Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا

  جعفر صادق

 

        اُمّ المؤمنین حضرت حفصہؓ

نام حفصہ

 والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

والدہ زینب بنت مظعون

سن پیدائش بعثت نبوی سے 5 سال قبل

قبیلہ قریش شاخ بنو عدی

زوجیت رسول 3 ہجری

سن وفات 45 ہجری

مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ

کل عمر 63 سال تقریباً

                  نام و نسب

آپؓ کا نام حفصہ تھا۔سلسلہ نسب یوں ہے حفصہ بنت عمر بن خطّاب بن نفیل بن عبدالعزّیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرطہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لُوَیْ۔آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں عدی کے ساتھ جا کر رسول اللہﷺ کے نسب مبارک سے مل جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ حضرت زینب بن مظعونؓ ہیں جو جلیل القدر صحابی حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بہن تھیں۔

                             ولادت

سیدہ حفصہؓ آپﷺ کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 5 سال قبل پیدا ہوئیں۔

                     خاندانی پس منظر

مکہ مکرمہ میں مختلف قبائل آباد تھے، انتظامی معاملات کو درست رکھنے کے لیے اور آپسی اختلافات و تنازعات کو حل کرنے کے لیے مختلف قبیلوں کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔
اُمِ المؤمنین سیدہ حفصہؓ کے قبیلے بنی عدی کے پاس سفارت کا عہدہ تھا۔دیگر قبائل اس قبیلے کو ثالثی کے لیے منتخب کرتے اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی دوسرے قبیلے کو قریش کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ پیش آ جاتا تو بنی عدی کے سردار ہی بحیثیت سفیر سارے معاملات کو حل کرتے تھے۔ خود سیدہ حفصہؓ  کے والد گرامی سیدنا عمر فاروقؓ بھی قبل از اسلام بحیثیت سفیر لوگوں کے مسائل کو حل فرماتے تھے۔

               سیدہ حفصہؓ کے ماموں

سیدہ حفصہؓ  کے ماموں حضرت عثمان بن مظعونؓ ہیں جو آپؓ کی والدہ کے سگے بھائی ہیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہﷺ  نے ان کے پیشانی کا بوسہ لیا اور رونے لگے یہاں تک کہ آپﷺ کے مبارک آنسو سیدنا عثمان بن مظعونؓ  کے رخسار پر ٹپکنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اس دنیا سے اس طرح چلے گئے کہ اس کی کسی چیز سے بھی تعلق نہیں رکھا۔ آپﷺ نے انہیں اَلسَّلَفُ الصَّالِح کے خطاب سے نوازا، آپ پہلے صحابی ہیں جنہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

               ابتدائی تعلیم و تربیت

آپؓ نے جس گھر میں آنکھ کھولی، جرأت و عزیمت، بہادری و شجاعت کا وہاں پر پہلے سے بسیرا تھا، اس لیے مزاج میں بے خوفی کا پیدا ہونا فطری تقاضا تھا۔ اس کے علاوہ یہ گھر مکہ کے ان گنے چنے گھروں میں شمار ہوتا ہے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اس لیے آپ نے بھی بچپن میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ مزید اخلاقی تربیت آپ کے والد گرامی سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمائی۔

                           قبولِ اسلام

آپؓ نے انہی دنوں میں اسلام قبول کیا جب آپ کے والد سیدنا عمرؓ  نے قبول فرمایا۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک لگ بھگ دس سال تھی۔

                      نکاح اول اور ہجرت

آپؓ  کا پہلا نکاح قبیلہ بنو سہم کے چشم و چراغ سیدنا خنیس بن حذافہؓ سے ہوا۔ سیدنا خنیسؓ کا شمار ان جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جو السابقون الاولون کے اعزاز سے معزز ہیں اور جنہوں نے حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ ہجرت حبشہ سے واپسی مکہ پہنچنے پر سیدنا خنیسؓ کا نکاح سیدہ حفصہؓ  کے ساتھ ہو گیا۔جب مدینہ کی طرف ہجرت کا وقت آیا تو سیدنا عمرؓ کے ہمراہ سیدہ حفصہؓ  اور آپ کے شوہر سیدنا خنیسؓ بھی تھے۔

