اسلحہ کے میدان میں شیعی اور اسرائیلی تعاون کا ثبوت
الشیخ ممدوح الحربیاسلحہ کے میدان میں شیعی اور اسرائیلی تعاون کا ثبوت
حکومتِ ایران کے لئے اسلحہ فراہم کرنے کے لئے اسرائیلی تعاون پر دلائل موجود ہیں حالانکہ عراق اور ایران کے درمیان جنگ بند ہو چکی ہے اس کے باوجود اسرائیل کا اسلحہ سپلائی کرنے کا کام ہوتا رہتا ہے یہ اسرائیل ایران کو اسلحہ دیتا رہتا ہے اسکی تفصیل یہ ہے کہ رومانیہ حکومت اسلحہ کی تجارت کرتی ہے جس کی قیمت کروڑوں اور اربوں ڈالر ہے 1980ء سے لے کر آج تک کی طویل مدت کا راز اس تجارت نے آشکارا کیا ہے کہ حکومتِ ایران کو اسلحہ سپلائی ہو رہا ہے اس کا ذریعہ وہ دلال اور اسرائیلی اسلحہ کے تاجر ہیں جو پوری دنیا سے رابطہ میں ہیں اور وہ ایران کو اسلحہ کی فراہم کرنے کے لئے حرکت میں رہتے ہیں اسرائیل اس مرحلہ سے گزر چکا ہے اس نے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی خمینی کے سامنے پیشکش کی تھی کہ وہ خفیہ طور پر عالمی منڈی سے اسے اسلحہ پہنچائے گا اسرائیل کی جنگ کے دورانِ مجمل طور پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی اسلحہ کی قسطیں حکومت ایران تک پہنچ چکی ہیں یہ خبر فرانس کے اخبار (نوپران) نے اور اخبار "اسٹراٹیجک" نے جو لبنان کا ماہنامہ ہے نے بھی ذکر کی تھی اسرائیل سے ایران کو اسلحہ کی یہ کھیپ ملنا اور اس کی فوجی طاقت مضبوط کرنا اس چیز کے عوض ہے جو حکومتِ اسرائیل نے ایران میں اپنا اقتصادی تسلط جمایا ہے مطلب یہ ہے کہ ایران کے یہودیوں نے جو اقتصادی معاملات پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے ان کے ذریعے یا یہودی کمپنیوں کے ذریعے جو کہ شاہِ ایران کے دور سے کام کر رہی ہیں پھر انہوں نے وقتی طور پر اپنا کام روک لیا تھا اس کے بعد خمینی کے حکم سے پھر پوری تندہی سے کاروبار شروع کر دیا تھا ان کے ذریعے یہ اسلحہ ایران منتقل ہوتا ہے یہ اسرائیل کا تسلط جو ایران کی اقتصادیات پر بڑا مضبوط جما ہوا ہے یہ خمینی کے حکم سے ہی ہوا ہے ایک کمپنی آرگو ہے اس نے اپنا کاروبار موقوف کیا ہوا تھا یہ بہت بڑی اسرائیلی کمپنی ہے۔ خمینی نے باقاعدہ اسے جاری کیا اور اس سے شراکت کی اسی طرح کوکا کولا کمپنی ہے یہ بھی اسرائیلی ہے حالانکہ یہ ایران میں ہے اس سے بھی خمینی نے شراکت کر رکھی تھی۔
عجیب و غریب اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ یہ ایرانی منڈی اور اس کی پیداوار کا بیڑا غرق کر دے مگر اسے ایران میں واپس بلا لیا گیا ہے پیرس کے مراکز سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ وہ اسلحہ کے تاجر حکومت و ایران کے لیے اسلحہ جمع کرنے کام کر رہے ہیں ان کے اور اسرائیلیوں کے درمیان ایک ہی مرکز ہے جس پر یہ اکٹھے