شیعہ اور قرآن کریم
الشیخ ممدوح الحربیشیعہ اور قرآنِ کریم
ہم اس بحث میں شیعہ اور قرآنِ کریم کا درج ذیل بنیادوں پر تذکرہ کریں گے۔
پہلا مقصد:
متقدمین شیعی علماء اور قرآنِ کریم کے محرف ہونے پر ان کا اتفاق۔
دوسرا مقصد:
متاخرین شیعی علماء اور قرآنِ کریم کی تحریف کی بابت ان کے اقوال۔
تیسرا مقصد:
قرآنِ کریم کی تحریف کے مدعی متقدمین و متاخرین شیعی علماء کے نام۔
چوتھا مقصد:
اکابر شیعی علماء کی شیعوں کے محدث اول محمد بن یعقوب الکلینی کے متعلق معتبر گواہی کہ وہ قرآنِ کریم کے محرف ہونے کا مدعی اور معتقد تھا۔
پانچواں مقصد:
اکابر شیعی علماء کے بیانات کہ قرآنِ کریم پر حرف گری کرنے والی روایات تواتر اور شہرت کے درجے پر فائز ہیں۔
چھٹا مقصد:
شیعہ امامیہ کے زعم کے مطابق قرآنِ کریم کی تعریف کے انواع و اقسام۔
ساتواں مقصد:
اس سوال کا جواب کہ شیعہ حضرات اس قرآن کی تلاوت کیوں کرتے ہیں جو اہلِ سنت کے پاس موجود ہے حالانکہ وہ اسے ناقص اور محرف تسلیم کرتے ہیں؟۔
آٹھواں مقصد:
شیعہ حضرات کی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی مغالطہ اور دھوکے پر مبنی تفسیروں کی مثالیں۔
پہلا مقصد:
متقدمین شیعی علماء اور قرآنِ کریم کے محرف ہونے پر ان کا اتفاق:
شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ جو قرآنِ کریم اس وقت اہلِ اسلام کے پاس موجود ہے یہ وہ قرآن قطعاً نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے محمدﷺ پر نازل فرمایا تھا بلکہ اس میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہو چکی ہے اور یہ رد و بدل اور تغیر خود رسول اللہﷺ کے ان اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سرزرد ہوا جنہوں نے شیعوں کے عقیدے کے متعلق آلِ محمد کے حقوق کو غصب کیا۔ شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان آیات کو حذف کر دیا جو اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب و فضائل اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عیوب و نقائص پر مشتمل تھیں اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی دوسری آیات کو شیعوں کے بقول قرآن کریم سے حذف کر دیا یہاں تک کہ منزل من الله قرآن کریم کا صرف ایک تہائی حصہ باقی بچ گیا ہے اس کے مد مقابل ان کا یہ دعویٰ ہے کہ کامل قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے اتارا تھا جو ہر قسم کی تحریف سے محفوظ و مامون ہے وہ ان کے بارہویں امام غائب محمد بن حسن عسکری کے پاس موجود ہے۔ اور اسے ان کے عقیدے کے متعلق سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے جمع کیا تھا یہ عقیدہ تمام متقدمین و متاخرین شیعی علماء کا متفقہ عقیدہ ہے چند گنے چنے شیعی امامیہ علماء نے اس عقیدے کی مخالفت کی اور برملا کہا ہے کہ قرآنِ کریم میں تحریف کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ قرآنِ کریم میں تغیر و تبدل تحریف اور اس کے ناقص ہونے کا نظریہ قدیم شیعی علماء کا متفقہ نظریہ ہے ان سب نے اپنی مؤلفات میں اس عقیدے کی صراحت کی ہے اور اپنے ائمہ کی طرف منسوب ایسی روایات سے اپنی کتابوں کو بھر دیا ہے جن سے قرآنِ کریم میں تحریف کا ثبوت ملتا ہے اس اجماع سے صرف چند افراد نے اختلاف کیا ہے مشہور شیعی امام نوری طبرسی اپنی کتاب فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب میں ان افراد کی تعداد بیان کرتا ہے کہ وہ صرف چار اشخاص ہیں میں یہاں متقدمین شیعی علماء کے اقوال اور ان کے ائمہ کی بعض روایات کو ان کی مشہور و معتمد کتابوں میں سے نقل کرنا چاہتا ہوں جن میں قرآنِ کریم میں تحریف رد و بدل اور نقص کے دعوے کی صراحت ملتی ہے۔ تاکہ یہ شیعوں کے اس فاسد اس اجماعی عقیدے کے متعلق آگاہ کرنے والے اہلِ سنت کے اعتراض کے لیے قوی دلیل بن جائے کہ یہ ان کے اپنے اقوال ہیں اور خود ان کی اپنی تصریحات ہیں انہیں دوسروں سے نقل نہیں کیا گیا لہٰذا یہ مسلمہ کلیہ ہے کہ کسی بھی انسان کے دعویٰ اور عقیدے کو پہنچاننے کے لیے دوسروں کے قول کی بجائے خود مدعی کا اپنا قول قوی ترین دلیل ہوتا ہے۔
شیعی علماء جو تحریف قرآن کے مدعی ہیں:
محمد بن حسن صفار:
اس نے اپنی مشہور کتاب بصائر الدرجات میں ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:
باب فی الأئمة أن عندهم جميع القرآن انزل على رسول الله۔
یعنی اس عقیدے کے بیان میں کہ ائمہ کے پاس وہ قرآن مکمل طور پر موجود ہے جسے رسول اللہﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔
پھر اس باب کے تحت وہ ایسی روایات و اخبار کو نقل کرتا ہے جن میں قرآنِ کریم میں تحریف کے واقع ہونے کی تصریح موجود ہے جیسا کہ اس نے ابوجعفر کا یہ قول نقل کیا ہے:
ما يستطيع احد ان يدعى انه جمع القرآن غير الاوصياء ای غير الأئمة۔
ائمہ کے علاؤہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب نہیں کہ اس نے قرآن کو جمع کیا ہے۔
اس کے علاؤہ اس نے اپنی سند کے ساتھ سالم بن ابی سلمہ سے بیان کیا ہے:
قال قراء رجل على ابی عبدالله عليه السلام وانا اسمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرأها الناس فقال ابو عبدالله مه مه كف عن هذه القراة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فاذا قام فقرأ كتاب الله على حده واخرج المصحف الذی كتبه على عليه السلام۔
(بصائر الدرجات الكبرى فضائل آلِ محمد: جلد 4 صفحہ 413)۔
سالم بن ابی سلمہ کہتا ہے کہ ایک شخص نے میری موجودگی میں ابو عبداللہ کے سامنے قرآن کی چند آیات تلاوت کیں میں اس کی قراءت کو سن رہا تھا مگر یہ قراءت اس طرح کی نہیں تھی جو عام لوگ کیا کرتے ہیں چنانچہ ابوعبداللہ نے فرمایا: رکو رکو اس طرح نہ پڑھو! بلکہ عام لوگوں کی طرح قراءت کرو یہاں تک کہ امام منتظر کا ظہور ہوجائے پس جب ابوعبداللہ تنہا ہوتے قیام کرتے اور قراءت کرنے لگتے تو اس مصحف کو نکال لیتے جسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا پھر اس کے مطابق قراءت کیا کرتے۔
ابونصر محمد بن مسعود المعروف عیاشی:
اس کا شمار بھی ان شیعی علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مؤلفات کو ایسی روایات سے بھر دیا ہے جن سے قرآن کریم میں تحریف کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے اپنی تفسیر کی کتاب میں اپنے ائمہ کی طرف منسوب روایات کی بہتات کر دی ہے جن سے معاذ الله یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کا بہت سارا حصہ ضائع ہو گیا ہے یا اس میں زیادتی کا ارتکاب ہوا ہے۔ انہی روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:
عن ابراهيم بن عمر قال: قال ابو عبدالله عليه السلام ان فی القرآن ما مضى وما يحدث وما هو كائن، كانت فيه اسماء والرجال فالقيت وانما الاسم الواحد منه في وجوه لا تحصى يعرف ذلك الوصاة۔
(تفسير العياشی: جلد 1 صفحہ 12)۔
ابراہیم بن عمر کا بیان ہے کہ ابوعبداللہ نے فرمایا کہ: قرآن میں زمانہ ماضی حال اور آئندہ کے تمام واقعات موجود ہیں اس میں لوگوں کے نام بھی مذکور تھے جنہیں حذف کر دیا گیا حالانکہ ان میں سے اکیلے ایک ہی نام کے بے شمار پہلو تھے جنہیں ائمہ ہی جانتے ہیں۔
ایک روایت اس طرح ہے:
لولا انه زيد فی كتاب الله ونقص منه ما خفی حقنا على ذی حجى۔
اگر کتاب اللہ میں کمی اور زیادتی نہ ہو چکی ہوتی تو عقلمندوں سے ہمارے حقوق کبھی بھی اوجھل نہ ہوتے۔
اس روایت میں کتاب اللہ میں کمی اور زیادتی کے واقع ہونے کی کھلی صراحت موجود ہے ایک روایت یہ بھی ہے جسے اس نے اپنی سند کے ساتھ ابوبصیر سے نقل کیا ہے:
قال: قال ابو جعفر بن محمد خرج عبدالله بن عمر من عند عثمان فلقی امیر المؤمنين صلوات الله عليه فقال له: يا على بيتنا الليلة فی امر نرجوا ان يثبت الله هذه الامة فقال امير المؤمنين لن يخفى على ما بيتم فيه حرفتم وغيرتم وبدلتم تسعمائة حرف ثلاث مائة حرفتم وثلاثمائة حرف غيرتم وثلاثمائة بدلتم ثم قرأ: فويل للذين يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله۔
ابوبصیر کا بیان ہے کہ ابوجعفر بن محمد نے فرمایا کہ عبداللہ بن سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ کے ہاں سے اٹھے اور جا کر حضرت امیر المومنین علیؓ سے ملاقات کی اور ان سے کہا: اے علیؓ! ہم نے رات کو ایک تدبیر طے کی ہے ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے امت کو مضبوطی اور استحکام عطا فرمائے گا امیر المؤمنین نے فرمایا: مجھ سے تمہارا رات والا منصوبہ مخفی نہیں ہے تم نے تو نو سو کلمات میں تحریف تغیر اور تبدیلی کا ارتکاب کیا ہے تین سو کلمات میں تم نے تحریف کی ہے تین سو کلمات کو تم نے بدلا ہے اور تین سو کلمات میں تم نے تغیر کر دیا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں۔
ان روایات کے علاؤہ عیاشی نے بہت ساری دوسری روایات اپنی تفسیر میں درج کیں ہیں ان سب میں قرآن کریم میں تحریف واقع ہونے کی واضح صراحت موجود ہے ان کو پڑھنے سے اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ عیاشی بھی تحریف کا قائل اور معتقد تھا۔ اس لیے کہ اس قدر کثرت سے ان روایات کو بیان کر دینا بذات خود اس امر کی دلیل ہے کہ مؤلف ان کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے مفہوم و مدلول سے پوری طرح متفق ہے اس نے کسی بھی مقام پر ان روایات کے متعلق رتی برابر بھی تنقید نہیں کی حالانکہ ان روایات کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی ذات بھی عیب دار ہوتی نظر آتی ہے کہ انہوں نے جانتے بوجھتے اس خلاف شریعت فعل پر سکوت اختیار کر لیا اور اس کو بدلنے کی ذرہ برابر سعی نہ فرمائی۔
علی بن ابراہیم القمی:
یہ کلینی کا استاد قرآن کریم میں تحریف کا مشہور ترین مدعی اور اس باب میں کثرت سے حصہ لینے والا فرد ہے اس کی تفسیر تحریف کو ثابت کرنے والی روایات سے لبریز ہے نہ صرف یہی بلکہ اس نے اپنی تفسیر کے متعدد مقامات پر تحریفِ قرآن کا خود بھی دعویٰ کیا ہے اس نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں لکھا ہے:
فالقرآن منه ناسخ ومنسوخ ومنه حرف مكان حرف ومنه على خلاف ما انزل الله۔
قرآن میں ناسخ آیات بھی ہیں اور منسوخ بھی اس میں ایک کلمے کی بجائے دوسرا کلمہ بھی لایا گیا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تنزیل کے خلاف بھی آیات ہیں۔
اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
واما ما كان على خلاف ما انزل الله فهو قوله (كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ) (سوره آل عمران: 110) فقال ابو عبدالله لقارئ هذه الآية خير امة يقتلون امير المؤمنين والحسن والحسين ابنا على عليه السلام فقيل له: وكيف نزلت يابنِ رسول الله؟ فقال: انما نزلت كنتم خير أئمة اخرجت للناس وقال ايضاً وأما ما كان محرفا منه فهو قوله تعالیٰ (لٰـكِنِ اللّٰهُ يَشۡهَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَيۡكَ اَنۡزَلَهٗ بِعِلۡمِهٖ ۚ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ يَشۡهَدُوۡنَ)
(سورة النساء: 166 ، تفسير القمی: جلد 1 صفحہ 5)۔
اللہ تعالیٰ کے نازل شدہ فرمان کے خلاف کی مثال الله تعالیٰ کا یہ فرمان ہے تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ایک شخص نے اس آیت کی تلاوت کی تو دیدنا ابو عبداللہؓ نے اس سے کہا یہ بہترین امت ہے جس نے امیر المومنین کو قتل کر ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو بھی شہید کر دیا عرض کیا گیا: اے نواسہ رسول تو یہ آیت کس طرح سے نازل ہوئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ آیت اس طرح نازل کی گئی ہے تم بہترین ائمہ ہو جنہیں لوگوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے کلینی کا استاد قمی قرآنِ کریم میں تحریف شدہ آیت کی مثال دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اس طرح نازل کیا گیا تھا جو کچھ آپ کی طرف سیدنا علیؓ کے متعلق اتارا گیا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں (جسے معاذ الله صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بدل ڈالا ہے)۔
شیعی امام قمی نے اپنی تفسیر میں اس طرح کی بےاصل اور من گھڑت روایات کو جمع کر دیا ہے، مذکورہ بالا روایت کے مطابق اس آیت میں فی علی کے کلمات شیعوں کی طرف سے زائد ہیں۔ قرآن کریم میں زیادتی و اضافات کی مثالیں ویسے تو تمام شیعی کتب میں موجود ہیں، مگر قمی کی تفسیر کو اس باب میں خاص امتیاز حاصل ہے جس سے اس بات کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ قمی کا شمار بھی انہی شیعی علماء میں ہوتا ہے جو قرآن کریم میں تحریف کے داعی ہیں ان کے کئی ایک علماء نے بھی ہمارے اس مؤقف کی تائید کی ہے مثلاً طیب موسیٰ الجزائری نے تفسیر قمی کی مدح سرائی کرتے ہوئے تحریف القرآن کے عنوان کے تحت لکھا ہے
بقى شیء يهمنا ذكره وهو ان التفسير كغيره من التفاسير القديمة يشتمل على روايات مفادها ان المصحف الذی بين ايدينا لم يسلم من التحريف والتفسير وجوابه انه لم ينفرد المصنف بذكرها بل وافقه فيه من المحدثين المتقدمين والمتاخرين عامة وخاصة۔
(مقدمة طيب موسىٰ الجزائری على تفسير القمی جلد 1 صفحہ 22)۔
ایک قابلِ ذکر بات رہ گئی ہے وہ یہ کہ تفسیر قمی یوں تو قدیم تفاسیر کی طرز پر ہے مگر یہ ایسی روایات پر زیادہ مشتمل ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے پاس موجود ہے یہ تحریف و تغیر سے محفوظ نہیں ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان روایات کے بیان کرنے میں مصنف منفرد نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متقدمین اور متاخرین خاص اور عام سبھی محدثین کا اتفاق ہے۔
محمد بن یعقوب الکلینی:
اس کا شمار ان کبار شیعی علماء میں سے ہوتا ہے جنہوں نے تحریف کے قول اور دعویٰ کی بنیاد ڈالی اور اس میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے اپنی کتاب الکافی جسے شیعہ بلا شرکت غیرے اصح الكتب قرار دیتے اور اپنے دینی امور میں اسے معتمد سمجھتے ہیں میں ایسی روایات کثیر تعداد میں جمع کر دی ہیں جن میں قرآنِ کریم کی تحریف کے متعلق صاف اور صریح دلالت موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی تأویل یا تشریح کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ روایات کتاب کے مختلف مقامات پر مذکور ہیں ان میں سے چند ایک کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
کلینی نے ایک باب قائم کیا ہے کہ مکمل قرآن ائمہ نے جمع کیا ہے اور صرف ائمہ ہی قرآنِ کریم میں بیان شدہ علوم کو جانتے ہیں اس عنوان کے تحت اس نے اپنی سند کے ساتھ درج ذیل روایات نقل کی ہیں:
فعن جابر قال: سمعت ابا عبدالله عليه السلام يقول: ما ادعى احد من الناس انه جمع القرآن كله كما انزل الله الا كذاب وما جمعه وحفظه كما نزل الله تعالیٰ الا على بن ابى طالب علیه السلام والأئمه بعده۔
جابر (جعفی) کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا ابو عبداللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگوں میں سے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے قرآن کو اس کے نزول کے مطابق جمع کیا ہے تو وہ کذاب ہے اس لیے کہ نزول کے مطابق قرآن کو صرف سیدنا علیؓ نے اور ان کے بعد آنے والے آئمہ نے ہی محفوظ اور جمع کیا ہے۔
اسی طرح کلینی نے قرآن میں ولایت کے متعلق لطائف و نکات کے بیان کے تحت بھی بہت ساری روایات کو درج کیا ہے۔ انہی میں سے ایک روایت میں اس کی اپنی سند کے ساتھ ابو عبداللہؓ کا یہ قول مذکور ہے:
عن جابر الجعفى عن ابی عبدالله عليه السلام قال: نزل جبريل عليه السلام بهذه الآية على محمد صلى الله عليه وآله وسلم هكذا بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فی علی بَغۡيًا۔
جابر بھی کا بیان ہے کہ ابو عبداللهؓ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے اس آیت (بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بَغۡيًا) کو در حقیقت محمدﷺ پر یوں نازل کیا تھا بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فی علی بَغۡيًا یعنی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے کہ انکار کرتے ہیں اس (کلام) کا جو اللہ نے سیدنا علیؓ کے متعلق نازل کیا ہے۔ (سورة بقرہ: 90)۔
اس روایت میں فی علی کے الفاظ اس قرآن میں قطعاً نہیں ہیں جسے محمدﷺ پر نازل کیا گیا ہے یہ شیعہ کے اپنے زیادہ کردہ اور من گھڑت الفاظ ہیں۔
اسی طرح کلینی نے اپنی سند کے ساتھ ابو عبداللہؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: نزل جبريل بهذه الآية هكذا يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نزلت فی على نورا مبينا اصول الكافی۔
(كتاب الحجة: جلد 1 صفحہ 417)۔
جبریل علیہ السلام نے قرآن کی اس آیت کو ان الفاظ میں اتارا تھا اے وہ لوگو! جنہیں کتاب عطا کی گئی ہے تم علی کے متعلق اتارے گئے میرے نور مبین پر ایمان لاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس بھی انسان کو قرآنِ پاک کے ساتھ تھوڑا سا مس ہے وہ جانتا ہے کہ کلینی کے بیان کردہ الفاظ قطعی طور پر قرآن کے الفاظ نہیں ہیں اگر وہ اپنی ذکر کردہ آیت سے سورۃ نساء کی آیت مراد لینا چاہتا ہے تو یہ آیت بھی اس کی بیان کردہ روایت میں مذکور الفاظ سے یکسر مختلف ہے سورۃ نساء کی آیت اس طرح ہے يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّـطۡمِسَ وُجُوۡهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰٓى اَدۡبَارِهَاۤ (سوره نساء : 47) اے وہ لوگو! جنہیں کتاب مل چکی ہے اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے تصدیق کرنے والی اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مٹا ڈالیں اور چہروں کو ان کے پیچھے کی جانب الٹا دیں۔
ابو عبداللہ محمد بن النعمان، ملقب به شیخ مفید:
اس نے بھی قرآن کریم میں تحریف اور تغیر کے وقوع کی صراحت کی ہے۔ اس نے اپنی کتاب اوائل المقالات میں باب قائم کیا ہے القول فی تاليف القرآن وما ذكر قوم فيه من الزيادة والنقصان یعنی قرآن کے جمع اور قوم (شیعہ) کے اس میں زیادتی اور نقصان کے دعویٰ کا بیان اس کے بعد شیخ مفید لکھتا ہے:
ان الاخبار قد جاءت مستفيضة عن أئمة الهدى من آل محمد باختلاف القرآن وما احدثه بعض الظالمين من الحذف والنقصان۔
آلِ محمدﷺ سے وابستہ آئمہ ہدیٰ سے وارد ہونے والی ایسی روایات زبان زد خلق ہیں کہ قرآن میں اختلاف موجود ہے اور اس میں کچھ ظالموں (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی طرف سے کانٹ چھانٹ اور نقصان کا صدور ہوا ہے۔(اوائل المقالات: صفحہ 93)۔
ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے:
واتفقوا على ان آئمة الضلال خالفوا فی كثير من تأليف القرآن وعدلوا منه عن موجب التنزيل وسنة النبیﷺ۔
(اوائل المقالات صفحہ 52)۔
شیعی ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گمراہی کے مقتداؤں نے قرآن کی جمع و تالیف کے موقع پر اکثر مقامات میں تنزیلِ الٰہی اور سنتِ نبویﷺ سے انحراف کیا ہے۔
دوسرا مقصد:
متاخرین شیعی علماء اور قرآنِ کریم کی تحریف کی بابت ان کے اقوال:
قرآنِ کریم کے متعلق متاخرین شیعہ کا مؤقف بالکل وہی ہے جو متقدمین شیعہ کے ہاں معروف ہے اس میں ان کے مابین ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں ہے سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو قرآن اس وقت لوگوں کے پاس موجود ہے یہ نامکمل ہے اس میں ان کے خیال کے مطابق قطع و برید اور تحریف ہو چکی ہے اگر ان میں کوئی فرق ہے بھی سہی تو وہ صرف اس قدر کہ ان میں سے ہر ایک کا اس متفقہ مؤقف کو ثابت کرنے کا اسلوب جداگانہ ہے۔ پرانے شیعی علماء قرآنِ کریم میں مزعومہ تحریف کو پوری بے باکی اور صراحت کے ساتھ ثابت کرتے ہیں اس کا ثبوت ان کے وہ اقوال ہیں جن کا ذکر سابقہ بحث میں گزر چکا ہے۔
متاخرین شیعہ میں سے کچھ نے تو بطور تقیہ اہلِ سنت کے اس عقیدہ کی تائید اور موافقت کی ہے کہ قرآنِ کریم تحریف سے پاک اور بالکل محفوظ ہے لیکن کچھ دوسرے اصحاب جن کی تعداد پہلے گروہ سے زائد ہے نے قرآنِ کریم کے متعلق اپنے متقدمین علماء کے مؤقف پر بدستور قائم ہیں، یہ کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس سلسلے میں وہ اپنے پیشرو علماء کے اقوال کو اور اپنے ائمہ کی طرف منسوب روایات کو بھی نقل کرتے ہیں انہوں نے اپنی کتابوں کو اس طرح کی روایات اور اقوال سے بھر دیا ہے۔
متاخرین شیعی علماء:
فیض الكاشانی:
اس نے قرآنِ کریم میں تحریف کی صراحت کی ہے اور اس حوالہ سے اس نے اپنے سے پہلے شیعی علماء کی کتب سے تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی بہت ساری روایات کو بھی نقل کیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنی تفسیر کے چھٹے مقدمہ میں ایک عنوان قائم کیا ہے:
فی نبذ مما جاء فی القرآن وتحريفه وزياداته ونقصانه وتاويل ذالك۔
قرآن میں تحریف اضافات نقص اور اس کی تاویل کا بیان اس عنوان کے تحت بہت ساری روایات کو اس نے اپنی کتاب میں وارد کیا ہے ان روایات میں ایک یہ روایت بھی ہے جسے علی بن ابراہیم القمی نے اپنی تفسیر میں درج کیا ہے:
عن ابی عبدالله ان رسول اللهﷺ قال لعلىؓ ان القرآن خلف فراشی ف الصحف والحرير والقراطيس فخذوه واجمعوه ولا تضيعوه
ابو عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: قرآن میرے بستر کے پیچھے صحیفوں ریشم اور کاغذوں میں موجود ہے اسے اٹھالو اور اسے جمع کرلو اور اسے ضائع نہ ہونے دو۔
اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فیض الکاشانی نے لکھا ہے:
اقول المستفاد من جميع هذه الأخبار وغيرها من الروايات من طريق اهل البيت ان القرآن الذی بين اظهرنا ليس بتمامه كما انزل على محمدﷺ بل منه خلاف ما انزله الله و منه ما هو مغير محرف وانه قد حذف منه اشياء كثيرة منها اسم على وفی كثير من المواضع ومنها لفظة آل محمدﷺ عليهم غير مرة ومنها اسماء المنافقين فی مواضعها ومنها غير ذلك وانه ليس ايضا على الترتيب المرضى عند الله وعند رسولهﷺ انتهى۔
(كتاب الصافی فی تفسير القرآن: جلد 1 صفحہ 24)۔
میں کہتا ہوں کہ ان اخبار اور ان کے علاؤہ اہلِ بیت سے مروی دوسری روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قرآن جو ہمارے درمیان موجود ہے یہ پورے کا پورا وہ قرآن نہیں جسے محمدﷺ پر نازل کیا گیا بلکہ اس میں اللہ کے اتارے گئے کلام کے خلاف بھی موجود ہے تبدیل شدہ اور تحریف شدہ آیات بھی ہیں اس میں سے بہت سی اشیاء کو خارج کر دیا گیا ہے سیدنا علیؓ کے نام کو بیشتر مقامات سے ہٹا دیا گیا ہے آلِ محمد کے الفاظ کو کئی مقامات سے حذف کیا گیا ہے منافقین کے ناموں کو تمام جگہوں سے ہٹا دیا گیا ہے اس کے علاؤہ دوسرے ردو بدل بھی کیے گئے ہیں پھر یہ قرآن اللّٰه اور اس کے رسولﷺ کی پسندیدہ ترتیب پر بھی قائم نہیں ہے یہ شیعہ کے ممتاز مذہبی عالم فیض الکاشانی کی طرف سے قرآنِ کریم میں تحریف کے دعویٰ کی کھلی صراحت ہے۔
الحر العالمى محمد بن الحسین:
یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں قرآنِ کریم میں تحریف کے صریح بہتان پر مشتمل روایات کو جمع کیا اور اپنی طرف سے ان روایات پر کسی قسم کے تبصرہ یا نقد کا اظہار تک نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایات اپنے تمام تر مدلولات سمیت اس کے نزدیک درست ہیں انہی روایات میں سے ایک روایت ہے جسے اس نے ابراہیم بن عمر کے واسطے سے ابو عبد اللہؓ نقل کیا ہے:
قال: ان فی القرآن ما مضى وما هو كائن وكانت فيه اسماء الرجال فالقيت وانما الاسم الواحد على وجوه لا تحضى يعرف ذلك الوصاة۔
(وسائل الشيعه: جلد 18 صفحہ 145)۔
(ابو عبداللہ) کہتے ہیں کہ قرآن میں زمانہ گذشتہ اور آئندہ کے اخبار و احوال موجود تھے (اس کے علاؤہ) اس میں لوگوں کے نام بھی مذکور تھے جنہیں حذف کر دیا گیا ہے، حالانکہ اکیلا ایک نام بھی بے شمار مطالب کا حامل تھا جن کی معرف صرف آئمہ کو حاصل ہوتی ہے۔
ابو الحسن العالمء النباطی:
اس نے اپنی کتاب "مرآۃ الانوارد مشکوۃ الاسرار" کے مقدمے میں متعدد مقامات پر قرآن میں تحریف کی صراحت کی ہے مثلاً وہ کہتا ہے:
اعلم ان الحق الذی لا محيص عنه بحسب الاخبار المتواتر الآتية وغيرها ان هذا القرآن الذى فى ايدينا قد وقع فيه بعد رسول اللهﷺ شیء من التغير واسقط الذين جمعوه بعده كثيرا من الكلمات والآيات وان القرآن المحفوظ عما ذكر الموافق لما انزله الله تعالىٰ ما جمعه على وحفظه الى ان وصل الى ابنه الحسن وهكذا انتهى الى القائم وهو اليوم عنده انتهى۔
(مقدمه مرآة الانوار ومشكوة الاسرار للبناطی)۔
معلوم رہے کہ درج ذیل متواتر روایات کے علاؤہ دوسری اخبار کی رو سے یہ نا قابلِ تردید سچ ہے کہ یہ قرآن جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے اس میں رسول اللہﷺ کے بعد ردو بدل واقع ہوا ہے رسول اللہﷺ کے بعد جن لوگوں نے اسے جمع کیا (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین)انہوں نے ہی اس کی بہت ساری آیات اور کلمات کو حذف کر دیا تاہم جو قرآن ان عیوب سے پاک اور تنزیلِ الٰہی سے موافق ہے وہ علی کا جمع کردہ ہے جو ان کے پاس محفوظ شکل میں تھا، ان کے بیٹے حسن تک پھر درجہ بدرجہ قائم (منتظر) تک پہنچا اور اس وقت یہ قرآن ان کے پاس محفوظ ہے۔
نوری طبرسی (حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی)
ان کا شمار متاخرین شیعی علماء کے اس مشہور و معروف گروہ سے ہے جو قرآن میں تحریف کا قائل اور مدعی ہے بلکہ یہ اس تحریک کا سب سے بڑا علمبردار اور نمایاں ترین کردار ادا کرنے والا شیعی عالم ہے اس نے نہایت درجہ کی جرات و بے باکی سے اس دعویٰ کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ تمام شیعوں کا متفقہ قول ہے اس اعتبار سے اس نے اپنی حقیقت کو اور اسلام کے خلاف اپنے باطن کو پوری طرح آشکار کر دیا ہے اس مقصد کے تحت اس نے فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب نامی کتاب لکھی ہے اس کتاب میں اس نے تحریف کے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوشش کو صرف کر ڈالا ہے اپنے ائمہ سے منقول روایات اور متقدمین کی تصریحات کے انبار لگا دینے کے بعد اس نے اپنی طرف سے ہرقسم کی عیارانہ تشریحات کو بطورِ استدلال کے پیش کیا ہے۔ اس کے علاؤہ اس نے اپنی کتاب میں قرآن میں تحریف کے منکر شیعی علماء کی گرفت کی ہے اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا ہے ساتھ ہی انہیں اس مؤقف کے اختیار کرنے پر سخت ملامت بھی کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ تحریفِ قرآن کے مؤقف کو ہی اختیار کریں ، کتاب کا مؤلف یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مکروہ اور خبیث عمل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قرب کا مستحق بن سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے:
وبعد فيقول العبد المذنب المسئى حسين تقى النوری الطبرسی) جعله الله من الواقفين ببابه المتمسكين بكتابه هذا كتاب لطيف وسفر شريف عملته فی اثبات تحريف القرآن وفضائح اهل الجور والعدوان وسميته فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الارباب وجعلت له ثلاث مقدمات وبابين واودعت فيه من بديع الحكمة ما تقربه كل عين وارجو ممن ينتظر رحمة المسيئون ان ينفعنی به فی يوم لا ينفع فيه مال ولا بنون۔
(مقدمه فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الارباب صفحہ 6)۔
و بعد! خطا کار اور گنہگار بندہ حسین تقی نوری طبرسی اللہ تعالیٰ سے اپنے در پر حاضری سے فیض یاب ہونے اور اپنی کتاب پر عمل پیرا ہونے والوں میں داخل فرمائے کہتا ہے کہ یہ عمدہ کتاب اور نفیس صحیفہ ہے جسے میں نے قرآن میں کئی گئی تحریف کو ثابت کرنے اور ظلم و زیادتی اور حد شکنی کرنے والوں کی ذلتوں کو نمایاں کرنے کی خاطر تالیف کیا ہے میں نے اپنی اس کتاب کا نام فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب رکھا ہے یہ تین مقدمات اور دو ابواب پر مشتمل ہے اس کے اندر میں نے نادر و نایاب حکمتوں کو جمع کر دیا ہے جس سے ہر آنکھ کو ٹھنڈک محسوس ہوگی مجھے اس ذات سے امید ہے، جس کی رحمت گنہگاروں کے لیے مرغوب ہے کہ مجھے اس کتاب کے اجر سے اس دن سرفراز فرما دے جس دن مال کام آئے گا اور نہ ہی اولاد۔
ایسی گمراہی اور ضلالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ۔
تیسرا مقصد:
قرآنِ کریم کی تحریف کے دعویٰ کو اپنی معتمد کتابوں میں بیان کرنے والے متقدمین اور متاخرین شیعی علماء کے نام:
- علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں۔
- نعمۃ الله الجزائری نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں۔
- الفيض الكاشانی نے اپنی تفسیر الصافی میں۔
- ابو منصور الطبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں۔
- محمد باقر مجلسی نے اپنی دو کتابوں بحار الانوار اور مرآة العقول میں۔
- محمد بن المعمان ملقب بہ مفید نے اپنی کتاب اوائل المقالات میں۔
- یوسف البحرانی نے اچھی کتاب الدرر النجفیہ میں۔
- عدنان البحرانی نے اپنی کتاب مشارق الشموس الدریہ میں۔
- نوری الطبرسی نے اپنی کتاب فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب۔
- مرزا حبیب الخوئی نے اپنی کتاب منہاج البراعة فی شرح نہج البلاغہ میں۔
- محمد بن یعقوب الکلینی نے اپنی کتاب الکافی میں۔
- محمد العیاشی نے اپنی تفسیر میں۔
- ابو جعفر الصفار نے اپنی کتاب بصائر الدرجات میں۔
- الاردبیلی نے اپنی کتاب حدیقہ الشیعہ میں۔
- الکرمانی نے اپنی کتاب ارشاد العوام میں۔
- الکاشانی نے اپنی کتاب ھدیۃ الطالبین میں۔
چوتھا مقصد:
اکابر شیعی علماء کی شیعوں کے محدث اول محمد بن یعقوب الکلینی کے متعلق گواہی کہ وہ قرآن کریم کے محرف ہونے کا مدعی و معتقد تھا:
شیعوں کے اکابر علماء نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ کلینی قرآن میں تحریف و نقص کا معتقد تھا ذیل میں ان علماء کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہوں نے اس امر کی شہادت دی ہے۔
مفسر کبیر محمد بن مرتضیٰ الکاشانی المعروف فيض الكاشانی:
اس نے شیعوں کے ہاں مشہور و معروف اپنی تفسیر الصافی میں لکھا ہے:
واما اعتقاد مشائخنا فی ذلك فالظاهر من ثقة الاسلام محمد بن يعقوب الكلينی طاب ثراه انه كان يعتقد التحريف والنقصان فی القرآن لانه كان روى روايات فی هذا المعنى فی كتابه الكافی ولم يتعرض للقدح فيها مع انه ذكر فی اول الكتاب انه كان يثق بما رواه فيه۔
(تفسير الصافی جلد 1 صفحہ 52 مطبوعة الاعلمی بيروت)۔