                  سیدنا خنیس غزوہ بدر میں

مدینہ منورہ میں دینِ حق کی دعوت کو مضبوط اور کفار کے شرور و فتن سے محفوظ کرنے کے لیے باضابطہ پہلا معرکہ بدر کے میدان میں بپا ہوا۔ سیدہ حفصہؓ  کے شوہر بھی اس معرکہ میں ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ اپنی شجاعت کے جوہر دکھلائے مردانہ وار لڑے یہاں تک کہ آپ کو کاری ضرب لگی، چنانچہ آپ کو واپس مدینہ لایا گیا، علاج معالجہ کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے اور سیدہ حفصہؓ بیوہ ہو گئیں۔

    مدتِ عدت کی تکمیل اور فاروق اعظم کی فکرمندی

سیدنا خنیس بن حذافہؓ کی شہادت کے وقت سیدہ حفصہؓ کی عمر تقریباً 21 سال تھی۔ اس کم عمری میں بیوگی کا صدمہ سہنا آسان نہیں تھا مزید یہ کہ آپؓ کے والد گرامی سیدنا عمر فاروقؓ مزاجاً اسلام کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اس لیے سیدنا عمرؓ  کو سیدہ حفصہؓ رضی اللہ عنہا کی عدت کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان کے نکاح کی فکر لاحق ہوئی۔ آپؓ کی خواہش تھی کہ جلد سے جلد سیدہ حفصہؓ کا گھر دوبارہ سے آباد ہو جائے۔

                     مناسب رشتے کی تلاش

جوان بیٹی کے دامن سے بیوگی کے داغ کو دھونے کے لیے سیدنا عمرؓ نے ان کے لیے نیک صالح سلیقہ مند شوہر کی تلاش شروع کی۔ دوسری طرف غزوہ بدر کے دنوں میں سیدنا عثمانؓ کی اہلیہ سیدہ رقیہ بنت محمد رسول اللہﷺ   کا انتقال ہو چکا تھا۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ حیا دار اور نیک صالح انسان تھے،اس لیے سیدنا عمرؓ  نے اس سلسلے میں آپ سے بات کرنے سیدنا عثمانؓ کے گھر تشریف لے گئے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اس پر سیدنا عثمان غنیؓ  نے سوچنے کے لیے کچھ دن کا وقت لے لیا۔
کچھ دنوں بعد سیدنا عمر فاروقؓ دوبارہ سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس تشریف لے گئے اور اُن سے اس بارے دریافت کیا۔ سیدنا عثمان غنیؓ نے معذرت کر لی اور فرمایا کہ میرا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس کے بعد سیدنا عمرؓ نے اس سلسلے میں سیدنا ابو بکرؓ سے بات کی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ  کی بات کو بغور سن تو لیا لیکن کوئی جواب دیے بغیر خاموش ہو گئے۔
رنجیدگی کے عالم میں سیدنا عمرؓ  نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائے اور ساری صورتحال بتلائی۔ آپﷺ  نے سیدنا عمرؓ کو ایسی خوشخبری سنائی کہ آپ کو کسی بات کا ملال باقی نہ رہا۔ نبیِ کریمﷺ  نے ارشاد فرمایا: حفصہ کی شادی اس شخص کے ساتھ ہو گی جو ابوبکرؓ اور عثمانؓ سے افضل ہے اور عثمانؓ کی شادی اس خاتون سے ہو گی جو حفصہؓ سے بہتر ہے۔

           حفصہ اُمِ المؤمنین بنتی ہیں

ایسے ہی ہوا ,کچھ عرصہ بعد آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ  کے لیے اپنا پیامِ نکاح سیدنا عمرؓ  کے گھر بھجوایا۔ جسے سیدنا عمرؓ نے بصد خوشی قبول فرمایا، چنانچہ 3 ہجری شعبان المعظم کے مہینے میں آپؓ نے اپنی بیٹی حفصہؓ  کا نکاح بعوض 400 درہم حق مہر کے نبیِ کریمﷺ  کے ساتھ کر دیا۔ اس وقت سیدہ حفصہؓ  کی عمر تقریباً 22 سال تھی۔

