شیعوں اور یہودیوں کے اپنے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی تکفیر اور ان کی جان و مال کی حلت کے عقیدہ میں مشابہت
الشیخ ممدوح الحربیشیعوں اور یہودیوں کے اپنے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی تکفیر اور ان کی جان و مال کی حلت کے عقیدہ میں مشابہت
یہودی بھی اپنے علاوہ دوسرے تمام لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ ایماندار صرف وہی ہیں ان کے علاوہ باقی تمام لوگ مشرک بت پرست اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کلی طور پر محروم ہیں ان کی کتاب تلمور میں لکھا ہے:
كل الشعوب ما عدا اليهود وثنيون وتعاليم الحاخامات مطابقة لذلك۔ (تلمود صفحہ 100)۔
تمام غیر یہودی اقوام بت پرست ہیں یہ عقیدہ حاخاموں کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
یہودیوں کی اس عمومی تکفیر سے مسیح عیسیٰ علیہ السلام بھی محفوظ نہیں رہ سکے تلمود میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ (معاذ اللہ) مسیح علیہ السلام کافر تھے انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ تھی اسی تلمود کے اندر ایک مقام پر مسیح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے متعلق یوں لکھا ہے:
ان المسيح كان ساحراً و وثنيا فينتج ان المسيحيين و ثنيون ايضا مثله۔ (تلمود صفحہ 99)۔
مسیح جادوگر اور بت پرست تھا جس کا کھلا مطلب یہ ہے کہ تمام مسیحی بھی انہی کی طرح بت پرست اور کافر ہیں۔
نیز یہودیوں کا اپنے مخالفین کے متعلق یہ بھی عقیدہ ہے کہ یہ جہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس کے اندر رہیں گے تلمود میں لکھا ہے:
النعيم ماوى اليهود ولا يدخل الجنة الا اليهود اما الجحيم فماوى الكفار من المسيحين والمسلمين ولا نصيب لهم فيها سوى البكاء لما فيها من المظلوم والعفوفة۔ (تلمود صفحہ 67)۔
جنت یہودیوں کا ٹھکانا ہے کہ جنت میں صرف یہودی ہی داخل ہوں گے جو ہے جہنم تو یہ کافروں یعنی مسیحیوں اور مسلمانوں کا ٹھکانہ ہے اس تاریک اور بدبودار مقام میں ان کے لیے رونے کے علاوہ اور کچھ مقدر نہ ہوگا۔
دنیاوی زندگی کے اعتبار سے یہودیوں کا اپنے مخالفین کے متعلق موقف:
یہودیوں کا اپنے علاوہ دوسرے مذہب کے متعلق دنیوی زندگی کے اعتبار سے یہ عقیدہ ہے کہ ان کے مخالفین کسی بھی احترام وقار اور حرمت کے مستحق نہیں ہیں ان کے تمام حقوق رائیگاں اور باطل ہیں اس اعتبار سے ان کے خون اموال اور ان کی عزت و آبرو یہودیوں کے لیے کلی طور پر مباح ہیں بلکہ ان کے مقدس اسفار میں خاص طور پر تلمود میں ایسی نصوص وارد ہوئی ہیں جن میں غیر یہودی افراد کو قتل کر دینے کی اور کسی بھی ممکن وسیلہ سے ان کے اموال کو غصب کر لینے کی بھی صریح ترغیب موجود ہے غیر یہودی افراد کے خون کو مباح کرنے والی ایک نص اور ملاحظہ فرمائیں تلمود میں ہے:
حتى افضل القوم يجب قتله۔ (تلمود 146)۔
یہاں تک کہ (غیر یہودی) معتدل ترین شخص کو بھی قتل کر دینا ضروری ہے۔
الکوٹ سیمونی تلمود کا بڑا عالم کہتا ہے:
كل من يسفك دم شخص غير تقى عمله مقبول عند اللّٰه كمن يقدم قربانا اليه۔ (كتاب فضح التلمود صفحہ 146)۔
جو شخص کسی برے انسان (غیر یہودی شخص) کا خون بہا دیتا ہے اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے گویا کہ اس نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی ہے۔
تلمود میں یہ لکھا ہے:
قتل الصالح من غير اليهود ومحرم على اليهودی ان ينجر احدا من الاجانب من الهلاك او يخرجه من حفرة فيها بل عليه ان يسدها بحجر۔
غیر یہودی صالح انسان کو بھی قتل کر دیا جائے یہودیوں پر کسی اجنبی شخص کو ہلاکت سے بچانا یا اسے کھائی یا گڑھے سے نکالنا حرام ہے ان پر تو یہ لازم ہے کہ پتھر کے ذریعہ سے گڑھے کے منہ کو بند کر دے۔
یہودیوں کے دین کی رو سے جو شخص کسی اجنبی (غیر یہودی) انسان کو قتل کر دیتا ہے وہ دین یہود کی سربلندی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے فردوس اعلیٰ میں دائمی سکونت کا مستحق بن جاتا ہے۔ تلمود میں لکھا ہے:
ان من يقتل مسيحيا او اجنبيا أو وثنيا يكافأ بالخلود فی الفردوس۔
جو شخص کسی مسیحی کو یا اجنبی کو یا بت پرست کو قتل کر دیتا ہے اسے فردوس میں دوام اور خلود کا اعزاز عطا کیا جائے گا۔
یہ یہودیوں کی قدیم و جدید کتب میں درج شدہ نصوص تھیں جن میں یہ کھلی صراحت موجود ہے کہ یہودی اپنے مخالفوں کے خون بہا دینے کو اپنے لیے مباح قرار دے رہے ہیں بلکہ ان نصوص کی روشنی میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ غیر یہودیوں کا قتل اہم ترین فریضہ اور اعلیٰ ترین ذریعہ ہے قربِ الٰہی کا ایسا کرنے والا شخص جنت الفردوس میں ابدالآباد تک رہنے کا مستحق قرار پاتا ہے۔
مخالفوں کے اموال کی اباحت:
یہودیوں کے مقدس اسفار میں مخالفوں کے اموال کی حلت و اباحت کے متعلق بہت ساری نصوص وارد ہوئی ہیں جبکہ تلمود میں ہے:
ان السرقة غير جائزة من الانسان اما الخارجون عن دين اليهود فسرقتهم جائزة۔
کسی (یہودی شخص) کی چوری نا جائز ہے،ض البتہ غیر یہودیوں کی چوری کر لینا جائز ہے ایک دوسرے مقام پر یوں لکھا ہے:
حياة غير اليهود يملك لليهودي فكيف بأمواله۔
غیر یہودیوں کی تو زندگی بھی یہودی کی ملکیت ہوتی ہے تو اس کا مال کیسے اس کے زیر تصرف نہیں ہوگا۔
اسی طرح تلمود میں یہودیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ غیر یہودیوں کے مال ان کے مالکوں کے حوالے نہ کریں جو شخص ایسا کرے گا وہ گنہگار ہے یہودی روایات میں سے ایک روایت اس طرح وارد ہوئی ہے۔
اذا رد احد الى غريب ما اضاعه فالرب لا يغفر له ابدا۔
جب کوئی (یہودی) شخص کسی اجنبی (غیر یہودی) کے ضائع شدہ مال کو واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔
یہودی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کے مابین سودی لین دین حرام ہے مگر غیر یہودیوں کے ساتھ اس کی کھلی اجازت ہے اس لیے کہ اس طریقہ سے غیر یہودیوں کے اموال کو اپنے قبضہ میں لایا جاسکتا ہے جسے وہ اپنے عقیدہ کے مطابق یہودیوں کی ہی ملک تصور کرتے ہیں۔ تلمود میں لکھا ہے:
غير مصرح لليهودى ان يقرض الاجنبی الا بالربا۔
کسی یہودی کے لیے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ غیر یہودی کو بلا سود قرضہ دے۔
اسی طرح یہودی اپنے مخالفین کی عزت و آبرو کو اپنے لیے مباح جانتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک مخالفین کی عزتوں کو کوئی حرمت و تحفظ حاصل نہیں ہے ان کے نزدیک غیر یہودیہ عورت سے زنا بدکاری جائز ہے اس کے لیے وہ عجیب و غریب دلیل پیش کرتے ہیں جیسا کہ تلمود میں لکھا ہے:
اليهودی لا يخطئ اذا اعتدى على عرض الاجنبية لأن كل عقد نكاح عند الاجانب فاسد، لا المراة غير اليهودية تعتبر بهيمة والعقد لا يوجد بين البهائم۔
جب کوئی یہودی مرد کسی اجنبیہ (غیر یہودیہ) سے زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ خطاوار نہیں ہوتا اس لیے کہ اجنبیوں ( غیر یہودیوں) کے نکاح کے تمام عقود فاسد ہوتے ہیں کہ غیر یہودیہ عورت جانور کی حیثیت رکھتی ہے اور جانوروں کے مابین عقد نکاح ہوتا ہی نہیں ہے۔
تلمود کے دوسرے مقام پر لکھا ہے:
لليهودی الحق فی اغتصاب النساء غير المؤمنات وان الزنا بغير يهود ذكورا كانوا ام اناثا لاعقاب عليه لان الا جانب من نسل الحيوانات۔
یہودی مردوں کو غیر مؤمنہ (غیر یہودیہ) عورتوں کی عصمت دری کا حق حاصل ہے غیر یہودی مرد ہوں یا عورتیں ان کے ساتھ زناکاری کی کوئی سزا نہیں ہے اس لیے کہ غیر یہودی حیوانات کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
