Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعوں اور یہودیوں کے مابین کتاب اللہ کی تعریف کے معاملہ میں موافقت

  الشیخ ممدوح الحربی

شیعوں اور یہودیوں کے مابین کتاب اللہ کی تعریف کے معاملہ میں موافقت

یہودیوں کی مقدس کتاب (129) اجزاء پر مشتمل ہے ان میں سے پہلے پانچ اجزاء تو یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی تھی اور اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا ان کے علاوہ عہدِ قدیم کے باقی اسفار کے متعلق انکا یہ مؤقف ہے کہ ان کو موسیٰ علیہ السلام کے بعد تشریف لانے والے دوسرے انبیاء علیہم السلام بنی اسرائیل نے تحریر کیا ہے لیکن سچی درست بات یہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو الواح پر تحریر شدہ تورات عطاء فرمائی تھی۔ اس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت اور ہر معاملہ میں کھلی تفصیل موجود تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو تورات میں بیان شدہ احکامات کی اطاعت والتزام کا حکم فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو تورات کے عمدہ اور احسن احکامات کی اتباع اور پیروی کا حکم دیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب حکیم میں ایک جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہودیوں نے خود ہی تورات کو لکھا ہے لیکن انہوں نے تورات کی بہت ساری آیات کو چھپا دیا ہے ارشادِ الٰہی ہے: قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡـكِتٰبَ الَّذِىۡ جَآءَ بِهٖ مُوۡسٰى نُوۡرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ‌ تَجۡعَلُوۡنَهٗ قَرَاطِيۡسَ تُبۡدُوۡنَهَا وَتُخۡفُوۡنَ كَثِيۡرًا‌ ۚ وَعُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَلَاۤ اٰبَآؤُكُمۡ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ‌ۙ ثُمَّ ذَرۡهُمۡ فِىۡ خَوۡضِهِمۡ يَلۡعَبُوۡنَ۝ (سورۃ الانعام: آیت 91)۔

آپ کہیے! وہ کتاب کس نے نازل کی تھی؟ جسے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تھے نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی جس کو تم نے (مختلف) اوراق کر رکھا ہے کہ انہیں ظاہر کر دیتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو اور تم سکھائے گئے ہو وہ جو تم نہیں جانتے تھے نہ تم اور نہ تمہارے باپ دادا آپ کہیے کہ اللہ نے اسے نازل کیا ہے) پھر انہیں ان کے مشغلوں میں بیہودگی سے پڑے رہنے دیجیے

بلکہ یہودیوں نے تورات کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیئے گئے عہد و میثاق کو توڑ ڈالا اس کی حفاظت کرنے کی بجائے انہوں نے کئی اشیاء کو بھلا دیا یہ دلیل ہے اس چیز کی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء فرمودہ امانت کتاب توارت کی حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں شدید ترین غفلت اور کوتاہی کا ارتکاب کیا ارشادِ الٰہی ہے: فَبِمَا نَقۡضِهِمۡ مِّيۡثَاقَهُمۡ لَعَنّٰهُمۡ وَجَعَلۡنَا قُلُوۡبَهُمۡ قٰسِيَةً‌ ۚ يُحَرِّفُوۡنَ الۡـكَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِهٖ‌ۙ وَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوۡا بِهٖۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآئِنَةٍ مِّنۡهُمۡ اِلَّا قَلِيۡلًا مِّنۡهُمۡ‌ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاصۡفَحۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۝ (سورة المائدة آیت 13)۔

غرض ان کی پیمان شکنی ہی کی بناء پر ہم نے انہیں رحمت سے دور کر دیا ہے اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کر دیا ہے وہ کلام کو اس کے موقع و محل سے بدل دیتے ہیں اور جو کچھ انہیں نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک (بڑا) حصہ بھلا بیٹھے ہیں اور ان میں سے بجز معدودے چند کے آپ کو ان کی ذہانت کی اطلاع آئے دن ہوتی رہتی ہے سو آپ ان کو معاف کر دیجئے اور (ان سے) درگزر کیجئے بے شک اللہ نیک کاروں کو پسند کرتا ہے۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تورات جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا وہ اس کے ایک حصہ میں یہودیوں کی طرف سے تعریف کی وجہ سے اور دوسرے حصہ کو یہودیوں کے بھلا دینے کی وجہ سے گم ہو گئی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے تورات کی مکمل صحت و درستی کا دعویٰ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو مکمل تورات پیش کرنے کا حکم دیا لیکن وہ مکمل تورات پیش نہ کر سکے اس لئے کہ جو تورات ان کے پاس موجود تھی یہ قطعاً وہ نہ تھی جسے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل فرمایا تھا ارشادِ الٰہی ہے: قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ۝ (سورة آلِ عمران: آیت 93)۔

آپ کہیئے کہ تورات لاؤ اور اسے پڑھو! اگر تم سچے ہو۔

اس آیت سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ توارت مکمل طور پر درست نہیں ہے اگر یہودیوں کے پاس تورات کا ایک جزء بھی صحیح موجود ہوتا تو وہ اسے ضرور پیش کرتے اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہودیوں کے پاس تورات کا صحیح اور حقیقی نسخہ موجود نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو چیلنج فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے تورات کو ضائع کر دینے کی وجہ سے یہودیوں کی مذمت فرمائی ہے اور انہیں گدھوں کے ساتھ مشابہت دی ہے اس لئے کہ یہودی اور گدھے کتاب کے حامل ہونے اور اس سے فائدہ نہ اٹھانے کی خاصیت میں مکمل مماثلت رکھتے ہیں ارشادِ باری تعالی ہے:

مَثَلُ الَّذِيۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮةَ ثُمَّ لَمۡ يَحۡمِلُوۡهَا كَمَثَلِ الۡحِمَارِ يَحۡمِلُ اَسۡفَارًا‌ ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ۝ (سورة الجمعة آیت 5)۔

جن لوگوں کو تورات پر عمل کا حکم دیا گیا تھا پھر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں لادے ہو (کیسی) بری مثال ہے ان قوم والوں کی جہنوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالم لوگوں کو (توفیق) ہدایت نہیں دیا کرتا۔

جو شخص بھی تورات کی نصوص و عبارات کا باریک نظری سے جائزہ لے گا اسے کامل یقین ہو جائے گا کہ ان نصوص کو لکھنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور ہے اسی طرح جو شخص عہدِ قدیم کے پہلے پانچ صحیفوں (اسفار) جن کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہی انہیں لکھا تھا اور اسی عقیدہ کی بناء پر وہ ان اسفار کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں کو اپنے سامنے رکھے گا تو اسے اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں ذرا سا بھی ترد نہیں ہوگا کہ پانچوں اسفار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تحریر فرمودہ نہیں ہیں بلکہ ان کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں سے لکھا ہوا ہونا ایک ناممکن اور محال امر ہےکیونکہ خود ان اسفار کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اور بہت بڑی مدت کے بعد لکھا گیا ہے قدیم و جدید محققین نے ایسی متعدد مثالیں بیان کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اسفار کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے کا معاملہ کلیۃً باطل اور محال ہے۔

یہودیوں کی اپنی کتاب مقدس میں تحریف کی چند مثالیں:

پہلی مثال:

سفرِ تثنیہ کی چونتیسویں فصل میں مذکور ایک روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور پھر موآب کے علاقہ میں ان کی تدفین کے متعلق بیان ہوا ہے توراۃ میں مذکورہ آیت کے الفاظ یہ ہیں:

فمات هناك موسى عبد الرب فی ارض مؤاب حسب قول الرب ودفنه فی الجواء فى ارض مؤاب مقابل بيت فغور ولم يعرف انسان قبره الى هذا اليوم وكان موسىٰ ابن مائة وعشرين سنة حين مات انتهى۔

اس وقت مؤاب کی سرزمین میں رب کے حکم کے تحت رب کے غلام موسیٰ کو وفات آگئی اور انہیں مؤاب کی زمین فغور کے گھر کے مقابل جواء (نام مقام) میں دفن کر دیا گیا ان کی قبر کے متعلق تا حال کسی کو معلوم نہیں ہو سکا وفات کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کسی عقل مند انسان کے لیے اس بات کو سچا تسلیم کر لینا ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بذاتِ خود تورات کے اندر اپنی وفات تدفین اور بنو اسرائیل کے آپ پر رونے کی تفصیلات کو قلمبند کر دیا ہے پھر مذکورہ بالا عبارت میں سے ان کی قبر کے متعلق تا حال کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کے جملہ پر غور و فکر کے ذریعہ سے ایک نہایت ہی اہم بات معلوم ہوتی ہے جس سے پوری قطعیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جملہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے طویل ترین مدت کے بعد لکھا گیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی قبر کی شناخت اسی لمبی مدت کی وجہ سے ناممکن ہوئی اور اس طرح کی صورت عام حالات کے مطابق اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے کہ جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بعد اور اس صحیفہ کی تالیف کے دوران یہودیوں کی کئی نسلیں گزر چکی تھیں۔

دوسری مثال:

سفر الخروج میں لکھا ہے:

فقال الرب موسىٰ انظر انا جعلتك الها لفرعون و هارون اخوك يكون نبيك۔

"رب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: دیکھ! میں نے تجھے فرعون کا معبود بنا دیا ہے اور تیرا بھائی حضرت ہارون علیہ السلام تیرا نبی ہو گا۔

یہودیوں کے پاس موجودہ تورات کی اکیلی ہی عبارت ہمارے اس دعویٰ کی مضبوط اور ٹھوس دلیل ہے کہ تورات میں تحریف واقع ہوئی ہے وگرنہ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ فرمایا ہو کہ میں نے تجھے معبود کا منصب عطا کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھیجا ہی اس کام کے لیے گیا تھا وہ لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت میں اس کی وحدانیت کا پرچار کریں اور اسی کی دعوت دیں۔

ہماری طرح یہودیوں کے علماء و احبار بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات میں کی گئی تحریف کا اعتراف کرتے ہیں یہودیوں کے بہت بڑے عالم سامؤیل ابنِ یحییٰ نے اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے:

