Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ائمہ اور علماء کے بارے میں یہودیوں اور شیعوں کا نظریہ

  الشیخ ممدوح الحربی

ائمہ اور علماء کے بارے میں یہودیوں اور شیعوں کا نظریہ:

یہودیوں کا اپنے علماء کے بارے میں غلو:

یہودیوں کا اپنے علماء کے بارے میں جو غلو ہے ان کی کتابوں سے صراحت کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں لکھا ہے:

اے بیٹو! علمائے یہود کی باتوں کی طرف توجہ دو اس سے بھی بڑھ کر ان پر توجہ دو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر توجہ دیتے ہو۔ (تلمود صفحہ 45)۔

ثابت ہوا ان کے نزدیک علمائے یہود کی بات تورات سے بھی افضل ہے حالانکہ تورات اللہ نے نازل کی ہے اور تلمود ان کی خود ساختہ کتاب ہے تلمود ہی میں دوسری جگہ ہے کہ علمائے یہود کے اقوال انبیاء کرام علیہم السلام کے اقوال سے افضل ہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام کے اقوال سے بھی زیادہ معتبر ہیں کیونکہ یہ اقوال اللہ زندہ رہنے والے کی مانند ہیں یہ کہتا ہے:

یہودی عالم اگر تمہارے بائیں ہاتھ کو دایاں اور دائیں ہاتھ کو بایاں کہیں تو اس کی تائید کرو اختلاف نہ کرو جب یہ صحیح بتائیں تو یہ تو بالاولٰی ماننا ہوگا اور یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے علماء کے اقوال بعینہ اللہ تعالیٰ کے اقوال ہیں انہیں بغیر کسی حیل و حجت کے ماننا واجب ہے اگرچہ غلط بھی ہوں ان سے تکرار ممنوع ہے۔

تلمود ہی میں ہے کہ جو ہمارے ان علماء کے اقوال سے تکرار کرتا ہے گویا کہ وہ الٰہی عزت کے خلاف تکرار کرتا ہے۔

بلکہ ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) ہمارے علماء سے مشورہ کرتا ہے اور تلمود ہی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی زمین پر مشکل پیدا ہوتی ہے جس کا آسمان پر حل نہیں ہوتا تو علمائے یہود سے مشورہ لیتا ہے نیز یہودیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ علمائے یہود معصوم عن الخطا ہیں۔

شیعوں کا عقیدہ اپنے اماموں کے بارے میں:

اثناء عشری شیعہ بھی اپنے اماموں کے بارے میں غلو میں انتہا کر دیتے ہیں انہیں انسان سے اعلیٰ صفات سے متصف کرتے ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ والی صفات ان میں بیان کرتے ہیں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے امام غیب دان ہیں زمین و آسمان کی کوئی چیز ان پر مخفی نہیں جو ہو چکا ہے وہ بھی اور جو قیامت تک ہونے والا ہے وہ بھی جانتے ہیں (العیاذ باللہ) اللہ اس کفر سے بچائے۔

مجلسی لکھتا ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے کہا:

والله لقد اعطينا علم الأولين والآخرين۔(بحار الانوار: 27/26)۔

و اللہ ہمیں پہلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا ہے۔

ایک آدمی نے سوال کیا حضرت میں قربان جاؤں آپ کے پاس علم غیب ہے؟ جواب دیا: افسوس ! تم یہ بات کرتے ہو، ہم مردوں کے نطفے اور عورتوں کے رحموں کا بھی علم رکھتے ہیں آنکھیں کھول کر دیکھ لو اور دل کے دریچے کھول کر یہ بات محفوظ کر لو کہ ہم اللہ کی مخلوق پر حجت ہیں عبداللہ بن بشر کے حوالہ سے مجلسی اور کلینی لکھتا ہے کہ ابو عبداللہ نے کہا:

انی لأعلم ما فی السموت وما فی الارض وأعلم ما فی الجنة واعلم ما فی النار واعلم ما كان وما يكون۔(الكافی : جلد 1 صفحہ 261 بحار الانوار 26/28)۔

میں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ جنت اور دوزخ میں ہے اور جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہونے والا ہے میں سب جانتا ہوں نعوذ باللہ۔

ائمہ کے بارے میں شیعوں کا یہ غلو بھی ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ معصوم ہیں اس بات پر تمام شیعوں کا اجماع ہے شیخ مفید شیعہ لکھتا ہے کہ ائمہ احکام کے نفاذ میں اور حدود قائم کرنے میں انبیاء کرام علیہم السلام کے قائم مقام ہیں شریعتوں کی حفاظت میں اور مخلوق کو ادب سکھانے میں یہ ائمہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مانند معصوم ہیں۔ (اوائل المقالات صفحہ 71)۔

ان کے دورِ حاضر کا عظیم امام آیت اللہ خمینی کا خیال ہے کہ ائمہ شیعہ اتنے زیادہ معصوم ہیں کہ مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی ان کے پائے کے نہیں وہ کہتا ہے:

ہمارے امام مقام محمود پر فائز ہیں ان کا درجہ بہت ہی بلند ہے ان کی خلافت پوری کائنات پر ہے کائنات کا ہر ذرہ اس کی زیرِ ولایت ہے مزید کہتا ہے کہ:

وان من ضروريات مذهبنا أن لأئمتنا مقاما لا يبلغه ملك مقرب ولا نبی مرسل۔ (حکومت اسلامی صفحہ 52)۔ 

