شیعہ کا تقیہ کے متعلق عقیدہ
الشیخ ممدوح الحربیشیعہ کا تقیہ کے متعلق عقیدہ:
تقیہ کا عقیدہ شیعوں کا اہم ترین عقیدہ ہے بلکہ یہ ان کے نزدیک دین کا رکن ہے خمینی نے اپنی کتاب کشف الاسرار میں تقیہ کی یہ تعریف لکھی ہے:
هی ان يقول الانسان قولا مغاير للواقع او يأتی بعمل مناقض الموازين الشريعة وذلك حفاظا لدمه او عرضه او ماله انتهى کلامه۔
تقیہ یہ ہے کہ کوئی شخص ایسی بات کہہ ڈالے جو واقع اور حقیقت کے برخلاف ہو یا ایسا عمل کرے جو شرعی معیار کے منافی ہو۔ اور یہ صرف اس لیے کرے کہ اس کی جان مال اور عزت محفوظ ہو جائے۔
اس عقیدہ کی حیثیت شیعہ امامیہ کے مذہب میں رخصت کی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے نزدیک نماز کی طرح کا بلکہ اس سے بھی بڑا دینی رکن ہے۔ شیعی عالم ابنِ بابویہ نے اس حقیقت کی یوں صراحت کی ہے:
اعتقادنا فی التقية أنها واجبة، من تركها بمنزلة من ترك الصلاة۔
تقیہ ہمارے اعتقاد کی رو سے واجب ہے اس کے تارک کا وہی درجہ ہے جو تارکِ نماز کا ہے۔
شیعی امام کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں اس عقیدہ کے متعلق باب التقیہ کے عنوان سے سرخی جمائی ہے اس کے تحت اس نے 33 احادیث درج کی ہیں ان سب احادیث سے اس عقیدہ کی تائید ہوتی ہے۔ باب التقیہ کے بعد اس نے ایک باب باب الکتمان کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ اس باب کے ذیل میں 16 احادیث درج کی ہیں، ان احادیث میں بھی شیعہ امامیہ کے لیے اپنے دین اور عقیدہ کو چھپانے کی ہدایت موجود ہے اسی طرح شیعی عالم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں 109 روایات باب التقنية والمداراة کے عنوان کے تحت جمع کر دی ہیں، ان سب روایات سے بھی اس عقیدہ کی توثیق و تائید ہو رہی ہے۔
اہلِ سنت کے ساتھ ان کے تقیہ کی مثال:
شیعوں کے شیخ صدوق نے اہلِ سنت کے ساتھ اپنے عقیدہ تقیہ کی عملی مثال کے ضمن میں ابو عبداللہ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:
عن ابی عبدالله انه قال: ما منكم احد يصلى صلاة فريضة فی وقتها ثم يصلى معهم صلاة تقية وهو متوضئ الا كتب الله له بها خمسا وعشرين درجة فارغبوا فی ذلك۔
تم میں سے جو شخص وقت کے مطابق فرض نماز ادا کر لیتا ہے، پھر وہ ان کے ساتھ (اہلِ سنت کے ساتھ) بھی تقیہ کی نماز باوضو ہو کر پڑھ لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس نماز کے بدلہ میں اس کے لیے پچیسں درجات لکھ دیتے ہیں، لہٰذا تم اس عمل میں رغبت رکھا کرو۔
اسی طرح شیعہ اثناء عشریہ اہلِ سنت کی آبادیوں کو دار التقیہ کہتے اور ان کے اندر تقیہ اختیار کرنے کو لازم قرار دیتے ہیں شیعی امام مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں اس امر کی صراحت ان الفاظ میں موجود ہے:
والتقية فی دار التقية واجبة۔ (بحار الانوار : جلد 75 صفحہ 411)۔
دار التقیہ میں تقیہ کا التزام واجب ہے۔
سنیوں کی آبادیوں کے لیے دار التقیہ کے علاوہ دولۃ الباطل (جھوٹ کا ملک) کا نام بھی ان کے ہاں مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ مجلسی کی بحار الانوار میں کہا گیا ہے:
من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يتكلم فی دولة الباطل الا بالتقية۔
(بحار الانوار: جلد 75 صفحہ 412)۔
جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ جھوٹ کے ملک میں تقیہ کے سوا گفتگو نہ کرے۔
اسی طرح شیعہ امامیہ اہلِ سنت کے ساتھ اختلاط آباد کی صورت میں بھی تقیہ کو واجب قرار دیتے ہیں، ان کے عالم الحرالعاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ (جلد 11 صفحہ 479) میں ایک باب وجوب عشرة العامة بالتقية ( یعنی عامیوں (اہلِ سنت) کے ساتھ اکٹھے ایک آبادی میں رہنے کی صورت میں تقیہ واجب ہے) کے عنوان کے ساتھ قائم کر کے اس عقیدہ کی تاکید کی ہے مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے:
من صلى خلف المنافقين بتقية كان كمن صلى خلف الائمة
جو شخص منافقوں (یعنی اہلِ سنت والجماعت) کے پیچھے تقیہ کے طور پر نماز پڑھ لیتا ہے وہ اجر و ثواب میں اس شخص کی طرح ہے جس ائمہ کے پیچھے نماز ادا کی ۔“
شیعہ کے تقیہ کی ایک مثال:
ایک سنی عالم دین کا بیان ہے کہ سینیوں کی آبادی میں رہائش پذیر ایک سنی نوجوان نے ایک ایسی شیعہ خاتون سے نکاح کر لیا، جو سنت سے اور اہلِ سنت سے محبت اور رغبت کا اظہار کیا کرتی تھی، پھر کچھ مدت کے بعد یہ خاتون حاملہ ہوگئی اس نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا، مذکورہ بالا عالمِ دین نے نومولود کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام عمر رکھے چنانچہ یہ نوجوان اپنی بیوی کے پاس آیا جو حمل اور ولادت کی مشقتوں کی وجہ سے بیمار تھی اور اسے کہا کہ میں اپنے بیٹے کا نام رکھنا چاہتا ہوں، بیوی نے حد درجہ ادب سے کہا: آپ اس نومولود کے باپ ہیں نام رکھنے کے لیے آپ کا حق فائق ہے، چنانچہ نومولود کے والد نے کہا تو پھر میں نے اس کا نام رکھ دیا ہے عمر!
اس کے بعد کیا ہوا؟ خاوند کا بیان ہے کہ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ یہ عورت حیرت انگیز سرعت کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھتی ہے اور چلاتے ہوئے کہتی ہے اس نام کے علاؤہ آپ کو کوئی دوسرا نام نہیں ملا ؟ یہ غضب اور ناراضگی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ شیعہ جلیل القدر صحابی سیدنا عمر بن الخطابؓ سے شدید نفرت اور عداوت رکھتے ہیں۔
اسی طرح خود اہلِ سنت کو بھی اس امر کا مشاہدہ اور ادراک ہے کہ انہی شیعہ امامیہ کے بہت سارے لوگ بڑی لمبی مدت تک جو بسا اوقات سالوں پر محیط ہو جاتی ہے، بعض سنی العقیدہ لوگوں کے ساتھ اکٹھے رہ رہ کر گزار دیتے ہیں مگر اس مدت میں کبھی بھی یہ شیعہ اپنے فاسد عقائد کا اظہار تک نہیں کرتے یہ سب کچھ اسی تقیہ کے تحت ہوتا ہے جسے وہ اپنے دین کا رکن تسلیم کرتے ہیں۔