Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعیت اور یہودیت کا امامت کی وصیت پر ایک ہی نظریہ ہے

  الشیخ ممدوح الحربی

شیعیت اور یہودیت کا امامت کی وصیت پر ایک ہی نظریہ ہے

عقیدہ یہود میں وصی مقرر کرنے کا ثبوت:

پہلے ہم یہودیوں کے اس عقیدہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہودی اس بات کے قائل ہیں کہ نبی موسیٰ علیہ السلام کے بعد لازماً ایک وصی ہونا چاہئے جو ان کا قائم مقام بن کر ان کے بعد لوگوں کی رہنمائی کرے اس بارے میں تورات وغیرہ یہودیوں کی دیگر کتابوں میں متعدد نصوص موجود ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ یوشع بن نون کو اپنا وصی مقرر کر دیں تا کہ تمہارے بعد وہ بنو اسرائیل کی رہنمائی کرتے رہیں جس کے الفاظ کا یہ ترجمہ ہے:

رب تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا یوشع بن نون ایسے آدمی ہیں جن میں روح ہے انہیں ساتھ لو اور ان پر ہاتھ رکھو اور انہیں عازر کاہن اور بنو اسرائیل کی جماعت کے سامنے کھڑا کرو اور ان کے سامنے انہیں وصیت کرو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی طرح کیا تھا جس طرح ان کے رب نے حکم دیا تھا یوشع کو ساتھ لیا ان کے سامنے کھڑا کیا اور جس طرح رب نے کلام کیا تھا یوشع پر ہاتھ رکھا اور انہیں وصیت کی۔ (سفر الاصحاح 27)۔

چند وجوہ کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ یوشع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد وصی (جسے وصیت کی گئی ہو) مقرر کئے گئے تھے:

  1.  یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ سلام سے مطالبہ کیا کہ اپنی موت سے پہلے وصیت کر جائیں۔
  2.  وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وصی مقرر کرنے کا اختیار نہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر چھوڑا ہے نہ ہی بنواسرائیل پر بلکہ خود واضح حکم دیا ہے اور جسے وصی مقرر کیا ہے بقول ان کے وہ یوشع علیہ السلام ہیں۔

 یہودیوں کے ان بیانات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہودیوں کا یہ نظریہ ہے کہ:

  1.  وصی کا تعین کرنا واجب ہے۔
  2.  اللہ تعالیٰ بذاتِ خود وصی مقرر کرتا ہے۔
  3.  یہودیوں کے نزدیک وصی کا مرتبہ اتنا بڑا ہے کہ نبی کے مرتبہ کے برابر ہے۔
  4.  وصی کی طرف وحی اسی طرح ممکن ہے جس طرح نبی کی طرف ممکن ہے۔

امامت کے بارے میں شیعہ کا نظریہ:

عقیدہ وصیت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ شیعوں کے نزدیک امامت کا کیا رتبہ ہے؟۔

شیعوں کے نزدیک امامت ایک بڑا رابطہ ہے ان کے نزدیک امامت ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے جو امامت نہیں مانتا اس کا ایمان ہی ناقص ہے اصولِ کافی میں سیدنا ابوجعفرؒ سے روایت بیان کرتے ہیں:

بنی الاسلام على خمس على الصلاة والزكاة والصوم والحج والولاية ولم يناد بشیء كما نودى بالولاية۔ (اصول كافی جلد 2 صفحہ 18)۔

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے نماز زکوٰۃ روزہ حج اور ولایت پر اور کسی بھی چیز پر اتنا زوردار انداز نہیں اپنایا گیا جتنا ولایت و امامت پر اختیار کیا گیا ہے بلکہ امامت تمام ارکانِ اسلام پر ان کے نزدیک مقدم ہے کلینی نے سیدنا ابوجعفرؒ سے بیان کیا ہے اور اوپر مذکورہ ارکان کا ذکر کیا اور کہا ان میں سے سب سے زیادہ افضل ولایت و امامت ہے۔(حوالہ مذکوره)۔

اس سے بڑھ کر یہاں تک شیعہ کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی تمام ارکانِ اسلام ادا کرتا ہے مگر ولایت و امامت کا حق ادا نہیں کرتا تو نہ تو اس سے کوئی عمل قبول ہوتا ہے نہ اسے عذابِ الٰہی سے نجات ملے گی اور شیعہ اس بارے میں یہاں تک مبالغہ کرتے ہیں کہ امامت بغیر روئے زمین باقی نہیں رہ سکتی اگر دنیا ایک گھڑی بھی بغیر امام کے گزارے گی تو زمین میں دھنس جائے گی صفار نے باقاعدہ باب باندھا ہے اور اس کے تحت روایات بیان کی ہیں ایک روایت سیدنا ابو جعفر صادقؒ بیان کرتا ہے:

لو ان الامام رفع من الارض ساعة لساخت بأهلها كما يموج البحر بأهله۔(بصائر الدرجات: 558)

اگر زمین سے امام کو ایک گھڑی کے لیے اٹھا دیا جائے تو یہ اس طرح اپنے باسیوں کو لے کر دھنس جائے گی جس طرح سمندر کی موجیں چیزوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔

شیعہ کا عقیدہ وصیت:

درج ذیل نکات میں بیان ہوتا ہے:

  1. ان کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے بعد سیدنا علیؓ بن ابی طالب وصی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں وصی کے طور پر پسند کیا ہے انہیں نبی کریمﷺ نے اس منصب پر نہیں بٹھایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بن کر آئے ہیں صفار نے ابو عبداللہؒ سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کو ایک سو بیس مرتبہ آسمان پر لے جایا گیا جب بھی اوپر لے جایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو یہ وصیت کی کہ سیدنا علیؓ اور ان کے بعد ائمہ کی ولایت ہے یہ حکم دیگر فرائض سے بڑھ کر دیا۔ (بصائر الدرجات)۔
  2. شیعہ امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا علیؓ سے سرگوشی کی ان کا شیخ مفید لکھتا ہے کہ حمران بن اعین نے کہا: میں نے ابو عبداللہؒ سے کہا اس بات کا مجھے پتہ چلا ہے کہ رب تبارک و تعالیٰ نے سیدنا علیؓ سے سرگوشی میں بات کی تھی انہوں نے کہا: ہاں اللہ تعالیٰ اور سیدنا علیؓ کے درمیان طائف میں سرگوشی ہوئی تھی درمیان میں جبریل علیه السلام اترے تھے۔ (کتاب الاختصاص: 328)۔ اور یہ بات انہوں نے خود نبی اکرمﷺ سے بیان کی ہے کہ طائف عقبہ کے دن تبوک اور خیبر کے دن الله تعالیٰ نے سیدنا علیؓ سے سرگوشی کی۔ (کتاب الاختصاص: 328)۔ یہ کتنا بڑا جھوٹ اور بہتان ہے نبی ﷺ پر! 
  3.  شیعہ کا عقیدہ ہے کہ جو وصی ہوتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے صفار لکھتا ہے "سماعہ بن مہران" کہتا ہے میں نے ابو عبداللہؒ سے سنا: وہ کہتے ہیں روح یعنی وحی ایک ایسی مخلوق ہے جو جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام سے بڑی ہے یہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھی جو آپﷺ کو درست رکھتی تھی اور رہنمائی کرتی تھی اور آپﷺ کے بعد یہ وصی کے ساتھ رہتی ہے۔

( کتاب بصائر الدرجات: 476)۔

محمد باقر مجلسی بیان کرتا ہے کہ ابو عبداللہؒ نے کہا:

ہم میں سے بعض ایسے ہیں جن کے کان میں بات کی جاتی ہے اور بعض ایسے ہیں جو اپنے خواب میں دیکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اس طرح کی آواز سنتے ہیں جس طرح زنجیر کو جب تھالی پر پھینکا جائے تو آواز سنی جاتی ہے۔ (بحار الانوار جلد 26 صفحہ 55)۔

یعنی جس طرح فرشتے آنے پر نبیﷺ سنتے تھے۔

 شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ائمہ رسول اکرمﷺ کے مرتبہ کے برابر ہیں محمد بن مسلم کہتا ہے میں نے ابو عبد اللہؒ سے سنا وہ کہتے تھے:

الآئمة بمنزلة الرسولﷺ‎ الا انهم ليسوا بانبياء الخ۔

ائمہ رسول اکرمﷺ کے مرتبہ پر ہیں مگر وہ انبیاء نہیں اور جس طرح نبی اکرمﷺ کے لیے عورتیں حلال تھیں ان کے لیے اس طرح حلال نہیں اس کے علاؤہ ہر چیز میں رسول اکرمﷺ جیسا رتبہ رکھتے ہیں۔ (کتاب الکافی جلد 1 صفحہ 275)۔

حاصلِ گفتگو یہی ہے کہ وصیت کے بارے میں شیعہ کا عقیدہ ان کے مطابق اور ان کے معصوم اماموں کی زبانی اور ان کی اہم ترین معتبر کتابوں کے مطابق یہ ہے کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب نبی اکرمﷺ کے بعد وصی تھے اور انہیں یہ منصب ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ نے دیا تھا اور ولایت و امامت بھی ان کی تھی اور ان کے بعد ائمہ کے لیے امامت تھی۔

درج ذیل نکات میں وصیت و امامت کے بارے میں جو شیعوں اور یہودیوں کے درمیان مشابہت ہے اس کا ذکر کرتے ہیں:

  1. یہودیوں اور شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وصی کا ہونا لازمی ہے یہودیوں کا نظریہ ہے کہ بغیر وصی کے امت ایسے ہے جیسے بکریاں بغیر چرواہے کے ہوتی ہیں اور شیعہ کہتے ہیں: اگر دنیا بغیر امام کے ہو تو زمین میں دھنس جائے۔
  2.  یہودیوں اور شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصی الله تعالیٰ خود متعین کرتا ہے نبی کو بھی اس کے مقرر کرنے کا اختیار نہیں جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ یوشع کو وصی بنائیں یہی بات شیعہ روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو حکم دیا ہے کہ سیدنا علیؓ کو وصی بنائیں ساتوں آسمانوں کے اوپر حکم دیا تھا کہ سیدنا علیؓ کی ولایت کا اعلان کردیں۔
  3.  یہودیوں اور شیعوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ اللہ تعالیٰ وصی سے کلام کرتے ہیں اور اس کی طرف وحی کرتے ہیں یہودی بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوشع کو مخاطب کیا تھا اور شیعہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے سیدنا علیؓ سے کئی بار سر گوشی کی۔
  4.  یہودیوں اور شیعوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ وصی نبی کے مرتبہ پر ہوتا ہے۔