Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ کا توحید الوہیت کے متعلق عقیدہ

  الشیخ ممدوح الحربی

شیعہ کا توحید الوہیت کے متعلق عقیدہ

 امام اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں:

شیعہ امامیہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ائمہ اللہ اور اس کی مخلوق کے مابین وسیلہ اور واسطہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے امام مجلسی نے اپنی کتاب "بحارالانوار" میں اس عقیدہ کی یوں صراحت کی ہے اس نے لکھا ہے:

فانهم حجب الرب والوسائط بينه وبين الخلق۔ 

(بحار الانوار جلد 97 صفحہ 23)۔

ائمہ رب کے درمیان اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں۔ 

اس طرح ان کے اسی دینی قائد مجلسی نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:

باب الناس لا يهتدون الابهم وانهم الوسائل بين الخلق وبين الله وانه لا يدخل الجنة الا من عرفهم۔

یہ باب اس (عقائدی) مسئلے میں ہیں کہ لوگوں کو ہدایت صرف ائمہ کے ذریعے سے نصیب ہوتی ہے اور یہ ائمہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہوتے ہیں اور جنت میں داخلہ بھی انہی لوگوں کو نصیب ہوگا جن کو ائمہ کی معرفت حاصل ہوگی۔

(2)۔ ائمہ کی قبور مدد مہیا کرتی ہیں:

شیعہ امامیہ اپنے ائمہ سے ایسے معاملات میں مدد طلب کرتے ہیں جن پر صرف اللہ تعالیٰ کو قدرت حاصل ہے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ ان کے امام ان سے شفاء طلب کرنے والوں کے لیے بذاتِ خود بہت بڑی شفاء اور اکسیر دوا کی حیثیت رکھتے ہیں مجلسی نے اپنی کتاب بحارالانوار مطبوعہ دارالاحیاء التراث العربی بیروت میں لکھا ہے:

اذا كان لك حاجة الى الله عزوجل فاكتب رقعة على بركة الله واطرحه على قبر من قبور الأئمة ان شئت او فشدها واختمها واعجن طينا نظيفا واجعلها فيه واطرحها فی نهر جار أو بئر عميقة او غدير ماء فانها تصل الى السيد وهو يتولى قضاء حاجتك بنفسه۔ 

(بحار الانوار: جلد 94 صفحہ 29)۔

جب بھی تجھے اللہ عزوجل سے کوئی ضرورت پیش آئے تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے تو اپنی حاجت کو ایک کاغذ پر تحریر کر کے ائمہ کی قبور میں سے کسی قبر پر ڈال دے یا اسے مہر لگا کر لپیٹ لے اور پھر صاف پاک گوندھی ہوئی مٹی میں اسے رکھ کر کسی بہتی نہر میں گہرے کنوئیں میں یا پانی کی کسی جھیل میں ڈال دے تیری یہ طلب امام تک پہنچ جائے گی اور امام بذات خود تیری ضرورت کو پورا کر دے گا۔

(3)۔ ائمہ کو قانون سازی کا حق حاصل ہے:

شیعہ امامیہ اپنے ائمہ کو حلت و حرمت کا بااختیار جانتے اور انہیں قانون سازی کا حق دیتے ہیں ان کے امام کلینی نے اصول الکافی اور مجلسی نے بحار الانوار میں لکھا ہے:

خلق اى الله محمداﷺ وعلياؓ و فاطمةؓ فمكثوا الف دهر ثم خلق جميع الاشياء فأشهدهم خلقها واجرى طاعتهم عليها وفوض امورها اليهم فهم يحلون ما يشاءون ويحرمون ما يشاءون۔ 

