمہ شامل ہیں تو بات ایک اور طرف سے بگڑتی ہوئی نظر آتی ہے یعنی پہلے امام سیدنا علیؓ کو تو حکومت ملی گو بقول شیعہ برائے نام ہیں اور دوسرے امام سیدنا حسنؓ کو ملی اور انہوں نے اپنے آزاد ارادہ اور پسند سے حکومت سے دست بردار ہونے کا اعلان فرما دیا۔ باقی میں سے نو کو تو سرے سے حکومت ملی ہی نہیں اور دسویں کے متعلق کچھ کہا نہیں جاسکتا تو پھر اللہ نے اماموں کو کونسی حکومت دینے کا اعلان فرما دیا۔ یوں گھر بیٹھے جس کا جی چاہے کہتا رہے کہ میں حاکم ہوں مگر ایسے حاکم کی سلطنت کی وسعت بھی اس کے اپنے وجود کے برابر ہی ہوسکتی ہے۔ 

 ربط آیات اور شان نزول کے ضمن میں گزشتہ اوراق میں بیان ہوچکا ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے حق میں نازل ہوئی اہلِ ایمان کو یہود کی دوستی سے منع کیا گیا اب ان آیات میں زرا حاکم کے معنی فٹ کر کے مفہوم سمجھںٔے۔

  1. يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ‌ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ؕ الخ۔(سورۃ المائدہ آیت:51)۔

 تو معنی یہ ہونگے کہ 

ترجمہ: اے اہلِ ایمان یہود و نصاریٰ کو اپنا حاکم و مصرف نا بنانا وہ تو ایک دوسرے کے حاکم ہیں۔ 

  •  يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ‌ الخ۔(سورۃ المائدہ آیت:57)۔

ترجمہ: یعنی اہلِ ایمان جو لوگ تمہارے دین سے تمسخر کریں اہلِ کتاب ہوں یا کفار ان کو اپنا حاکم نہ بنانا گویا دین سے تمسخر نہ کریں تو بے شک انہیں اپنا حاکم بنا لینا خواہ اہلِ کتاب ہوں یا کفار ہوں۔

  1. اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّكُمۡ اَوۡلِيَآءُ لِلّٰهِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ الخ۔(سورۃ الجمعۃ آیت:6)۔

ترجمہ: یعنی اے یہودیو تمہارا خیال ہے کہ آدمیوں کو چھوڑ کر تم اللہ پر حاکم و متصرف ہو۔

  •  فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِيَآءَ الشَّيۡطٰنِ‌ۚ الخ۔(سورۃ النساء آیت:76)۔

ترجمہ: یعنی شیطان کے حاکموں اور بادشاہوں سے جنگ کرو۔ 

  •  يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَكُمۡ وَاِخۡوَانَـكُمۡ اَوۡلِيَآءَ الخ۔(سورۃ التوبہ آیت:23)۔

ترجمہ: یعنی اےایمان والو اپنے باپوں اور بھائیوں کو اپنا حاکم نہ بنانا۔

غرض قرآن مجید میں بیسیوں آیتیں ایسی آتی ہیں جن میں ولی یا اولیاء کا لفظ موجود ہے اگر وہاں ولی کے معنیٰ حاکم کریں تو بات ہی بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا شانِ نزول و سیاق وسباق اور لغت کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں ولی کے معنیٰ دوست کے ہیں اس کے معنیٰ حاکم لینا قرآن کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش ہے۔

زکوٰۃ:

 دوسرا لفظ زكوٰۃ قابلِ غور ہے یہ لفظ خاص ہے صدقہ نفلی سے اگر یہاں منفقون یا اسی قبیل کا کوئی اور لفظ ہوتا تو صدقہ نفلی کا بھی احتمال تھا مگر یہاں صدقہ نفلی مراد نہیں لیا جا سکتا۔

تفسیر قرطبی 179:1:

عن الضحاك لننظرا الى الزكوٰۃ لا يأتي الا بلفظها المختص بها وهو الزكوٰة فاذا جاءت بلفظ غير زكوٰۃ احتملت الفرض والتطوع۔

ضحاک فرماتے ہیں زکوٰۃ کا لفظ فرضی صدقہ کے لئے ہے اگر لفظ غیر زکوٰۃ آجائے تو احتمال ہے فرض اور نفلی صدقہ دونوں کا۔

پھر قرینہ صلوٰۃ بھی موجود ہے جو اصطلاح ہے ہیئت خاص کے لئے اس لئے زکوٰۃ سے فرضی اور اصطلاحی زکوٰۃ ہی مراد ہے اب اس لفظ کو سیدنا علیؓ کے لئے تسلیم کیا جائے تو۔

  1. ثابت کیا جائے کہ سیدنا علیؓ پر زکوٰۃ واجب تھی۔
  2. زکوٰۃ کا مصرف قرآن میں مذکور ہے غیر محل پر زکوٰۃ ادا ہی نہیں ہوتی سیدنا علیؓ نے فرشتہ کو زکوٰۃ دے کر قرآن کی مخالفت کیسے کر ڈالی۔

وهم را کعون:

 شیعہ اس و کو واٶ حالیہ بناتے ہیں اس صورت میں حال واقع ہوگا دونوں فعلوں پر یعنی يقيمون الصلوٰة ويؤتون الزكوٰة فعل دو ہیں فاعل ایک ہے تو معنیٰ یہ ہوئے کہ سیدنا علیؓ رکوع کی حالت میں نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں یہ جملہ کہ رکوع کی حالت میں نماز پڑھتے ہیں ایک معمہ بن گیا رکوع تو نماز کا ایک رکن ہے یعنی کل کا ایک جزو ہے تو کل کا معاملہ یہ بنا کہ جزو کی حالت میں کل کرتے ہیں بھلا اس میں کوئی تک ہے۔

اگر صرف فعل زکوٰۃ سے حال مراد لیں تو اس کے لئے قول راجح درکار ہے اور جس قول کا سہارا لے کر یہ بتایا جاتا ہے وہ قول خود مرجوح اور ضعیف ہے لہٰذا صیح نہ ہوا اس کی صحیح صورت یہ ہوگی کہ مسلمانوں کے دوست اللہ رسولﷺ اور اہلِ ایمان ہی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں خشوع و خضوع والے ہیں نماز عجز و نیاز سے پڑھتے ہیں۔

واؤ کو حالیہ بنا کر اس میں رنگ بھرنے کے لئے جو افسانہ تیار کیا گیا اس کی تفصیل گزر چکی ہے مگر اس سے اب غرض یہ ہے کہ اس افسانہ سے سیدنا علیؓ کی فضیلت نہیں بلکہ افضلیت ثابت کی جائے۔

پھر سیدنا فاروقِ اعظمؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انفاق کی یہی صورت اور اس کی عدمِ مقبولیت کیلئے روایات تراش لی گئیں مگر رب العالمین کے مقرر کردہ پیمانوں کے مقابلے انسانوں کے پیمانے

اور وہ بھی فرضی بھلا کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

(1)۔ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ الخ۔(سورۃ الحدید آیت:10)۔

ترجمہ: تم میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے راہ اللہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا وہ ان لوگوں کے مقابلے میں بلند ترین درجہ رکھتے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ اور جہاد کیا۔

اب اس خدائی پیمانے سے پیمائش کر کے دیکھئے تو کافر کے ہاتھ سے اتاری ہوئی انگشتری فرشتے کو دے دینے کی اور وہ بھی فتح مکہ کے بعد کیا حیثیت رہ جاتی ہے جو جہاد تو کیا انسانوں کے کام بھی نہ آئی پھر فرمایا۔

(2)۔ وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِى الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ‌‌الخ۔(سورۃ النور آیت:22)۔

