Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خوجہ مذہب والا فرقہ در حقیقت روافض کی شاخ ہے، ان کا جنازہ پڑھنے پڑھانے اور اُن کے ساتھ میل جول رکھنے، اور ان کے مذہبی امور میں شرکت کرنے کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین درج ذیل مسائل میں کہ

  1. خوجہ مذہب والا فرقہ در حقیقت روافض (شیعہ) کی شاخ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو روافض کی اقسام ثلثہ میں سے کس قسم میں داخل ہے؟ اور اگر نہیں تو اس فرقہ کا اصل مذہب کیا ہے؟ یہ فرقہ ناجیہ میں داخل ہے یا نہیں؟ خوجہ مذہب کی حقیقت واضح فرمائیں۔
  2. خوجہ مذہب والے کی نماز جنازہ سنیوں کو پڑھنی پڑھانی شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ نیز خواجہ مذہب کے دیگر مذہبی اُمور میں ان کے کھانے پینے میں سنیوں کی شرکت شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ جو باوجود علم کے خوجہ مذہب یا کسی گمراہ فرقہ سے تعلقات مذہبی قائم رکھے، ان کے بتائے مشورہ میں ان کے کھانے پینے میں شرکت کرے، ایسے لوگوں کا شرعاً کیا حکم ہے؟
  3.  آغا خان کس عقیدہ کا آدمی ہے؟ اس کی اتباع شرعاً درست ہے یا نہیں؟ جو شخص آغا خان کو اپنا مذہبی پیشوا و مقتدا جانے، امام فی المذہب عقیدہ رکھے اور اس کو باعلان آقا و نامدار کہے، ایسے شخص کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور یہ آغا خان کے متبعین کو شرعاً کافر و مرتد سمجھنا روا ہے یا نہیں؟

جواب: (1) خوجہ مذہب روافض ہی میں داخل ہے اور یہ فرقہ ہرگز ہرگز فرقہ ناجیہ نہیں ہے کہ فرقہ ناجیہ صرف اہلِ سنت والجماعت ہے۔ ترمذی شریف میں حدیث شریف ہے حضور اکرمﷺ نے فرمایا

میری امت تہتر مذہب پر متفرق ہو جائے گی لیکن سوائے ایک مذہب کے سب کے سب دوزخی ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟ حضور اکرمﷺ نے فرمایا وہ مذہب جس پر میں اور میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔

اس حدیث شریف سے ثابت ہو گیا کہ جو فرقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نہ مانے اور ان کے طریقہ پر نہ چلے وہ یقیناً دوزخی ہے، اور ظاہر ہے کہ جب خوجہ مذہب روافض سے ہے تو وہ نہ صحابہ کرامؓ کو مانتے ہیں نہ ان کے طریقہ پر چلتے ہیں ہے تو ان کا دوزخی ہونا حدیث شریف سے ثابت ہوگیا۔

دار قطنی کی حدیث میں ہے جو سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا سیساتی من بعدى قوم لهم نيز يقال لهم الرافضة فان ادركتهم فاقتلهم فانهم مشركون قال فقلت يا رسول اللہ إما العلامة فيهم؟ قال يفرطونک بما لیس فیک ويطعمون على السلف

ترجمہ: عنقریب میرے بعد ایک قوم آئے گی جس کا لقب رافضی (شیعہ) کہا جائے گا، تو اگر انہیں پائے تو اُن کو قتل کر ڈالنا کہ وہ مشرک ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ اُن کی علامت کیا ہے؟ حضور اکرمﷺ نے فرمایا وہ لوگ تیرے متعلق حد سے تجاوز کریں گے یہاں تک کہ جو بات تجھ میں نہیں ہے وہ بھی کہیں گے اور سلف پر طعن کریں گے۔

اس حدیث شریف نے روافض کا نام اور علامت اور حکم سب کچھ ہی ظاہر کر دیا تو یہ فرقہ رافضی ہونے کے باوجود فرقہ ناجیہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟

(2) جب فرقہ خوجہ گمراہ روافض میں سے قرار پایا تو اس فرقہ کے کسی شخص کی نمازِ جنازہ سنیوں کو کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟ حدیث شریف میں تو یہاں تک ممانعت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا

ان مرضوا فلا تعودوهم و ان ماتوا فلا تشهدوهم 

اور بد مذہب بیمار ہوں تو اُن کی عیادت نہ کرو اور اگر مر جائیں تو اُن کی نمازِ جنازہ میں حاضر نہ ہوں۔

اسی طرح ان کے مذہبی اُمور اور کھانے پینے میں سنیوں کو شریک ہونا جائز نہیں۔ حدیث شریف میں ہے جس کو عقیلی سیدنا انسؓ سے راوی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

عن انس: ان اللہ اختارنی و اختارلی اصحابا و اصهارا و سيأتي قوم يسبونهم وينقصونهم فلا تجالسوهم ولا تشاربوهم ولا تؤاكلوهم ولا تناكحوهم لا تصلوا عليهم لا تصلو معهم

ترجمہ: یعنی بیشک الله تعالیٰ نے مجھ کو منتخب کیا اور میرے لئے اصحاب خویش و اقارب منتخب کئے اور عنقریب ایک قوم آئے گی جو انہیں گالیاں دے گی اور ان کی تنقیص شان کرے گی، پس تم ان کے پاس مت بیٹھو، اور ان کے یہاں مت کھاؤ پیو، اور ان کے ساتھ مت نکاح کرو۔

اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا شرعاً ممنوع ہے۔ اب باوجود اس کے جو ان کے امور میں شرکت کرے، ان کے ساتھ کھائے، پئے، وہ فاسق اور مرتکب حرام ہے، اور ان احادیث کے احکام کے خلاف ہے۔

(3) مذہب خوجہ اور آغا خان کی کوئی کتاب اگر نظر سے گزری ہوتی تو اس سے اُن کا پورا عقیدہ اور اُن کے مذہب کی پوری حقیقت پیش کر دی جاتی لیکن چونکہ اس مذہب کی گمراہی و ضلالت اور آغا خان کا گروہ ضال سے ہونا علم نہیں ہے۔ اس لئے مجمل احکام تحریر کئے گئے۔

لہٰذا اس کا اتباع کسی طرح شرعاً درست نہیں اور جو شخص اسے اپنا پیشوا و مقتداء اور امام فی المذہب یا آقائے نامدار مانے اور اس کا اتباع و پیروی کرے وہ یقیناً گمراہ و ضال اور بے دین و مخالف اہلِ سنت و الجماعت ہے۔ 

(فتاویٰ اجملیہ: جلد، 1 صفحہ، 291)