رہا تحریفِ قرآن کی بابت ہمارے مشائخ کا عقیدہ تو حقہ الاسلام محمد بن یعقوب الکلینی اللہ تعالیٰ اس کی تربت کو ترو تازہ رکھنے کا واضح اور ظاہر عقیدہ یہی تھا کہ قرآن میں نقص اور تحریف ہوئی ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنی کتاب صافی میں اسی مفہوم و مطلب کی کافی روایات وارد کی ہیں مگر ان پر کسی قسم کا کوئی اعتراض وارد نہیں کیا اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ انہوں نے کتاب کے آغاز میں یہ لکھا ہے کہ اس کتاب کے اندر بیان شده تمام روایات ان کے نزدیک قابلِ اعتماد ہیں۔
امام ابو الحسن العاملی:
یہ اپنی شہادت کا اس طرح اظہار کرتا ہے:
اعلم ان الذی يظهر من ثقة الاسلام محمد بن يعقوب الكلينی طاب ثراه انه كان يعتقد التحريف والنقصان فی القرآن، لانه روى روايات كثيرة فی هذا المعنى فی كتابه الكافی الذی صرح فی اوله بانه كان يثق فيما رواه فيه ولم يتعرض لقدح فيها ولا ذكر معارض لها۔
(تفسير مرآة الانوار و مشكاة الاسرار مقدمه 2 فصل 4)۔
واضح رہے کہ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب الکلینی ان کی مرقد تروتازہ رہے کا یہ کھلا عقیدہ تھا کہ قرآن میں نقص اور تحریف ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اسی مدلول پر مشتمل کثیر روایات کو اپنی کتاب الکافی میں درج کیا ہے، اور شروع کتاب میں یہ صراحت بھی کر دی ہے کہ اس کتاب کی تمام مرویات اس کے نزدیک صحیح ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان روایات پر کسی قسم کی کوئی جرح کی ہے اور نہ ہی اس کی مخالف روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
النوری الطبرسی:
اس نے اپنی کتاب فصل الخطاب کے تیسرے مقدمے میں لکھا ہے:
اعلم ان لهم فی ذلك اقوالاً مشهورها أثنان، اول وقوع التغيير والنقصان فيه وهو مذهب الشيخ الجليل على بن ابراهيم القمى شيخ الكلينی فی تفسيره صرح فی اوله وملأ كتابه من اخباره مع التزامه فی اوله بان لا يذكر فيه الاعن مشائخه وثقاته ومذهب تلميذم ثقة الاسلام الكلينی رحمه الله على ما نسبة اليه جماعة لنقله الاخبار الكثيرة الصريحة فی هذا المعنى فی كتاب الحجة خصوصا في باب النكت والنتف من التنزيل وفی الروضة من غير تعرض لردها او تاويلها۔
(فصل الخطاب فی اثبات تحريف كتاب رب الارباب: 23)
معلوم رہے کہ اس مسئلہ (تحریف قرآن) کی بابت (شیعی) علماء کے کئی اقوال ہیں ان میں دو قول بہت مشہور ہیں پہلا قول یہ ہے کہ قرآن میں کمی بھی ہوئی ہے اور تحریف بھی۔ یہ ممتاز عالم اور کلینی کے استاد علی بن ابراہیم القمی کا اپنی تفسیر کے شروع میں تصریح شده مؤقف ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کو اس مضمون کی روایات سے بھر دیا ہے اور اپنی کتاب کے اول میں انہوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ وہ اس میں صرف اپنے مشائخ سے اور ثقہ راوی سے نقل شدہ روایات کو ہی درج کریں گے ان کے شاگرد ثقۃ الاسلام کلینی کا بھی یہی مؤقف ہے۔ جیسا کہ کچھ لوگوں نے ان کی طرف اس مؤقف کو منسوب کیا ہے اس لیے کہ انہوں نے اپنی کتاب کتاب الحجۃ میں خاص طور پر اس کے باب باب النکت والنتف من التنزیل اور اپنی کتاب الروضۃ اس مفہوم کی بہت ساری روایات کو کسی تردید یا تاویل کے بغیر درج کیا ہے۔
چوٹی کے شیعی علماء کی اس شہادت کے بعد کہ شیعہ اثناء عشریہ کا ثقۃ الاسلام کلینی قرآنِ کریم میں تحریف کا مدعی اور معتقد تھا میں شیعوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جب تمہارے حدیث کے معتبر اور موثوق مصدر کے متعلق تمہارے ہی کباںٔر علماء کی یہ شہادتیں موجود ہیں، تو پھر آپ اس وقت اہلِ سنت سے کیوں الجھتے اور ناراض ہو جاتے ہو جب وہ مؤلف کافی کے متعلق وہی کچھ بیان کریں جو تمہارے اپنے علماء کی شہادتوں سے ثابت ہو چکا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس سوال کا مکمل صداقت اور حد درجہ صراحت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
پانچواں مقصد:
اکابر شیعی علماء کے بیانات کہ قرآن کریم پر حرف گیری کرنے والی روایات تواتر اور شہرت کے درجہ پر فائز ہیں:
مفید شیعوں کا بہت بڑا عالم ہے اس نے اپنی کتاب اوائل المقالات میں لکھا ہے: ان الاخبار قد جاءت مستفيضة عن أئمه الهدى من آلِ محمدﷺ باختلاف القرآن وما احدثه بعض الظالمين فيه من الحذف والنقصان۔
(اوائل المقالات صفحہ 93)۔
آلِ محمدﷺ سے وابستہ ائمہ ہدی سے منقول ہونے والی روایات مشہورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں اختلاف موجود ہے اور اس میں کچھ ظالموں (یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی طرف سے قطع و برید کا صدور ہوا ہے۔
شیعوں کا ہی ایک امام ہے ابو الحسن العالمی اس نے اپنی کتاب تفسیر مرآة الانوار و مشکوة الاسرار کے دوسرے مقدمے میں لکھا ہے:
اعلم ان الحق الذى لا محيص عنه بحسب الاخبار المتواتر الآتية وغيرها ان هذا القرآن الذى فى ايدينا قد وقع فيه بعد رسول اللهﷺ شیء من التغييرات واسقط الذين جمعوه بعد كثيرا من الكلمات والآيات۔
(تفسير مرآة الانوار ومشكاة الاسرار : صفحہ 36)
معلوم رہے کہ درج ذیل متواتر روایات کے علاؤہ دوسری اخبار کی رو سے یہ ناقابل تردید سچ ہے کہ یہ قرآن جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے اس میں رسول اللہﷺ کے بعد رد و بدل وغیرہ واقع ہوا ہے رسول اکرمﷺ کے بعد جن لوگوں نے اسے جمع کیا تھا، انہوں نے ہی اس کی بہت ساری آیات اور کلمات کو حذف کر دیا۔
اسی طرح ان کا ایک اور مذہبی قائد ہے نعمۃ اللہ الجزائری اس نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں یوں لکھا ہے:
ان تسليم تواتره عن الوحى الالهى وكون الكل قد نزل به الروح الأمين يفضى الى طرح الاخبار المستفيضة بل المتواترة الدالة بصريحها على وقوع التحريف فی القرآن كلاماً ومادة واعراباً۔
(انوار النعمانية: جلد 2 صفحہ 357)۔
یہ تسلیم کر لینا کہ قرآن وحی الٰہی کے ذریعے سے متواتر ہے اور یہ کہ سارے کا سارا روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) کا نازل کردہ ہے ایسی مشہور بلکہ متواتر روایات کو مسترد کر دینے کا باعث بنے گا جن میں کھلی صراحت موجود ہے کہ قرآن کے الفاظ میں ہے مفہوم میں اور اعراب میں تحریف واقع ہوئی ہے۔
محمد باقر مجلسی ہشام بن سالم کے واسطے سے ابو عبداللہ سے مروی حدیث: قال ان القرآن الذی جاء به جبرائيل عليه السلام الى محمدﷺ سبعة عشر الف آية۔
ابو عبداللہ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن جسے جبرائیل علیہ السلام محمدﷺ کے پاس لائے تھے وہ ستر ہزار آیات پر مشتمل تھا۔ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
موثق وفی بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن سالم، فالخبر صحيح، فلا يخفى ان هذ الخبر وكثير من الاخبار الصحيحة فی نقص القرآن وتغييره وعندى ان الاخبار فی هذا الباب متواترة۔
(مرأة العقول: جلد 12 صفحہ 525)۔
یہ روایت توثیق شدہ ہے ہاں بعض نسخوں میں ہارون بن سالم کے بجائے ہشام بن سالم مذکورہ ہے تاہم یہ روایت درست ہے لہٰذا یہ بات پوشیدہ نہیں رہنی چاہیے کہ اس روایت کے علاؤہ دوسری بہت ساری صحیح روایات میں قرآن میں نقص اور رد و بدل کی صراحت ملتی ہے۔ میرے اس موضوع پر وارد ہونی والی جملہ روایات متواتر ہیں۔
ممتاز شیعی عالم سلطان محمد الخراسانی۔
قرآن میں تحریف کو تواتر سے ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
اعلم انه قد استفاضت الاخبار من الآئمة الاطهار بوقوع الزيادة والنقيصة والتحريف والتغيير فيه بحيث لا يكاد يقع شك۔
(کتاب تفسير بيان السعادة فی مقدمات العبادة: 19 مطبوعه الاعلمی)۔
واضح رہے کہ ائمہ اطہار سے مشہور روایات وارد ہوئی ہیں کہ قرآن میں زیادتی نقص تحریف اور رد و بدل واقع ہوا ہے۔ ان روایات میں شک و شبہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح شیعی علامہ اور الحجہ سید عدنان البحرانی تحریف کے بالتواتر ثبوت کے متعلق لکھتا ہے: الاخبار التی لا تحصى كثيرة وقد تجاوزت حد التواتر (مشارق الشموس الدرية: 126 ناشر مكتبه عدنانيه البحرين)
(قرآن میں تحریف کے متعلق) بہت اور بے شمار روایات ملتی ہیں جو تواتر کی حد سے بھی تجاوز کر جاتی ہیں۔
چھٹا مقصد:
شیعہ امامیہ کے زعم کے مطابق قرآنِ کریم کی تحریف کی انواع و اقسام:
پہلی قسم: قرآنِ کریم میں سے کچھ سورتوں کا مکمل حذف۔
شیعوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی کچھ خرافات اور لغویات کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ یہ قرآن کریم کی سورتیں تھیں ان کے بقول رسول اللہﷺ کے بعد قرآن کو جمع کرنے والوں نے ان سورتوں کو مکمل طور پر قرآن کریم سے ساقط کر دیا ان کے دعویٰ کے مطابق ان سورتوں میں ایک سورۃ سورۃ النورین تھی جس کی عبارت ان کے دعویٰ کے مطابق اس طرح تھی:
بسم الله الرحمن الرحيميا ايها الذين امنوا امنوا بالنورين الذين انزلنا هما يتلوان عليكم آياتی ويحذر انكم عذاب يوم عظيم نوران بعضهما من بعض وانا السميع العليم۔ (تذكرة الائمة: صفحہ 19)۔
اللہ کے نام سے شروع جو رحمٰن رحیم ہے اے ایمان والو تم ان دو نوروں پر ایمان لاؤ، جنہیں ہم نے اتارا ہے وہ تم پر میری آیات کو پڑھتے ہیں اور تم کو بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈراتے ہیں یہ دونوں نور ایک ہی طرح کے ہیں اور میں سننے والا جاننے والا ہوں۔
کتاب فصل الخطاب اور شیعی امام مجلسی کی تالیف تذکرۃ الائمہ میں بیان شدہ ان باطل و بے بنیاد کلمات کو آخر تک پڑھ لیجیے۔ ان کے نزدیک ایک سورت سورۃ الولایۃ کے نام سے بھی قرآن کریم میں موجود تھی مجلسی کی کتاب تذکرۃ الائمہ میں اس مزعومہ سورت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
بسم الله الرحمن الرحيميا ايها الذين امنوا امنوا بالنبى والولى الذين بعثنا هما يهديانكم الى صراط مستقيم نبی وولى بعضها من بعضها وانا العليم الخبير ان الذين يوفون بعهد الله لهم جنات النعيم، فالذين اذا تليت عليهم آياتنا كانوا به مكذبين ان لهم فی جهنم مقاما عظيما، اذا نودى لهم يوم القيامة ابن الضالون المكذبون للمرسلين، ما خلقهم المرسلون الا بالحق، وما كان الله لينظرهم الى اجل قريب، وسبح بحمد ربك وعلى من الشاهدين۔ (تذكرة الائمة: صفحہ 19)۔