(اصول الكافی جلد 1 صفحہ 441 ، بحار الانوار جلد 25 صفحہ 240)۔

اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہؓ کو تخلیق فرمایا ان کی تخلیق کے ہزارہا سال بعد اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کو اپنی مخلوقات کی آفرینش کا گواہ بنایا اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کو ان پر لازم کر دیا اور ان کے تمام امور کی دیکھ بھال کو ان کے سپرد کر دیا لہٰذا وہ چاہیں تو کسی شئے کو حلال کر دیں اور چاہیں تو کسی چیز کو حرام قرار دے دیں۔

(4)۔ ائمہ کی قبور نذر و نیاز کا محل اور قربان گاہ ہیں:

شیعہ امامیہ اپنے ائمہ کی قبروں کی عبادت کرتے ان پر جانور ذبح کرتے اور ان کے ہاں منت مانتے اور ان کے نام کی قسمیں کھاتے ان سے مرادیں طلب کرتے انہیں پکارتے ان سے مدد مانگتے ان پر رکوع و سجود کرتے اور ان مزاروں خانقاہوں اور مقبروں کے لیے خطیر اموال کی نذریں مانتے ہیں یہاں تک کہ ایران میں موجود ہر مقبرہ مزار کا بینک میں بہت بڑا کھاتہ کھلا ہوا ہے جس میں مختلف قسم کے عطیات اور نذرانوں کو جمع کیا جاتا ہے 

(5)۔ سیدنا حسینؓ کی قبر ہر بیماری کی دوا ہے:

شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت حسین بن علیؓ کی قبر ہر بیماری کے لیے ذریعہ شفاء ہے اور ان کے مذہبی قائد مجلسی نے اپنی کتاب بحارالانوار میں تقریبا 83 روایات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کے متعلق اور اس کے فضائل و احکام اور آداب کے ضمن میں وارد کی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے:

قال ابو عبدالله حنكوا اولادكم بتربة الحسينؓ فانه امان۔ 

ابو عبداللہ (سیدنا جعفر صادقؒ) کا فرمان ہے کہ اپنی اولاد کو تربتِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھٹی دیا کرو یہ ان کے لیے جملہ امراض سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

اس کے بعد انہوں نے یہ فرمایا:

ثم يقوم ويتعلق بالضريح ويقول يا مولاى یا ابنِ رسول الله انی آخذ من تربتك باذنك اللهم فأجعلها شفاء من كل داء وعزا من كل ذل وامنا من كل خوف وغنى من كل فقر۔

پھر کھڑا ہو جائے قبرِ حضرت حسینؓ سے لپٹ جائے اور یوں کہے: اے میرے آقا اے نواسئہ رسول اللہ میں نے تیری توفیق سے ہی تیری لحد کی خاک اٹھائی ہے اسے آپ ہر بیماری کے لیے شفاء کا ذریعہ ہر ذلت اور رسوائی کے مقابلے میں عزت کا ہر خوف کے سامنے امن کا اور ہر قسم کے افلاس کے مد مقابل بے نیازی کا ذریعہ بنادے۔

اسی طرح خمینی نے بھی اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو شفاء حاصل کرنے کی خاطر سیدنا حسینؓ کی قبر کی خاک کھانے کا فتویٰ دیا ہے اس کی رائے کے مطابق قبرِ سیدنا حسینؓ کو جو شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا مقابلہ کوئی بھی خاک حتٰی کہ رسولِ کریمﷺ کی قبر شریف کی خاک بھی نہیں کر سکتی اس نے اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں لکھا ہے:

يستثنیٰ من الطين طين قبر سيدنا ابی عبدالله الحسینؓ للاستشفاء ولا يجوز اكله بغيره ولا اكل ما زاد عن قدر الحمصة المتوسطة ولا يلحق به طين غير قبره حتى قبر النبیﷺ‎ والأئمة عليهم السلام۔ 