                    سیدہ حفصہؓ کا مکان

حارثہ بن نعمانؓ کے صحابی ہیں، ان کے مسجد نبوی کے قریب کئی مکانات تھے، نبی کریمﷺ  کسی سے نکاح فرماتے تو حضرت حارثہؓ اپنا ایک مکان نبی کریمﷺ  کی خدمت میں پیش فرما دیتے۔ آپﷺ کا نکاح جب سیدہ حفصہؓ  سے ہوا تو حضرت حارثہؓ نے ایک مکان آپﷺ  کے سپرد فرمایا۔ شادی کے بعد آپؓ کو جو مکان ملا وہ مسجد نبویﷺ کے مشرقی جانب تھا۔

                     نبوی گھرانے کی تربیت

سیدہ حفصہؓ کو اپنے والد سیدنا عمر فاروقؓ کے گھرانے سے جو اعلیٰ اوصاف وراثتاً ملے ان میں جرات، حق گوئی، معاملہ فہمی، دور اندیشی، نکتہ آفرینی، زورِ خطابت اور فصاحت و بلاغت تھے۔ نبی کریمﷺ  کی نگاہ میں چونکہ خواتین کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے اس لیے آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ  کی تعلیمی صلاحیتوں میں مزید نکھار لانے کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔

نبی کریمﷺ نے ایک پڑھی لکھی خاتون سیدہ شفا بنت عبداللہ عدویہؓ کو مقرر فرمایا کہ وہ سیدہ حفصہؓ  کی تعلیمی حالت میں مزید بہتری لائیں۔ چنانچہ انہوں نے آپؓ کو مزید پڑھایا لکھایا اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی سکھلایا۔

                      خواتین کے حقوق

زمانۂ جاہلیت میں عرب کی معاشرتی اقدار اس قدر گر چکی تھیں کہ انسانیت اچھائی و بھلائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھی۔ بالخصوص اُس دور میں مردوں اور خواتین کے درمیان جن امتیازی رویوں نے جنم لیا اس سے صنف نازک اپنی حیثیت کھو بیٹھی تھی۔ ایسے میں نبی کریمﷺ نے اپنی تعلیمات اور عملی رویوں کے ذریعے عرب کے امتیازی رویوں کو شکست دی۔ آپ کے گھرانے سے ازواجِ مطہراتؓ کی عملی زندگیاں اس راستے میں مشعلِ راہ ہیں۔ آپﷺ  نے ان کے بنیادی حقوق کی خاطر بے شمار اصلاحات فرمائیں، ازواجِ مطہراتؓ سے حُسنِ سلوک کا ایک منفرد اور مثالی معیار قائم فرمایا، جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ انہیں اپنی رائے کے اظہار کا پورا پورا حق دیا۔ ان کے نسوانی مزاج سے پیش آنے والے امور کو خندہ پیشانی سے سنبھالا۔ یہی وجہ تھی کہ امہات المؤمنین اپنے مطالبات پوری بے باکی اور بے تکلفی سے آپﷺ کی بارگاہ میں پیش کر دیا کرتی تھیں اور معاشرتی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار بلا تکلف کر دیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اُم المؤمنین سیدہ حفصہؓ  کے بارے میں بعض روایات میں ملتا ہے کہ وہ آپﷺ  سے حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بات کو بے جھجک پیش کردیا کرتی تھیں۔

                       امتیازی فضیلت

حضرت انسؓ سیدہ حفصہ بنت عمرؓ  کی منقبت نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: اے حفصہ! ابھی ابھی جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے ہیں اور مجھ سے کہا: بے شک وہ (سیدہ حفصہؓ) بہت زیادہ روزے دار اور کثرت سے راتوں کو اللہ کے حضور قیام کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔

               جمع قرآن اور سیدہ حفصہ

سیدنا انس بن مالکؓ سے بیان کرتے ہیں سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس سیدنا حذیفہ بن یمانؓ  تشریف لائے،جو کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کو فتح کرنے کے لیے اہلِ عراق کے ساتھ مل کر شامیوں سے جہاد کر رہے تھے۔ سیدنا حذیفہؓ کو لوگوں کے قرآن کریم میں اختلاف کرنے کے رویے نے گھبراہٹ میں ڈال رکھا تھا۔

سیدنا حذیفہؓ  نے سیدنا عثمانؓ  سے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین ! اس سے پہلے یہ امت بھی کتاب اللہ کے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح آپس میں اختلافات کا شکار ہو جائے آپ اختلافات کا سد باب کریں۔چنانچہ سیدنا عثمانؓ نے اُم المؤمنین سیدہ حفصہؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف) جو سیدنا ابو بکرؓ نے لکھوایا اور سیدنا عمرؓ کے پاس ساری زندگی محفوظ رہا اور سیدنا عمرؓ کے بعد اب آپ کے پاس ہے(عنایت فرمائیں تاکہ ہم اس کے مطابق نسخے تیار کریں اس کے بعد آپ کو یہ مصحف واپس کر دیں گے۔

سیدہ حفصہؓ نے وہ مصحف سیدنا عثمان غنیؓ کو دے دیا۔ سیدنا عثمانؓ  نے حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت سعید بن عاصؓ اور حضرت عبدالرحمٰن  بن حارثؓ  کے حوالے کیا تاکہ اسی کے مطابق دیگر قرآن کریم کے نسخے تیار کیے جا سکیں۔ جب نسخے تیار ہو چکے تو سیدنا عثمان غنیؓ  نےوہ مصحف اُم المؤمنین حفصہؓ  کو واپس کردیا۔

اب تا قیامت اُمّ المومنین سیدہ حفصہؓ کا بار احسان ایسا ہے جس پر مسلمانوں کی گردنیں جھکیں ہوئی ہیں۔ روئے زمین پر جب بھی کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرے گا تو سیدہ حفصہؓ  کا احسان بھی یاد آئےگا۔

                  سیدہ حفصہؓ کی وصیت

آپؓ کی عمر مبارک جب 60 کے قریب ہوئی، آپؓ نے زندگی کے دروازے پر موت کی دستک کو محسوس کیا تو اپنے بھائی سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کو بلا بھیجا، وہ آئے تو فرمانے لگیں:

عبداللہ!تمہیں یاد ہوگا والد محترم نے وفات سے قبل چوتھائی حصہ مال کی میرے لئے وصیت کی تھی۔ آپ کو یاد ہے؟

عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا۔جی بالکل یاد ہے۔

سیدہ حفصہؓ نے فرمایا پھر یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ والد محترم نے فرمایا تھا کہ جب میں وفات پا جاؤں تو اس مال کو آل عمر میں تقسیم کردیا جائے۔ یہ بھی آپ کو یاد ہے؟

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ  نے فرمایا کہ ہاں یہ بھی یاد ہے۔

تب آپؓ نے فرمایا: غابہ میں جو مال اور جائیداد ہے اس کو فی سبیل اللہ صدقہ کر دینا۔

                              وفات

اُم المؤمنین سیدہ حفصہؓ  نے شعبان المعظم  45 ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اس وقت حضرت امیر معاویہؓ  کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینے کا حاکم تھا۔ مروان ہی نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازے کو بھی اٹھایا، حضرت ابوہریرہؓ  قبر تک جنازہ کو کاندھا دیے چلتے رہے۔

سیدہ حفصہؓ  کے دونوں بھائی حضرت عبداللہ بن عمرؓ و حضرت عاصم بن عمرؓ اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداللہ و حضرت عبداللہ بن عبداللہ اور حضرت حمزہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہم نے آپؓ کو قبر میں اتارا۔ جنت البقیع میں دیگر ازواجِ مطہراتؓ کے پہلو میں آپؓ کو دفن کیا گیا

نوٹ: مخالفین (شیعہ) ان پر بھی کافی الزامات لگاتے ہیں ان کے جواب بھی دیے جائیں گے ان شاء اللہ