اللہ کے نام سے شروع جو رحمٰن و رحیم ہے اے ایمان دارو! تم نبی اور ولی پر ایمان لاؤ، ہم نے انہیں بھیجا ہے تاکہ وہ سیدھی راہ کی طرف تمہاری رہنمائی کریں نبی اور ولی دونوں ایک ہی طرح کے ہیں اور میں جاننے والا باخبر ہوں۔ یقیناً جو لوگ اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو پورا کرتے ہیں ان کے لیے نعمتوں سے بھری جنتیں ہیں پس جو لوگ ایسے ہیں کہ جب ان پر ہماری آیات کو پڑھا جاتا ہے تو وہ ان کی تکذیب کرتے ہیں ان کے لیے جہنم میں بہت بڑا عذاب ہے۔ جب ان کو قیامت کے دن پکارا جائے گا کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والے گمراہ کہاں ہیں؟ مرسلون تو انہیں حق کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ ان کو قریبی مدت تک مہلت دینے والا۔ اور آپ اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور علی شہادت دینے والوں میں سے ہے۔
انہی (بقول شیعہ محذوف) سورتوں میں سے ایک سورت سورۃ الخلع بھی ہے۔ مجلسی کی تذکرۃ الائمہ کے مطابق اس کا مضمون درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم اللهم انا نستعينك ونثنى عليك ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفرجك۔
اللہ کے نام سے شروع جو رحمٰن و رحیم ہے اے ہمارے معبود! ہم تیری مدد کے طلب گار اور تیرے ثناخواں ہیں ہم تیرا انکار نہیں کرتے ہم تو تیری حدود سے تجاوز کرنے والوں سے علیحدگی اختیار کرتے اور ان سے دستبردار ہوتے ہیں۔
اسی طرح شیعوں کا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم میں سورۃ الحفد بھی موجود تھی جسے حذف کر دیا گیا ہے۔ مجلسی نے اپنی کتاب تذکرۃ الآئمہ میں اس سورۃ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
بسم الله الرحمن الرحيم۔ اللهم اياك نعبد ولك نصلی ونسجد واليك نسعى ونحفد نرجوا رحمتك ونخشى نقمتك ان عذاب بالكافرين ملحق۔
اللہ کے نام سے شروع جو رحمٰن و رحیم ہے اے ہمارے معبود! ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تیرے لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف دوڑتے اور تگ و دو کرتے ہیں، تیری رحمت کے امید وار اور تیری ناراضگی سے خائف ہیں، یقیناً تیرا عذاب کفار کو لاحق ہونے والا ہے۔
نیز شیعوں کا یہ غالیانہ عقیدہ بھی ہے کہ قرآن پاک میں موجود سورۃ الفجر کا اصل نام سورۃ الحسین ہے یہی نہیں بلکہ قرآن پورے کا پورا اہلِ بیتؓ کے لیے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیدنا حسینؓ اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق شیعوں کی یہ مبالغہ آرائی ہے۔
دوسری قسم: بعض قرآنی آیات سے کچھ کلمات کا حذف
شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم میں سے بہت سارے الفاظ و کلمات کو حذف کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے ان کلمات کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ساقط کیا ہے جن کلمات کو یہ لوگ محذوف شدہ تصور کرتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق سیدنا علیؓ اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر مختلف اشیاء کے ساتھ وابستہ ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ فی علی کے الفاظ کو قرآن کے بہت سارے مقامات سے حذف کیا گیا ہے ان مقامات کے شمار کے طور پر نہیں بلکہ ان میں سے چند ایک کو علی سبیل المثال بیان کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ الخ۔ (سورة البقره: آیت 23)۔
اگر تم اس کتاب ہی کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو کوئی ایک سورۃ تم بھی بنا لاؤ۔
اس آیت کے متعلق کلینی یہ روایت بیان کرتا ہے:
عن جعفر قال: نزل جبريل بهذه الآية على محمدﷺ هكذا وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فی على فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ۔
(اصول الكافی كتاب الحجة باب فيه نكت ونتف من التنزيل فی الولاية: جلد 1 صفحہ 417)۔
ابوجعفر سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ جبرائیلؑ نے اس آیت کو محمدﷺ پر ان الفاظ کے ساتھ اتارا تھا اور اگر تم اس کتاب ہی کے بارے میں شک میں ہو جو ہم اپنے بندے پر سیدنا علیؓ کے متعلق اتاری ہے تو کوئی ایک سورۃ تم بھی بنا لاؤ۔
اللہ کا فرمان ہے:
بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بَغۡيًا اَنۡ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖۚ الخ۔(سورة البقرة: 90)۔
بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے کہ انکار کرتے ہیں اس (کلام) کا جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اس ضد پر کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا اپنا فضل نازل کیا ہے۔
اس فرمانِ الٰہی کے متعلق کلینی ابو جعفر سے یہ روایت نقل کرتا ہے:
عن أبی جعفر قال: نزل جبريل بهذه الآية على محمد صلى الله عليه وآله هكذا "بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فی علی بَغۡيًا اَنۡ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖۚ۔
(اصول الكافی كتاب الحجة باب فيه نكت ونتف من التنزيل فی الولاية: جلد1 صفحہ 417)۔
ابو جعفر سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کو جبرائیلؑ نے محمدﷺ پر یوں نازل کیا تھا بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے کہ انکار کرتے ہیں اس (کلام) کا جو اللہ نے سیدنا علیؓ کے متعلق نازل کیا ہے اس ضد پر کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا اپنا فضل نازل کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّـطۡمِسَ وُجُوۡهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰٓى اَدۡبَارِهَاۤ الخ۔(سورة النساء: 47)
اے وہ لوگو! جنہیں کتاب مل چکی ہے اس کتاب پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے تصدیق کرنے والی اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مٹا ڈالیں اور چہروں کو ان کے پیچھے کی جانب الٹا دیں۔
اس آیت کے متعلق کلینی نے یہ روایت اپنی کتاب میں وارد کی ہے: عن أبی جعفر قال: نزلت هذه الآية على محمد صلى الله عليه وآله هكذا يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا انزلت فی علی مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّـطۡمِسَ وُجُوۡهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰٓى اَدۡبَارِهَاۤ۔
ابوجعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: یہ آیت محمدﷺ پر ان لفظوں کے ساتھ نازل کی گئی ہے: اے وہ لوگو! جن کو کتاب مل چکی ہے اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جسے میں نے سیدنا علیؓ کے متعلق نازل کیا ہے، تصدیق کرنے والی اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے، قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مٹا ڈالیں اور چہروں کو ان کے پیچھے کی طرف الٹاویں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا(سورة النسا: آیت 64)۔
اور کاش! کہ جس وقت یہ اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھتے تھے، آپ کے پاس آجاتے پھر اللہ سے مغفرت چاہتے اور رسول بھی ان کے حق میں مغفرت فرماتے تو یہ ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔
شیعوں نے اس آیت میں صریحاً تحریف کر ڈالی ہے تفسیر قمی تحریف شدہ آیت کے الفاظ یہ لکھے گئے ہیں:
ولو انهم اذ ظلموا انفسهم جاء وك يا على فاستغفر والله واستغفر لهم الرسول۔
یعنی اور کاش! کہ جس وقت یہ اپنے جانوں پر زیادتی کر بیٹھتے تھے، اے سیدنا علیؓ! یہ آپ کے پاس آجاتے ، پھر اللہ سے مغفرت چاہتے اور رسول بھی ان کے حق میں مغفرت فرماتے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَوۡ اَنَّهُمۡ فَعَلُوۡا مَا يُوۡعَظُوۡنَ بِهٖ لَـكَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ وَاَشَدَّ تَثۡبِيۡتًا (سورۃ النساء : آیت 66)
اور اگر یہ (لوگ) وہ کر ڈالتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ان کو ثابت قدم رکھنے والا بھی۔
شیعوں نے اس آیت میں بھی تحریف کی ہے، ممتاز شیعی عالم کلینی نے ابو عبداللہ سے یہ روایت نقل کی ہے:
عن ابی عبدالله قال: هكذا نزلت هذا الآية وَلَوۡ اَنَّهُمۡ فَعَلُوۡا مَا يُوۡعَظُوۡنَ بِهٖ فی علی علیه السلام لَكَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ وَاَشَدَّ تَثۡبِيۡتًا۔
ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اس طرح نازل کی گئی تھی: اور اگر یہ وہ کر ڈالتے جن کی انہیں سیدنا علیؓ کے بارے میں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ان کو ثابت قدم رکھنے والا بھی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِىۡ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ كُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰٓى اَكۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوۡرًا (سورة الاسراء آیت 89)۔
اور بالیقین ہم نے لوگوں کے لیے قرآن میں ہر قسم کا اعلیٰ مضمون طرح طرح سے بیان کیا ہے لیکن اکثر لوگ انکار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
شیعی علماء نے اس آیت میں بھی تحریف کر ڈالی ان کے امام کلینی اور ان کے دینی قائد عیاشی نے ابو جعفر سے اس آیت کے متعلق یہ روایت نقل کی ہے:
عن أبی جعفر قال: نزل جبريل بهذه الآية هكذا فابی اكثر الناس بولاية على الا كفورا
(اصول الكافی كتاب الحجة، باب فی نكت ونتف من التنزيل فی الولاية جلد 1 صفحہ 425 تفسير العياشی جلد 2 صفحہ 317)۔
ابو جعفر کا بیان ہے کہ جبریل علیہ السلام نے یہ آیت ان لفظوں کے ساتھ نازل کی تھی لیکن اکثر لوگ سیدنا علیؓ کی ولایت کا انکار کیے بغیر نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا(سورۃ الاحزاب آیت 71)۔
اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچ گیا۔
اس آیت کے متعلق شیعوں کے امام کلینی نے یہ روایت نقل کی ہے جس میں کھلی تحریف کا ارتکاب کیا گیا ہے:
عن ابی عبدالله قال: ومن يطع الله ورسوله فی ولاية على والأئمة من بعده فقد فاز فوزا عظيما هكذا نزلت والله۔
(اصول الكافی: جلد 1 صفحہ 414 ، الصراط المسقيم للبياضی : جلد 1 صفحہ 279)۔