(تحرير الوسيلة : جلد 2 صفحہ 164)۔

شفاء کی خاطر مٹی کھانے کی ممانعت سے سیدنا ابوعبداللہ حسینؓ کی قبر کی مٹی کو تخصیص و استثناء حاصل ہے تاہم اس کا کھانا بھی صرف شفاء کی طلب کے لیے جائز ہے اور وہ بھی صرف درمیانے سائز کے چنے برابر آپ (سیدنا حسینؓ) کی قبر کی مٹی کی ہمسری کوئی بھی مٹی حتٰی کہ نبی اکرمﷺ اور ائمہ علم کی قبور کی مٹی بھی نہیں کر سکتی۔

صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ شیعہ امامیہ نے تو سیدنا حسین بن علیؓ کے متعلق اس قدر غلو اختیار کر رکھا ہے کہ آپ کو ان کی ریاستِ ایران کے تمام راستوں اور عام شاہراہوں پر پانی پینے کے لیے نصب شدہ واٹر کولر نظر آئیں گے جن پر واضح لفظوں میں لکھا ہوتا ہے "بنوشید بنامِ حسین" یعنی سیدنا حسینؓ کا نام لے کر پیو۔ اس سے اور صریح شرک سے اللہ کی پناہ!۔

(6)۔ ائمہ کی قبور کی زیارت حج سے بھی زیادہ بڑی عبادت ہے:

شیعوں کے مذہبی قائد اور ان کے امام کلینی نے فروع الکافی میں لکھا ہے:

ان زيارة قبر الحسينؓ تعدل عشرين حجة وافضل من عشرين عمرة وحجة۔

 (فروع الكافی: 59)۔

یہ حقیقت ہے کہ سیدنا حسینؓ کی قبر کی زیارت بیس حجوں کے مساوی بلکہ بیس حج اور عمروں سے بھی زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

قارئین کرام! ذیل میں آپ کے سامنے شیعہ اثناء عشریہ کے اپنے ائمہ اور ان کے قبور کی زیارت کے متعلق اختیار کیے گئے بدترین غلو کو آشکار کیا جاتا ہے اس سلسلے میں آپ کے سامنے شیعہ اثناء عشریہ کی معتمد ترین کتابوں کے ابواب اور ان کی فہرستوں کو پیش کیا جا رہا ہے جن کے مطالعہ سے آپ کو خوب اندازہ ہو جائے گا کہ یہ لوگ اپنے ائمہ کے متعلق کتنے سنگین غلو کا شکار ہیں ان کتابوں میں سے چند ایک کی تفصیل درج ذیل ہے۔

کتاب الکافی مؤلفہ محمد یعقوب الکلینی مطبوعہ دارالتعارف بیروت کی فہرست اس کتاب کی مجموعی فہرست میں سے صرف درج ذیل عنوانات ملاحظہ کریں:

باب أن الأئمة عليہم السلام ولاة امر الله، وخزانة علمه۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ حکومتِ الہٰیہ کے حکمران اور اس کے علم کے خازن ہیں۔

 باب أن الآئمة عليہم السلام نور الله عزوجل۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ اللہ عزوجل کا نور ہیں۔

باب أن الأئمة عليہم السلام اذا شاءوا ان يعلموا علموا۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ جب بھی کسی شئے کو جاننا چاہیں انہیں مکمل علم ہو جاتا ہے۔ 

 باب أن الأئمة عليہم السلام يعلمون متى يموتون وانھم لا يموتون الا باختيار منهم۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کو اپنی موت کے وقت کا علم ہوتا ہے اور ان کی مرضی کے مطابق ہی انہیں موت آتی ہے۔

 باب أن الآئمة عليہم السلام يعلمون علم ما كان وما يكون وانه لا يخفى عليهم شیء۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں ان سے کوئی بھی شئے پوشیدہ نہیں ہوتی۔

 باب عرض الأعمال على النبی اللهﷺ والآئمة عليہم السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ (انسانوں اور جنوں کے) تمام اعمال نبی کریمﷺ اور ائمہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔

 باب أن الآئمة عليہم السلام معدن العلم وشجرة النبوة ومختلف الملائكة۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ علم کی کان نبوت کا نسب اور فرشتوں کی بار بار حاضری کا مرکز ہیں۔

