شیعوں سے نکاح و قرابت داری کرنے، ان سے میل جول اور اختلاط رکھنے کا حکم اور جو شخص شیعوں کے ساتھ نکاح و قرابت کرتا ہے اور ان کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے اور ان کے ساتھ کھاتا پیتا ہے اس کی امامت کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید سنی العقیدہ ہے اور ایک مسجد میں پیش امام ہے، اس کی شادی سنی العقیدہ شخص کے یہاں ہوئی ہے، زید کی بیوی بھی سنی العقیدہ ہے، زید کی بڑی سالی کا نکاح ایک شیعہ کے ساتھ ہوا ہے، اور ابھی زید کے خسر نے اپنی دو لڑکیوں کی شادی سنی العقیدہ کے ساتھ کی، ان شادیوں میں پیش امام اور ان کا ہم زلف جو کہ شیعہ ہے مع اہل و عیال شریک رہے۔
کیا ایسے شخص کے پیچھے باوجود سنی ہونے کے شیعوں میں قرابت داری کرے نماز جائز ہے؟
جواب: شیعوں اور بد مذہبوں سے نکاح و قرابت داری کرنا اور اس کی بناء پر ان سے میل جول اور اختلاط و رشتہ داروں کی طرح کرنا ممنوع و خلافِ شرع ہے۔ حدیث شریف میں ہے
ان اللہ اختارني و اختار لی اصحابا و اصهارا وسيأتى قوم يسبونهم وينقصونهم فلا تجالسوهم ولا تشاربوهم ولا تؤاكلوهم ولا تناكجوهم
ترجمہ: یعنی بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو منتخب کیا اور میرے لئے اصحاب خویش و اقارب منتخب کئے اور عنقریب ایک قوم آئے گی جو انہیں گالیاں دے گی اور ان کی تنقیص شان کرے گی، پس تم ان کے پاس مت بیٹھو، اور ان کے یہاں مت کھاؤ پیو، اور ان کے ساتھ مت نکاح کرو۔ اس حدیث شریف سے تمام بد مذہبوں سے عموماً اور شیعوں سے خصوصاً نکاح و قرابت داری کرنے، ان سے میل جول اور اختلاط رکھنے کی مخالفت ثابت ہو گئی اور زید کو اگرچہ سنی العقیدہ ہے وہ اگر شیعوں کے ساتھ نکاح و قرابت کرتا ہے اور ان کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے اور ان کے ساتھ کھاتا پیتا ہے اور ان سے قرابت کی بناء پر میل جول کرتا ہے تو وہ کھلی ہوئی حدیث شریف کی مخالفت کرتا ہے، جو اس کے فسق کو مستلزم ہے، پھر جبکہ اس کا یہ فسق ظاہر ہو گیا تو اس کے پیچھے نماز مکروہ واجب الاعادہ ہے۔
(فتاویٰ اجمليہ: جلد، 1 صفحہ، 274)