ابو عبداللہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: الله کی قسم ! یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی: اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی سیدنا علیؓ اور ان کے بعد آنے والی آئمہ کی ولایت کے متعلق ہدایات کی پیروی کی سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچ گیا۔
قرآنِ کریم کے متعدد اور کثیر ترین مقامات ایسے ہیں، جہاں سے شیعوں کے دعویٰ کے مطابق سیدنا علیؓ ابنِ ابی طالب کے نام کو حذف کیا گیا ہے جس قدر مثالیں میں نے پیش کی ہیں اس سے قرآن کریم کے متعلق شیعوں کی گمراہی اور ضلالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے آلِ محمد اور آلِ بیتؓ کے الفاظ کے متعلق بھی ان لوگوں کا یہی دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کے بہت سارے مقامات سے ساقط کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے آئمہ سے بہت سی ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں ان آیات کا ذکر موجود ہے، جن سے ان کے بقول آلِ محمد یا آلِ البیتؓ کے کلمات کو حذف کیا گیا ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَبَدَّلَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلاً غَيۡرَ الَّذِىۡ قِيۡلَ لَهُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ(سورة البقره آیت 59)۔
اس فرمانِ الٰہی میں بقول شیعہ حذف شدہ الفاظ کے متعلق شیعی امام عیاشی نے یہ روایت اپنی تفسیر میں درج کی ہے:
عن أبی جعفر قال: نزل جبريل بهذه الآية هكذا فبدل الذين ظلموا آل محمد حقهم غير الذی قيل لهم فانزلنا على الذين ظلموا آل محمد حقهم رجزا بما كانوا يفسقون۔
(تفسير العياشی: جلد 1 صفحہ 45)۔
ابو جعفر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جبریلؑ یہ آیت اس طرح لائے تھے۔
مگر آلِ محمد کے حقوق میں ظلم زیادتی کرنے والوں نے جو انہیں بتایا گیا تھا اس کے خلاف ایک اور کلمہ بدل ڈالا سو ہم نے آلِ محمد کے حقوق میں ظلم زیادتی کرنے والوں پر آسمان سے بہت بڑا عذاب نازل کیا اس سبب سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔
ساتواں مقصد:
اس سوال کا جواب کہ شیعہ حضرات اس قرآن کریم کی تلاوت کیوں کرتے ہیں جو اہلِ سنت کے پاس موجود ہے حالانکہ وہ اس کو ناقص اور محرف تسلیم کرتے ہیں:
اس ہم ترین سوال کے جواب میں شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کے اکابر علماء میں سے سب سے پہلے ان کے چوٹی کے عالم نعمۃ اللہ الجزائری نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں لکھا ہے:
روى انهم فی الاخبار عليهم السلام امر شيعتهم بقرأة هذا الموجود من القرآن فی الصلوة وغيرها والعمل باحكامه حتى يظهر مولانا صاحب الزمان فيرتفع هذا القرآن من ايدى الناس الى السماء ويخرج القرآن الذی ألفه امير المؤمنين عليه السلام فيقرأ ويعمل بأحكامه۔ (الانوار النعمانية: جلد 2 صفحہ 360)۔
روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ ائمہ نے اپنے شیعوں کو موجودہ قرآن کی نماز وغیرہ میں قرآت کا اور اس کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے آقا صاحب الزمان کا ظہور ہو جائے چنانچہ (اس کے ظہور کے بعد) اس قرآن کو لوگوں کے پاس سے ختم کر کے آسمان پر اٹھا لیا جائے گا اور وہ قرآن لایا جائے گا جسے امیر المؤمنین سیدنا علیؓ نے جمع کیا تھا، پھر وہی پڑھا جائے گا اور پیروی بھی اس کے احکامات کی ہوگی۔
اس سے ظاہر ہوا کہ شیعی امام الجزائری کے مطابق صحیح قرآن وہی ہے جسے امیر المومنین سیدنا علی ابنِ ابی طالبؓ نے جمع کیا تھا، جس کا ظہور شیعہ اثناء عشریہ کے عقیدے کی رو سے آخر الزمان میں ہوگا۔ شیعی امام ابوالحسن العاملی نے اپنی تفسیر مراة الانوار و مشکاۃ الاسرار کے تیسرے مقدمے میں یوں لکھا ہے:
ان القرآن المحفوظ عما ذكر الموافق لما انزله الله تعالیٰ ما جمعه على عليه السلام وحفظه الى ان وصل الى ابنه الحسن عليه السلام وهكذا الى ان وصل الى القائم عليه السلام المهدى وهو اليوم عنده صلوات الله عليه ۔(مراة الانوار ومشكوة الاسرار : 36)۔
جو قرآن ان مذکورہ عیوب سے پاک اور تنزیلِ الٰہی سے موافق ہے وہ سیدنا علیؓ کا جمع کردہ ہے، جو ان کے پاس محفوظ شکل میں تھا، ان کے پاس سے ان کے بیٹے سیدنا حسنؓ تک پھر درجہ بدرجہ القائم المہدی تک پہنچا اور اب یہ قرآن ان کے پاس محفوظ ہے صلوات اللہ علیہ۔
اس مذکورہ بالا کلام سے واضح ہوا کہ معتمد اور صحیح قرآن شیعہ عقیدے کے مطابق وہی ہے جو غار میں مقیم مہدی منتظر کے پاس موجود ہے، جیسا کہ ممتاز شیعی عالم و امام ابو الحسن العاملی کی صراحت سے ثابت ہوتا ہے۔ بالکل یہی بات ایک دوسرے شیعی عالم علی اصغر بروجردی نے اپنی فارسی کتاب عقائد شیعہ میں لکھی ہے:
یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ اصل قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا رد و بدل نہیں ہوا ہے جب کہ موجودہ قرآن میں کچھ منافقوں (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے تحریف کر دی ہے اور اس سے کچھ (آیات و کلمات کو) حذف بھی کیا ہے تاہم امام العصر کے پاس اصلی اور حقیقی قرآن موجود ہے اور اللہ ان کے ظہور کو جلد ممکن بنائے۔ (عقائد الشیعہ صفحہ 27)۔
شیعی امام محمد بن النعمان ملقب به مفید نے مذکورۃ الصدر سوال کا یوں جواب دیا ہے:
ان الخبر قد صح عن ائمتنا عليهم السلام انهم قد رأوا بقرأة ما بين الدفتين وألا نتعداه الى زيادة فيه ولا الى نقصان منه ان يقوم القائم عليه السلام فيقرى الناس على ما انزل الله تعالیٰ وجمعه امير المومنين عليه السلام۔
(كتاب المسائل السروية: صفحہ 78)۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے ائمہ نے دوستوں کے درمیان موجود قرآن کو پڑھنے کا امر کیا ہے اور ہمیں اس میں اضافے سے یا اس میں کمی کرنے سے منع کیا ہے۔ یہاں تک کہ (قائم مہدی منتظر) کا ظہور ہو جائے (قائم اپنے ظہور کے بعد) لوگوں کو تنزیلِ الٰہی اور امیر المومنین کی جمع و تالیف کے مطابق قرآن پڑھائیں گے۔
آٹھواں مقصد:
شیعہ حضرات کی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی مغالطہ اور دھوکہ پر مبنی تفسیروں کی مثالیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ(سورۃ الفاتحه آیت 6)۔
چلا ہم کو سیدھے راستے پر ۔
شیعہ کہتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد سیدنا علیؓ بن ابی طالب ہیں اس تفسیر کو ان کے امام علی بن ابراہیم القمی نے اپنی تفسیر میں ابو عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ ان کا قول ہے کہ:
الصراط المستقيم هو امير المؤمنين ومعرفة الامام۔ سیدھی راہ سے مقصود امیر المومین (کی ذات) اور امام کی معرفت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
الٓمّ۞ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ ۛ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۞ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ۞ (سورۃ البقره: آیت 3-1)
الف لام میم یہ کتاب (کہ) کوئی شبہ اس میں نہیں ہدایت ہے (اللّٰه سے) ڈر رکھنے والوں کے لیے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا اور (اس پر) جو آپ سے قبل اتارا گیا ہے۔
ان آیات کی تغیر و شیعی علماء قمی اور عیاشی نے اپنی اپنی تفسیروں میں درج کی ہیں اس کے مطابق ذالک الکتاب سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب و مراد لیے گئے ہیں ھدی للمتقین میں اللمتقین کے لفظ سے شیعانِ علی مقصود ہے اور الذین یؤمنون بالغیب کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے قائم (منتظر مہدی بقول شیعہ) کے ظہور پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
(تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 30 تغیر العیاشی جلد 1 صفحہ 25)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسۡتَحۡـىٖۤ اَنۡ يَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَةً فَمَا فَوۡقَهَا الخ۔ (سورۃ البقره آیت 26)۔
بے شک الله اس سے ذرا نہیں شرماتا کہ کوئی مثال بیان کرے، مچھر کی یا اس سے بڑھ کر (کسی اور چیز کی) ۔
شیعہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور بعوضہ مچھر سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور فما فوقھا اس سے بڑھ کر سے رسول اللّٰہﷺ مراد ہیں ان کلمات کی یہی تفسیر شیعی امام قمی نے اپنی تفسیر میں بیان کی ہے: (تفسیر القمی: جلد 1 صفحہ 34)۔
اس تفسیر سے سیدنا علیؓ کی شان و منزلت میں کھلی تنقیص اور ان کا بدترین استہزاء کیا گیا ہے، اس لیے کہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ عمومی طور پر مچھر کے لفظ سے جب کسی شئے کو تشبیہ دی جاتی ہے تو اس سے اس شئے کی ذلت اور حقارت کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ کوئی مسلمان یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی طرف اس حقارت کو منسوب کیا جائے، لہٰذا یہ تفسیر ان کی مدح نہیں بلکہ کھلی گستاخی اور صریح بے ادبی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَاَوۡفُوۡا بِعَهۡدِىۡٓ اُوۡفِ بِعَهۡدِكُمۡۚ وَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ (سورۃ البقره آیت 40)۔
اور مجھ سے وعدہ پورا کر وہ تو میں تم سے وعدہ پورا کروں گا اور تم صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہوں۔
عیاشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
(و اوفوا بعهدی) اى اوفوا بولاية على (اوف بعهدكم) ای اوفی لكم الجنة۔(تفسير العياشی: جلد 1 صفحہ 42)۔
مجھ سے وعدہ پورا کرو یعنی سیدنا علیؓ کی ولایت کا عہد نباؤ میں تم سے وعدہ پورا کروں گا یعنی میں تم سے کیا گیا جنت کا وعدہ پورا کروں گا۔
یه تفسیر آیت مذکورہ کے مضمون وسیاق سے ذرہ بھر بھی مناسبت نہیں رکھتی آیت میں بنو اسرائیل سے خطاب ہو رہا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد و مواثیق کو پورا کرنے کی دعوت دی جارہی ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمودہ نعمتوں کی شکر گزاری کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ شیعوں کے دعاوی کو اس کی تفسیر کے ساتھ کوئی ربط ہے نہ ہی کوئی تعلق۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
مَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِىۡ كُلِّ سُنۡۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ(سورۃ البقره آیت 261)
جو لوگ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کے مال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ نہ ہے کہ اس سے سات بالیاں اگیں، ہر ہر بالی کے اندر سو دانے ہیں اور اللہ جسے چاہے زیادہ دیتا ہے، اللہ بڑا وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔
شیعوں نے اس آیت کی جو تفسیر کی ہے وہ بڑی مضحکہ خیز اور حیرت انگیز ہے۔ فضل بن محمد الجعفی کا بیان ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے کہا:
الحبة فاطمة والسبع السنابل سبعة من ولدها سابعهم قائمهم قلت الحسن قال الحسن: امام من الله مفترض طاعته ولكنه ليس من السنابل السبعة اولهم الحسين وآخرهم القائم فقلت: قوله فی كل سنبلة مائة حبة قال: يولد كل رجل منهم فی الكوفة مائة من صلبه وليس الا هؤلا والسبعة۔(تفسير العياشی: جلد 1 صفحہ 147)۔
دانہ سے مراد سیدہ فاطمہؓ ہے سات بالیوں سے اس کے سات بیٹے مقصود ہیں بایں طور پر کہ قائم ان میں سے ساتواں ہے میں نے کہا: حسن؟ فرمایا: حسن اللہ کی طرف سے متعین امام ہے اور اس کی اطاعت بھی لازم ہے۔ مگر ان کا شمار سات بالیوں میں نہیں ہوتا (یوں سمجھو کہ) ان کا پہلا حسین ہے اور آخری قائم ہے۔ میں نے پوچھا کہ فرمانِ الٰہی ہر ہر بالی کے اندر سو دانے ہیں کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا: کوفہ میں اولاد فاطمہ میں سے ہر ایک کی صلب سے سو بیٹے پیدا ہوں گے، یہاں تک کہ کوفہ میں انہیں سات ہی کی نسل آباد ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ الخ۔ (سورة النساء آیت 116)۔
یقیناً اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا اور گناہوں کو بخش دے گا۔
اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں عیاشی نے اپنی سند کے ساتھ ابو جعفر کی درج ذیل تشریح نقل کی ہے:
قال: أما قوله ان الله لا يغفر ان يشرك به يعنى انه لا يغفر لمن يكفر بولاية على، واما قوله ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء يعنى لمن والى عليا عليه السلام۔
(تفسير العياشی جلد 1 صفحہ 245)
ابو جعفر نے کہا کہ فرمانِ الٰہی یقیناً الله اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اس کو نہیں معاف کرے گا جو سیدنا علیؓ کی ولایت کا منکر ہے اور فرمانِ الٰہی اور اس کے سوا اور گناہوں کو بخش دے گا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو معاف کرے گا جو سیدنا علیؓ سے محبت کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا روایت سے ہمارے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ کی امامت کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور اس کی وحدانیت پر برتری اور فوقیت دیتے ہیں، بلکہ ان کی امامت کو جملہ عبادات کی کلید باور کرتے ہیں۔ اس روایت میں بیان شدہ تفسیر سے بھی اسی عقیدہ کی جھلک نمایاں ہو رہی ہے کہ مغفرت صرف انہی لوگوں کی ہوگی جو ان کے آئمہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ رہے وہ لوگ جو ان کی امامت میں دوسروں کو بھی شریک گردانتے ہیں ان کے لیے نہ بخشش ہے اور نہ ہی کوئی پروانہ نجات۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَلِلّٰهِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى فَادۡعُوۡهُ بِهَا الخ (سورة الاعراف آیت 180)
اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے (مخصوص) نام ہیں، سو انہی سے اسے پکارو۔
شیعوں نے اس فرمانِ الٰہی کی بھی ایسی تفسیر کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ جل شانہ کے مقابل کھڑا ہونے اور اس کی عظمت و جلالت اور اس کی بے مثال شان کو چیلنج کرنے کی ہمت حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ اسماء اللہ الحسنی سے ان کے ائمہ مقصود ہیں ان کے امام کلینی نے اپنی سند کے ساتھ ابو عبداللہ سے اس آیت کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے:
نحن والله الأسماء الحسنى التی لا يقبل الله من العباد عملا الا بمعرفتنا۔
(اصول الكافی كتاب الحجة باب النوادر جلد 1 صفحہ 143)۔
اللہ کی قسم! ہم وہ اسماء الحسنی ہیں کہ ہماری معرفت کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی بھی بندہ کے عمل کو قبول نہیں کرتا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَـتَّخِذُوۡۤا اِلٰهَيۡنِ اثۡنَيۡنِۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ( سورة النحل آیت 51)
اور اللہ نے کہہ رکھا ہے کہ دو معبود نہ قرار دینا، معبود تو بس وہی ایک ہے سو تم لوگ صرف مجھی سے ڈرتے رہو۔“
شیعہ کہتے ہیں کہ فرمانِ الٰہی دو معبود نہ قرار دینا “ کا مطلب یہ ہے کہ تم دو امام نہ مان لینا اور فرمانِ الٰہی معبود تو بس وہی ایک ہے سے مراد یہ ہے کہ امام تو صرف ایک ہی ہے اس تفسیر کو عیاشی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَاِنَّ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ لَاِبۡرٰهِيۡمَۘ(سورۃ الصافات آیت 83)۔
اور ان کے طریقہ والوں میں ابراہیم بھی تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں شیعہ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کا شمار بھی شیعانِ علی بن طالبؓ میں ہوتا ہے۔ اس تفسیر کو شیعی عالم ہاشم البحرانی نے اپنی کتاب البرہان فی تفسیر القرآن۔
(کتاب البرہان فی تفسیر القرآن جلد 24 صفحہ 21) میں بیان کیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس کھوٹی تفسیر کا بطلان روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے، اس لیے کہ جس بھی انسان کا عربی زبان کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے وہ جانتا ہے کہ فرمانِ الٰہی وان من شیعتہ میں ھاء ضمیر کا مرجع پہلے ذکر شدہ نوحؑ ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نوحؑ کے طریقہ والوں میں ابراہیم بھی تھے، آیت کا یہ مفہوم ہر شخص کے لیے واضح ہے ماسوا اس شخص کے کہ جس کی بصیرت کو سلب کر لیا گیا ہو، آپ سورۃ الصافات پوری پڑھ جائے کہیں بھی سیدنا علیؓ کا نام مذکور نہیں ہوا، چہ جائیکہ اس آیت میں ان کے نام کو داخل سمجھا جائے اور اسے ضمیر کا مرجع تسلیم کیا جائے ۔“
اسی طرح شیعوں نے سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے بارے میں غلو کرتے ہوئے فرمان الٰہی وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ الخ (سورۃ آل عمران آیت 30) اور الل تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے میں بیان شدہ لفظ نفس سے بھی سیدنا علیؓ بن ابی طالب کو مراد لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَلَـقَدۡ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَۚ لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ (سورة الزمر آیت 65)۔
اور واقعہ یہ ہے کہ آپ کی طرف بھی اور جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ (اے مخاطب !) اگر تو نے شرک کیا تو تیرا عمل (سب) غارت ہو جائے گا اور تو خسارہ میں پڑ کر رہے گا۔
قوله لئن اشرکت اى لئن امرت بولاية احد مع ولاية على من بعدك۔ (البرهان فی تفسير القرآن جلد 24 صفحہ 83)۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیعی عالم ہاشم البحرانی لکھتا ہے:
فرمانِ الٰہی اگر تو نے شرک کیا کا معنی یہ ہے کہ اگر تو نے اپنے بعد سیدنا علیؓ کی ولایت کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اگر آپ نے اپنے بعد ولایت و خلافت کے لیے سیدنا علیؓ کی ولایت کے ساتھ دوسرے کسی شخص کی ولایت کا بھی حکم دیا تو آپ کے تمام اعمال غارت ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اس کفر و الحاد سے اللہ کی پناہ!۔
اسی طرح شیعہ حضرات نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:
وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ الخ۔ (سورة التوبه آیت 3)۔
اور اعلان (کیا جاتا ہے) اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے لوگوں کے سامنے میں مذکور لفظ اذان کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب مراد لیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَالتِّيۡنِ وَالزَّيۡتُوۡنِۙ وَطُوۡرِ سِيۡنِيۡنَۙ(سورۃ التین آیت 1۔2۔3)
قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سیناء کی۔
شیعہ اس آیت کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ التین اور زیتون سے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور طور سینین سے سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو مراد لیا گیا ہے۔ (البرہان فی تفسیر القرآن : جلد 30 صفحہ 77)
جمہور علماء کرام کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مبارکہ مکیہ ہے علماء اہل السنۃ میں سے امام قرطبی وغیرہ نے اسی مؤقف کو راجح قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مکمل سورت سیدنا علیؓ کی سیدہ فاطمہؓ ہی سے شادی وزواج سے قبل نازل ہوئی سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کی ولادت تو بہت بعد کی بات ہے۔ اس سے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان آیات سے اور ان کی طرح دوسری آیات سے شیعہ حضرات کا اپنے ائمہ کی ولایت کو ثابت کرنا کس قدر لغو اور بے کار کوشش ہے۔
اسی طرح انہوں نے فرمانِ الٰہی:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِى السِّلۡمِ کَآفَّةً ۖ وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِؕ اِنَّهٗ لَـکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ (سورة البقره آیت 208)۔
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
کی یہ باطل اور نامعقول تفسیر کی ہے کہ خطوات الشیطان و شیطان کے نقش قدم سے رسول اللہﷺ کے وزیروں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی ولایت مقصود ہے شیعی امام عیاشی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے:
