Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ کے توحید فی الربوبیۃ کے متعلق معتقدات

  الشیخ ممدوح الحربی

شیعہ کے توحید فی الربوبیۃ کے متعلق معتقدات:

(1) امام ہی رب ہوتا ہے:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا رب وہ امام ہوتا ہے جو زمین پر سکونت پذیر ہوتا ہے ان کی کتاب مرآة الانوار و مشکاۃ الاسرار میں لکھا ہے:

ان علياؓ قال: انا رب الأرض الذی تسكن الارض به۔(مرآة الانوار و مشكاة الاسرار 59)۔

(شیعوں کے افتراء کے مطابق) سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے میں زمین کا پروردگار ہوں میرے حکم سے ہی زمین آباد اور پر رونق ہے۔

اسی طرح ان کے امام عیاشی نے اپنی تفسیر میں فرمانِ الہٰی وَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۝(سورۃ الکہف آیت 110)۔

( اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے) کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

يعنى التسليم لعلى رضى اللہ عنه ولا يشرك معه فی الخلافة من ليس له ذلك ولا هو من اهله۔ (تفسير للعياشی جلد 2 صفحہ 353)

فرمانِ الہٰی کا مقصود یہ ہے کہ حضرت علیؓ کی اطاعت کو اختیار کرے اور خلافت میں اس کے ساتھ ان کو قطعاً شریک نہ کرے جو اس کے حقدار ہیں اور نہ ہی اس کے اہل ہیں۔

(2) دنیا اور آخرت امام کے تصرف میں ہے:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت کے مالک امام ہوتے ہیں انہیں اپنے ملک میں کلی تصرف کا اختیار حاصل ہے ان کے امام کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک باب اس عنوان کے ساتھ قائم کیا ہے باب ان الارض کلھا اللامام یعنی ساری زمین امام کی ملکیت ہے اس باب کے تحت وہ ابو عبداللہ جعفر صادقؒ کا قول نقل کرتا ہے:

عن أبی بصير عن أبی عبدالله عليه السلام قال: اما علمت أن الدنيا والآخرة للامام يضعها حيث يشاء ويدفعها الى من يشاء انتهى۔

(الكافی جلد 1 صفحہ 410,407)۔

ابوبصیر سے مروی ہے کہ ابو عبداللہ (سیدنا جعفر صادقؒ) نے فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ دنیا و آخرت امام کا ملک ہے وہ جہاں چاہے اسے رکھے اور جس کے چاہے اسے سپرد کر دے۔

(3) کائنات کے جملہ حوادث ائمہ کے ارادہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں:

شیعہ کائنات کے اندر رونما ہونے والے ایسے حادثات و واقعات جن پر اللہ تعالیٰ کو ہی قدرت اور تصرف حاصل ہے کو اپنے ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں یعنی بادلوں کا گرجنا اور بجلی کا چمکنا وغیرہ سب کچھ ان کے عقیدہ کے مطابق ان کے ائمہ کے حکم سے ظہور پذیر ہوتا ہے ان کے امام مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں ایک روایت نقل کی ہے۔ کہتا ہے:

عن سماعة بن مهران قال: كنت عند ابی عبدالله عليه السلام فأرعدت السماء وأبرقت فقال: ابو عبدالله عليه السلام: اما انه ما كان من هذا الرعد ومن هذا البرق فانه من امر صاحبكم قلت: من صاحبنا؟ قال: امیر المؤمنين عليه السلام۔ 

(بحار الانوار جلد 27 صفحہ 33)۔

سماعه بن مہران کا بیان ہے کہ میں ابو عبداللہ (سیدنا جعفر صادقؒ) کے پاس موجود تھا اسی دوران آسمان پر گرج چمک ہوئی تو ابو عبداللہ نے فرمایا: یہ جو گرج چمک ہوتی ہے اس کا امر تمہارے مولیٰ کی طرف سے جاری ہوتا ہے میں نے عرض کیا: ہمارا مولا کون ہے؟ فرمایا: امیر المؤمنین سیدنا علیؓ۔

(4) ائمہ بادلوں پر سوار ہوتے ہیں:

یہ عقیده شیعہ امامیہ اور شیعہ نصیریہ کا متفقہ عقیدہ ہے اس کی تفصیل آپ آگے پڑھیں گے شیعوں کے امام مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں مندرجہ ذیل روایات سے اسے ثابت کیا ہے:

ان علياؓ أوما الى سحابتين فاصبحت كل سحابة كانه بساط موضوع فركب على سحابة بمفرده وركب بعض اصحابه على الأخرى وقال فوقها انا عين الله فی ارضه انا لسان الله الناطق فی خلقه انا نور الله الذى لا يطفأ انا باب الله الذی يؤتى منه وحجته على عباده۔

(بحار الانوار جلد 27 صفحہ:34)۔

 سیدنا علیؓ نے دو بادلوں کی طرف اشارہ کیا تو ہر ایک بادل تیار شدہ بچھونا نظر آنے لگا چنانچہ ایک بادل پر سیدنا علیؓ تنہا سوار ہو گئے جبکہ دوسرے پر ان کے بعض ساتھی سوار ہوئے سیدنا علیؓ نے بادل پر سوار ہو کر کہا: میں زمین پر اللہ کا وجود ہوں خلقِ خدا میں میں اللہ کی لسان ناطق ہوں میں اللہ کا نہ بجھنے والا نور اس کی طرف کھلنے والا دروازہ اور بندگانِ خدا پر اس کی حجت ہوں۔

(5) ائمہ غیب دان ہیں:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ غیب کا علم رکھتے ہیں ان کے عالم کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک باب اس عنوان کے ساتھ قائم کیا ہے:

باب أن الأئمة عليہم السلام يعلمون متى يموتون وانهم لا يموتون الا باختيار منهم۔

یعنی اس عقیدہ کا بیان کہ ائمہ کو اپنے وقتِ اجل کا علم ہوتا ہے اور انہیں موت بھی ان کی رضامندی کے ساتھ آتی ہے۔

اسی طرح امام کلینی نے ایک دوسرا باب اس عنوان کے ساتھ باندھا ہے:

باب أن الآئمة عليہم السلام يعلمون علم ما كان وما يكون وانه لا يخفى عليهم شیء۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ ائمہ علی ان کو زمانہ گزشتہ اور آئندہ کے جملہ حالات کا علم ہوتا ہے ان سے کوئی بھی شئ مخفی اور پوشیدہ نہیں ہوتی۔

نیز ان کے امام مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں صادق علی نام سے ایک جھوٹی باطل اور مَن گھڑت روایت نقل کی ہے جس کے مطابق امام موصوف کا فرمان ہے:

والله القد اعطينا علم الأولين والآخرين فقال رجل من اصحابه جعلت فداك أعندكم علم الغيب؟ فقال له: ويحك انی لأعلم ما فی اصلاب الرجال وأرحام النساء۔

(بحار الانوار جلد: 26 صفحہ: 28،27)۔ 

اللہ کی قسم! ہمیں اولین و آخرین کا علم عطا کیا گیا ہے آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں کیا آپ کے پاس علم الغیب ہے؟ آپ نے اس سے کہا: تیرے لیے افسوس ہے مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ مردوں کی صلبوں میں اور عورتوں کے رحموں میں کیا پوشیدہ ہے۔

(6) ان کے ائمہ پر وحی نازل ہوتی ہے:

شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد ان کے ائمہ پر جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے وحی الہٰی نازل ہوتی ہے بلکہ ان کے پاس جبرائیل علیہ السلام سے بھی بڑھ کر صاحبِ فضیلت و عظمت فرشتہ بھی وحی لا کر اترتا ہے ائمہ اسی وحی کی بنیاد پر قانون سازی کرتے اور غیبی امور تک رسائی حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں قیامت تک نمودار ہونے والے تمام احوال و واقعات کا علم ہو جاتا ہے یہ عقیدہ متعدد روایات کے ساتھ شیعی کتب احادیث و تفاسیر میں جگہ جگہ لکھا ہوا موجود ہے محمد بن الحسن الصفار متوفی 290ھ شیعی امام ہے جسے شیعوں کے نزدیک اپنے گیارہویں امام معصوم کے ہم نشین ہونے اور قدیم ترین محدث ہونے کا اعزاز حاصل ہے مزید بریں یہ ان کے حجۃ الاسلام امام کلینی کا بھی معلم اور مرشد ہے اسی امام صفّار نے اپنی دس اجزاء پر مشتمل ضخیم کتاب بصائر الدرجات الکبریٰ میں ایسی بے شمار و لاتعداد روایات نقل کی ہیں جن سے وہ اپنے ائمہ پر ملائکہ کرام کے ذریعہ سے نزول وحی کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے اس کتاب کی آٹھویں جلد میں سولہواں باب اس عنوان کے ساتھ موجود ہے:

باب فی امير المؤمنين ان الله ناجاه بالطائف وغيرها ونزل بينہما جبريل۔

اس عقیدہ کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین (سیدنا علیؓ) سے طائف اور دیگر مقامات پر سرگوشی فرمائی تھی اس وقت جبرائیل علیہ السلام بھی ان دونوں کے درمیان موجود تھے۔

اس باب کے ذیل میں تقریباً دس روایات کو نقل کیا گیا ہے ان میں ایک روایت ذیل میں درج کی جاتی ہے:

عن حمران بن اعین قال: قلت لابی عبدالله عليه السلام: جعلت فداك بلغنی ان الله تبارك وتعالىٰ قد ناجى عليا عليه السلام؟ قال: أجل قد كان بينهما مناجاة بالطائف نزل بينهما جبريل انتهى۔

(بصائر الدرجات الكبرى جلد 8 باب 16 صفحہ 430 مطبوعه ایران

حمران بن اعین کا بیان ہے کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ (سیدنا جعفر صادقؒ) سے عرض کیا: میری روح و بدن آپ پر نثار ہو جائے کیا مجھ تک پہنچنے والی یہ بات درست ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا علیؓ سے سرگوشی فرمائی تھی؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! واقعتاً ان دونوں کے درمیان میں طائف میں سرگوشی ہوئی تھی ان کے درمیان جبریل علیہ السلام موجود تھے۔

پھر وحی کا یہ معاملہ صرف سیدنا علیؓ بن ابنِ طالب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ شیعہ اثناء عشریہ کے تمام ائمہ اس امتیاز میں ان کے ساتھ شریک ہیں جیسا کہ صفار نے اپنی کتاب بصائر الدرجات کی نویں جلد میں ایک عنوان قائم کیا ہے:

الباب الخامس عشر فی الأئمة عليہم السلام ان روح القدس يتلقاهم اذا احتاجوا اليه بصائر الدرجات الكبرى۔(جلد: 9 باب: 15)۔

پندرہواں باب اس حقیقت کے بیان میں کہ ائمہ کو جب بھی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو روح القدس ان کے پاس تشریف لاتے ہیں۔

اس باب کے تحت اندازاً تیرہ روایات مذکور ہوتی ہیں ان میں سے چند ایک روایات پیشِ خدمت ہیں:

عن اسباط عن ابی عبدالله جعفر انه قال: قلت تسألون عن الشیء فلا يكون عندكم علمه؟ قال: ربما كان ذلك قلت: كيف تصنعون؟ قال: يلقانا به روح القدس۔

اسباط کا بیان ہے کہ میں نے ابو عبدالله جعفر صادقؒ سے دریافت کیا کہ کبھی یہ بھی ہو جاتا ہے کہ آپ سے کوئی سوال پوچھا جائے اور آپ کے پاس اس کا جواب موجود نہ ہو؟ آپ نے فرمایا: بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے میں نے عرض کیا: تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں؟ فرمایا: روح القدس ہمارے پاس اس سوال کا جواب لے آتے ہیں۔

عن ابی عبدالله انه قال: انا لنزاد فى الليل والنهار ولولم نزد لنفد ما عندنا قال ابوبصير: جعلت فداك من يأتيكم به؟ قال: ان منا من يعاين وان منا من ينقر فی قلبه كيت وكيت وان منا لمن يسمع بأذنه وقعا كوقع السلسلة فی الطست قال: فقلت له من الذی ياتيكم بذلك قال: خلق اعظم من جبريل و ميكائيل۔ 

(بصائر الدرجات الكبرىٰ جلد: 5 باب: 7 صفحہ 252)۔

ابوبصیر کا بیان ہے کہ ابو عبداللہ (جعفر صادقؒ) نے فرمایا ہے کہ ہمیں دن رات توشہ ملتا رہتا ہے نہ ملے تو ہمارے پاس موجود سب کچھ ختم ہو جائے ابوبصیر کہتا ہے میں نے عرض کیا: میں قربان جاؤں آپ کے پاس یہ توشہ کون لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہم میں سے کچھ تو اس کا آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں بعض کے دلوں میں ان باتوں کو نقش کر دیا جاتا ہے اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں تھالی میں گرنے والی زنجیر کی آواز کی طرح آواز سنائی دیتی ہے۔ ابوبصیر کہتا ہے میں نے عرض کیا: آپ کے پاس یہ توشہ کون لاتا ہے؟ فرمایا: جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام سے بھی بڑی مخلوق۔ 

شیعوں کے مسلمہ حجۃ الاسلام کلینی نے بھی اپنی کتاب الکافی میں بھی درج ذیل عنوان کے تحت اس عقیدے کا اثبات کیا ہے:

