شیعہ کا غیبوبت کے متعلق عقیدہ
الشیخ ممدوح الحربیشیعہ کا غیبوبت کے متعلق عقیدہ
شیعوں کا یہ عقیدہ بنیادی طور پر مجوسی عقائد سے تعلق رکھتا ہے جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان کا امام مہدی زندہ ہے اسے موت نہیں آئی جس کا نام ابشاوثن ہے جو بشتاسف بن بہراسف کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے یہ خراسان اور چین کے درمیان واقع ایک قلعہ کے اندر چھپا اور پھر وہیں غائب ہو گیا ہے شیعہ اثناء عشریہ کا غیبوبت کے متعلق عقیدہ ہو بہو مجوسی معلوم ہوتا ہے جس کے متعلق شیعوں کے نزدیک صدوق کے لقب سے ملقب اور ان کے چوٹی کے عالم قمی نے اپنی کتاب اکمال الدین میں لکھا ہے:
من انكر القائم عليه السلام فی غيبته مثل ابليس فی امتناعه من السجود لآدم۔
جو شخص قائم کی غیبوبت و پوشیدگی کا منکر ہے وہ ابلیس کی طرح ہے جس نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
شیعہ کے ہاں غیبوبت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گیارہویں امام حسن عسکری کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد بن الحسن ہے، یہ ان کا بارہواں امام ہے، یہ بچہ سرمن رائی نامی شہر میں موجود اپنے باپ کے گھر میں پانچ سال کی عمر میں ایک غار کے اندر داخل ہوا اور غائب ہو گیا، اس کی یہ غیبوبت بہت دو دورانیوں پر مشتمل ہے، ایک کو غیبتِ صغریٰ اور دوسری کو غیبتِ کبریٰ کہا جاتا ہے۔
غیبتِ صغریٰ:
اس غیبت میں امام اور باقی شیعوں کے درمیان سفراء کے واسطے سے پیغام رسانی ہوتی رہی مگر امام کے مرکز وجود کا علم خاص الخاص شیعوں کو حاصل رہا، اس غیبت کی مدت کے تعین و تحدید میں اختلاف کے باوجود چوہتر 74 سال کا عرصہ غیبتِ صغریٰ کا بیان ہوا ہے
غیبتِ کبریٰ:
اس غیبت میں بارہویں امام محمد بن الحسن نے اپنے باپ کے گھر کی غار میں داخل ہو جانے کی وجہ سے نہ صرف اپنے سفراء سے پوشیدگی اختیار کرلی بلکہ وہ اپنے خاص مقرب شیعوں سے بھی اوجھل ہوگئے یہی وجہ ہے کہ شیعہ ہر روز نمازِ مغرب کے بعد غار کے دروازہ پر مجتمع ہو جاتے اور اپنے امام کو بلند آواز سے پکارتے اور انہیں غار سے نمودار ہونے کی التجا کرتے ہیں، یہاں تک کہ آسمان تاروں سے گھنا ہو جاتا ہے۔
امام غائب کی زیارت کے لیے دعائیں:
شیعہ اپنے امام غائب کی زیارت کے لیے مخصوص دعائیں کرتے ہیں، ان دعاؤں کو ان کے علماء نے اپنی معتمد کتابوں میں درج کیا ہے۔ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں شیرازی نے اپنی کتاب کلمۃ المہدی میں محمد مشہدی نے اپنی کتاب الميرزا الکبیر میں اور علی بن طاؤس نے اپنی کتاب مصباح الزائر میں امام غائب کی زیارت کے آداب اور مخصوص دعا بیان کی ہے:
ثم اںٔت سرداب الغيبة وقف بين البابين، ماسكا جانب الباب بيدك، ثم تنحنح كالمستأذن وسم وانزل وعليك السكينة والوقار وصل ركعتين فی عرضة السرداب وقل: اللهم طال الانتظار وشمت بنا الفجار وصعب علينا الانتظار، اللهم ارنا وجه وليك الميمون فی حياتنا وبعد المنون، اللهم انی ادين لك بالرجعة وبين يدى صاحب هذه البقعة الغوث، الغوث الغوث يا صاحب الزمان هجرت لزيارتك الأوطان واخفيت امرى عن اهل البلدان، لتكون شفيعا عند ربك وربى یا مولای ابن الحسین بن علىؓ جنتك زائرا لك۔
پھر غیبت کی غار کی طرف آؤ، دو دروازوں کے درمیان ہو کر دروازے کے پہلو کو اپنے ہاتھ سے تھام کر رک جاؤ، پھر کھنکھارو گویا کہ تم اجازت طلب کر رہے ہو، اس کے بعد بسم اللہ پڑھ کر نیچے سکون اور وقار کے ساتھ اترو، غار کے صحن میں دو رکعت پڑھو، پھر یوں کہو! اے اللہ! انتظار طویل ہو چکا ہے، ہماری مصیبت پر گناہوں میں منہمک لوگ خوشی منا رہے ہیں۔ اور انتظار مشکل بھی ہو گیا ہے اے اللہ! ہمیں اپنے ولی کے چہرہ مبارک کی ہماری زندگی میں اور موت کے بعد زیارت کرا دے، اے اللہ! میں تیرے سامنے اور اس مسکن کے مالک کے روبرو (اپنے امام غائب کی) رجعت کے عقیدہ کا اقرار کرتا ہوں، مدد مدد، مدد، اے صاحبِ زمان! میں نے آپ کی زیارت کے لیے اپنے وطن کو خیر باد کہا ہے، اور اپنے معاملہ کو لوگوں سے بھی پوشیدہ رکھا ہے تاکہ آپ میرے رب کے ہاں میرے شفیع بن جائیں، اے میرے آقا! ہمارے سیدنا حسین بن علیؓ کے لخت جگر میں آپ کے دیدار و زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔“