Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

جب ابن علقمی کے ہاتھوں بغداد قتل گاہ بنا

  الشیخ ممدوح الحربی

جب ابنِ علقمی کے ہاتھوں بغداد قتل گاہ بنا

656ھ میں ابنِ علقمی جو کہ شیعہ تھا اور یہ وزیر تھا اس نے تاتاریوں کے ہلاکو خاں کو لکھا اور نہایت ہی خفیہ انداز میں تحریر کیا کہ اے ہلاکو خاں اگر تو یہاں حملہ آور ہوگا تو میں یہ سلطنت تیرے حوالے کر دوں گا۔ ہلاکو خاں نے جواب میں لکھا بغداد میں فوج بہت زیادہ تعداد میں ہے اگر تو سچا ہے اور ہمارا وفادار ہے تو پھر بغداد کے لشکر میں تفریق ڈال دے میں بغداد

 آ جاؤں گا۔ اب اس نے کارروائی شروع کر دی اس شیعہ وزیر نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو مشورہ دیا کہ وہ فوج کا حصہ جو خلافت بغداد کی سرحدوں پر بٹھا رکھا ہے اسے بانٹ دو اس طرح حکومت کے میزانیہ میں مالی بوجھ کم ہو جائے گا خلیفہ نے اس رائے سے اتفاق کیا اس کے فوراً بعد اس شیعہ وزیر نے 15 ہزار فوجی بغداد سے دور کر دیے اور ایک ماہ بعد 20 ہزار اور نکال دیے۔ یہ خبیث وزیر اسی حساب سے بغداد کو فوج سے خالی کرتا رہا حتیٰ کہ بغداد میں صرف 10 ہزار فوجی رہ گئے اور اس نے خباثت یہ کی کہ جو فوجی سنی تھے انہیں باہر نکال رہا تھا جبکہ مستعصم سے پیشرو خلیفہ مستنصر کے زمانے میں اہلِ سنت میں سے ایک لاکھ فوجی بغداد میں تھے اب اہلِ سنت فوجیوں کو اس خبیث نے چن چن کر نکال دیا اور جو باقی تھے وہ شیعہ سنی مل کر صرف 10 ہزار تھے۔

جب دارالخلافہ بغداد میں فوجیوں کی تعداد کم ہوئی تو اس ابنِ علقمی نے ہلاکو خاں کو دعوت دی۔ جب ہلاکو خاں بغداد کی مشرقی جانب سے خشکی کے راستے بغداد کے قریب آیا تو اس شیعہ وزیر ابنِ علقمی نے عباسی خلیفہ کو مشورہ دیا کہ اس ہلاکو خاں کے ساتھ صلح کر لی جائے اور اس کے ساتھ شیعہ بھی تھے اب واپس آتا ہے اور خلیفہ عباسی سے کہتا ہے اے امیر المؤمنین سلطان ہلاکو خاں اپنی بیٹی کا نکاح تمہارے بیٹے امیر ابوبکر سے کرنا چاہتا ہے اور منصب خلافت پر تمہیں ہی بٹھانا چاہتا ہے عباسی خلیفہ اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے۔ اس کے 700 سوار تھے قاضی اور فقہاء تھے اور افسران بالا تھے اور حکومت کے سر بر آوردہ لوگ اور اسلامی دارالخلافہ بغداد کے سنی تھے۔ جب یہ سفاک ہلاکو خاں کے قریب پہنچے تو ان سب کو اس نے پکڑ لیا، صرف 17 افراد ان کے قابو میں نہ آئے۔ جب عباسی خلیفہ ہلاکو خاں کے پاس پہنچا تو اس نے خونی کھیل کھیلا کہ سب کو لوٹا اور سب اول و آخر قتل کر دیے۔ اس کے بعد خلیفہ کے بیٹوں کو حاضر کیا اور سرِ عام ان کی گردنیں کاٹ دیں۔ اب خلیفہ عباس کو ہلاکو خاں نے رات کو طلب کیا اور اسے بھی قتل کرنے کا حکم دیا، لیکن ہلاکو خاں کے خاص افراد نے کہا اگر اس کا خون بہایا گیا تو دنیا تاریک ہو جائے گی کیونکہ یہ رسول اکرمﷺ کے چچا کی اولاد سے ہے یہ سن کر ہلاکو خاں ڈر گیا، مگر ایک خبیث شیعہ نصیر الدین طوسی نے کہا اس کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے خون بھی نہ بہے گا انہوں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے کہا اسے چادر میں لپیٹ دو اور اس کا منہ اور سانس بند کر دو حتیٰ کہ یہ مر جائے گا اور خون بھی نہ بہے گا۔انہوں نے یہی کیا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دیا تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ خلیفہ عباس کو پانی میں غرق کر دیا تھا۔

اس کے بعد دارالخلافہ بغداد میں تاتاریوں نے خلافت اسلامی کی بنیاد ہلا کر رکھ دی۔ان دو خبیث رافضیوں( شیعوں)نصیر الدین طوسی اور ابنِ علقمی نے خلافت کا نام و نشان مٹا دیا کیونکہ تاتاری ان دونوں خبیث انسانوں طوسی اور علقمی کے تعاون سے بغداد میں داخل ہوئے تھے سونا چاندی جواہرات زیورات اور دیگر تمام قیمتی اشیاء انہوں نے سب لوٹ لیں۔ پھر اس کے بعد بغداد کے سنی لوگوں کو چن چن کر قتل کیا مرد ہوں یا خواتین ہوں مشائخ ہوں یا بوڑھے ہوں یا نوجوان ان کے دستِ ستم کش سے کوئی بھی نہ بچا۔ بہت سارے مسلمان کنوؤں میں یا قضائے حاجت کی جگہوں میں یا گندی جگہوں میں گھس گئے اور لوگ کسی گھر میں جمع ہو جاتے اور دروازے بند کر لیتے تھے تو تاتاری آتے ابنِ علقمی خبیث کی سرکردگی میں تاتاری یا تو دروازے کھول لیتے یا توڑ دیتے یا آگ سے جلا دیتے اور ان مسلمانوں کو قتل کر دیتے اتنی زیادہ خونریزی تھی کہ پرنالوں سے خون پانی کی طرح بہنے لگا اور مقتولوں کی تعداد تقریبا 28 لاکھ ہے اور یہ سب اہلِ سنت مسلمان تھے اس خبیث شیعہ نصیر الدین طوسی اور وزیر شیعہ ابنِ علقمی کے ہاتھوں ان معصوم سنیوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔

خمینی ان دونوں خبیث النفس آدمیوں کے بارے میں کہتا ہے:

آج اس چیز کی بہت کمی محسوس ہو رہی ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی جیسے لوگ نہیں جنہوں نے اسلام کی خاطر بے شمار خدمات سر انجام دی ہیں۔(الحکومت الاسلامیہ 128)

دیکھیں جو دنیا کی بدترین سفاکی کا باعث ہیں یہ اللہ کا دشمن خمینی انہیں خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