Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر اکھاڑنے کی کوشش

  الشیخ ممدوح الحربی

سیدنا ابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمر فاروقؓ کی قبر اکھاڑنے کی کوشش

حلب کے شیعوں کی ایک جماعت مدینہ آئی اور اس وقت کے امیرِ مدینہ کو بے شمار مال کی پیشکش کی کہ وہ ان کے لیے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جسموں تک رسائی ممکن بنائے، تاکہ انہیں قبروں سے نکال کر لے جائیں اور انہیں جلا دیں۔ امیر نے اس بات کو قبول کر لیا وجہ یہ ہے کہ اس وقت علاقہ حجاز میں شیعوں کا اثر و نفوذ تھا۔

امیر مدینہ مسجد نبویﷺ کے خدام کے بڑے کے پاس گیا اس کا نام شمس الدین صواب تھا یہ ایک نیک آدمی اور مال خرچ کرنے والا اچھا آدمی تھا، امیر نے ان سے کہا اے صواب! رات مسجدِ نبویﷺ کا دروازہ کچھ لوگ کھٹکھٹائیں گے اسے کھول دینا اور جو یہ چاہتے ہیں انہیں کرنے دینا شمس الدین صواب ان کے ارادۂ بد کو جان چکا تھا سخت غمگین ہوا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا قریب تھا کہ اس کی عقل ماری جاتی نمازِ عشاء کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہو کر چلے گئے، تو مسجدِ نبویﷺ کے دروازے بند ہو گئے تو اچانک باب السلام پر دستک ہوئی اس وقت اس کا نام باب مروان تھا، اس دربان شمس الدین صواب نے دروازہ کھولا تو چالیس آدمی اندر آئے، انہوں نے کدال اور کسیاں اٹھا رکھی تھیں اور دیواریں گرانے والے اور زمین کھودنے والے ہتھیار بھی تھے یہ حجرۂ نبویﷺ کی طرف گئے ممبر تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین کھل گئی اور اس نے انہیں نگل لیا اور ساتھ ہی سامان کو نگل لیا یہ سب کچھ مسجدِ نبویﷺ کے خدام شیخ شمس الدین صواب کے روبرو ہوا تھا یہ تو خوشی سے اڑنے لگے اور ہر قسم کا غم اور پریشانی دور ہوئی۔

جب کچھ دیر گزری تو امیر نے شیخ سے ان کے متعلق پوچھا تو شیخ نے کہا آؤ! میں تمہیں دکھلاتا ہوں، انہوں نے امیر کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر لے گیا٬ اس نے دیکھا کہ زمین میں گڑھا پڑا ہوا ہے یہ سب اس میں دھنس چکے ہیں یہ نیچے اترتے جا رہے ہیں آہستہ آہستہ زمین انہیں اپنے اندر دھنسا رہی ہے اور وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں فریاد رسی کی التجاء کر رہے ہیں۔ 

یہ منظر دیکھ کر امیر ڈر گیا اور واپس ہوا جاتے ہوئے شمس الدین کو دھمکی دی کہ اگر اس نے کسی کو بتایا اور اس واقعہ کی خبر دی تو میں تجھے قتل کر کے سولی پر لٹکا دوں گا تاہم وہ سب ظالم زیرِ زمین چلے گئے تھے۔(الدرالثمین)