شیعوں کے نزدیک نکاح متعہ میں حق مہر کی مقدار
الشیخ ممدوح الحربیشیعوں کے نزدیک نکاحِ متعہ میں حق مہر کی مقدار
شیعوں نے اپنے مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر اس برائی اور بے حیائی سے مستفید ہونے کے لئے بڑی آسانی و سہولت کا اہتمام کیا ہے کہ اس کے لئے فقط ایک درہم حتىٰ کہ ایک مٹھی بھر طعام آٹا یا کھجور کو بھی کافی قرار دیا ہے معروف شیعی عالم کلینی نے اپنی کتاب الكافی کی الفروع میں نکاحِ متعہ کے حق مہر کی مقدار کے متعلق یہ روایت نقل کی ہے:
عن ابی جعفر انه سئل عن متعة النساء قال حلال وانه يحزئ فيه در هم فما فوقه۔
ابوجعفر سے متعہ کرنے کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا:یہ حلال ہے اور اس کے لئے ایک درہم اور اس سے زائد کفایت کر سکتا ہے۔
بلکہ شیعی علماء کی برکت سے شیعہ امامیہ کے ہاں عورت کے جسم کی قدر و قیمت اس سے بھی کمتر ہوگئی ہے انہوں نے ان کے لئے عورتوں سے متعہ کی سرگرمی کا عوض ستو یا کھجور میں سے کسی شئے کی مٹھی بھر مقدار کو طے کر دیا ہے جو یہ شیعی مرد شیعی عورت کو ادا کرے گا تاکہ اس کے بعد اس کے لیے اس عورت کی شرم گاه حلال ہو جائے۔
شیعی عالم کلینی نے الكافی کی الفروع میں یہ روایت درج کی ہے:
عن ابی بصير قال سالت ابا عبدالله عليه السلام عن ادنی المهر المتعة ماهو؟ قال كف من طعام دقیق او سویق تمر۔
ابوبصير کا بيان ہے کہتا ہے کے میں نے ابوعبدالله علیہ السلام سے پوچھا کہ متعہ میں حق مہر کی کم از کم مقدار کتنی ہے؟ انہوں نے جواب دیا مٹھی بھر طعام آٹا ستو يا کھجور
شیعوں کے جریدہ الشراع نے اپنے شماره نمبر 684 سال چہارم میں لکھا ہے کہ:
ایرانی صدر فسنجانی نے اپنے ایک بیان میں قوم کو اس المناک حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ متعہ کی شادیوں کے سبب سے ایران کی گلی کوچوں اور سڑکوں سے اڑھائی لاکھ نومولود اور لاوارث بچوں کو اٹھایا ہے اس بنا پر انہوں نے اس نکاح کو معطل کرنے اور اس پر آئینی طور پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی ہے کہ یہ اپنے پیچھے مشکلات و مسائل کے انبار چھوڑنے کا سبب بن رہا ہے۔
اسی طرح مشہور مصنفہ شہلا حائری نے اپنی کتاب المتعة فی ایران (ایران میں متعہ) میں ایران کے معروف شہر مشہد جس میں متعہ کی شادیوں کا کثرت سے رواج ہے اور باقی ایرانی شہروں یا علاقوں کی نسبت اس شہر کی حدود میں اس نکاح کا حد سے زیادہ پھیلاؤ ہے کے متعلق لکھتی ہے:
المدينة الأكثر انحلالا على الصعيد الأخلاقی فی آسيا۔
یہ شہر پورے ایشیاء میں بدترین اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔
جناب حسین الموسوی جن کا شمار خمینی کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے اور آپ نے بعد میں شیعیت کو ترک کر کے اہلِ سنت کے مذہب کو اختیار کر لیا تھا اپنی "کتاب لِلہ ثم للتاریخ" میں رقمطراز ہیں:
وكم من متمتع جمع بين المراة واُمّها وبين المراة واُختها وبين المراة وعمتها او خالتها وهو لا يدرى جاء تنی امراة تستفسر منى عن حادثة حصلت معها اذ اخبرتنی ان احد السادة وهو السيد حسين الصدر كان قد تمتع بها قبل أكثر من عشرين سنة فحملت منه فلما اشبع رغبته منها فارقها وبعد مدة رزقت ببنت واقسمت انها حملت منه هو اذ لم يتمتع بها وقتذاك احد غيره وبعد ان كبرت البنت وصارت شابة جميلة متأهلة للزواج اكتشفت الام ان ابنتها حبلى فلما سئلتها عن سبب حملها اخبرتها البنت ان السيد المذكور استمتع بها فحملت منه فدهشت الام وفقدت صوابها اذ أخبرت ابنتها ان هذا السيد هو ابوها واخبرتها القصة فكيف يتمتع بالام واليوم ياتی ليتمتع بابنتها التی هی ابنته هو؟ ثم جاءتنى مستفسرة عن موقف السيد المذكور منها ومن ابنتها التی ولدتها منه۔
(متعہ کے لیے حاصل کی گئی) عورتوں اور ان کی ماؤں کو یا ان کی بہنوں کو یا ان کی پھوپھیوں کو یا ان کی خالاؤں کو نکاحِ متعہ میں جمع کر دیا ہوگا میرے پاس ایک ایسی ہی عورت اپنے اوپر بیت جانے والے ایک حادثہ کے متعلق دریافت کرنے کے لیے آئی اس نے بتایا کہ بیس سال سے زائد عرصہ پہلے اس سے خاندان سادات میں سے ایک شخص سید حسین الصدر نے متعہ کیا تھا وہ اس سے حاملہ ہوگئی اس دوران اس کا دل بھر گیا اور وہ اس سے علیحدہ ہوگیا کچھ مدت کے بعد اس خاتون کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی وہ اپنی اس بیٹی کے متعلق حلفیہ طور پر کہہ سکتی ہے کہ یہ اسی شخص کے ہی نطفہ سے پیدا ہوئی اس لیے کہ ان دنوں میں اس کے ساتھ اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے متعہ نہ کیا تھا اس کے بعد جب مذکورہ بچی بڑی ہوگئی اور نہایت ہی حسین و جمیل اور شادی کے قابل خوبصورت جوان لڑکی بن گئی تو ماں کو پتہ چلا کہ اس کی بیٹی تو حاملہ ہے ماں نے اپنی بیٹی سے اس حمل کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ مذکورہ بالا سید نے اس سے متعہ کیا ہے اور وہ اس وجہ سے حاملہ ہوئی ہے بیٹی کی یہ بات سن کر ماں کے ہوش اُڑ گئے اور وہ خواس باختہ ہوگئی کہ جس شخص سے یہ حاملہ ہوئی ہے وہ تو اسکا حقیقی باپ ہے چنانچہ ماں نے اپنی بیٹی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا سوال یہ ہے کہ یہ امر کس طرح جائز
ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایک عورت سے متعہ کرتا ہے پھر کچھ مدت کے بعد اسی عورت کی بیٹی سے بھی متعہ کرتا ہے جو قطعی طور پر اس کی ہی اپنی حقیقی بیٹی ہوتی ہے؟
یہ خاتون میرے پاس اس شخص کے (گھناؤ نے) طرزِ عمل کے متعلق دریافت کرنے کے لیے آئی تھی جو اس نے اس کے ساتھ اور اس سے پیدا ہونے والی اپنی ہی بیٹی کے ساتھ اختیار کیا تھا۔
علامہ موسویؒ نے اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی فرمایا:
ان الحوادث من ھذا النوع کثیرۃ جدا، فقد تمتع احدھم بفتاۃ تبین لہ فیما بعد انھا اختہ من المتعتہ ومنھم من تمتع بامراۃ ابیہ۔(انتھی کلامه)۔
اس طرح کے حادثات بہت زیادہ رونما ہوتے رہتے ہیں بسا اوقات ایک شخص کسی جوان لڑکی سے متعہ کرتا ہے بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو متعہ میں اس کی بہن ہے اور بعض اوقات تو وہ اپنے باپ کی (نکاحِ متعہ سے) زوجہ سے بھی متعہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