ہوتے ہیں پہلے یہ شاہِ ایران کا تھا اب یہ موجود ایرانی حکومت کے ہاتھ میں لوٹ آیا ہے یہ مرکز "بحیرہ چینیف" کے راستے پر جو کہ فرانس کے قریب "سان پول" کی بستی کے قریب ہے اس کی مسافت 28 ہزار مربع میٹر ہے یہاں اس اسلحہ کو جمع کرتے ہیں جسے اسرائیلی خریدتے ہیں اور پھر وہ اس اسلحہ کو یورپ کے راستہ سے ایران بھیجنے کے لیے اسے لوڈ کرتے ہیں وہاں سے پھر تاجروں کے ذریعے یا پھر خود اسرائیلیوں کے ذریعے ان مراکز میں پہنچایا جاتا ہے یہیں ایرانیوں کی جنگی مشقوں کا مرکز ہے اور فوجی ساز و سامان بھی یہاں ہی ہے اور یہی ان فوجی ساز و سامان کی اور اسلحہ کی تجارتوں کی قیمتیں اسرائیل کے حوالے کی جاتی ہیں الصحف الكويتيه 30 ستمبر 1980۔
اسی 1980ء میں اکتوبر کے مہینہ کا واقعہ ہے متحدہ امریکہ کی حکومتیں بھی اسرائیل کے طیاروں کو اپنے ایئر پورٹ استعمال کرنے اجازت دیتی ہیں کہ اسرائیلی فوج سامان ایران ترسیل کر سکیں۔
اخبار لندن "آبزرور" ماہِ نومبر 1980ء لکھتا ہے اسرائیلی جہاز اور دیگر جنگی سامان بیڑوں پر لاد کر ایرانی بندرگاہوں کی طرف بھیج دیتے ہیں ان میں سے خصوصاً بندرِ عباس ایرانی بندرگاہ پر سامان آتا ہے اور یہی بیڑے سلطنت ہائے متحدہ امریکہ سے گزر کر حکومتِ ایران تک سامان پہنچانے کے لیے اسرائیل کی تحویل میں دینے کے لیے لاتے ہیں کانگرس کے حوالہ سے مارچ 1981ء میں اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ اسرائیل اسلحہ اور دیگر سامانِ جنگ حکومتِ ایران میں منتقل کر رہا ہے جب امریکہ کی وزارت خارجہ سے اس بارے میں سوال ہوا تو اس نے بھی اس کی تردید نہیں کی بلکہ اس کے امریکی صدر کارٹر اور اس کے سٹاف نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ امریکہ سے اسرائیل نے رخصت مانگی ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ اسلحہ کی خرید و فروخت کرنی ہے اس کی اجازت دی جائے اور اس نے جنگی طیارے بھی اس کے ہاں فروخت کرنے ہیں اور دیگر فوجی سامان ایران کے ہاں فروخت کرنا ہے اور اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ فرانس کا ایئرپورٹ بھی اس میں استعمال ہوتا ہے اور فرانس اسلحہ کا ڈیلر بھی طیاروں کو ایندھن دینے میں مدد کرتا رہا جو اسرائیل کی ایران کے ساتھ اسلحہ کی خرید و فروخت میں شریک تھا اس کے بعد ایران کو اسرائیل کی طرف سے قبرص کے جزیرہ سے اسلحہ بھیجا گیا جس میں طیارے توپیں اور دیگر جنگی سامان تھا جس کا وزن 360 ٹن تھا اس کے بعد اسرائیل نے ایران کے ہاں 136 ملین ڈالر یعنی اربوں روپوں کا اسلحہ فروخت کیا۔
ایک اسرائیلی تاجر یعقوب نمرودی جو کہ اسرائیلی فوج کا منتظم بھی ہے اس کے ذریعہ یہ سودا طے پایا تھا ان تمام سودوں کا علم روس کے طیارے کے گرنے کے بعد ہوا یہ گرا تو پتہ چلا یہ قبرص کے راستہ سے اسرائیلی اسلحہ ایران منتقل کرتا تھا یہ خبر اخبار "الصائدی ٹائمنر" لندن نے نشر کی اور ایران کو اسرائیل کے اسلحہ فروخت کرنے کا یہ معاملہ 1986ء تک جاری رہا تھا۔
ماہِ جنوری 1983ء میں ایران نے لاکھوں کی تعداد میں گولے ہزار سے زائد وائرلیس سیٹ اسرائیل سے خریدے تھے یہ اطلاع پوسٹن اخبار نے دی تھی اسی طرح ماہِ جولائی 1983ء میں ایک تجارت کی خبر منظر عام پر آئی جو 136 ملین ڈالر کی تھی یہ اسلحہ آہستہ آہستہ لوڈ کیا گیا تھا یہ سارے کا سارا امریکی فیکٹریوں میں تیار شدہ تھا اور اسے سوائے اسرائیل کے دوسروں کو سپلائی کرنے پر پابندی تھی یہ پہلے اسرائیل نے حاصل کیا آگے ایران بھیج دیا اور مزید اسرائیل نے اپنی طرف سے طیارہ شکن میزائل اور جنگی جہازوں کا اضافہ کر کے ایران کو دیئے ہیں یہ خبر "الیپورن سیون" نے شائع کی ہے جو کہ فرانس کا دائیں بازو کا اخبار ہے اس کی تائید و اسرائیلی اخبارات "یڈھوٹ احرونوٹ" اور "ہاآرٹس" نے بھی کی ہے جنوری 1983ء میں ایک سالانہ اخبار شائع ہوا ہے اس میں امورِ خارجہ اور دفاع سے متعلقہ معلومات بیان ہوئی ہیں اس میں لکھا ہے کہ وہ میزائل جنہیں فروخت کرنا ممنوع ہے وہ اسرائیل نے ایران کو سپلائی کیے ہیں اور F۔14 آٹو میٹک طیارے ایران میں کم تھے اسرائیل نے پورے انتظامات کے ساتھ خفیہ طیاروں کے ذریعے ایران بھیجے ہیں۔
اخبار "اشٹیرم" نے جو کہ المانیہ سے شائع ہوتا ہے مارچ 1984ء میں اس تجارت کی تفصیلات بیان کی تھیں کہ یہ اسلحہ اسرائیلی فضائی طیاروں کے اوپر رکھا گیا اور "سوریہ" کے راستہ سے اسے ایران پہنچایا گیا۔ وہ معاہدہ جو اسرائیلی فوج اور ایرانی فوج کے درمیان طے پایا تھا ان کے انکشاف سے یہ پتہ چلا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان خفیہ تعاون ہے 1977 میں ایرانی وزیرِ دفاع جس طوفانیاں اور اسرائیل کے صباروخ کے درمیان میں معاہدہ طے ہوا تھا اسرائیل کے وزیر خارجہ یہودی ڈیفید لیفی نے واضح کہا تھا جسے " ہاآرٹس" اخبار نے نقل کیا ہے جو کہ یہودی اخبار ہے 1۔6۔1977 میں یہ وزیر کہتا ہے اسرائیل نے ایک دن بھی یہ بات نہیں کہی کہ ایران اس کا دشمن ہے یہودی صحافی اروی شمحونی کہتا ہے:
ایران ایک ایسی سلطنت ہے اس میں ہمارے بہت زیادہ مفادات ہیں اور یہ حادثات کے وقت بہت زیادہ مؤثر ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ایران کو دھمکیاں ہماری طرف سے نہیں آتیں بلکہ اس کے پڑوسی عرب ممالک اسے دھمکی دیتے ہیں اسرائیل ایران کا قطعاً دشمن نہیں اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ (معاریف 23۔9۔1997)۔