 باب أن الأئمة ورثوا علم النبی وجميع الانبياء والأوصياء الذين من قبلهم۔

اس عقیدہ کے بارہ میں کہ ائمہ نبی اکرمﷺ سمیت سابقہ تمام انبیاء علیہ السلام اور اوصیاء کے علوم کے وارث ہیں۔

 باب أن الآئمة عليہم السلام عندهم جميع الكتب التی نزلت من عند الله عزوجل وانهم يعرفونها على اختلاف السنتها۔

اس عقیدہ کے بیان کہ ائمہ کے پاس تمام منزل من الله کتابیں موجود ہیں اور وہ زبانوں کے اختلاف کے باوجود ان سب کتب کی معرفت بھی رکھتے ہیں۔

باب أنه لم يجمع القرآن كله الا الآئمة عليہم السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ مکمل قرآن کے جامع صرف ائمہ ہیں۔

 باب أن الأئمة عليہم السلام يعلمون جميع العلوم التی خرجت الى الملائكة والانبياء والرسل۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ فرشتوں نبیوں اور رسولوں کے جملہ علوم سے آگاہ ہیں۔

فہرست کتاب بحارالانوار مؤلفه محمد باقر مجلسی مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت اس کتاب کی ساری فہرست میں سے درج ذیل سرخیاں قابلِ توجہ ہیں۔

 باب أن الله تعالیٰ يرفع للامام عمودا ينظر الى اعمال العباد۔  

اس عقیدہ کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ امام کے لیے بلند ستون قائم کرتا ہے جس سے وہ لوگوں کے اعمال کو دیکھتا ہے۔

باب انه لا يحجب عنهم شئ من احوال شيعتهم وما تحتاج اليه الآئمة من جميع العلوم وانهم يعلمون ما يصيبهم من البلايا ويصبرون عليها وانهم يعلمون ما فى الضمائر وعلم المنايا والبلايا وفصل الخطاب والمواليد۔

اس عقیدہ کے بارہ میں کہ ائمہ اپنے شیعوں کے حالات اور ائمہ کو مطلوب جملہ علوم سے پوری آگاہی ہوتی ہے یہ اپنے اوپر مسلط ہو جانے والی آزمائشوں سے بے خبر ہوتے ہیں تاہم وہ ان پر صبر کو اختیار کر لیتے ہیں یہ ائمہ دل کے بھیدوں اموات و مصائب فیصلہ کن کلام اور پیدائشوں کے علوم سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔

 باب أن عندهم جميع علوم الملائكة والأنبياء وانهم اعطوا ما اعطاه الله الانبياء وان كل امام يعلم جميع علم الامام الذی قبله۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کے پاس ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام کے تمام علوم موجود ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو عطا فرمودہ تمام صفات و خصوصیات انہیں حاصل ہوتی ہیں اور ہر امام اپنے پیشر و امام کے تمام علوم سے مزین ہوتا ہے۔

باب أنهم اعلم من الانبياء عليہم السلام۔

اس عقیدہ کے بیان کہ ائمہ انبیاء علیہم السلام سے بھی زیادہ علم رکھتے ہیں۔

باب أنهم يعلمون متى يموتون وانه لا يقع ذلك الا باختيارهم۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کو اپنے وقتِ اجل کا پتہ ہوتا ہے اور موت بھی ان پر ان کی مرضی کے مطابق آتی ہے۔

باب أحوالهم بعد الموت وأن لحومهم حرام على الارض وانهم يرفعون الى السماء۔

موت کے بعد ائمہ کے حالات زمین پر ان کے گوشت کے حرام ہونے اور ان کے آسمان پر اٹھا لیے جانے کے بیان میں۔

