Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ کا رجعت کے متعلق عقیدہ

  الشیخ ممدوح الحربی

شیعہ کا رجعت کے متعلق عقیدہ

شیعوں کے ہاں رجعت کو ان کا بنیادی دینی و مذہبی عقیدہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے ان کے ہاں یہ عقیدہ زرادشت بعض فارسی مذاہب کے ذریعہ سے منتقل ہوا ہے یہ ان کا ایسا عقیدہ ہے جسے ان کے علماء نے پچاس سے زائد قدیم و جدید مؤلفات میں بیان کیا ہے۔ بلا مبالغہ اس عقیدہ کو شیعہ امامیہ کے تمام طبقات کے مابین نکتہ اجماع و اتحاد کا اور مذہب امامیہ کی اساس و بنیاد ہونے کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا غار میں جو مستور بارہواں امام محمد بن الحسن العسکری ہے جسے وہ الحجۃ الغائب کا لقب دیتے ہیں، اس کی رجعت ہو گی، یعنی وہ دنیا میں دوبارہ ظہور پذیر ہوگا اور درج ذیل مہمات کی تکمیل کرے گا:

 شیعوں کے مہدی منتظر کے ہاتھ سے حجرہ نبویہ کا انہدام اور شیخین سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو پھانسی:

شیعی امام مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں ذیل کی روایت مذکور ہے:

وأجئى الى يثرب فاهدم الحجرة واخرج من بها وهما طريان فأمر بهما تجاه البقيع وآمر بخشبتين يصلبان عليهما، فتورقان من تحتهما، فيفتتن الناس بهما اشد من الأولى، فينادی منادى الفتنة من السماء ياسماء انبذى و يا ارض خذى فيومئذ لا يبقى على وجه الارض الا مؤمن۔ (بحار الانوار جلد: 53 صفحہ: 39)۔

میں یثرب میں آؤں گا اور حجرہ (یعنی حجرہ نبویہ) کو منہدم کروں گا اور اس میں موجود دونوں کو ترو تازہ حالت میں نکالوں گا (یعنی سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ) کو اس لیے کہ انہی دونوں کو رسول اللہﷺ کے گھر میں مدفون کیا گیا اور یہی دونوں آپﷺ کی قبر شریف کے قریب آسودہ خاک ہیں) انہیں بقیع کے سامنے لے جانے کا حکم دوں گا اور دو لکڑیوں کے گاڑنے کا حکم دوں گا جن پر ان کو سولی دی جائے، پھر ان لکڑی کے دونوں ستونوں کے نیچے پتے نمودار ہوں گے لوگ ان کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ آزمائش کا شکار ہو جائیں گے، اس وقت آسمان سے آزمائش کی آواز بلند ہوگی کہ آسمان! تو پھینک دے اور اے زمین تو پکڑ لے پھر اس دن روئے زمین پر صرف مؤمن باقی رہ جائیں گے۔

اس روایت کی تائید میں شیعی عالم الاحسائی نے اپنی تالیف کتاب الرجعۃ میں مفضل کے واسطہ سے سیدنا جعفر صادقؒ کی یہ روایت بیان کی ہے:

قال المفضل ياسيدى ثم يسير المهدى الى اين؟

قال عليه السلام الى مدينة جدى رسولﷺ‎ 

فيقول: يا معشر الخلائق هذا قبر جدى رسول اللهﷺ‎؟

فيقولون: نعم يا مهدی آل محمد

فيقول: ومن معه فی القبر؟

فيقولون: صاحباه وضجيعاه ابوبكرؓ و عمرؓ

فيقول: اخرجوهما من قبريهما، فيخرجان غضين طريين، فيكشف عنهما أكفانهما ويامر برفعهما على دوحه يابسة نخرةفيصلبهما عليهما۔ 

(كتاب الرجعة 186)۔

مفضل نے دریافت کیا : میرے آقا پھر مہدی کہاں جائیں گے؟

سیدنا جعفر صادقؒ نے جواب دیا) مہدی میرے نانا رسول اللہﷺ کے شہر (یعنی مدینہ منورہ) کی طرف جائیں گے وہاں جا کر کہیں گے) لوگو! میرے نانا رسول اللہﷺ کی قبر یہی ہے؟ لوگ کہیں گے: جی ہاں! اے مہدی آلِ محمد! مہدی پوچھیں گے: ان کے ساتھ قبر میں کون مدفون ہیں؟ تو لوگ کہیں گے: سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ جو آپﷺ کے صحابی بھی ہیں اور آپ کے ساتھ آسودہ تربت بھی، مہدی کہیں گے: ان دونوں کو نکالو! چنانچہ ان کو نکالا جائے گا وہ دونوں حد درجہ نرم اور تروتازہ ہوں گے مہدی ان دونوں کے جسموں سے کفن اتارے گا اور ان کو ایک بڑے خشک اور بوسیدہ درخت پر چڑھانے کا حکم دے گا پھر خود ہی ان دونوں کو پھانسی دے گا (معاذ الله ثم معاذ الله)۔

الاحسائی کی کتاب الرجعۃ میں ہی ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے: 

