جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رافضی (شیعہ) ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، اس کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ یہاں پر ایک عالم صاحب آئے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک مقام پر تقریباً چالیس پچاس آدمیوں کے مجمع میں فرمایا کہ کافر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا، اس کی بھی شفاعت اور بخشش ہو گی، اور کافر سے مراد قادیانی، رافضی وغیرہ لیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہو جائیں گے ایک ناجی باقی ناری لیکن ناری ہمیشہ نار میں نہ رہے گا، اپنی سزا پا کر بخشا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے کہیں قرآن پاک میں نہ فرمایا کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ انہیں تہتر فرقوں میں قادیانی رافضی وغیرہ ہیں۔
ان عالم صاحب کا بیان سن کر عوام کے خیالات بہت منتشر ہو گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ گنہگار اور فرقہ باطلہ میں کیا فرق رہا؟ مستحق عذاب نار گنہگار بھی اور کافر بھی، بہرحال گنہگار مسلمان کم سزا پائیں گے اور کافر زیادہ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ عالم صاحب کا قول صحیح ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو عالم صاحب پر شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: اس عالم کی اتنی بات تو صحیح ہے کہ اس امت میں تہتر فرقے ہوں گے، ان میں ایک فرقہ ناجی ہے اور باقی بہتر فرقے ناری ہیں اور رافضی (شیعہ) قادیانی وغیرہ ناری فرقوں میں سے ہیں۔ اس کے علاؤہ حدیث شریف پر یہ افتراء ہے کہ
- ناری فرقوں کے لئے خلود فی النار نہیں ہے۔
- اور اہلِ کفر قابلِ مغفرت ہیں۔
- اور حضور اکرمﷺ اہلِ کفر کی شفاعت کریں گے۔
اس کی یہ تینوں باتیں قرآن کریم و حدیث کے بالکل خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡـكُفَّارَ نَارَ جَهَـنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا (سورۃ التوبہ: آیت، 68)
ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ نے منافق مردوں عورتوں اور کافروں کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوگیا کہ کفار و منافقین کیلئے خلود فی النار ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ نار میں رہیں گے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ جل شانہ کفر کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ(سورۃ النساء: آیت، 116)
ترجمہ: یعنی بیشک اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کفر کی مغفرت نہیں کرتا۔ تو اگر کافر کی مغفرت مان لی جائے تو اس سے کفر کی مغفرت لازم آئے گی اور یہ قرآن کریم کی صریح مخالفت تو ثابت ہو گیا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کافر کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔
اسی طرح یہ بھی قرآن کریم میں ہے
فَمَا تَنۡفَعُهُمۡ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيۡنَ(سورۃ المدثر: آیت، 48)
ترجمہ: کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ نفع نہ دے گی۔
اس آیتِ کریمہ اور پہلی آیات سے ثابت ہو گیا کہ کافر قابلِ مغفرت نہیں اور اس کیلئے شفاعت نافع نہیں، کوئی شفیع ان کی شفاعت نہیں کرے گا تو حضور اکرمﷺ بھی کفار کی شفاعت نہیں کریں گے۔
لہٰذا اس نام کے عالم کا قول غلط و باطل ہے اور آیات قرآنی اور حدیث شریف اور کتب عقائد کے خلاف ہے، اور خدا تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ کا صریح مقابلہ اور مخالفت ہے، تو اس پر تجدید ایمان ضروری ہے۔
(فتاویٰ اجملیہ: جلد، 1 صفحہ، 271)