Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعزیہ بنانے اور محرم کے دیگر رسموں کا حکم، اور ایسے اُمور کو بجا لانے والے کے پیچھے نماز پڑھنے اور اس سے بیعت کرنے کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع ان مسائل میں کہ

  1. سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یادگار کے سلسلہ میں جو عزاداری ہندوستان یا دیگر مقامات پر ہوتی ہے، اس کی کیا اصلیت ہے اور اس کی بابت کیا جواز ہے؟
  2.  کیا تعزیہ ہر سال دفن کرنا جائز ہے؟ اگر ہے تو کہاں سے ثبوت ہے؟
  3.  کہاں تک درست ہے؟ اور سات محرم الحرام کو سیدنا عباسؓ علمبرار کا علم نکالنا، اس کے ہمراہ ننگے پیر پھرنا نوحہ کرنا اور اقسام اقسام کے مرثیئے پڑھنا کیسا ہے؟ نیز ڈھول اور تاشہ وغیرہ بجانا یا تعزیہ کو سجدہ تعظیمی کرنا تعزیہ کے سامنے جا کر دلی مرادیں طلب کرنا عورتوں کو اس کی زیارت کرنا جیسا کہ آج کل عموماً طریقہ ہوتا ہے، ان کا کیا حکم ہے؟ مزار اور قبر پر سجدہ تعظیمی کرنا یا بوسہ دینا کہاں تک جائز ہے؟

اگر یہ فعل کسی امام یا مولوی سے وقوع میں آتے ہیں یا وہ اس کی تاکید کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ اور اس کے ہاتھ پر بیعت جائز ہے یا نہیں؟

جواب: تعزیہ داری میں اصل جواز کو محو کر کے بہت سے خرافات تراش لیئے ہیں، کسی میں پریاں کسی میں براق کی تصویر ہیں، اس کو کوچہ بکوچہ گشت کرانا، اس کے ساتھ باجے تاشے اور ڈھول بجانا، طرح طرح کے کھیل تماشے کرنا علم نکالنا مہندی لگانا، اظہار غم کرنا، ننگے سر ہونا، روافض کے مرثیئے پڑھنا، نوحہ گانا سینہ زنی اور ماتم کرنا، سیاہ پوش ہونا، بوسیدہ لباس پہننا، ننگے پیر پھرنا تعزیہ کو جھک کر سلام کرنا سجدہ تعظیمی کرنا، اس سے مرادیں مانگنا، اس کو حاجت روا جاننا عورتوں کو اس کی زیارت کو آنا، مردوں اور عورتوں کا خلط ملط ہونا لنگر لٹانا، روٹیوں کا اوپر سے پھینکنا، یہاں تک کہ اس کیلئے ہر آبادی اور ہر شہر کے قریب ایک کربلا گڑھ کر اس میں تعزیہ کو توڑ کر دفن کر دینا وغیرہ خرافات و رسوم سب ناجائز و حرام ہیں اور قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔

اور اس امام یا مولوی کا ایسے ناجائز اُمور کو خود کرنا گناہ عظیم اور بڑی جرأت ہے، اور دوسروں کو ان ناجائز امور کے کرنے کی تاکید کرنا اور سخت دلیری ہے، اور اس کے فسق و فجور کی بین دلیل ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کی اقتداء میں نماز نہ پڑھی جائے نہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیئے

(فتاویٰ اجملیہ: جلد، 4 صفحہ، 88)