Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلم گورنمنٹ کا مسجد کو آثار قدیمہ میں شامل کر کے تفریح گاہ بنانا اور تماشہ کے لئے عام اجازت دینا


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ کسی مسجد کو ایک معاہدہ دیا اقرار نامہ کے ذریعہ سے جس کی نقل استفتاء کے ہمرشتہ ہے گورنمنٹ بند بن کے محکمہ آثار قدیمہ کی سپرد کردینا اور اس محکمہ کو مندرجہ اقرار نامہ اختیارات دے دینا اور پابندیاں قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مسجدیں خاص اللہ تعالیٰ جل شانہ کی ملک ہیں: قال اللہ تعالیٰ وَّاَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلهِ(سورۃ الجن: آیت، 18)

اور کافر کی ولایت مسلم پر جائز نہیں لا ولاية الكافر على المسلم كما قال اللہ تعالیٰلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا(سورۃ النساء: آیت، 141)

اقرار نامہ کی رو سے بہت اُمور میں غیر مسلم حکومت کے مقابلہ میں متولیان مسجد کو مجبور ہو۔ جانا پڑتا ہے۔ کیونکہ مسجد کی تعمیر و حرمت قربت ہے اور وہ یہ غیر مسلم سے صحیح نہیں۔

مسجد کی تعمیر مسلمان کے پاک مال سے ہو سکتی ہے۔ کافر کا مسجد بنانا اور اپنے روپیہ اور اختیار سے اس کی تعمیر کرنا یا مرمت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ مسجد کی تعمیر و مرمت قربت ہے اور وہ غیر مسلم سے میچ نہیں در مختار میں ہے و شرط سائر التبرعات كحرية و تكليف أن يكون قربة في ذاته

مسجد عبادت کیلئے ہے سوائے معتکف کے، دوسرے کیلئے اس میں کھانا پینا سونا، پہننا بلکہ دنیا کی باتیں کرنا تک ممنوع ہے۔ ان امور کی مسلمانوں کو بھی اجازت نہیں چہ جائیکہ مومن و کافر سب کے لئے ایک تماشا گاہ بنا دینا۔

الاشباه و النظائر میں ہے و من البيع والشراء كمل عقد لغير المعتكف ويجوز له بقدر حاجة ان لم يحضر السلعة وانشاد الضالة والاشعار والأكل والنوم لغير غريب و معتكف والكلام المباح

مسجدوں میں بلحاظ حرمت مسلمانوں کے بچے تک لانے کی ممانعت ہے۔ حدیث شریف میں ہے جنبوا مساجدكم صبيانكم ومحانينكم وبيعكم وشراءكم ورفع اصواتكم وسيرفكم واقامة حدودكم

مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت بھی اس حدیث شریف سے معلوم ہو گئی، پھر چہ جائیکہ ہر شخص مومن یا کافر کو سیر یا تماشا کے لئے مسجد میں آنے کی تمام اجازت دینا۔

مسجد میں مسلمانوں کو بھی خاص نماز و ذکر کرنے کے لئے آنے کی اجازت ہے اور ان کے داخل ہونے کے بھی بہت پابندیاں ہیں۔ چنانچہ جنب یعنی بے غسل اور حائضہ اور نفساء مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح پیاز لہسن یا کوئی ایسی چیز کھانے والا جس کی بدبو کھانے کے بعد اس کے منہ سے آتی ہو مومن بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جس کے بدن پر نجاست لگی ہوئی ہو وہ بھی مسجد میں داخل نہ ہو گا۔

نیز مسلم و غیر مسلم بے پردہ عورتیں بھی آئیں گی علاؤہ اس کے کہ بے پردہ عورتوں کا اور پردہ نشینوں کا دن میں جماعتوں کے اوقات میں بھی آنا ممنوع ہے۔

لہٰذا اب کون تحقیق کرے گا کہ وہ عورتیں حاںٔضہ ہے یا نہیں؟ اور اس عام داخلہ کی اجازت کی صورت میں پاک اور ناپاک کا امتیاز کس طرح رہے گا؟ اور یہ کیسے معلوم ہو گا کہ اس کے بدن یا کپڑے پر نجاست لگی ہے یا نہیں؟ اور کس کس کا منہ منہ سونگھا جائے گا کہ شرابی تک مسجد میں آئیں گے، اس لئے اس تعمیر سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

یہ اقرار نامہ متولیوں کے شرعی اختیارات سلب کرتا ہے اور اس سے تولیت کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔

علاؤہ بریں متولیوں کو ایسا اقرار نامہ لکھنا اور کسی غیر مسلم کو اسے اختیارات دینا جائز نہیں۔ کیونکہ واقف نے جب تصرف کی اجازت نہ دی ہو تو متولی اس تصرف کا اختیار نہیں رکھتا۔ 

(فتاویٰ اجملیہ: جلد، 2 صفحہ، 368)