Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

روافض کو اہلِ قبلہ کہنا اور جاننا قرآن و حدیث کے مخالف ہے


روافض کو اہلِ قبلہ کہنا اور جاننا قرآن و حدیث کے مخالف ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں زید کہتا ہے کہ اہلِ قبلہ کو ہم کافر نہیں کہتے، اور اہل قبلہ زید اس کو کہتا ہے جو قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہو۔

میرے خیال سے قادیانی، رافضی، چکڑالوی اور جس قدر فرق باطلہ نظر میں آتے ہیں سب قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ زید کے قول کے بموجب اس فرقہ والوں کو کفر کا فتویٰ دینا خلافِ شریعت ہوا۔ یا اہلِ قبلہ کی شرح شریعت نے اور طرح کی ہو گی؟ چاہتا ہوں کہ اہل قبلہ کی شرح مطابق شرع شریف مفصل اور مدلل طور پر فرمائی جائے۔

جواب: زید جاہل ہے اور اپنے اس قول (کہ اہلِ قبلہ وہ ہے جو قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہو) میں کاذب اور مفتری ہے۔ اہل قبلہ کے اس معنیٰ کے لحاظ سے تو جو شخص پانچوں وقت قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہو اور صرف ایک وقت بت کو سجدہ بھی کرتا ہو تو زید اُس کی بھی تکفیر نہیں کرے گا۔ کہ وہ خود ہی یہ کہتا ہے کہ ہم اہلِ قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔ بلکہ زید کے نزدیک روافض وغیرہ فرق ضالہ کی بھی تکفیر غلط قرار پاتی ہے کہ وہ بھی اہل قبلہ ہیں، یعنی قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں، بلکہ زید کے نزدیک منافقین کی وہ تکفیر جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئی اور خلف و سلف تمام امت سے منقول ہے، وہ بھی غلط اور باطل ٹہرتی ہے کہ منافقین بھی تو قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، تو وہ بھی اہلِ قبلہ ہوئے اور زید بایں معنیٰ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتا۔ لہٰذا زید احکام قرآن کا مخالف، احادیث کا منکر، ساری امت کے عقیدہ کو غلط اور باطل قرار دینے والا ٹھہرا۔

الحاصل زید کی یہ اہلِ قبلہ کی تعریف غلط اور باطل ہے۔ کتب عقائد اور فقہ میں اہل قبلہ کی صحیح تعریف موجود ہے۔ عقائد کی مشہور کتاب شرح فقہ اکبر میں ہے

جان لو کہ اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین میں موافق ہوں، جیسے عالم کا حادث ہونا، اجسام کا حشر ہونا اللہ تعالیٰ جل شانہ کا علم تمام کلیات و جزئیات کو محیط ہونا، اور جو اہم مسئلے اس کے مثل ہیں۔ جو شخص عمر بھر طاعتوں اور عبادتوں میں رہے اور اس کے ساتھ یہ اعتقاد بھی رکھتا ہو کہ عالم قدیم ہے ،یا حشر نہ ہوگا یا اللہ تعالیٰ جل شانہ کو جزئیات کا علم نہیں، وہ اہل قبلہ نہ ہوگا۔

اور اہلِ سنت کے نزدیک اہل قبلہ سے کسی کو کافر نہ کہنے سے مراد ہے کہ اسے کافر نہ کہیں گے جب تک اس میں کفر کی کوئی علامت اور نشانی نہ پائی جائے اور کوئی موجب کفریات اس سے صادر نہ ہو۔

یہی حضرت ملا علی قاریؒ اسی شرح فقہ اکبر: میں چند صفحات کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ مخفی نہیں کہ ہمارے علماء جو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ کے باعث اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں رکھتے تھے اس سے فقط قبلہ کی طرف رخ کرنا مراد نہیں کہ غالی رافضی جو بکتے ہیں کہ حضرت جبرئیلؑ کو وحی میں سہو ہوا، انہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا علیؓ کی طرف بھیجا تھا۔ اور بعض نے تو یہ کہا کہ سیدنا مولی علیؓ خدا ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ قبلہ کی طرف نماز پڑھیں مسلمان نہیں۔ اور اس حدیث کی بھی یہی مراد ہے جس میں فرمایا کہ جو ہماری نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلمان ہے۔

فقہ کی مشہور کتاب رد المحتار حاشیه در مختار میں ہے: لا خلاف في كفر المخالف في ضروريات الاسلام و ان كان فمن اهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات

ترجمہ: ضروریاتِ اسلام سے کسی چیز میں خلاف کرنے والا بالاجماع کافر ہے اگرچہ وہ اہلِ قبلہ ہی سے ہو اور تمام عمر طاعات میں گزارے۔

ان عبارات سے ظاہر ہو گیا کہ اہلِ قبلہ وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین پر ایمان رکھتے ہوں۔ نہ ان میں کفر کی کوئی نشانی پائی جائے، نہ ان سے کوئی بات مؤجب کفر صادر ہو تو فقہائے کرام اہل قبلہ کے یہ معنیٰ مراد لے کر حکم فرماتے ہیں کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر جائز نہیں۔ اور جس پر کوئی علامت کفر کی ہو یا اس سے کوئی کفری قول صادر ہوا ہو یا وہ کسی کفر سے راضی ہو وہ اہلِ قبلہ میں داخل ہی نہیں، چاہے وہ قبلہ کی طرف رخ کر کے ہماری سی نماز پڑھے، شرعاً اس کی تکفیر کی جائے گی۔ لہٰذا زید سخت جاہل ہے، کوئی کتاب اس کی موافقت نہیں کر سکتی اور اس کا یہ قول سراسر غلط اور باطل ہے۔ 

(فتاویٰ اجمليہ: جلد 1 صفحہ 277)