شیعوں کی اپنے مخالفین کی تکفیر:
یہودیوں کی اپنے مخالفین کی تکفیر اور ان کے جان و مال کی اباحت و حلت کے عقیدہ سے واقفیت حاصل کر لینے کے بعد ہم شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا یہ بھی اپنے یہودی آقاؤں کی طرح اپنے مخالفین کو کافر اور ان کے جان و مال کو اپنے لیے مباح جانتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اہلِ ایمان صرف وہی ہیں، ان کے علاؤہ باقی تمام مسلمان کافر اور مرتد ہیں ان کا دینِ اسلام کے ساتھ کوئی ربط و تعلق نہیں ہے شیعہ اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کو اس وجہ سے کافر کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ولایت سے انکار کیا ہے۔ جس کے متعلق شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ ارکانِ اسلام میں داخل ہے لہٰذا جو شخص شیعوں کی طرح ولایت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ کافر ہے بالکل اس شخص کی طرح کا کافر ہے جو شہادتین کا انکار کرتا ہے یا نماز ترک کر دیتا ہے بلکہ ان کے نزدیک ولایت کا درجہ ارکانِ اسلام سے فائق تر اور بلند ہے ولایت سے یہ لوگ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی امامت و ولایت مراد لیتے ہیں چونکہ شیعوں کے علاوہ باقی اسلامی گروہ اس فاسد عقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں لہٰذا اسی بناء پر ہر شیعہ ان تمام اسلامی فرقوں پر کفر کا حکم عائد کرتے اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں نہ صرف یہی بلکہ یہ لوگ اپنے تمام مخالفین کی جانوں اور ان کے اموال کو بھی اپنے لیے مباح سمجھتے ہیں شیعوں کے مخالفین میں سر فہرست اہلِ سنت و الجماعت کا گروہ ہے جنہیں شیعہ کبھی ناصبی کبھی عالمی کبھی سواد اور کبھی وہابیہ کا نام دیتے ہیں شیعوں کی اہم ترین اور انتہائی معتمد کتابوں کے اندر ایسی روایات کثرت سے وارد ہوئی ہیں جن میں ان کا اپنے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا عقیدہ پوری صراحت کے ساتھ موجود ہے برقی نے ابو عبداللهؒ (جہاں بھی ابو عبداللہؒ کانام وارد ہوا ہے اس سے شیعہ حضرات سیدنا جعفر صادقؒ کی شخصیت کو مراد لیتے ہیں) سے درج ذیل روایت نقل کی ہے:
انه قال ما احد على ملة ابراهيم الا نحن وشيعتنا وسائر الناس منها براء۔ (كتاب المحاسن صفحہ 148)۔
ابوعبد اللہ نے فرمایا: ہمارے اور ہمارے شیعوں کے علاوہ کوئی بھی ملتِ ابراہیمی پر قائم نہیں ہے باقی تمام لوگ اس سے لا تعلق ہیں۔
اسی طرح کلینی نے الکافی کی الروضہ میں یہ روایت درج کی ہے:
عن على بن الحسين انه قال: ليس على فطرة الاسلام غيرنا وغير شيعتنا وسائر الناس من ذلك براء۔ (الكافی (الروضه: جلد 8 صفحہ 145)۔
علی بن الحسین کہتے ہیں کہ ہم اہلِ بیت اور ہمارے شیعوں کے علاؤہ کوئی بھی فطرتِ اسلام پر نہیں ہے باقی تمام لوگ اس سے محروم ہیں۔
جی ہاں شیعہ صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اپنے علاوہ باقی تمام اسلامی فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں یہ لوگ اہلِ بیت کی طرف جھوٹی روایات اور من گھڑت اقوال منسوب کرتے ہیں جن سے یہ عالی قدر لوگ قطعی طور پر بری الذمہ ہیں شیعہ جب اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کی تکفیر کا عقیدہ رکھتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ سلوک اور برتاؤ بھی کفار اور مشرکین والا ہی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے ماسواء مسلمانوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے اس عقیدہ کی بناء پر یہ مسلمانوں کو مشرکوں کا حکم دیتے ہیں تفسیر عیاشی میں ہے:
عن حمران قال سمعت ابا عبدالله عليه السلام يقول فی ذبيحة الناصب واليهودی قال: لا تاكل ذبيحته حتى تسمعه يذكر اسم الله۔ (تفسير العياشی: جلد 1 صفحہ 375)۔
حمران کا بیان ہے کہ میں نے ابوعبد اللهؒ کو ناصبی اور یہودی کے ذبیحے کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کا ذبیحہ مت کھاؤ یہاں تک کہ تم اسے اپنے ذبیح پر اللہ کا نام لیتے ہوئے نہ سن لو۔
اسی طرح شیعہ اہلِ سنت کے ساتھ نکاح و زواج کو بھی نا جائز سمجھتے ہیں کلینی نے الکافی میں یہ روایت درج کی ہے:
عن الفضيل بن يسار قال سالت اباعبدالله عليه السلام عن نكاح الناصب قال: لا والله ما يحل۔ (كتاب الكافی جلد 5 صفحہ 350)۔
فضیل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہؒ سے ناصبی (یعنی سنی) سے نکاح کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا: ہرگز نہیں اللہ کی قسم! یہ حلال نہیں ہے۔
طوسی کی کتاب الاستبصار میں یہ روایت منقول ہوئی ہے:
عن فضيل بن يسار عن أبی جعفر قال ذكر الناصب فقال لا تناكحهم ولا تاكل ذبيحتهم ولا تسكن معهم۔ (الاستبصار للطوسی جلد 3 صفحہ 184)۔
فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ سیدنا ابوجعفرؒ کے سامنے ناصبیوں (یعنی سنیوں) کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کہا: ان کے ساتھ نکاح کرو نہ ان کا ذبیحہ کھاؤ اور نہ ان کے ساتھ بود و باش اختیار کرو۔
یہی نہیں بلکہ خمینی نے بھی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں اہلِ سنت کے ساتھ شیعوں کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ اس نے لکھا ہے:
ولا يجوز للمومنة ان تنكح الناصب المعلن بعداوة اهل البيت عليه السلام۔
مومنہ (یعنی شیعی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبی (یعنی سنی) سے نکاح کرے کہ وہ اہلِ بیتؓ سے کھلی عداوت رکھتا ہے مزید لکھتا ہے:
وكذا الا يجوز للمومن ان ينكح الناصبية۔
اسی طرح مومن (شیعی مرد) کے لیے بھی یہ روا نہیں ہے کہ وہ ناصبیہ (یعنی سنی عورت) سے نکاح کرے۔
مزید وضاحت کے ساتھ یہ بھی لکھتا ہے:
وكذا لا يجوز للمومن ان ينكح الناصبية والغالية لأنهما بحكم الكفار وان انتحلا دين الاسلام۔ (تحرير الوسيله جلد 2 صفحہ 260)۔
مومن (یعنی شیعی مرد) کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ناصبی اور غالیوں کی عورتوں سے نکاح کرے اس لیے کہ یہ دونوں فرقے کفار میں شمار ہوتے ہیں اگرچہ یہ دونوں اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
اہلِ سنت کے پیچھے نماز:
شیعہ اہل سنتِ کی اقتداء میں نماز کو ناجائز کہتے اور اس طرح پڑھی گئی نماز کو باطل قرار دیتے ہیں ماسواء اس صورت کے کہ یہ نماز رواداری یا تقیہ کے طور پر پڑھی گئی ہو اس سلسلے میں شیعوں کی کتاب المحاسن میں یہ روایت وارد ہوئی ہے:
عن الفضيل بن يسار قال سالت ابا جعفر عليه السلام عن مناكحة الناصب والصلاة خلفه فقال: لا تناكحه ولا تصلى خلفه۔ (كتاب المحاسن صفحہ 161)۔
فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا ابوجعفرؒ سے ناصبیوں کے ساتھ نکاح کرنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق سیدنا ابوجعفرؒ سے دریافت کیا تو آپ نے کہا: اس کے ساتھ نہ نکاح کرو ممتاز شیعی عالم نعمۃ اللہ الجزائری نے بھی اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں اس مؤقف کی تصدیق و تائید کی ہے چنانچہ اس نے لکھا ہے:
واما الناصبی وأحواله وأحكامه فهو مما يتم ببيان امرين: الاول فی بيان معنى الناصب الذی ورد فی الأخبار انه نجس وانه شر من اليهودی والنصرانی والمجوسى وانه كافر نجس باجماع علماء الاماميه رضوان الله عليهم۔ (الانوار النعمانية جلد 2 صفحہ 306)۔