باب الروح التی يسدد الله بها الآئمة عليہم السلام

یعنی اس روح کا بیان جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ائمہ کی راہنمائی فرماتا ہے۔

اس کے بعد یہ روایت نقل کی گئی ہے:

فعن اسباط بن سالم قال: سال رجل من اہل بيت ابی عبدالله عليه السلام عن قول الله عزوجل (وكذلك أوحينا اليك روحا من امرنا فقال: منذ ان انزل الله عزوجل ذلك الروح على محمدﷺ‎ ما صعد الى السماء وانه لفينا (وفی رواية) كان مع رسول اللهﷺ‎ يخبره ويسدده وهو مع الآئمة من بعدم انتهى۔

(کتاب اصول الکافی مؤلفه محمد بن يعقوب الكلينی كتاب الحجة: جلد 1 صفحہ 273 طبع طہران

اسباط بن سالم کا بیان ہے کہ ابو عبداللہ کے خانوادہ میں سے ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کے فرمان اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف روح کو اتارا ہے کہ متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: جب سے اللہ تعالیٰ نے اس روح کو محمدﷺ کی طرف نازل کیا ہے وہ بدستور ہمارے اندر موجود ہے آسمان کی طرف منتقل نہیں ہوا (ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں) یہ روح رسول اللہﷺ کے ہمراہ رہا آپ کو خبریں دیتا آپﷺ کی رہنمائی کرتا رہا آپﷺ کے بعد یہ روح ائمہ کے ساتھ موجود ہے۔

اسی طرح کلینی نے ہی اپنی اصول الکافی میں یہ روایت بھی وارد کی ہے:

عن ابی عبدالله قال: انى اعلم ما فی السماوات وما فی الارض واعلم ما فی الجنة والنار واعلم ما كان وما يكون۔

(الکافی جلد 1 صفحہ 261 مطبوعه ایران

مجھے آسمان زمین جنت جہنم اور ماضی زمانہ اور مستقبل کے تمام تر احوال اور کوائف کا مکمل علم ہے۔

نیز شیعہ عالم الحر العاملی نے اپنی کتاب الفصول المهمة فی اصول الائمہ میں یہ لکھا ہے: ان الملائكة ينزلون ليلة القدر الى الارض ويخبرون الأئمة عليہم السلام بجميع ما يكون فی تلك السنة من قضا وقدر وانهم يعلمون علم الانبياء عليہم السلام۔

(الفصول المہمة فی أصول الائمة باب 94 صفحہ 145)۔ 

فرشتے لیلۃ القدر کے موقع پر زمین پر اترتے اور ائمہ کو اس سال کی تقدیر قضاء سے مطلع کرتے ہیں بالیقین الائمہ الانبیاء علیہم السلام کے علوم سے آگاہ ہوتے ہیں۔

(7) اللہ کا نور سیدنا علیؓ میں حلول ہوتا ہے:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کا کچھ حصہ سیدنا علیؓ کی ذات کے ساتھ متحد ہوگیا ہے ان کے امام کلینی نے اپنی کتاب اصول الکافی میں اس عقیدہ کی درج ذیل روایت کے ساتھ صراحت کی ہے:

قال: ابو عبدالله ثم مسحنا بيمينه فافضی نوره فينا وقال ايضا ولكن الله خلطنا بنفسه۔ 

(اصول الكافی: جلد 1 صفحہ 440)۔

ابو عبداللہ جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ سے ہمیں لمس فرمایا اس طرح اس نے اپنے نور کو ہم میں منتقل کردیا ، ابو عبدالله نے یہ بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ذات کے ساتھ یکجا کر دیا۔

(8) مکلفین کے اعمال آئمہ پر پیش کیئے جاتے ہیں:

اسی طرح شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ مکلفین کے جملہ اعمال ہر دن اور رات آئمہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں یہ عقیدہ شیعوں کے امام اور حجۃ کلینی نے اپنی کتاب اصول الکافی میں درج شدہ اس روایت سے ثابت کیا ہے:

عن الرضا عليه السلام ان رجلا قال له: ادع الله لی ولأھل بيتی فقال: اولست أفعل؟ والله ان اعمالكم لتعرض على فی كل يوم وليلة۔

(اصول الكافی : جلد 1 صفحہ 219)۔

رضا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ آپ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے دعا کریں آپ نے کہا: کیا خیال ہے میں تمہارے لیے دعا نہیں کیا کرتا؟ اللہ کی قسم تم سب لوگوں کے اعمال ہر دن اور ہر رات میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