حکومتِ اسرائیل نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے جو اسرائیل اور ایران کے درمیان ہر قسم کا فوجی اور تجارتی اور زرعی تعاون بند کرنے کے متعلق ہے یہ پابندی ایک راز کے کھل جانے کی وجہ سے لگائی گئی تھی ایک آدمی جو یہودی نمائندہ تھا کیمیائی سامان ایران بھیجتا تھا یہ اسرائیل کے لیے بڑی رسوائی کا معاملہ تھا اس کے خارجی تعلقات اس سے متأثر ہوئے تھے تل ابیب کی عدالت نے بتایا کہ اس یہودی نمائندہ نے 50 ٹن سے زیادہ کیمیائی مواد ایران بھیجا تھا ایک یہودی وکیل نے جس کا نام امنون زخرونی ہے نے پہلی خلیجی جنگ میں بہت سارا اسلحہ ایران منتقل کیا تھا (اخبار شرق اوسط شمارہ 7359)۔
ایک بہت بڑی کمپنی جو موشیہ ریجیف کے تحت چلتی ہے یہ اسرائیلی فوجی قیادت کو اسلحہ کی ترسیل کا کام کرتا تھا اسکی کمپنی نے 1992 اور 1994ء میں اسلحہ کے پرزے اور فنی معلومات ایران تک پہنچانے کی ذمہ داری لی تھی اس تعاون کا انکشاف "موشے" جو کہ اس کمپنی کا بڑا ہے اور بیالوجی اور اسلحہ کے ایرانی وزیرِ دفاع ڈاکٹر ماجد عباس کے درمیان طے پانے والے معاہدوں سے ہوا ہے جس کی اطلاع "هاآرٹس" یہودی اخبار نے شائع کی اور اخبار "شرق اوسط" نے بھی اپنے (7170) شمارے میں بیان کی تھیں۔
اسی طرح اخبار "الحیاة " شمارہ (13070) میں ذکر کرتا ہے کہ موساد جو کہ اسرائیلی تنظیم ہے یہ کیمیائی مواد ایران کو سپلائی کرتی ہے اور ایک یہودی صحافی "یوسی مان" کہتا ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ ایران نے اسرائیل سے بہت زیادہ اسلحہ لیا ہے اسرائیل اس کے آلاتِ جنگ پر حملہ نہیں کر سکتا حالانکہ ایران اس کے باوجود زبانی طور پر اسرائیل کو اپنا دشمن باور کراتا ہے یہ بات اخبار "الانباء" شمارة (7931) میں کہتا ہے اسی طرح وکیل "رویڑے" نے (1۔7۔1986) میں کہا تھا: جنوبی لبنان میں جب یہودی اور صیہونی طاقتیں اس کے زشہر "النبطیہ" میں داخل ہوئیں تو ان کا مقصد شیعی مقامات اور اسلحہ کی حفاظت کرنا تھا۔
شیعی لیڈر حیدر دایخ خود اعتراف کرتا ہے:
ہم تو اسرائیل سے بس سلام دعا تک ہی تعلق میں رہنا چاہتے تھے لیکن اسرائیل نے ہمارے لیے اپنے دونوں بازو کھول دیئے اور اس نے ہم سے بھر پور تعاون کرنا چاہا اور جنوبی لبنان سے فلسطینی خود دور کرنے میں اسرائیل نے ہماری بھر پور مدد کی ہے۔
اس صحافی رویٹر کی ملاقات اس شیعی لیڈر حیدر سے (1983۔10۔24) میں ہوئی تھی ہفتہ وار اخبار العربی)۔
ایک اسرائیلی وزیر زراعت نے کہا تھا لبنانی شیعوں اور اسرائیل کے درمیان علاقہ میں امن قائم رکھنے کے لیے شیعوں اور اسرائیل کے تعلقات غیر مشروط ہیں اسی لیے فلسطینی لوگ جو تحریک جہاد اور حماس کے حمایتی ہیں ان کا اثر و رسوخ توڑنے کے لیے اسرائیل شیعہ عناصر کی مکمل رُو رعایت کرتا ہے اور ان شیعوں سے اس نے مفاہمت کر رکھی ہے۔ (یہودی اخبار معاریف 1997۔9۔8)۔