ناصبی (یعنی سنی) کے احوال و احکامات دو امور کی وضاحت کے محتاج ہیں اولاً: اخبار و روایات میں مذکور ناصبی کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ وہ نجس ہے اور وہ یہودی نصرانی اور مجوسی سے بھی زیادہ برا ہے اور یہ علماء امامیہ رضوان اللہ علیہم کے نزدیک متفقہ طور پر کافر و نجس ہے۔
اس کے علاوہ شیعہ امام اہلِ سنت امام احمد بن حنبلؒ ہی کی شخصیت کیلئے بھی ناصبی کا لفظ استعمال کرتے ہیں چنانچہ نویں صدی کے مشہور شیعی عالم نباطی نے امام احمد بن حنبلؒ کے متعلق جاہل پستان والے کی نسل اور بدترین ناصبی کے الفاظ استعمال کئے ہیں یاد رہے کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے دور میں فرقہ خوارج کا ایک سربراہ تھا جسے ذوالثدیہ (پستان والا) کہا جاتا تھا نباطی کے الفاظ ملاحظہ کیجئے لکھتا ہے:
ان الامام احمدؒ من اولاد ذی الثدية جاهل شديد النصب۔
(الصراط المستيقم إلى مستحق التقديم جلد 3 صفحہ 322)۔
امام احمدؒ پستان والے کی نسل سے جاہل اور بدترین ناصبی ہے۔
شیعوں کا مسلمانوں کی جانوں اور ان کے اموال کے متعلق موقف:
شیعوں کے نزدیک مسلمانوں خاص طور پر اہلِ سنت کے مال و جان مباح ہیں ان کی معتمد کتابوں کے اندر ایسی روایات موجود ہیں جن میں اہلِ سنت کو قتل کرنے اور ان کے مال و متاع کو چھین لینے کی کھلی تلقین اور ترغیب دی گئی ہے ان کے امام مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ ابنِ فرقد کی یہ روایت نقل کی ہے:
عن ابن فرقد قال قلت لابی عبدالله عليه السلام ما تقول في قتل الناصبی؟ قال حلال الدم أتقى عليك فان قدرت ان تقلب عليه حائطا او تغرقه فی ماء لكى لا يشهد به عليك فافعل۔
ابنِ فرقد کا بیان ہے کہتا ہے کہ میں نے ابو عبد اللہؒ سے ناصبی کے قتل کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ناصبی کا خون حلال ہے مگر سخت احتیاط کی ضرورت ہے لہٰذا اگر ہو سکے تو ایسے انداز سے اس پر دیوار کو گرا دے یا اسے پانی میں ڈبو دے کہ تیرے اس فعل پر اس کی نگاہ نہ پڑے کہیں وہ تیرے خلاف گواہی نہ دے ڈالے اب ممکن ہو سکے تو اسے ضرور قتل کر دے۔
یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ شیعہ اہلِ سنت کی جانوں اور ان کے مال و اسباب کو بالکل اپنے یہودی آقاؤں کی طرح اپنے لئے مباح قرار دیتے ہیں دورِ حاضر کے شیعوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جیسا کہ عصرِ حاضر کے شیعہ امام اور ان کے الحجہ العظمی آیت الله الخمینی نے اپنی کتاب تحریر الوسیلہ میں خمس کے بیان کے تحت یہ لکھا ہے:
والأقوى الحاق الناصبی باهل الحرب فی اباحة ما غنمتم منهم وتعلق الخمس به بل الظاهر جواز اخذ ماله این وجد و بأى نحو كان ووجوب اخراج خمسه۔(تحرير الوسيله)
راجح بات یہ ہے کہ ناصبی (یعنی سنی) کو مال غنیمت اور اس سے خمس کے مسئلہ میں اہلِ حرب کافروں کے ساتھ شامل کیا جائے گا بلکہ ناصبی کے مال کو جہاں بھی ملے اور جس بھی طریقہ سے ممکن ہو سکے چھین لیا جائے اور اس سے خمس کو نکالا جائے مذکورہ بالا قول میں خمینی نے اپنے پیرو کاروں کو اہلِ سنت کے مال و متاع کو جہاں بھی ملے اور جیسے بھی ممکن ہو سکے چھین لینے کی اباحت کا فتویٰ دیا ہے اہلِ سنت کے متعلق خمینی کے اس کھلے اور واضح مؤقف پر اس کے معاصر علماء میں سے کسی نے بھی رد نہیں کیا اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مؤقف پر خمینی کے تمام معاصر شیعی علماء کا اتفاق ہے اسی طرح شیعی علماء اپنے یہودی آقاؤں کی طرح اپنے مخالفین سے سودی لین دین کو مباح سمجھتے ہیں جیسا کہ ان کی معتمد کتابوں "کافی من لا يحضره الفقيه اور الاستبصار" میں رسول کریمﷺ کی طرف یہ جھوٹی من گھڑت اور خود ساخته روایت منسوب کی گئی ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:
ليس بيننا و بين اهل حربنا ربا ناخذ منهم الف درهم بدرهم وناخذ منهم ولا نعطيهم۔
ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے مابین سود ممنوع نہیں ہے ہم ان سے ایک درہم کے عوض ہزار درہم وصول کر سکتے ہیں تاہم ہمیں ان سے سود لینے کی اجازت ہے انہیں دینے کی نہیں۔
ایسا ہی ایک قول کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں صادق سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
ليس بين المسلم وبين الذمى ربا ولا بين المرأة وبين زوجها ربا۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال صفحہ 215 بحار الانوار للمجلسی جلد 27 صفحہ 235)۔
مسلمان اور ذمی کے مابین سود ممنوع نہیں ہے اسی طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بھی سود کی ممانعت نہیں ہے۔
اہلِ سنت کی اخروی زندگی کے متعلق شیعوں کا موقف:
اہلِ سنت کی اخروی حیات کے متعلق شیعوں کا جو مؤقف ہے وہ یہ ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق اہلِ سنت اور دیگر تمام مخالفین ابدالآباد کیلئے جہنم میں رہیں گے چاہے وہ کتنے ہی عبادت گزار متقی اور پرہیزگار ہی کیوں نہ ہوں ان کی عبادتیں اور اخروی محنتیں انہیں اللہ کے عذاب سے قیامت کے دن نجات نہ دلا سکیں گی صدوق نے عقاب الاعمال میں صادق کا یہ قول نقل کیا ہے:
ان الناصب لنا أهل البيت لا يبالى صام ام صلى زنا ام سرق انه فی النار انه فی النار۔
ہمارا یعنی اہلِ بیت کا دشمن روزہ دار ہو یا نمازی زانی ہو یا چور فکر نہ کرے وہ جہنمی ہے وہ جہنمی ہے۔
اسی طرح ابان بن تغلب کی ایک روایت اس کتاب میں مذکور ہے:
قال: قال ابو عبدالله عليه السلام كل ناصب وان تعبد واجتهد يصير الى هذه الآية عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصۡلٰى نَارًا حَامِيَةً۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال للصدوق صفحہ 247)۔
ایان بن تغلب کہتا ہے کہ ابو عبد اللہؒ نے کہا ہر ناصبی (یعنی سنی) چاہے وہ کتنی عبادت وریاضت کرلے اس کا انجام اس آیت کے مطابق ہوگا مصیبت جھیلتے ہوں گے خستہ ہوں گے جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔
کتاب المحاسن میں علی الخدمی کی یہ روایت مذکور ہے:
عن على الخدمى قال: قال ابو عبدالله عليه السلام ان الجار يشفع لجاره والحميمم لحميمه ولو ان الملائكة المقربين والانبياء المرسلين شفعوا فی ناصب ما شفعوا۔ (كتاب المحاسن: صفحہ 184)۔
علی الخدمی کا بیان ہے کہ ابو عبد اللہؒ نے کہا: پڑوسی اپنے پڑوسی کے حق میں اور مخلص دوست اپنے گہرے دوست کے حق میں سفارش کریں گے ان کی سفارش کو قبول بھی کر لیا جائے گا مگر ناصبی (یعنی سنی) کے حق میں سفارش کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے مقرب فرشتے اور انبیاء و مرسلین بھی ان کے لئے سفارش پیش کرنے والے ہوں۔
شیعوں اور یہودیوں کے مابین اپنے مخالفین کی تکفیر اور ان کی جان و مال کی اباحت میں مشابہت:
اولاً: یہودی اپنے سواء سب کو کافر کہتے ہیں اور ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ سب لوگ بت پرست ہیں اور صحیح دین سے محروم ہیں جیسا کہ تلمود میں لکھا ہے:
كل الشعوب ما عدا اليهود وثنيون وتعاليم الحاخامات مطابقة لذلك۔
تمام غیر یہودی اقوام بت پرست ہیں یہ عقیدہ حاخاموں کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
اسی طرح شیعہ بھی اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں ان کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ملت اسلام پر ان کے علاوہ کوئی بھی قائم نہیں ہے اس سلسلے میں یہ لوگ اپنے ائمہ سے متعدد روایات نقل کرتے ہیں مثلاً ایک روایت ہے:
ما احد على فطرة الاسلام غيرنا وشيعتنا وسائر الناس من ذلك براء۔
ہم اہلِ بیت کے علاوہ اور ہمارے شیعوں کے علاوہ کوئی بھی فطرتِ اسلام پر قائم نہیں ہے باقی تمام لوگ اس سے لاتعلق ہیں۔