علمائهم واحبارهم يعلمون ان هذه التوراة التی بايديهم لا يعتقد احد من علمائهم واحبارهم انها المنزلة على موسیٰ البتة لان موسىٰ صان التوراة عن بنى اسرائيل ولم يبثها فيهم وانما سلمها الى عشيرته اولاد ليوى ولم يبذل موسیٰ من التوراة لبنى اسرائيل الا نصف سورة يقال لها هائينزو وهؤلاء والائمة الهاروينون الذين كانوا يعرفون التوراة ويحفظون أكثرها قتلهم بختضر على دم واحد يوم فتح بيت المقدس ولم يكن حفظ التوراة فرضا ولا سنة بل كان كل واحد من الهارونيين يحفظ فصلا من التوراة۔ (کتاب افحام اليهود: 135)۔

یہودی علماء و احبار اس حقیقت سے کما حقہ آگاہ ہیں کہ یہ تورات جو ان کے پاس موجود ہے اس کے متعلق ان کے احبار و علماء میں سے کوئی ایک بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ واقعتاً یہ وہی تورات ہے جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا گیا تھا اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنو اسرائیل سے تورات کو محفوظ کر کے رکھا اور اسے انہوں نے عام نہیں کیا تھا انہوں نے تو اسے اپنے خاندان یعنی لیوی کی اولاد کے حوالہ کیا تھا بنو اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی صرف آدھی سورت کو عام کیا تھا اس سورۃ کا نام ہائینزو ہے اور یہ ہارونی امام تھے یہ تورات کے عالم اور اس کے اکثر حصہ کو زبانی یاد رکھتے تھے انہیں تو بیت المقدس کی فتح کے موقع پر بختِ نصر نے مجموعی طور پر قتل کر ڈالا تھا پھر تورار کو یاد کرنا نہ فرض تھا اور نہ ہی سنت بلکہ ہارونیوں کا ہر فرد از خود تورات کے ایک حصہ کو حفظ کر لیا کرتا تھا۔

عزراء وراق ہی کتاب مقدس کا حقیقی مؤلف ہے:

یہ بات تو ہمیں معلوم ہوگئی کہ محرف تورات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہیں لکھا ہے لیکن یہاں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریف شده تورات کا کاتب کون ہے؟۔

ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتے ہیں کہ اس موضوع پر محققین علماء کی لکھی ہوئی تحقیقات کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کی پختہ رائے یہ ہے کہ تحریف کے بعد تورات کا کاتب عزراء الوراق ہے اور اس نے یہ کتاب یروشلم پر بابلی حکمران بختِ نصر کی یلغار ہیکل سلیمانی کی بربادی اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کے قتل ہو جانے کے بعد لکھی ہے چنانچہ ابنِ حزمؒ نے اپنی کتاب الفیصل میں لکھا ہے:

ان عزراء الوراق هو الذى املى على اليهود التوراة من حفظه وكان املاء عزراء للتوراة بعد ازيد من سبعين سنة من خراب بيت المقدس۔

عزراء الوراق ہی وہ شخص ہے جس نے اپنی یادداشت سے یہودیوں کو تورات لکھوائی تھی اور عزراء کا تورات لکھوانے کا عمل بھی بیت المقدس کی ویرانی و تباہ حالی سے ستر سے بھی زائد سالوں کے بعد وقوع پذیر ہوا تھا

اس کی تائید امام ساموئیل ابنِ یحییٰ المغربی کے ان کلمات سے ہوتی ہے لکھتے ہیں:

فلما راى عزراء ان القوم قد احرق هيكلهم وزالت دولتهم وتفرق جمعهم ورفع كتابهم جمع من محفوظاته ومن الفصول التی يحفظها الكهنة ما لفق منه هذه التوراة التی بايديهم الآن ولذلك بالغوا فی تعظيم عزراء هذا غاية المبالغة وزعموا ان النور الى الآن يظهر على قبره الذی عند بطائح العراق لانه عمل لهم كتابا يحفظ دينهم فهذه التوراة التی بايديهم على الحقيقة كتاب عزراء وليس كتاب اللہ۔(كتاب افحام اليهود 139)۔

جب عزراء نے یہ دیکھا کہ یہودیوں کا ہیکل نذرِ آتش کر دیا گیا ہے ان کی حکومت زوال سے دو چار ہوگئی ہے اور ان کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور ان کی کتاب بھی ان سے اٹھالی گئی ہے تو اس نے اپنی یادداشت سے اور کاہنوں کے حفظ کردہ اجزاء کی مدد سے اس تورات کو مرتب کیا جو اس وقت یہودیوں کے پاس موجود ہے یہی وجہ ہے کہ یہودی عزراء کی حد درجہ تعظیم و توقیر بجا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراق کے میدانوں میں موجود اس کی قبر سے ابھی تک نور کی برسات ہورہی ہے کہ اس نے انکے لیے ایسی کتاب مرتب کر دی ہے جس سے ان کا دین محفوظ ہوگیا ہے لہٰذا یہودیوں کے پاس موجود تورات عزراء کی لکھی ہوئی کتاب کتاب اللہ ہرگز نہیں۔

شیعہ اور ان کی قرآنِ پاک میں تحریف:

شیعوں کا قرآنِ کریم کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ اس میں تحریف اور تبدیلی ہوئی ہے بہت ساری آیات کو اس میں بڑھا دیا گیا ہے اور کچھ کو اس میں سے نکال دیا گیا ہے اور نکال دی گئی آیات اس وقت مسلمانوں کے پاس موجودہ قرآن سے دو گنا زائد تھیں بلکہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن میں سے سر فہرست خلفاء ثلاثہؓ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ ہیں نے قرآن میں تحریف کی ہے اور اس میں سے بہت سارے حصے کو نکال دیا ہے کہتے ہیں: ساقط شدہ آیات کا تعلق درج ذیل دو بڑے اور بنیادی موضوعات کے ساتھ ہے۔

  1.  اہلِ بیت اور خاص طور پر سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے فضائل اور ان کی امامت کے متعلق قرآنی تصریحات۔
  2.  مہاجرین و انصار کے عیوب اور نقائص ان مہاجرین و انصار کو شیعہ منافق کہتے ہیں بقول ان کے یہ لوگ اسلام میں سازش زنی کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔

شیعوں کا قرآن کے متعلق یہی عقیدہ ہے جیسا کہ ان کی مشہور کتب تفسیر و حدیث میں اس کے متعلق ان کے علماء کی تصریحات موجود ہیں لیکن موجودہ دور کے شیعہ علماء اس عقیدہ کا انکار کرتے ہیں اور ان کا یہ انکار اس وجہ سے نہیں ہوا ہے کہ انہیں اس عقیدہ کی خرابی کا علم ہو گیا ہے یا وہ حق کی طرف رجوع کے طلبگار ہوگئے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی زبانی لغزشوں اور قلموں کی بے اعتدالی سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے قدیمی خبیث عقیدہ پر قائم ہیں اور اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جب دیکھا کہ علماء مسلمان اس عقیدہ سے نفرت کرتے اور اس سے حد درجہ کراہت کرتے ہیں تو انہیں خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر وہ اس کا کھل کر اظہار و اعلان کر دیتے تو اس کے رد عمل میں پیدا ہونے والے نتائج ان کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوں گے اسی لیے وہ اسے نفاق فریب اور دھوکہ کے پردہ میں لپیٹ لینے پر مجبور ہو گئے جسے شیعہ اثناء عشریہ کی لغت میں تقیہ کہا جاتا ہے۔

شیعوں کے بڑے بڑے علماء جو پہلی صدی سے تیرہویں صدی کے طویل ادوار میں پیدا ہوتے رہے کا اجتماعی طور پر اس عقیدہ پر اتفاق ہے کہ قرآن میں تحریف اور تغیر و تبدل واقع ہوا ہے ماسوائے چار اشخاص کے کہ انہوں نے اس عقیدہ کی صراحت نہیں کی ہے ان کے علاؤہ ان کے باقی محدثین اور مفسرین قرآن میں تحریف کی صراحت کرتے ہیں میں یہاں ان بڑے شیعہ علماء کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی معتمد مؤلفات میں قرآن میں تحریف کے عقیدہ و دعویٰ کو کھل کر بیان کیا ہے جس سے قرآن میں تحریف کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے میں کوشش کروں گا کہ ان علماء کے تذکرہ کے دوران ان کے زمانہ کی ترتیب کو ملحوظ رکھوں اور ان کی وفیات کی تاریخ کو بھی بیان کروں۔

1۔ ان کا پہلا عالم:

سلیم بن قیس الهلالی متوفی 90ھ ہے اس نے اپنی کتاب کتاب سلیم بن قیس میں ایسی متعدد روایات درج کی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں تحریف ہوئی ہے انہی روایات میں سے ایک روایت سیدنا علیؓ بن ابی طالب سے اس کی اپنی سند کے ساتھ موجود ہے اس میں ہے:

ان الاحزاب تعدل سورة البقرة والنور ستون ومائة آية والحجرات ستون آية والحجر تسعون ومائة آيه فما هذا۔(كتاب سليم بن قيس 122)۔

سورة الاحزاب سورۃ البقرہ کے مساوی تھی اور سورۃ النور کی ایک سو ساٹھ آیات تھیں حجرات کی ساٹھ آیات اور سورۃ الحجر کی ایک سو نوے آیات تھیں (یہ تحریف نہیں) تو پھر کیا ہے؟۔

شیعہ امام سلیم بن قیس کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ الاحزاب جس کی آیات کی تعداد 73 ہے اصل میں اور تحریف کے بغیر دو سو اسی آیات پر مشتمل سورۃ البقرہ کے مساوی تھی سورۃ النور سلیم بن قیس کے مؤقف کے مطابق ایک سو ساٹھ آیات پر مشتمل تھی جب کہ موجودہ مصحف میں یہ سورۃ مبارکہ کل 64 آیات پر مشتمل ہے سورۃ الحجرات کی سلیم بن قیس کے نزدیک ساٹھ آیات تھیں جبکہ موجود مصحف میں یہ سورۃ کل 18 آیات پر مشتمل ہے سورۃ الحجرات ان کے مذہبی قائد سلیم بن قیس کے نزدیک ایک سو نوے آیات کی تھی لیکن مسلمانوں کے پاس موجود محفوظ قرآنِ کریم میں یہ کل 99 آیات پر مشتمل ہے شیعہ امامیہ کے علماء کا اور ان کے انتہائی سر کردہ اولین عالم سلیم بن قیس کا یہی عقیدہ ہے کہ قرآنِ کریم میں سے ایسی آیات کو بڑی مقدار میں نکال دیا گیا ہے جو اہلِ بیت کی فضیلت پر اور خاص طور پر سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے فضائل و مناقب پر مشتمل تھیں۔

2۔ ان کا دوسرا عالم:

محمد بن حسن الصفار المتوفی (290ھ) ہے اس نے اپنی کتاب بصائر الدرجات میں سیدنا ابوجعفر صادقؒ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے:

ما من احد من الناس يقول انه جمع القرآن كله كما انزل الله الا كذاب وما جمعه وما حفظه كما انزل الا علىؓ بن ابی طالب والأئمة من بعده۔ (بصائر الدرجات للصفار: 213)

لوگوں میں سے جو شخص بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے قرآنِ کریم کو اس کے نزول کے مطابق جمع لیا ہے تو وہ کذاب ہے اس لیے کہ نزول کے مطابق قرآن کو صرف سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے اور ان کے بعد آنے والے ائمہ نے ہی محفوظ اور جمع کیا ہے۔

ان سے ایک دوسری روایت یوں بیان کرتا ہے:

ما يستطيع احد ان يدعى انه جمع القرآن كله ظاهره وباطنه غير الاوصياء۔

ائمہ کے علاؤہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب نہیں ہے کہ اس نے قرآن اس کے ظاہر و باطن سمیت مکمل طور پر جمع کیا ہے۔

3۔ ان کا تیسر ا عالم:

علی بن ابراہیم القمی المتوفی 307ھ ہے اس نے اپنی تفسیر کے پہلے جزء میں مقدمہ کے اندر یہ لکھا ہے:

فالقرآن منه ناسخ ومنسوخ ومنه محكم ومنه متشابه ومنه عام ومنه خاص ومنه تقديم ومنه تأخير ومنه مقطع ومنه معطوف ومنه حرف مكان حرف وانه على خلاف ما انزل الله۔ (تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 8)۔

قرآن میں ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ہے اس میں محکم بھی ہے اور تشابہ بھی اس میں عام بھی ہے اور خاص بھی اس میں تقدم بھی ہے اور تأخر بھی اس میں مستقل بھی اور معطوف بھی اس میں ایک کلمہ کی بجائے دوسرا کلمہ بھی ہے اور اللہ کے اتارے گئے کلام کے مخالف بھی۔

 پھر اس نے حدود پامال کرتے ہوئے اور بہتان طرازی کرتے ہوئے قرآنِ کریم سے اپنے مزعومہ مؤقف کی صداقت کے لیے کئی مثالیں بھی درج کی ہیں وہ اپنی بیان کردہ مثالوں میں تغیر و تبدل کرتا ہے اور آیات کو آگے پیچھے کرتا ہے وہ یہ سب کچھ کتاب اللہ میں اپنے یہودی استاذوں کی مکمل موافقت میں کرتا ہے جو آیات کو ایک جگہ سے ہٹا کر اپنی مقدس کتاب میں تحریف کیا کرتے تھے۔ (العیاذ بابعہ)

4ـ ان کا چوتھا عالم:

قمی کے بعد اس کا شاگرد محمد بن یعقوب الکلینی المتوفی 338 ہے جسے شیعوں کے بہت بڑے محدث ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس نے ان کے لیے الکافی لکھی ہے جسے شیعہ کے نزدیک وہی مرتبہ دیا جاتا ہے جو صحیح البخاری کو اہلِ سنت کے نزدیک دیا جاتا ہے ذرا دیکھیے تو شیعہ کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں کیا لکھا ہے؟ کلینی نے علی بن محمد سے اس کے بعض شاگردوں کے واسطہ سے محمد بن محمد بن ابی نصر سے یہ روایت نقل کی ہے:

قال دفع الى ابو الحسن عليه السلام مصحفا و قال: لا تنظر فيه ففتحته و قرأت فيه لم يكن الذين كفروا فوجدت فيه اسم سبعين رجلا من قريش باسمائهم واسماء آبائهم قال: فبعث الى ابعث الى بالمصحف۔ (اصول الكافی جلد 2 صفحہ 631)۔

احمد بن محمد بن ابی نصر کا بیان ہے کہ ابو الحسن سلام نے ایک مصحف میرے سپرد کیا اور کہا: اس میں دیکھنا نہیں ہے میں نے اسے کھولا اور اس میں میں نے لَمۡ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ الخ۔ (سورة البینہ آیت 2) (یعنی سورة البینہ کی تلاوت کی میں نے اس میں قریش کے ستر اشخاص کے نام اور ان کے آباء کے نام لکھے دیکھے احمد بن محمد بن نصر کہتا ہے کہ پھر ابو الحسن نے میری طرف پیغام بھیجا کہ یہ مصحف ان کی طرف بھیج دوں چنانچہ میں نے یہ مصحف ان کی طرف بھیج دیا۔

کلینی نے ابو عبداللہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:

قال: ان القرآن الذک جاء به جبريل الى محمدﷺ الله سبعة عشر الف آية۔

وہ قرآن جسے جبریل علیہ السلام محمدﷺ کی طرف لائے تھے وہ ستر ہزار آیات پر مشتمل تھا۔

اس قول کی رو سے تو یہ لازم آتا ہے کہ قرآنِ کریم کے دو تہائی حصے غائب ہوگئے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ شیعوں کے امام کلینی نے ایک روایت کے مطابق یہ کہا ہے کہ ان کے پاس ایک دوسرا قرآن ہے جو مسلمانوں کے پاس موجود قرآن کریم سے تین گنا زائد ہے کافی کی کتاب الحجہ میں ہے:

عن أبی بصير عن أبی عبدالله انه قال وان عندنا لمصحف فاطمةؓ وما يدريهم ما مصحف فاطمةؓ قال: قلت وما مصحف فاطمةؓ قال مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات والله مافيه من قرآنكم حرف واحد۔

ابو بصیر ابو عبداللہ سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے پاس سیدہ فاطمہؓ کا مصحف موجود ہے لوگوں کو کہا: معلوم کہ سیدہ فاطمہؓ کا مصحف کیا ہے؟ راوی کہتا ہے: میں نے کہا: سیدہ فاطمہؓ کا مصحف کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ جو مصحف تمہارے اس قرآن سے تین گنا زائد ہے اللہ کی قسم! اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔

5۔ ان کا پانچواں عالم:

یہ ان کا امام محمد بن مسعود بن لیاش المعروف بالعیاش ہے اس کا شمار ان کے مشہور شیعی علماء میں ہوتا ہے جن کو خصوصی طور پر قرآنِ کریم میں تحریف کے عقیدہ کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی ہے ان میں امام عیاشی بھی ہے یہ تفسیر العیاشی کا مؤلف ہے اس تفسیر کو شیعوں میں اہم ترین اور قدیم ترین تفسیر کا مرتبہ حاصل ہے۔ عیاشی نے اپنی اسی تفسیر کے پہلے جزو میں یہ روایت درج کی ہے:

عن ابی عبدالله قال لو قرى القرآن كما انزل لأ لفيتنا مسمين۔(تفسير العياش جلد 1 صفحہ13)۔

اگر قرآن کو اس کے نزول کے مطابق پڑھا جائے تو تمہیں اس کے اندر ہمارے نام لکھے ہوئے مل جائیں گے۔

یعنی اگر قرآن میں تحریف کا ارتکاب نہ ہوچکا ہوتا تو آپ کو قرأت کے دوران اہلِ بیتؓ کے نام لکھے ہوئے ملتے لیکن اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (بقول عیاشی بموجب عقیدہ شیعہ) تحریف کر دی ہے اور انہیں بدل ڈالا ہے اس تفسیر میں سیدنا ابوجعفرؓ سے ان کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے۔

ان القرآن قرطرح منه أى كثير و لم يزد فيه الاحرف اخطات به الكتبة وتوهمها الرجال۔ (تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 180)۔

 قرآن میں سے بہت ساری آیات کو نکال دیا گیا ہے اس میں صرف ایک حرف کا اضافہ کیا گیا ہے جو کاتبوں کی غلطی اور وہم کا نتیجہ ہے۔

6۔ ان کا چھٹا عالم:

امام المفيد المتوفی 413ھ ہے جسے شیعی عقائد کا موس اور بانی قرار دیا جاتا ہے اس نے تحریف کے عقیدہ کے متعلق باقی تمام اسلامی فرقوں کے مقابلہ میں اپنے علماء کا اجماع نقل کیا ہے اس شیعی عالم مفید نے اپنی کتاب (اوائل المقالات) میں لکھا ہے:

واتفقوان ائمة الضلال خالفوا فی كثير من تأليف القرآن و عدلوا فيه عن موجب التنزيل و سنة النبیﷺ ما واجمعت المعتزلة والخوارج والمرجئة واصحاب الحديث على خلاف الامامية فی جميع ما عددناه۔ (اوائل المقالات صفحہ 48)۔

شیعوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ گمراہ اماموں (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے قرآن کی بہت ساری تراکیب میں مخالفت کی ہے اور انہوں نے قرآن کے اور سنتِ نبیﷺ کے تقاضوں سے انحراف کیا ہے جبکہ معتزلہ خوارج مرجنہ اور محدثین امامیہ کی بیان کردہ تمام باتوں کی مخالفت پر متفق ہیں۔

7۔ ان کا ساتواں عالم:

ابو منصور الطبرسی المتوفی 620 ھ ہے اسی طبری نے ان کی کتاب (الاجتماع) میں سیدنا ابوذر غفاریؓ سے یہ روایت بیان کی ہے:

عن ابی ذر الغفاریؓ قال لما توفى رسول الله جمع على عليه السلام القرآن و جاء و به الى المهاجرين والأنصار وعرضه عليهم لما قد أوصاه رسول اللهﷺ ما فلما فتحه ابوؓبكر خرج فی اول صفحة فتحها فضائح القوم فوثب عمرؓ وقال: يا علىؓ أردده فلا حاجة لنا فيه فاخذه عليه السلام وانصرف ثم احضروا زيد بن ثابتؓ و كان قارئا للقرآن فقال له عمرؓ ان علياؓ جاء بالقرآن و فيه فضائح المهاجرين والانصار وقد رأينا ان تؤلف القرآن و تسقط منه ما كان فضيحة وهتكا للمهاجرين والأنصار فأجابه زيدؓ الى ذلك۔ (كتاب الاحتياج للطبرسی 156)۔