ترجمہ: اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیوی) وسعت والے ہیں وہ اہلِ قرابت کو اور مساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں۔

یہ آیت سورۃ نور کی ہے جس میں واقعہ افک بیان ہوا ہے جس کا تعلق سیدہ عائشہؓ سے ہے اس صورت میں جہاں سیدہ عائشہؓ کی برات بیان ہوئی وہاں آپ کے والد سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے اور اس آیت کا صدیق اکبرؓ کے حق میں نازل ہونا حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔

امام رازی فرماتے ہیں:

اجتمع المفسرون على ان المراد من قوله اولوا الفضل منكم ابوبكر وهذه الأیته تدل على انه رضى الله عنه كان افضل الناس بعد رسول اللهﷺ ان اختصاص هذه الآيته بابی بکرؓ بالغ الى حد التواتر فلو جاز منعه لجاز منع كل تواتر۔

تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی شان میں نازل ہوئی اور آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد سیدنا صدیقِ اکبرؓ افضل الناس ہیں اور اس آیت کا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ مختص ہونا حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے اگر اس تواتر کا انکار کیا جائے تو ہر تواتر کا انکار جائز ہوگا۔

ہر وصف کے مراتب تین ہوتے ہیں۔ 

ادنیٰ متوسط اعلیٰ افضل الناس کہنے سے ادنیٰ اور متوسط خود بخود خارج ہوگئے پھر قرآن کریم نے یہ فضیلت بہ نسبت تمام کے فرمائی ہے جیسا کہ کہا جائے خیر الحاضرين اسی طرح اولو الفضل منکم کسی خاص فرد یا کسی خاص جماعت کی نسبت سے نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ صیغہ جمع کا ہے فرد واحد مراد کیونکر ہوسکتا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مقام مدح ثنا کا ہے احکام کا ذکر نہیں مقام مدح میں ہمیشہ جمع بول کر معنیٰ مفرد مراد لینا جائز ہے۔

اگر جمع ہی مراد لی جائے تو پھر بھی سیدنا ابوبکرؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے صحیح یہی ہے کہ آیت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے حق میں نازل ہوئی جیسا کہ علامہ قرطبی نے کہا ہے والاول الاصح نزلت في شان ابی بکرؓ

اور صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ:

واستدل بها على فضل ابي بكر الصديق رضى الله عنه لأن دخل في أولى الفضل قطعا لانه وحده او مع جماعة سبب النزول ولا يضر فی ذالک عموم الحكم لجميع المومنين۔

سیدنا ابوبکرؓ کی فضیلت پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے وہ یقیناً اولو الفضل میں داخل ہیں خواہ منفرد ہوں یا مع جماعت آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ہے اور عموم حکم تمام جماعت کے لئے مضر نہ ہوگا (روح المعانی)۔

ظاہر ہے کہ جب آیت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی بیٹی کی برأت کے سلسلے میں نازل ہوئی تو صاحبِ فضیلت جماعت میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ بطریقِ اولیٰ داخل ہیں۔

ایک شیعہ مفسر اپنی تفسیر منہج الصادقین میں اس کی تفسیر لکھتے ہیں۔

در بعض تفاسیر آورده اند کہ ابوبکرؓ سوگند خورده بود کہ پسر خالہ خود یعنی مسطح کہ از فقرا مہاجرین بود و اہل بدر، نفقہ نکنند و مطلقا بادنیکی نہ نماید بجہت آنکہ او یکے از متکلمان بود حق تعالیٰ آیت فرستاد کہ ولا يأتل اولو الفضل منكم (صفحہ:286)۔

پھر آگے صفحہ 287 پر لکھتے ہیں:

اولى القربیٰ والمساكين والمهاجرين فی سبيل الله۔

یعنی کسانیکہ جامع ایں صفات باشند مانند مسطح کہ ہم خویش بودو ہم سکین و ہم مہاجر۔

پھر ذرا آگے قولِ سیدنا ابوبکرؓ نقل کیا کہ:

بخدا سوگند کہ ہرگز نفقہ را از مسطح قطع نکنم۔

لیجئے بات صاف ہوگئی نہ جماعت نے نزول آیت سے پہلے کسی خاص فرد جس میں تمام صفات مذکورہ موجود ہوں کو نفقہ نہ دینے کی قسم کھائی نہ نزولِ آیت کے بعد نفقہ قطع نہ کرنے کی قسم کھائی یہ دونوں باتیں سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے متعلق ہیں لہٰذا اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آیت انہی کے حق میں نازل ہوئی۔ 

شیعہ نے یہاں اور راہ نکالی کہ اولوا الفضل منکم میں فضیلت مال ہے یعنی مال میں فضیلت رکھتا ہے مگر یہ راہ بھی مسدود نظر آتی ہے کیونکہ قرآن نے اس سے آگے لفظ والسعة فرمایا اگر فضل سے مراد مال ہے تو سعتہ سے کیا مراد ہوگی؟ ۔

قرآن نے حضرت طالوت کے ضمن میں فرمایا ولم یٶت سعة من المال اگر بات وہی ہے جو شیعہ کہتے ہیں تو یہاں تکرار کی کیا حاجت تھی؟ دوسری بات یہ ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی برات بیان ہو رہی ہے اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی شان قرآن نے یہاں مدح کے دونوں پہلو بیان فرما دیئے دینی بھی اور دنیوی بھی کیا اب بھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے صدقہ کی قبولیت میں کسی شک کی گنجائش باقی ہے؟۔

پھر اللہ کریم نے فرمایا:

وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى‌ۚ وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ الخ۔

(سورۃ اللیل آیت:17)

ترجمہ: اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے جو اپنا مال (محض) اس فرض سے دیتا ہے کہ (گناہوں سے) پاک ہوجائے اور بجز اپنے عالیشان پروردگار کی رضا جوئی کے (کہ یہی اس کا مقصود ہے) اس کے ذمہ کسی کا احسان نہ تھا۔

یہ آیت بھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی شان میں نازل ہوئی۔ جیسے تفسیر اتقان (30:1)۔

فاتها نزلت في ابی بكر الصديق رضي الله عنه بالاجماع۔

آیت میں لفظ الاتقی خاص طور پر قابلِ غور ہے صیغہ افعل التفضیل کا ہے اور اس پر الف لام داخل ہے جو موصولہ نہیں نہ معرفہ ہے مقام جمع میں کہ فائدہ عموم کا دے اتقیٰ مفرد ہے اور لفظ الذی مفرد موجود ہے جو عہدی ہے موعود سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہیں پھر افعل التفضیل کا صیغہ تمیز من الخیر کے لئے استعمال ہوتا ہے جسے زید افضل القوم اس طرح یہاں صیغہ فرد کا ہے لہٰذا اس صیغہ میں مشارکت ختم ہوگئی مفرد ہی رہا اور وہ اتقی سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہی رہے جو غیروں سے ممیز ہوگئے۔ جب آیت میں عموم باطل ہوا تو آیت اپنے شانِ نزول میں بند ہوگئی اور اتقیٰ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ثابت ہوئے۔

آیت اول میں فضیلت ثابت ہوئی اس میں آپؓ کا اتقیٰ ہونا ثابت ہوا اور اتقیٰ کو خود اللہ نے افضل اور اکرم فرما دیا۔ 

اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَتۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ الخ۔(سورۃ الحجرات آیت:13)۔

اس سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ سیدنا علیؓ کے صدقہ کا بھی قرآن میں ذکر ہے کہ:

اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا‏۝۔(سورۃ الدھر آیت:9)۔

مگر فرق اتنا ہے کہ صدیق کے صدقہ کے ساتھ فرمایا کہ ابتغاء وجه ربه الاعلیٰ ولسوف يرضیٰ اور یہاں فرمایا کہ انا نخاف من ربنا يوما عبوسا قمطریراانا نخاف من ربنا يوما عبوسا قمطریرا