باب أنهم يظهرون بعد موتهم ويظهر منهم الغرائب۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کا موت کے بعد بھی ظہور ہوتا ہے (نہ صرف یہی بلکہ) ان کی طرف سے عجائبات کا صدور بھی ہوتا ہے۔

باب أن أسماءهم عليہم السلام مكتوبة على العرش و الكرسى و اللوح وجباه الملائكة وباب الجنة وغيرها۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کے نام عرش کرسی لوح (محفوظ) فرشتوں کی پیشانیوں اور جنت وغیرہ کے دروازہ پر نقش شدہ ہیں۔

باب أن الجن خدامهم يظهرون لهم ويسألونهم عن معالم دينهم۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ جنات ائمہ کے خدمت گار ہیں یہ ائمہ کے سامنے ظاہر ہو کر اپنے دینی مسائل کی بابت استفسار کرتے ہیں۔

باب أنهم يقدرون على احياء الموتى وابرء الاكمه والأبرص وجميع معجزات الانبياء عليہم السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کو مردوں کے جلانے مادر زاد اندھے اور برص زدہ کو شفاء دینے اور انبیاء علیہم السلام کے جملہ معجزات پر قدرت حاصل ہے۔

باب أن الملائكة تأتيهم وتطأ فرشهم وأنهم يرونهم صلوات الله عليہم اجمعين۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ فرشتے اںٔمہ کے پاس حاضر ہوتے ہیں ان کے بستروں پر بیٹھتے ہیں اور یہ ائمہ اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہیں۔

باب أنهم عليہم السلام لا يحجب عنهم علم السماء و الارض والجنة والنار وانه عرض عليهم ملكوت السماوات والارض ويعلمون ما كان وما يكون الى يوم القيامة۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ سے آسمان اور زمین جنت اور جہنم کی معلومات اوجھل نہیں ہیں

ان پر آسمانوں اور زمین کی سلطنتوں کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ ماضی اور قیامت تک کے تمام حالات سے باخبر ہیں۔

كتاب بصائر الدرجات مؤلفه ابنِ جعفر محمد بن الحسن الصفار مطبوعہ الاعلمی ایران اس کتاب کی مکمل فہرست میں سے درج ذیل ابواب قابلِ غور ہیں:

باب الأعمال تعرض على رسول اللهﷺ والآئمة عليہم السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ جملہ اعمال رسول اللہﷺ اور ائمہ کو پیش کیے جاتے ہیں۔

باب عرض الأعمال على الآئمة الأحياء والأموات۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ اعمال زندہ اور فوت شدہ ائمہ پر پیش کیے جاتے ہیں۔

باب فی أن الامام يرى ما بين المشرق والمغرب۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ امام مشرق اور مغرب کے مابین تمام اشیاء کا مشاہدہ کرتا ہے۔

باب فی أن الأئمة يحيون الموتى ويبرؤن الاكمه والأبرص باذن الله۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ کو مردوں کو زندہ مادر زاد اندھوں اور برص زدہ انسانوں کو اللہ کی توفیق سے درست کر دینے کی قدرت حاصل ہے۔

باب فى امير المؤمنين ان الله ناجاه بالطائف وغيرهما ونزل بينهما جبريل۔

اس حقیقت کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین سے طائف وغیرہ کے مقامات میں سرگوشی فرمائی اس دوران جبریل علیہ السلام بھی ان کے درمیان موجود تھے۔

 باب فی علم الأئمة بما فى السماوات والارض والجنة والنار وما كان وما هو كائن الى يوم القيامة۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ آسمانوں زمین اور جنت جہنم کے حالات اور زمانہ ماضی اور آئندہ قیامت تک ہونے والے تمام امور و واقعات ائمہ کے علم میں ہیں۔

کتاب کامل الزیارات مؤلفه شیعی امام جعفر بن محمد بن قولویه مطبوعہ دار السرور بیروت (1997ء)۔

اس کتاب کی کامل فہرست میں سے درج ذیل ابواب پیش کیے جاتے ہیں: 