عن ابی بصير قال: سمعت ابا عبدالله يقول فی هذه الآية: ا تدرى ما السلم؟ قلت انت اعلم قال: ولاية على الأئمة والأوصياء من بعدم وخطوات الشيطان والله ولاية فلان و فلان وقد جاء تفسير وقوله فلان و فلان فی رواية عنه قال: هی ولاية الأول والثانی۔(تفسير العياشی- جلد 1 صفحہ 106)۔
ابو بصیر کا بیان ہے کہتا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سے اس آیت کے متعلق یہ کہتے ہوئے نا کیا تو جانتا ہے کہ سلم کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے کہا: اس سے سیدنا علیؓ کی اور ان کے بعد کے آئمہ و اوصیاء کی ولایت مراد ہے اور خطوات الشیطان سے مراد قسم بخدا فلان اور فلان کی ولایت لی گئی ہے۔ ان کے قول فلان اور فلان کی وضاحت خود ان سے مروی دوسری روایت میں موجود ہے کہ یہ پہلے اور دوسرے کی ولایت ہے۔
پہلے سے شیعہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ اول اور دوسرے سے خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطابؓ کو مراد لیتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ الخ۔(البقره آیت 264)۔
اے ایمان والو! اپنے صدقوں کو احسان (جتلا کر) اور اذیت (پہنچا کر) ضائع نہ کرو۔“ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا معاویہؓ کے متعلق نازل ہوا ہے۔ ان کے امام عیاشی نے اپنی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے:
عن أبی جعفر قال فی هذه الآية نزلت فی عثمان وجرت فی معاوية واتباعها
(تفسير العياشی جلد 1 صفحہ 147)
ابو جعفر کا قول یہ ہے کہ یہ آیت عثمان کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ سیدنا معاویہؓ اور ان دونوں کے متبعین بھی اس آیت کا مصداق ہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ وَلَا لِيَـهۡدِيَهُمۡ سَبِيۡلًا (سورۃ النساء آیت 137)۔
بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے، پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں ترقی کرتے گئے، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کی مغفرت کرے گا اور نہ انہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔
اس فرمانِ الٰہی کے متعلق شیعہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے خصوصاً تین خلفاء سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور عبد الرحمٰن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر لوگ مراد لیے گئے ہیں۔ ان کے بقول ان اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کفر کو اختیار کیا۔ شیعوں کے امام اور حجۃ محمد بن یعقوب الکلینی نے ابو عبداللہ سے اس آیت کے بارہ میں یہ قول نقل کیا ہے:
قال: انها نزلت فی فلان وفلان وفلان امنوا بالنبی فی اول الامر وكفروا حين عرجت عليهم الولاية حين قال النبیﷺ من كنت مولاه فعلی مولاه ثم امنوا بالبيعة لأمير المؤمنين عليه السلام ثم كفروا حيث مضى رسول الله، فلم يقروا بالبيعة ثم ازدادو كفرا باخذهم من بايعهم بالبيعة لهم، فهؤلاء لم يبقى فيهم من الايمان شیء۔
(اصول الكافی فی كتاب الحجة باب فيه نكت ونتف من التنزيل فی الولاية جلد 1 صفحہ420)۔
یہ آیت فلان اور فلان اور فلان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ شروع اسلام میں نبی اکرمﷺ پر ایمان لائے پھر جب نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا علی اس کا مولا ، اس طرح ان پر ولایت کو پیش کیا گیا تو یہ کافر ہوگئے، پھر امیر المؤمنین سیدنا علیؓ کی بیعت کر کے ایمان لائے، مگر رسول اللہﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد یہ لوگ اپنی بیعت پر برقرار نہ رہے اور کافر ہو گئے اور کفر میں ترقی کرتے گئے حتٰی کہ انہوں نے بیعت کرنے والوں سے اپنے حق میں بیعت حاصل کر لی لہٰذا یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس ایمان نام کی کوئی شئے باقی نہیں رہی۔
یہ لوگ فلاں فلاں اور فلاں سے تین خلفاء راشدین کو مراد لیتے ہیں جیسا کہ ان کے امام عیاشی کی نقل کردہ اس روایت سے وضاحت ہوتی ہے۔
عن جابر قال: قلت لمحمد بن على عليه السلام فی قول الله فی كتابه ان الذين امنوا ثم كفروا قال: هما ابوبكر وعمر والثالث عثمان والرابع معاوية و عبد الرحمن وطلحة وكانوا سبعة عشر رجلا (تفسير العياشی جلد 1 صفحہ 279)۔
جابر کا بیان ہے کہ میں نے محمد بن علی سے قرآن میں اللہ کے فرمان ان الذین امنوا تم کفروا کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا وہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں تیسرا سیدنا عثمانؓ اور چوتھا سیدنا معاویہؓ (ان کے علاؤہ) عبد الرحمٰن بن عوفؓ اور طلحٰہ سمیت کل سترہ افراد ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡيَا الَّتِىۡۤ اَرَيۡنٰكَ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الۡمَلۡعُوۡنَةَ الخ۔(سورة الاسراء آیت 60)۔
اور ہم نے جو منظر آپ کو دکھلایا تھا اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا اور اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ قرآن میں مذکور الشجرة الملعونہ سے مراد بنو امیہ کے لوگ ہیں۔(تفسير العياشی جلد 2 صفحہ 297)
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
او كظلمت فی بحر لجی يغشه موج من فوقه موج من فوقه سحاب ظلمات بعضها فوق بعض اذا اخرج يده لم يكد يرها ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور۔ (البرهان فی تفسير القرآن جلد 18 صفحہ 133)۔
یا (وہ اعمال) ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کو اس ایک (بڑی) موج نے ڈھانپ لیا ہو، پھر اس (موج) کے اوپر (ایک اور) موج ہو (پھر) اس کے اوپر بادل ہو (غرض) اوپر تلے اندھیرے ہیں، اگر کوئ دیکھنے کا احتمال تک نہیں اور جس کو اللہ ہی نور نہ دے اس کے لیے (کہیں سے) نور نہیں۔ اس آیت میں ظلمات سے بقول شیعہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ مقصود ہیں۔ یغشٰہ موج سے سیدنا عثمانؓ بعضها فوق بعض سے سیدنا معاویہؓ اور بنو امیہ کے فتنے مراد لیے گئے ہیں۔ اس تفسیر کو شیعی امام البحرانی نے اپنی کتاب البرہان فی تفسیر القرآن میں بیان کیا ہے۔ (البرہان فی تفسیر القرآن: جلد 18 صفحہ 133)
اسی طرح کی خرافات کے ساتھ شیعوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:
وَنُرِىَ فِرۡعَوۡنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوۡدَهُمَا مِنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَحۡذَرُوۡنَ(سورة القصص آیت 6)۔
فرعون و ہامان اور ان کے تابعین کو امان میں سے وہ کچھ دکھلائیں گئے جن سے وہ بچنا چاہتے تھے۔“
کی تفسیر کی ہے، کہتے ہیں: کہ اس آیت میں مذکور فرعون اور ہامان سے ابوبکر اور عمر مراد ہیں۔ اس بےہودہ تفسیر کو مشہور شیعی عالم نعمۃ الله الجزائری نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں درج کیا ہے۔
(الانوار العمانية: جلد 2 صفحہ 89)
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِىۡ عِنۡدَكَ بَيۡتًا فِى الۡجَـنَّةِ وَنَجِّنِىۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّنِىۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَۙ (سورة التحريم آیت 11)۔
اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے جو مؤمن ہیں مثال بیان کرتا ہے فرعون کی بیوی کی جبکہ اس نے دعا کی: اے پروردگار ! میرے واسطے جنت میں اپنے قریب مکان بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل (کے اثر) سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی بچا دے۔
اس آیت میں بیان شدہ مثال کی تفسیر کرتے ہوئے شیعی امام بحرانی نے لکھا ہے کہ اس سے رسول اللهﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہؓ اور ان کے شوہر سیدنا عثمان بن عفانؓ کو مراد لیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ونجنی من فرعون و عملہ میں فرعون اور اس کے عمل سے سیدنا عثمانؓ اور اس کے عمل مراد ہیں اور فرمانِ الٰہی ونجنی من القوم الظالمین میں مذکور ظالموں کی قوم سے بنو امیہ مقصود ہیں۔
(البرہان فی تفسیر القرآن: جلد 29 صفحہ 358)
اسی طرح ان لوگوں نے اللہ تعالی کے فرمان:
وَجَآءَ فِرۡعَوۡنُ وَمَنۡ قَبۡلَهٗ وَالۡمُؤۡتَفِكٰتُ بِالۡخَـاطِئَةِۚ (سورة الحاقة سورۃ 9)۔
اور فرعون اور اس کے قبل والوں نے اور الٹی ہوئی بستیوں والوں نے (بڑے بڑے) قصور کیے۔“
کی تفسیر میں بھی سنگدلی وقساوت اور جبر و خشونت سے لبریز افتراءات کے ذریعہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مطعون کیا ہے۔ شیعی عالم شرف الدین النجفی اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کرتا ہے:
عن حمران انه سمع جعفر يقول فی هذه الآية: وجا فرعون يعنى الثالث ومن قبله يعنى الأولين، وَالۡمُؤۡتَفِكٰتُ، بِالۡخَـاطِئَةِ يعنى عائشة۔
حمران کا بیان ہے کہ اس نے ابو جعفر کو اس آیت (کی تفسیر میں) یہ کہتے ہوئے سنا کہ وجاء فرعون میں فرعون سے تیسرا (یعنی سیدنا عثمانؓ مراد ہیں) ومن قبلہ سے دو پہلے (سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ) مراد ہیں، جبکہ وَالۡمُؤۡتَفِكٰتُ بِالۡخَـاطِئَةِ سے سیدہ عائشہؓ کو مراد لیا گیا ہے۔
اس کے علاؤہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان:
وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالبَغى۔
اور اللہ تعالی تمہیں کھلی برائی سے اور مطلق برائی سے اور ظلم و سرکشی سے روکتا ہے۔“
میں بیان شدہ فحشاء، منکر اور بغی سے سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ ان کی خلافت مراد لیتے ہیں
اس تفسیر کے لیے درج ذیل روایت نقل کرتے ہیں
عن أبی جعفر عليه السلام انه قال: ينهى عن الفحشاء الأول والمنكر الثانی البغى الثالث (تفسير العياشی: جلد 2 صفحہ 289)
ابو جعفر نے کہا ہے کہ (اللہ تعالیٰ) منع کرتا ہے فحشاء سے، یعنی پہلے منکر سے، یعنی دوسرے سے اور بغی سے یعنی تیسرے سے اول کے لفظ سے یہ سیدنا ابوبکر الصدیقؓ کو منکر کے لفظ سے خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کو اور بغی کے لفظ سے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کو مراد لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں حرمتِ رسول اللہﷺ اصحابِ رسول اللہﷺ اور امہاتُ المؤمنینؓ کی پاکیزہ سیرتوں کی پاسبانی کرنے والے گروہ میں شامل فرمائے۔