سیدنا ابو ذرغفاریؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہﷺ فوت ہوئے سیدنا علیؓ نے قرآن جمع کیا اور اسے رسول اللہﷺ کی وصیت کے مطابق مہاجرین وانصار کی طرف لائے۔ اور اسے ان پر پیش کیا جب اسے سیدنا ابوبکرؓ نے کھولا تو کھولتے ہی پہلے ہی صفحہ پر انہیں قوم یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برائیوں کے تذکرے نظر آئے عمر تیزی سے اٹھے اور کہنے لگے سیدنا علیؓ! تم اسے واپس لے جاؤ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو آپؓ اسے اٹھا کر واپس چلے گئے پھر انہوں نے سیدنا زید بن ثابتؓ کو جو قرآن کے قاری تھے بلایا اس سے سیدنا عمرؓ نے کہا کہ سیدنا علیؓ قرآن لایا ہے لیکن اس میں مہاجرین و انصار کے عیوب مذکور ہیں ہماری رائے یہ ہے کہ ایک قرآن کو جمع کریں اور اس میں سے مہاجرین و انصار کے عیوب و نقائص کو خارج کر دیں تو سیدنا زیدؓ نے اس کے مطابق تعمیل کردی۔

بلکہ طبری کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جہاں جرائم کا ذکر کیا ہے وہیں اس نے ان جرائم کے مرتکبین کے ناموں کی بھی صراحت کردی تھی لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان ناموں کو حذف کر دیا اس طرح یہ واقعات اور قصے وضاحت کے بغیر ادھورے رہ گئے اس نے اپنی کتاب (الاحتجاج) میں لکھا ہے:

ان الكناية عن اصحاب الجرائر العظيمة من المنافقين فی القرآن ليست من فعله تعالىٰ وانها من فعل المغيرين والمبدلين الذين جعلوا القرآن عضين و اعتاضوا الدنيا من الدين۔

قرآنِ کریم میں بڑے بڑے جرائم کرنے والے منافقوں کے متعلق اشارہ و کنایہ کا انداز اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعاً نہیں ہے بلکہ یہ قرآن میں تغیر و تبدل کرنے والوں (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی طرف سے ہوا ہے (مزید کتاب) یہ قرآن کو بدلنے والوں کا کام ہے جنہوں نے قرآن کو تقسیم کر دیا اور دین کے بدلہ میں دنیا کو خرید لیا۔

یہ ہے شیعوں کے امام طبری کا قرآنِ کریم کے متعلق عقیدہ اس نے جتنا کچھ ظاہر کیا ہے یہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس نے اپنے نفس میں پوشیدہ رکھا ہے اور یہ سب کچھ منافقت اور دھوکہ جسے وہ تقیہ کا نام دیتے ہیں کی بنیاد پر ہے اس کے خیالات و نظریات کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے جس کی طرف طبری نے خود ہی اپنی اس کتاب میں یوں نشاندہی کردی ہے لکھتا ہے:

ولو شرحت لك كل ما أسقط و حرف وبدل مما يجرى هذاالمجرى لطال وظهر ما تحضر التقية اظهاره من مناقب الأولياءومثالب الاعداء كتاب۔ (الاحتجاج صفحہ 254)۔

اگر میں ساقط کیے گئے تحریف یا تبدیل کر دیئے گئے ہر مقام کی تیرے سامنے مکمل تشریح کردوں تو کلام حد سے زیادہ لمبی ہو جائے اور اولیاء کے فضائل اور دشمنوں کے عیوب و نقائص تمام کے تمام ظاہر ہو جائیں جس کے اظہار میں تقیہ مانع ہے۔

8۔ ان کا آٹھواں عالم:

یہ ان کا امام الفیض الکاشافی المتوفی 1091ھ ہے اس کا شمار کبار شیعہ مفسرین و علماء میں ہوتا ہے یہ تفسیر الصافی کا مؤلف ہے اس نے اپنی اس کتاب کی تمہید میں بارہ مقدمات لکھتے ہیں ان میں چھٹے مقدمہ کو اس نے قرآنِ کریم میں تحریف کے ثبوت کے لیے مختص کیا ہے۔ اور اس مقدمہ کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:

المقدمة السادسة فی نبذمما جاء فی جمع القرآن و تحريفه و زيادته و نقصه و تأويل ذلك۔

یعنی قرآن کے جمع میں کی گئی تحریف زیادتی اور کمی کے متعلق مجموعے اور ان سب کی حقیقت کا بیان۔

پھر یہ مؤلف اپنے متعدد مستند مصادر سے نقل کردہ ایسی روایات جو قرآن میں تحریف کے اثبات پر مشتمل ہیں کو بیان کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے، کہتا ہے:

والمستفاد من هذه الأخبار وغيرها من الروايات من طريق اهل البيت ان القرآن الذی بين اظهرنا ليس بتمامه كما انزل على محمدﷺ ما بل منه ما هو خلاف ما انزل الله و منه ما هو مغير محرف وانه قد حذف منه اشياء كثيرة منها اسم على الام فی كثير من المواضع و منها لفظة آل محمدﷺ مال غير مرة ومنها اسماء المنافقين في مواضعها ومنها غير ذلك وانه ليس ايضا على الترتيب المرضى عند الله وعند رسول اللهﷺ۔(تفسير الصافی جلد 1 صفحہ 44)۔ 