 باب من زار الحسينؓ كان كمن زار الله فی عرشه۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ جو شخص سیدنا حسینؓ کی زیارت کرتا ہے گویا کہ اس نے عرشِ معلیٰ پر مستوی اللہ کی زیارت کرلی ہے۔

 باب أن زيارة الحسينؓ والأئمة عليہم السلام تعدل زيارة قبر رسول اللهﷺ‎۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ اور دیگر ائمہ کی زیارت رسول اللہﷺ کی قبر کی زیارت کے ہم رتبہ ہے۔

باب أن زيارة الحسينؓ تحط الذنوب۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔

باب أن زيارة الحسينؓ تعدل عمرة۔ 

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت عمرہ کے مساوی ہے۔

باب أن زيارة الحسينؓ تعدل حجة

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت حج کے مساوی ہے۔

باب أن زيارة الحسينؓ تعدل حجة و عمرة۔

اس عقیدہ کے بیان کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت حج اور عمرہ کے ہمسر ہے۔

باب أن زيارة الحسينؓ ينفس بها الكرب ويقضى بها۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت غموں کے ازالے اور حاجت روائی کا ذریعہ ہے۔

باب ما يستحب من طين قبر الحسينؓ وأنه شفاء۔

حضرت حسینؓ کی قبر کی مٹی کی افضیلت اور اس سے شفاء ہونے کا بیان۔

باب ما يقول الرجل اذا اكل طين قبر الحسينؓ۔

قبرِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خاک کھانے والا شخص کون سے کلمات پڑھے۔

باب ان زائرين الحسينؓ يدخلون الجنة قبل الناس۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کے زائرین سب لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

کتاب نور العين فی المشى الى زيارة قبر الحسينؓ مؤلفه محمد بن حسن مطبوعه دار المیزان بیروت۔

فہرستِ کتاب میں سے چند ابواب:

باب أن زائرين الحسين عليه السلام يعطى له يوم القيامة نور يضيىء لنوره ما بين المشرق والمغرب۔ 

اس عقیدہ کے بیان میں کہ قیامت کے دن سیدنا حسینؓ کے زائر کو ایسے نور سے سرفراز کیا جائے گا جس سے مشرق اور مغرب کے مابین سب کچھ منور ہو جائے گا۔

باب أن زيارته عليه السلام توجب العتق من النار۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔

باب أن زيارته غفران ذنوب خمسين سنة۔

اس عقیدہ کے بیان کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت کے نتیجہ میں پچاس سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

باب أن زيارة الحسين عليه السلام تعدل الأعتاق والجهاد والصدقة والصيام۔ 

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت غلام کی آزادی جہاد صدقہ اور روزہ (سے حاصل ہونے والے اجر و ثواب) کے مساوی ہے۔

باب أن زيارة الحسين عليه السلام تعدل اثنتين وعشرين عمرة۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت بائیس عمروں (کے ثواب) کے برابر ہے۔

باب أن زيارة الحسين عليه السلام تعدل حجة لمن لم يتهيأ له الحج وتعدل عمرة لمن لم يتهيأ له عمرة۔

اس عقیدہ کا بیان کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت مفلس و نادار شخص کے لیے حج اور عمرہ کی سعادت کے برابر ہے۔

باب أن الله تبارك وتعالیٰ يتجلى لزوار قبر الحسين عليه السلام ويخاطبهم بنفسه۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قبر سیدنا حسینؓ کے زائرین کے سامنے ظہور فرماتا اور ان سے براہِ راست ہمکلام ہوتا ہے۔ 

باب أن الله جل وعلا يزور الحسين عليه السلام فی كل ليلة جمعة۔ 

اس عقیدہ کے بیان میں کہ اللہ عزوجل ہر جمعہ کی رات کو بذاتِ خود سیدنا حسینؓ کی زیارت کرتا ہے۔