ثانياً: یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے علاوہ تمام لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ابدالآباد تک رہیں گے جیسا کہ تلمود میں ہے:
ان النعيم ماوى ارواح اليهود ولا يدخل الجنة الا اليهود اما الجحيم فمأوى الكفار من المسلمين ولا نصيب لهم فيما سوى البكاء لما فيها من الظلام والعفوفة۔
جنت یہودیوں کا ٹھکانہ ہے کہ جنت میں صرف یہودی ہی داخل ہوں گے رہی جہنم تو یہ کافروں یعنی مسلمانوں اور مسیحیوں کا مستقر ہے اس تاریک اور بدبودار مقام میں ان کیلئے رونے کے علاوہ اور کچھ مقدر نہ ہوگا۔
بعینہ اسی طرح شیعوں کا اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کے متعلق عقیدہ ہے کہ وہ اور ان کے مذہبی پیشوا جہنم میں داخل ہوں گے اپنے ائمہ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں:
ثالثاً: صرنا نحن وهم وسائر الناس همج للنار والى النار۔
جنت میں ہم اور ہمارے شیعہ ہی داخل ہوں گے ( ہمارے علاؤہ) باقی سارے لوگ جہنمی درندے ہیں جو جہنم کی طرف دوڑیں گے۔
یہودی ہوں یا شیعہ دونوں کا مذہب نسل پرستی اور عصبیت پر قائم ہے یہ دونوں مذہب خاص گروہوں اور انسانی طبقات کو قطعیت کے ساتھ جہنم کے لئے متعین کرتے ہیں یہودی مسلمانوں سور مسیحیوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں تو شیعہ ناصبیوں (یعنی اہلِ سنت) کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی کہتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے آئمہ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں:
كل ناصب وان تعبد واجتهد يصير الى هذهٖ الآية عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصۡلٰى نَارًا حَامِيَةً۔
ہر ناصبی چاہے وہ کتنی ہی عبادت اور ریاضت کرلے اس کا انجام اس آیت کے مطابق ہوگا مصیبت جھیلتے ہوں گے خستہ ہوں گے جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے
رابعاً: یہودیوں اور شیعوں کا مسلمانوں کے متعلق کامل اور قطعی اتفاق ہے کہ یہ جہنم میں داخل ہوں گے یہ ان دونوں کی مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد اور شدید عداوت میں موافقت و اتحاد کی کھلی دلیل ہے۔
خامساً: یہودی اپنے مخالفوں کے خون کو مباح سمجھتے ہیں جیسا کہ تلمود میں لکھا ہے:
حتى افضل القوم يجب قتله۔ یہاں تک کہ (غیر یہودی) معتدل ترین شخص کو بھی قتل کر دینا ضروری ہے۔
اسی طرح شیعہ بھی اپنے مخالفین کا خون بہا دینے کو جائز قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتب کے اندر یہ لکھا ہے:
ان ابا عبدالله سئل عن قتل الناصب فقال حلال الدم والمال۔
ابوعبد اللہ سے ناصبی (یعنی سنی) کے قتل کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس کا خون حلال ہے اور اس کا مال بھی۔
سادساً: یہودی اپنے مخالفوں کو ہلاک کرنے کیلئے دھوکہ فریب اور سازش کا حربہ استعمال کرتے ہیں جیسا کر تلمود میں لکھا ہے:
محرم على اليهودى ان ينجى احدا من الاجانب من هلاك او يخرجه من حفرة يقع فيها بل عليه ان يسدها حجر۔
یہودیوں پر کسی اجنبی (غیر یہودی) شخص کو ہلاکت سے بچانا یا اسے کھائی یا گڑھے سے بچانا یا نکالنا حرام ہے ان پر تو یہ لازم ہے کہ پتھر کے ذریعہ سے گڑھے کے منہ کو ان پر بند کردے۔
شیعہ بھی اپنے مخالفوں سے خلاصی حاصل کرنے کیلئے یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں ان کی ابوعبد اللہ سے بیان کردہ ایک روایت میں ہے:
سئل عن قتل الناصب فقال: حلال الدم والمال أتقى عليك فان قدرت ان تقلب عليه حائطا او تغرقه فی ماء لكی لا يشهد به عليك فافعل۔