ان احادیث سے اور ان کے علاؤہ اہلِ بیت سے مروی دوسری روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قرآن جو ہمارے درمیان موجود ہے یہ پورے کا پورا وہ قرآن نہیں ہے جسے محمدﷺ پر نازل کیا گیا تھا بلکہ اس میں اللہ کے اتارے گئے کلام کے خلاف بھی مجموعہ ہے تبدیل شدہ اور تحریف شدہ آیات بھی ہیں اس میں بہت سی اشیاء کو خارج کر دیا گیا ہے کے نام کو بیشتر مقامات سے ہٹایا گیا ہے آلِ محمدﷺ کے الفاظ کو متعدد مقامات سے حذف کیا گیا ہے منافقین کے ناموں کو تمام جگہوں سے ساقط کر دیا گیا ہے اس کے علاؤہ دوسرے ردو بدل بھی کیے گئے ہیں پھر یہ قرآن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پسندیدہ ترتیب پر بھی قائم نہیں ہے۔

کاشانی نے قرآنِ کریم میں بعض آیات کو حذف کر دینے کی جو صراحت کی ہے اس کے متعلق میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مستقل اور مفصل عنوان (شیعہ اور قرآنِ کریم) کے تحت گفتگو کروں گا اور اس موقع پر شیعوں کے بقول حذف آیات کی انواع و اقسام پر بھی روشنی ڈالوں گا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق قرآنِ کریم میں حذف شدہ آیات کی تین اقسام ہیں۔

1۔ پہلی قسم:

مکمل سورتوں کا حذف یعنی قرآنِ کریم میں سے کافی ساری مستقل سورتوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔

2 ۔دوسری قسم:

حذف کی دوسری قسم یہ ہے کہ بعض آیات کو قرآنِ کریم سے ساقط کر دیا گیا ہے۔

3۔ تیسری قسم:

شیعہ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق کچھ کلمات کو آیات سے حذف کر دیا گیا ہے جیسا کہ ائمہ اور اولیاء کے نام وغیرہ ان ساری اقسام کو میں آئندہ بحث شیعہ اور قرآن میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کروں گا۔

9۔ ان کا نواں عالم:

یہ ان کا امام محمد باقر المجلسی المتوفی 1111ھ ہے یہ شیعوں کا شیخ الاسلام ہے اس نے اپنے بحار الانوار نامی انسائیکلو پیڈیا میں ایسی سینکڑوں روایات درج کر دی ہیں جن میں کھلی صراحت موجود ہے کہ قرآنِ کریم میں تحریف ہوئی ہے انہی روایات میں سے ایک یہ ہے:

عن ابی عبدالله انه قال: والله ماكنى الله فی كتابه حتىٰ قال يا ويلتى ليتنى لم اتخذ فلانا خليلا وانما هی فی مصحف على يا ويلتی ليتنى لم اتخذ الثانی خليلا۔ (بحار الانوار جلد 4 صفحہ 19)۔

ابو عبداللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا ہے: اللہ کی قسم! اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے فرمان ہائے میری شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا میں کنایہ و اشارہ فرمایا ہی نہیں ہے بلکہ سیدنا علیؓ کے مصحف میں اسکی کھلی صراحت مذکور ہے اس میں ہے ہائے میری شامت کاش میں نے دوسرے کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

اس روایت میں دوسرے کے لفظ سے شیعہ سیدنا عمرؓ کو مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قیامت کے دن سیدنا ابوبکرؓ معاذالله سیدنا عمرؓ سے اظہار برأت کریں گے اور یہ الفاظ بولیں گے جو شخص مزید مطالعہ کا خواہشمند ہے اسے چاہیے کہ وہ بحار الانوار کی جلد نمبر 24 کا مطالعہ کرے اس میں دسیوں صفحات شیعہ امامیہ کے اس عقیدہ کی تشریح کے لیے بھرے ملیں گے کہ قرآنِ کریم میں تحریف ہوئی ہے اور اسے نظر آجائے گا کہ اس عقیدہ میں قائدانہ کردار شیعہ امام محمد باقر المجلسی نے ادا کیا۔

10 ۔ان کا دسواں عالم:

یہ ان کا امام نعمۃ اللہ الجزائری المتوفی 1112ھ ہے اس نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر قرآنِ کریم میں تحریف کی تہمت عائد کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:

لا تعجب من كثرة الاخبار الموضوعة فانهم بعد النبیﷺ قد غيرها وبدلوا فی الدين ما هو اعظم من هذا كتغييرهم القرآن وتحريف كلماته وحذف مافيه مدائح آل الرسول والأئمة الطاهرين وفضائح المنافقين واظهار مساويهم۔(الانوار النعمانية جلد1 صفحہ 79)۔

موضوع روایات کی کثرت و بہتات تجھے حیرت کا شکار نہ بنا دیں اس لیے کہ ان لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے نبیﷺ کے بعد ہی دین کو بدل ڈالا تھا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ سنگین جرم کے مرتکب ہو گئے قرآن کو بدل ڈالا کلمات میں تحریف کردی اور قرآن میں مذکور آلِ رسول اور ائمہ کے فضائل و مدائح کو ساقط کر دیا اور منافقوں کے عیوب و جرائم کو بھی قرآن سے نکال دیا۔

اس ساری بحث سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ شیعوں اور ان کے یہودی آقاؤں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتب میں تحریف کے جرم میں کسی قدر قوی مشابہت موجود ہے اور اس سے ہمارے اس مؤقف کو بھی تقویت ملتی ہے کہ شیعی عقائد و نظریات بنیادی طور پر بندروں اور خنزیروں کی اولاد مغضوب علیہ جماعت یہودیوں کے عقائد و نظریات سے اخذ شدہ ہیں۔