اس سلسلہ میں جو ذکر کیا گیا ہے اسے تو جانتا ہے کہ مسںٔلہ کا تعلق لفظ سے ہے جس کے لئے عموم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ آیت ایک معین شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے اور لفظ کی بناء پر اس میں کوئی عموم نہیں ہے کیونکہ یہ تو اس شخص پر بند کردی گئی ہے جیسا فرمان باری ہے:

وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ الخ یہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حق میں نازل ہوئی اس پر اجماع ہے اور امام رازیؒ نے اس قول کو دوسرے ارشاد باری ان اکرمکم عند الله اتقاكم سے ملا کر استدلال کیا ہے کہ رسول کریمﷺ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ افضل الناس ہیں جس نے یہ گمان کیا کہ آیت عام ہے ہر اس شخص کے لئے جو اب عمل کرے جیسا سیدنا صدیقؓ نے کیا اور اس کو ایک عام قاعدہ سمجھ لے تو وہ شخص وہم کا شکار ہوا کیونکہ الف لام اس وقت عموم کا فائدہ دیتے ہیں جب موصولہ یا معرفہ بنانے کے لئے ہو جمع میں اور ایک گروہ نے کہا کہ یا مفرد ہو مگر اس شرط پر کہ وہاں عہد نہ ہو اور الاتقیٰ میں لام موصولہ نہیں کیونکہ افعل التفضیل کے ساتھ موصولہ نہیں بتایا جاتا اس پر اجماع ہے اور الاتقیٰ جمع نہیں بلکہ مفرد ہے اور عہد موجود ہے بالخصوص جب کہ صیغہ افعل التفضیل ممیز کر دیتا ہے اور مشارکت کو قطع کر دیتا ہے اس لئے عموم كا قول باطل ہوا اور اس کا قصر خاص پر متعین ہوگیا اور یہ قصر حقیقی ہے جس کے حق میں آیت نازل ہوئی۔ یعنی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حق میں۔

اس قانون کو سمجھنے کیلئے یا اصطلاحیں سامنے رکھیں:

قصر: کسی چیز کو کسی سے مختص کر دینا کہ دوسرے تک نہ پہنچ سکے۔ 

قطع المشارکت: کسی چیز میں معین شخص کے ساتھ کسی کی شرکت کو ناجائز قرار دیا۔ 

الاتقیٰ میں جو الف لام ہے یہ نہ موصولہ ہے نہ تعریفی ہے یعنی معرفہ بنانے کے لئے نہیں بلکہ یہ الف لام عہدی ہے۔

وَقُلْ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِىۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِىۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلْ لِّىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِيۡرًا‏۝(سورۃ الاسراء آیت:80)۔

ترجمہ: اے رب مجھے خوبی کے ساتھ پہنچاںٔیو اور مجھ کو خوبی کے ساتھ لے جائیو اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ دیجیو جس کے ساتھ نصرت ہو۔

سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی فضیلت تو آیت نصرت میں اللہ تعالیٰ نے بڑے الفاظ میں فرما دی کہ:

اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ الخ۔(سورۃ التوبۃ آیت:40)۔

مگر آیت مندرجہ بالا میں دوسرے انداز سے سیدنا صدیقؓ کی نصرت کا اظہار فرمایا اس آیت کی تفسیر سیدنا جعفرؒ سے سنٸیے۔

سیدنا جعفرؒ از آبائے کرام خود روایت کرده کہ رسول ایں دعا رادر وقتے کرد کہ در غار بود یعنی بار خدایا بیرون آور مرا از غار با امنیت و باز بمکہ رساں مرابا ظفر و غنیمت و اجعل لی و بده مرا من لدنک از نزدیک خود سلطاناً نصیراً جہتے یاری دہنده و قوتے واعانت کننده و غالب شونده بر جميع اہلِ خلاف وعناد و مراد بسلطان سلطنت و پادشاہی است کہ ناصر اسلام باشد بر کفر چہ رواج اسلام بیرون آں میسر بنود پس حق تعالیٰ اجابت دعوت آنحضرت قبول فرمود بقوله فان حزب الله هم الغالبون وبقوله ليظهره على الدين كله وبقوله ليستخلفتنهم فی الارض۔ (منہج الصادقین صفحه 307)