ابوعبد اللہ سے ناصبی (یعنی سنی) کے قتل کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: ناصبی کا خون حلال ہے مگر سخت احتیاط کی ضرورت ہے لہٰذا اگر ہوسکے تو اس پر دیوار کو گرادے یا اسے پانی میں ڈبودے کہ تیرے اس فعل پر اس کی نگاہ نہ پڑے کہیں وہ تیرے خلاف گواہی نہ دے ڈالے ایسا ممکن ہو سکے تو اسے ضرور قتل کر دے۔
سابعاً: یہودی اپنے مخالفین کی املاک و ثروت کو اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو ان سے ہر ممکن وسیلہ طریقہ سے چھین لینے کی ترغیب دیتے ہیں جیسا کہ تلمود میں مذکور ہے:
ان الله سلط اليهود على اموال باقى الامم ودمائهم۔
اللہ نے یہودیوں کو باقی (غیر یہودی) اقوام کی جانوں اور ان کے اموال پر اقتدار و اختیار عطا کیا ہے۔
اسی طرح شیعہ بھی دیگر مسلمانوں کے مال و متاع کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو تلقین کرتے ہیں کہ یہ مال جہاں ملے اور جس بھی طریقہ سے ملے چھین لیں اس سلسلے میں یہ لوگ سیدنا صادقؒ کا یہ قول بطورِ دلیل کے پیش کرتے ہیں:
انه قال: خذ مال الناصبی حيث وجدت وابعث بالخمس۔
سیدنا صادقؒ نے کہا ہے کہ ناصبی کے مال کو جہاں سے بھی ملے غصب کر لو اور اس کا خمس بھیج دو۔
اس کے علاؤہ خمینی کا یہ فتویٰ بھی:
والظاهر جواز اخذ ماله این وجد و بای نحو کان۔
ناصبی کے مال کو جہاں سے ملے اور جس بھی طریقہ سے ملے چھین لینے کا جواز بالکل راجح اور ظاہر ہے۔
یہودی اپنے مالی معاملات میں آپس میں سودی لین دین کو حرام جانتے ہیں جب کہ غیر یہودیوں سے سود لینے کو بالکل جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ سفر التثنیہ میں مذکور ہے:
للأجنبی تقرض بالربا لكن لأخيك لا تقرض بربا۔
اجنبی (غیر یہودی) کو سود پر قرض دو مگر اپنے بھائی (یہودی) کو سود پر قرض نہ دیا کرو۔
اسی طرح شیعہ بھی آپس میں سودی لین دین کو حرام سمجھتے ہیں جب کہ ذمیوں اور اہلِ سنت سے سود وصول کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں جیسا کہ ان کی کتابوں میں مذکور ہے:
ليس بين الشيعی والذمى ولا بين الشيعی والناصبی ربا۔ شیعوں اور ذمیوں کے درمیان اور شیعوں اور ناصبیوں کے درمیان سود ممنوع نہیں ہے۔
تاسعاً: یہودی مذہب کی رو سے یہودی شخص کا غیر یہودیہ عورت سے نکاح و زواج حرام ہے ایسا کرنے والا شخص گناہ گار اور یہودی تعلیمات کا مخالف گردانا جاتا ہے جیسا کہ سفر الخروج میں مذکور ہوا ہے اسی طرح شیعہ بھی غیر شیعوں خاص طور پر اہلِ سنت سے زواج کو حرام قرار دیتے ہیں اور ایسا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی محرمات کو پامال کرنے والا سمجھتے ہیں اس سلسلے میں شیعی کتب میں یہ روایت مذکور ہے:
عن أبی جعفرؒ أنه سئل عن مناكحة الناصبی والصلاة خلفه فقال: لا تناكحه ولا تصلى خلفه۔
سیدنا ابو جعفرؒ سے ناصبیوں سے نکاح اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ان کے ساتھ نہ نکاح کرو اور نہ ہی ان کی اقتداء میں نماز پڑھا کرو۔
یہ چند ایک مسائل و معاملات ہیں جن میں شیعہ اور یہودی اپنے مخالفین کی تکفیر اور ان کی جان و مال کی اباحت کے عقیدہ کی وجہ سے باہمی طور پر متفق ہیں ان مقامات میں ان دونوں گروہوں کے درمیان ظاہر و بین مشابہت کو بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ دونوں کی متعلقہ معاملہ میں نصوص وروایات میں بھی کمالِ درجہ کی مماثلت پائی جاتی ہے اس سے ہمارے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ شیعوں میں یہ عقائد بنیادی طور پر یہودی صحائف و اسفار اور تلمود سے ہی منتقل ہوئے ہیں پھر ان روایات میں شیعی رنگ و اسلوب کی مناسبت کے پیش نظر رد و بدل کر کے اور بعض عبارتوں میں تغیر کے ذریعہ سے آل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی طرف جھوٹ اور افتراء کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