وهذا القائم هو الذی يشفى قلوب شيعتك من الظالمين والجاحدين والكافرين، فيخرج اللات والعزى طريين فيحرقهما۔ (كتاب الرجعة)۔

یہی قائم ہی تیرے شیعوں کے قلوب کو ظالموں، منکروں اور کافروں کو زیر کر کے ٹھنڈک پہنچائے گا پس وہ لات اور عزیٰ (یعنی سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ) کو تروتازہ حالت میں ان کے مدفنوں سے) نکال کر جلائے گا۔

2 شیعوں کا مہدی ام المومنین سیدہ عائشہؓ پر حد نافذ کرے گا:

شیعوں کا مہدی منتظر اپنی مزعومہ کے موقع پر طاہرہ، مطہرہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے ساتھ ان کے عقیدہ کے مطابق یہی برتاؤ کرے گا شیعی عالم الحر العاملی نے اپنی کتاب الایقاظ من الہجعة میں اور مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں عبد الرحمٰن القیصر کے واسطہ سے ابو جعفر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:

اما لوقد قام قائمنا لقد ركت اليه الحميراء حتى يجلدها الحد۔

اگر ہمارے قائم (مہدی منتظر) کا ظہور ہوگیا تو یقینی طور پر حمیرا (حمیرا حمراء کی تصغیر ہے اس سے مراد سیدہ طاہرہ عائشہؓ ام المومنین ہے رسول اللہﷺ ان کو اسی نام کے ساتھ پکارا کرتے تھے کہ سیدہ بے مثال حسن و جمال سے متصف تھیں) کو ان کے حوالہ کیا جائے گا وہ اس پر حد نافذ کرے گا۔

3 مہدی شیعہ کے ہاتھوں صفا و مروہ کے درمیان حجاج کرام کا قتل عام ہوگا:

 شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے مہدی کا ظہور آخر زمانہ میں اس کے کارناموں میں سے یہ کارنامہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ صفا و مروہ کے درمیان بے گناہ اور معصوم مسلمان حاجیوں کو قتل کرے گا شیعی امام مجلسی نے بحار الانوار میں یہ روایت درج کی ہے:

کانی بحمران بن اعين وميسر بن عبدالعزيز يخبطان الناس بأسيا فهما بين الصفا والمروة۔ (بحار الانوار: جلد 65 صفحہ: 40)۔

ایسا لگتا ہے کہ میں حمران بن اعین اور میسر بن عبد العزیز کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ صفا و مروہ کے درمیان لوگوں کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں۔ 

4 شیعوں کا مہدی حرم کے منتظمین کے ہاتھ پاؤں کاٹے گا:

شیعوں کا مہدی نمودار ہوتے ہی حرمین شریفین کے نظام کو کنٹرول کرنے والے افراد کے لیے تعذیب و اذیت کا اہتمام کرے گا، اللہ تعالیٰ حرمین شریفین کی شان و شوکت کو اور ان کی عزت و وجاہت کو بے حساب برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ شیعوں کو ان لوگوں کے ساتھ بغض و عناد محض اس لیے ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ الحرام کے حجاج کرام کی خدمت کرتے اور حج کے انتظامات کو سنبھالتے اور زائرینِ بیت اللہ کے استقبال کے لیے مقدس مشاعر و مقامات کو سہولیات و ضروریات سے آراستہ کرتے ہیں۔

شیعی عالم نعمانی نے اپنی کتاب الغیبۃ میں لکھا ہے:

كيف بكم او قد قطعت ايديكم وارجلكم وعلقت فی الكعبة ثم يقال لكم: نادوا نحن سراق الكعبة۔

کیا ہوگی تمہاری حالت! اگر تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور انہیں کعبہ میں لٹکا دیا جائے، پھر تم سے کہا جائے کہ اپنے متعلق بلند آواز میں یوں کہو کہ ہم کعبہ کے چور ہیں۔

اسی طرح ان کے عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب الارشاد میں اور طوسی نے اپنی کتاب الغیبۃ میں یہ روایت نقل کی ہے۔

اذا قام المهدى هدم المسجد الحرام وقطع ايدى بنی شيبة وعلقها بالكعبة وكتب عليها هؤلاء سراق الكعبة۔

جب مہدی کا ظہور ہوگا تو وہ مسجد الحرام کو گرا دے گا، بنو شیبہ کے لوگوں کے ہاتھ کاٹ کر کعبہ کے ساتھ لٹکائے گا اور ان پر لکھ دے گا کہ یہ لوگ کعبہ کے چور ہیں۔

ایک تیسری روایت میں یوں لکھا ہے:

انه يجرد السيف على عاتقه ثمانيه اشهر يقتل هرجا فاول ما يبدأ ببنی شيبة، فيقطع ايديهم ويعلقها فی الكعبة وينادی مناديه هولاء سراق الله ثم يتناول قريشا فلا ياخذ منها الا السيف ولا يعطيها الا السيف۔