یہ چیز ہمارے مذہب کا لازمہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ہمارے امام ایسے بلند مقام پر فائز ہیں کہ کوئی مقرب فرشتہ اور نہ ہی کوئی مرسل نبی ان تک پہنچ سکتا ہے۔

ائمہ اور علماء کے بارے میں شیعوں اور یہودیوں کے غلو میں ہمنوائی:

درج ذیل میں ہم نقطہ وار یہودیوں اور شیعوں نے جو ائمہ اور علماء کے بارے میں حد درجہ غلو کیا ہے اسے بیان کرتے ہیں:

1: یہودیوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ان کے علماء غیب جانتے ہیں اسی طرح شیعوں کا بھی یہ اعلان ہے کہ ان کے امام غیب جانتے ہیں اور زمین آسمان کی ہر چیز کا انہیں علم ہے اور باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ یہ بھی یہ جانتے ہیں اور یہ جنت اور دوزخ کا علم بھی رکھتے ہیں اور قیامت تک کے حالات سے بھی باخبر ہیں۔

2: یہ مطابقت ہے کہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا دین تین چیزوں سے کامل ہوتا ہے۔

  1. تورات کی تعلیم۔ 
  2. مثنی کی تعلیم سے۔ 
  3. غامارا کی تعلیم سے۔

ان تینوں پر یہودیوں کے مذہب کا دارو مدار ہے۔

اسی طرح شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام کی تکمیل نبی اکرمﷺ کی رسالت اور سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی تعلیمات اور سیدنا حسین بن علیؓ کی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں۔

3: یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے علماء انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں شیعہ کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے امام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔

4: یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے علماء معصوم عن الخطاء ہیں شیعوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ ان امام معصوم ہیں بھولتے ہیں نہ ہی غافل ہوتے ہیں اور نہ ہی خطا کرتے ہیں۔

5: یہودیوں میں یہ غلو پایا جاتا ہے ان کے علماء کے اقوال عین شریعت کی مانند ہیں اور تورات کی طرح ہیں شیعوں کا بھی عقیدہ ہے کہ ہمارے اماموں کی تعلیمات قرآن کی تعلیمات کی مانند ہیں انہیں جاری کرنا واجب ہے۔

 یہودی کہتے ہیں علماء سے تکرار کرنا عزتِ الٰہی سے تکرار کرنے کے مترادف ہے شیعہ بھی کہتے ہیں اماموں پر بات لوٹانے والا ایسے ہے جیسے اللہ پر بات لوٹانے والا ہے۔

6: ایک بات یہودیوں اور شیعوں میں اور بھی مشترک ہے یہودی اپنے علماء کے بارے میں اتنا زیادہ غلو رکھنے کے باوجود مشکل حالات کے وقت انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سخت ترین ضرورت ہے وہ یہودیوں سے کہہ رہے ہیں ارضِ مقدس میں داخلہ کے لیے وہاں کے لوگوں سے لڑو یہ پھر بھی جواب دے دیتے ہیں حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ وسلم کی محنت سے ہی انہیں مصر میں فرعون کی غلامی سے آزادی دلوائی گئی تھی مگر یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرمندہ کیا اور صاف کہہ دیا:

يٰمُوۡسٰٓى اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِيۡهَا‌ فَاذۡهَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قَاعِدُوۡنَ۝(سورۃ المائدة آیت 24)

اے موسیٰ بے شک ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں پس تو اور تیرا رب جاؤ ان سے لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔

اسی طرح شیعوں نے اپنے اماموں کو کئی مقامات پر اور مشکل ترین حالات میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا انہوں نے اپنے امام اول سیدنا علیؓ کو کئی بار چھوڑا اور ان کے ساتھ مل کر لڑنے سے پست ہمت ہوئے حالانکہ انہیں سخت ترین معرکہ پیش تھا ان کے بعد ان کے بیٹوں سے دستِ تعاون اٹھا لیا سیدنا حسینؓ کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا حالانکہ انہوں نے متعدد خطوط لکھے تھے کہ امام ہمارے پاس آئیں جب وہ آئے ان کے ساتھ اہلِ خانہ اور اعزہ و اقارب اور بیٹیاں اور ساتھی بھی تھے مگر شیعوں نے بے سہارا چھوڑ دیا اور ان کی نصرت و حمایت سے دستکش ہو گئے مدد تو در کنار رہی یہ ان کے دشمن کے ساتھ مل گئے کوئی خوف و ہراس سے کوئی طمع و لالچ سے حضرت امام سے پیچھے ہٹ گئے اور ان کی شہادت کا باعث بنے رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہلِ خانہ اور معصوم بچوں اور عزت مآب خواتین کی دردناک شہادت واقع ہوئی اللہ ان سب کو جنت میں جگہ دے۔ آمین۔

انہوں نے سیدنا زید بن علی بن حسینؓ کو بھی بے یارو مددگار چھوڑ دیا حالانکہ شیعوں نے ان سے ان کی نصرت و حمایت کا معاہدہ بھی کیا گیا جب معاملہ گھمبیر ہوگیا اور لڑائی جو بن پر تھی تو شیعوں نے ان کی امامت سے انکار کر دیا وجہ یہ بتائی کہ یہ سیدنا علیؓ کے علاوہ تینوں خلفاء (سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ) کو اچھا کہتے ہیں ان سے بیزار نہیں ہوتے۔

یہ بہانہ بنا کر انہوں نے سیدنا زیدؓ کو دشمنوں کے حوالے کر دیا حتٰی کہ وہ شہید ہو گئے۔رحمۃ اللہ۔