باب أن الانبياء يسألون الله فی زيارة الحسين عليه السلام۔ 

اس عقیدہ کے بیان کہ انبیاء علیہم السلام الله تعالیٰ سے سیدنا حسینؓ کی زیارت کی درخواست کرتے ہیں۔

باب أن النبی الاعظم (يعنى محمدﷺ) والعترة الطاهرة يزورون الحسين عليه السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ نبی اعظم (محمدﷺ) اور آپ کی آلِ پاک سیدنا حسینؓ کی زیارت کرتے ہیں۔

باب ان ابراهيم الخليل عليه السلام يزور الحسين عليه السلام۔ 

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ابراہیم خلیل علیہ السلام سیدنا حسینؓ کی زیارت کرتے ہیں۔

باب أن موسیٰ بن عمران سأل الله جل وعلا ان يأذن له فی زيارة قبر الحسين عليه السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے سیدنا حسینؓ نام کی قبر کی زیارت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تھی۔

باب الملائكة يسألون الله عزوجل ان يأذن لهم فی زيارة قبر الحسين عليه السلام۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ فرشتے سیدنا حسینؓ کی قبر کی زیارت کے لیے اللہ تعالیٰ سے منظوری طلب کرتے ہیں۔

باب ما من ليلة الا و جبرائيل و ميكائيل يزور انه صلوات الله عليه۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ جبرائیل علیہ السلام اور میکائیلؑ علیہ السلام ہر رات کو سیدنا حسینؓ کی زیارت کرتے ہیں۔

باب أن زيارة الحسين عليه السلام تعدل ثلاثين حجة مبرورة، متقبلة زاكية مع رسول اللهﷺ‎۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کی زیارت رسول اللہﷺ کی معیت میں کیے گئے تیس مقبول مبرور اور پاکیزہ حجوں کے برابر ہے۔

باب من زار قبر الحسين عليه السلام كان كمن زار الله فوق عرشه۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ جو شخص سیدنا حسینؓ کی قبر کی زیارت کرتا ہے اس نے گویا کہ عرشِ معلیٰ پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی ہے

باب من زار الحسين عليه السلام كتبه الله فی اعلى عليين۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ سیدنا حسینؓ کے زائر کو اللہ تعالیٰ اعلیٰ علیین میں لکھ لیتا ہے:

شیعہ عالم حسین الفہید نے سیدنا علیؓ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے جو معاذ الله کفریہ اور شرکیہ کلمات سے بھرا ہوا ہے اس خطبہ میں سیدنا علیؓ اپنا تعارف کرواتے ہیں ہم سیدنا علیؓ کو ان خرافات سے بری الذمہ یقین کرتے ہیں

شیعی عالم بیان کرتا ہے:

 سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: غیب کی کنجیاں میرے پاس ہیں رسول اللہﷺ کے بعد ان کا علم صرف مجھے ہے صحفِ اولیٰ میں مذکور ذوالقرنین میں ہوں سیلمان کو انگوٹھی عطاء کرنے والا میں ہوں حساب کا نگران و منتظم میں ہوں صراط اور میدانِ حشر کا متولی میں ہوں، اپنے رب کے حکم سے جنت اور جہنم کی تقسیم کا اختیار میرے ہاتھ میں ہے میں پہلا آدم اور نوح ہوں میں جبار کا عظیم نشان ہوں اور پوشیدہ رازوں کی حقیقت ہوں درختوں کو گل و برگ سے آراستہ کرنے اور پھلوں کو پکانے کی قدرت میرے پاس ہے چشموں کو نکالنے اور نہروں کو جاری کرنے والا میں ہوں میں علم کا خازن اور حوصلہ و بردباری کا عطیہ کرنے والا ہوں میں امیر المومنین ہوں میں عین الیقین ہوں میں آسمانوں اور زمین میں اللہ کی حجت اور برھان ہوں راجفہ اور صاعقہ میرا نام ہے میں حق کی زور دار آواز ہوں میں مکذبین کے لئے قیامت ہوں ذالک الکتاب لاریب سے میں ہی مقصود ہوں میں ہی وہ اسماء الحسنٰی ہوں جن کے وسیلہ سے دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے میں ہی وہ نور ہوں جس سے ہدایت کے چشمے پھوٹتے ہیں صور کا نگران میں ہوں قبروں سے اٹھانے والا میں ہوں زندہ اٹھائے جانے کے دن کا مالک میں ہوں نوح کو نجات دینے اور بیمار ایوب کو شفاء دینے والا میں ہوں اپنے رب کے حکم سے آسمانوں کو قائم کرنے والا میں ہوں میں ابراہیم کا آقا اور کلیم کا راز ہوں کائنات کا مدبر و منتظم میں ہوں میں ہی زندہ اور جاوید ہستی کا امر ہوں میں حق تعالیٰ کی مخلوقات پر اس کا حکمران ہوں میں ہی وہ ہستی ہوں جس کا فیصلہ اٹل اور جس کا فرمان نا قابلِ تغیر ہوتا ہے میں اللہ کا راز اور اس کی حجت ہوں میں ہی اللہ تعالیٰ کے فرمان وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ الخ۔ (سورۃ الاسراء/بنی اسرائیل آیت 85) (یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں آپ جواب دے دیجیئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) میں مذکور امر اور روح کا مصداق ہوں بلند و بالا پہاڑوں کو میں نے استوار کیا ہے رواں چشموں کو جاری کرنے والا میں ہوں درختوں کو اگانے اور ان پر مختلف انواع و الوان کے پھلوں کو پیدا کرنے والا میں ہوں اقوال کا حاکم میں ہوں مردوں کو جلانے والا میں ہوں قبر کا پڑاؤ میں ہوں سورج چاند اور ستاروں کو روشنی عطا کرنے والا میں ہوں میں ہی قیامت کا نگران اور اسے قائم کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری ہی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم کیا گیا ہے میں اللہ کا مخفی و سر بستہ راز ہوں میں ہی بدر و حنین کا تاجدار ہوں میں طور ہوں میں ہی کتابِ مسطور ہوں میں بحرِ مسجور ہوں میں ہی بیت المعمور ہوں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات سے میری اطاعت کا تقاضا کیا کچھ نے کفر کیا اور اس پر جمے رہے لہٰذا ان کی شکلوں کو مسخ کر دیا گیا اور کچھ نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہا تو وہ نجات اور قرب کے حق دار قرار پائے میں ہی وہ صاحبِ عظمت و کرامت ہستی ہوں جس کے ہاتھ میں جنت کے تمام درجات کی اور جہنم کے تمام طبقات کی کنجیاں ہیں میں ہی آسمان اور زمین میں رسول اللہﷺ کا ساتھی ہوں میں ہی مسیح ہوں کہ میرے اذن کے بغیر کسی ذی روح کو حرکت کرنے اور سانس لینے کی ہمت نہیں ہے میں ہی قرونِ گذشتہ کا مالک ہوں میں صامت ہوں اور محمد ناطق ہیں میں نے ہی موسیٰ علیہ السلام کو سمندر عبور کرایا اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت غرقاب کیا میں ہی جانوروں کے تقاضوں کو اور پرندوں کی بولیوں کو جانتا ہوں میں ہی پلک جھپکنے کی دیر میں ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے فاصلے طے کر سکتا ہوں جھولے میں عیسیٰ کی زبان سے گفتگو کرنے والا میں ہوں اور میرے ہی پیچھے عیسیٰ علیہ السلام نماز پڑھیں گے میں ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق صور میں تصرف کا مختار ہوں تا آخر 

یقیناً یہ خطبہ سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کیا گیا باطل بے اصل اور بے اصل بدترین جھوٹ ہے جو اول تا آخر شرک و کفر سے لبریز ہے۔