شیعوں کا مہدی منتظر آٹھ ماہ تک اپنے کندھے پر نگی تلوار اٹھائے بے دریغ قتل کرے گا، سب سے پہلے وہ بنو شیبہ کی خبر لے گا ان کے ہاتھوں کو کاٹ کر کعبہ پر لٹکائے گا، اس کے منادی اعلان کریں گے کہ یہ لوگ اللہ کے چور ہیں، پھر قریش کی گرفت کرے گا ان سے تو وہ سارا معاملہ تلوار کے ساتھ ہی کرے گا۔

5 اہلِ سنت کے اموال کی چوری اور لوٹ مار:

شیعہ امامیہ اہلِ سنت جنہیں وہ ناصبی کہتے ہیں کی املاک و ثروت کو اپنے لیے حلال قرار دیتے ہیں شیعی ائمہ اور ان کے علماء اپنے پیروکاروں کے لیے اہلِ سنت کے اموال پر قبضہ کر لینے کو مباح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں جب بھی اس کا موقعہ ملے یا جس وقت ان کے ایسا کر گزرنے کے لیے سازگار حالات میسر ہوں کسی قسم کی جھجک یا تردد کے بغیر ناصبیوں (یعنی سنیوں) کے مال و جائداد کو ہتھیا سکتے ہیں ان کے امام طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں لکھا ہے:

خذ مال الناصبی حيثما وجدته وادفع الينا الخمس۔

(تهذيب الاحكام: جلد 1 صفحہ 384)۔

تجھے ناصبی (یعنی سنی) کا مال جہاں سے بھی ملے قبضہ کرلے اور اس کا خمس ہمارے سپرد کر دے۔

یہ بھی لکھا ہے:

مال الناصب وكل شئى يملكه حلال۔

 (تہذيب الاحكام: جلد 1 صفحہ 384)۔

(بالکل یہی عقیدہ یہودیوں کا ہے کہ وہ غیر یہودیوں کی املاک کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں) ناصبی کا مال اور اس کی ہر مملوکہ شیء حلال ہے۔

 6 بیت اللہ کے حجاج کرام پر زانی اور اولادِ زنا ہونے کا شیعی بہتان:

بیت اللہ کے حجاج کرام اور زائرین سے نفرت و کراہت بھی عقائد شیعہ میں داخل ہے، یہاں تک کہ شیعہ عرفہ کے دن وقوف کرنے والے حاجیوں کو زانی قرار دیتے ہیں، ان کے چوٹی کے امام اور عالم کاشانی نے اپنی کتاب الوافی میں یوں لکھا ہے:

ان الله يبدأ بالنظر الى زوار الحسين بن على عشية عرفة قبل نظره الى اهل الموقف لان اولئك اولاد زنی وليس فی هؤلاء زناة۔ 

عرفہ کی شام کو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے سیدنا حسین بن علیؓ کی زیارت کرنے والوں پر نظر کرتا ہے، پھر عرفات میں وقوف کر نے والوں پر (یعنی بیت اللہ کے حاجیوں پر) نظر کرتا ہے، اس لیے کہ زائرین سیدنا حسینؓ میں کوئی زانی نہیں ہوتا، جبکہ وقوف کرنے والے سب زنا کی اولاد ہوتے ہیں۔

اسی طرح ان کے عالم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں اس عقیدہ کے بیان میں ایک باب اس عنوان کے ساتھ قائم کیا ہے۔

باب انه يدعى الناس باسماء امهاتهم الا الشيعة۔

(قیامت کے دن شیعوں کے علاؤہ باقی سب لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا) اس باب کے تحت صاحب کتاب نے بارہ روایات نقل کی ہیں ایسے ہی ان کے ممتاز عالم کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں اس عقیدہ کو ثابت کیا ہے۔ اس نے لکھا ہے:

ان الناس كلهم اولاد بغايا ما خلا شيعتنا۔

ہمارے شیعوں کے علاؤہ سب لوگ بدکارہ عورتوں کی اولاد ہیں۔ 

ان کے امام عیاشی اپنی تفسیر میں یوں لکھتا ہے:

ما من مولود يولد الا وابليس من الأبالسة بحضرته فان علم انالمولود من شيعتنا حجبه من ذلك الشيطان وان لم يكن المولود من شيعتنا اثبت الشيطان اصبعه فی دبر الغلام فكان مأبونا، وفی فرج الجارية فكانت فاجرة۔

(تفسر العياش: جلد 2 صفحہ 337)۔

جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے ابلیسوں میں سے ایک ابلیس اس کے پاس موجود ہوتا ہے سو اگر معلوم ہوجائے کہ نومولود ہمارے شیعہ میں سے ہے تو وہ شیطان سے محفوظ رہتا ہے اور اگر نو مولود کا تعلق ہمارے شیعوں سے نہ ہو تو شیطان اپنی انگلی لڑکے کی دبر پر رکھ دیتا ہے، پس وہ (بڑا ہو کر) لواطت کا عادی ہو جاتا ہے اور لڑکی کی شرم گاہ پر انگلی رکھتا ہے تو وہ بدکارہ ہو جاتی ہے۔