اسلامی قوانین و حدود پر ذمی کو اعتراض کا حق نہیں ہے
سوال1: پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے۔ قرار داد مقاصد سے لے کر قیام پاکستان تک ہر دور مسلمانوں کی اکثریت کا یہ پر زور مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان نے اسلامی قوانین (حدود لاز) کا نفاذ ہو چنانچہ 1979ء میں اسلامی قوانین یعنی حدود لاز کا نفاذ ہوا۔ نفاذ آرڈر چہارم بابت 1979ء حدود آرڈر یعنی اجراء قانون حد عمل میں لایا گیا اور اس کا جائزہ وفاقی شرعی عدالت، ماہرین قانون، علماء اور مفتیان کرام بار بار لے چکے ہیں اور یہ اس وقت ملک میں حدود لازمی (اسلامی قوانین) کے نام سے رائج قانون ہے۔ اس قانون پر سب سے پہلے غیر مسلم اقلیتوں مثلاً عیسائیوں وغیرہ نے اعتراض کیا۔ کیا اسلامی قانون پر اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کو اعتراض کا حق از روئے شرع متین حاصل ہے یا نہیں؟
2. بعض انسانی حقوق کی تنظیموں و اداروں نے بھی اسی انداز میں اسلامی قوانین پر اعتراض کیا اور امتیازی قانون کہا۔ اگر کوئی اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہے تو اس بارے میں شرع متین کا کیا حکم ہے؟
3. حال ہی میں پارلیمنٹ کے کچھ ممبروں نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا۔ تحریر یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک قرین مصلحت ہے کہ حدود قوانین 1979ء کو منسوخ کیا جائے یہ ایکٹ حدود قوانین تنسیخ 2005ء کے نام سے موسوم ہو گا۔ پیش کردہ بل کی کاپی اغراضِ وجوہ اور ممبران کے نام کے ساتھ تفصیلاً منسلک ہے۔
لہٰذا وہ ایسا عمل کرنے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور شرعاً کیا سزا ہے؟ ان تمام مسائل کا تحقیقاتی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب1: اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلم ذمی لوگوں کے لئے اسلامی قوانین کی پابندی لازم ہے اور انہیں اسلامی قوانین پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اگر وہ اسلامی قوانین کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں تو ان کا عہدِ ذمہ ختم ہو جائے گا اور وہ اسلامی حکومت کے ذمی رعایا نہیں رہیں گے، اور اگر وہ اسلامی قوانین کو تسلیم کر لینے کے
بعد عمل نہیں کرتے تو وہ قانون شکنی کے مجرم ہوں گے، جس پر ان کو مجرموں والی سزا دی جائے گی۔
2. اللہ تعالیٰ جل شانہ کے بنائے ہوئے جملہ قوانین، انصاف پر مبنی ہیں یہ کبھی بھی انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ انہیں امتیازی قوانین کہا جا سکتا ہے۔ بعض اداروں کا انہیں انسانی حقوق کے خلاف گرداننا نا سمجھی پر مبنی ہے، اسلام کا نام لینے والا فرد یا افراد اللہ تعالیٰ جل شانہ کے بنائے ہوئے قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہے گویا کہ وہ بزعم خود یہ تأثر دے رہا ہے کہ قانون بناتے وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انسان کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا اور انسان کے حق میں یہ قوانین ظلم و نا انصافی پر مبنی ہیں۔ (معاذ اللہ)
ایسا فرد یا افراد قرآن و سنت کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اگر وہ فرد یا افراد مسلمان نہیں بلکہ ذمی ہیں تو اس کا حکم جواب نمبر 1 میں بیان ہو چکا ہے۔
3. حاکم اعلیٰ اللہ رب العزت کی ذات با برکات ہے، جو ہر طرح کی قانون سازی کا مالک ہے، اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے قانون کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کروانے کے لئے کچھ حضرات کو دنیا میں صاحبِ اقتدار بنایا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی سر زمین پر اس کے نظام کو نافذ کریں ان کو ہرگز یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے احکام کو منسوخ کریں یا ان میں تغیر و تبدل کریں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے قانون کو نافذ کرنے کے لئے پارلیمنٹ وغیرہ سے قانون کی منظوری کی ضرورت نہیں، اور نہ اس قانون کے نفاذ کے بعد اسمبلی کو منسوخ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جن ممبران اسمبلی نے حدود آرڈنینس میں موجود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے احکام کی مخالفت کی ہے اور ان کی تنسیخ کے دعویدار ہیں اگر یہ لوگ ان احکام کا سرے سے انکار کرتے ہیں یا انہیں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا حکم نہیں سمجھتے یا ان قوانین کے خلاف نا زیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو اس انکار استہزا یا دعوائے تنسیخ کی وجہ سے وہ کافر ہو جائیں گے۔
(اشرف الفتاویٰ: صفحہ، 250)