سیدنا جعفرؒ کی تفسیر سے چند نکات حاصل ہوئے۔

  1.  حضورﷺ نے یہ دعا غار میں کی۔
  2.  دعا کا آغاز اس درخواست سے ہوتا ہے کہ مجھے غار میں سے امن کے ساتھ باہر نکال
  3.  آغاز سے انجام تک مجھے ایسا اعانت کنندہ ساتھی دے جو منافقین اور دشمنوں پر غالب آئے۔ 

(4)۔ حضورﷺ کی دعا قبول ہوئی اور قبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ

  1. فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۝۔
  2. لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ الخ۔
  3.  لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ قبولیت دعا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے غار سے امن کے ساتھ نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطاناً نصیراً سیدنا ابوبکر صدیقؓ عطا فرمایا اور اعلان فرمایا فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ الخ

فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ کے مناظر حضورﷺ کی حیات طیبہ میں جو سامنے آئے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہاتھوں سے صورت پذیر ہوئے پس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہی حزب اللہ ہے جو حضورﷺ کی دعا کی قبولیت کے طور پر معرض وجود میں آئی اور حضورﷺ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد غلبہ کی ابتدا مرتدین کی سرکوبی کے سلسلے میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھوں ہوئی اور اسلام کی سلطنت کا پھیلاؤ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ہاتھوں ہوا اور اس میں مزید وسعت اور اہلِ خلاف و عناد کی سرکوبی سیدنا عثمانِ غنیؓ کے ہاتھوں ہوٸ فان حزب الله هم الغالبون اور ليظهره على الدین کله   کی عملی تفسیر خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھوں ہوئی اور ان آیات کا مصداق وہی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ غار میں اللہ نے دعا قبول کی مگر انجام سے بے خبر تھا کہ ان لوگوں یعنی خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ سے ہی لیظهره علی الدین کله کی تفسیر عملی ہوگی اور حزب الله هم الغالبون کا نقشہ بھی یہی لوگ پیش کریں گے اور اللہ کو بدا تو ہو ہی جاتا ہے بالخصوص امامت کے مسئلے میں اور خلافت کے معاملے میں اللہ کا بدا انتہا کو پہنچ گیا اگر اللہ اس انجام سے واقف ہوتا تو ہرگز غار میں دعا قبول نہ کرتا۔

ليستخلفنهم فی الأرض كي صورت قبولیت ظاہر ہے کہ اللہ نے دین اسلام کو غالب کرنے اور سلطنت اسلام کو وسعت دینے اور مخالفین اسلام کو ختم کرنے کے لئے خلفائے ثلاثہؓ کو یکے بعد دیگرے حضور اکرمﷺ کا خلیفہ بنایا۔ 

اگر ان حقائق سے انکار کیا جائے اور سیدنا علیؓ کو خلیفہ بلا فصل مان لیا جائے تو تاریخ اس کا ساتھ نہیں دیتی سیدنا علیؓ نے مرتدین کے خلاف نہ کوئی جنگ کی نہ ان کا قلع قمع کیا اور انہوں نے اپنے عہد میں ایک انچ کے برابر زمین کا سلطنت اسلامی میں اضافہ نہیں کیا لہٰذا سیدنا جعفرؒ نے قبولیت دعا کے ثبوت میں جو تین آیتیں پیش کیں ان کا مصداق خلفائے ثلاثہؓ اور جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی قرار پاتی ہے اور اہلِ سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے اور قرآن کریم کی رو سے دین حق یہی ہے۔