شیعہ کی نماز جنازہ پڑھنے اور ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم جو شیعہ کی نماز جنازہ پڑھائے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید جو کہ اپنے آپ کو سنی اور سنی مدرسہ کا فارغ التحصیل بتاتا ہے، اور وہ ایک مسجد میں امامت و خطابت بھی کرتا ہے۔ دو جنازے بیک وقت لائے گئے، جن میں ایک سنی کا تھا اور ایک شیعہ کا زید نے دونوں جنازے آمنے سامنے رکھوا کر نمازِ جنازہ پڑھائی اور دعائے مغفرت کی۔ نماز کے بعد کچھ لوگوں نے امام مذکور سے پوچھا کہ تم نے شیعہ کی نمازِ جنازہ کیوں پڑھائی؟ تو امام نے کہا کہ میں نے سنی کی نمازِ جنازہ پڑھائی شیعہ کیلئے نیت ہی نہیں کی۔ حالانکہ سینکڑوں افراد اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ امام نے نمازِ جنازہ پڑھانے سے پہلے یہ وضاحت نہیں کی کہ میں صرف سنی کی نمازِ جنازہ پڑھا رہا ہوں۔ لہٰذا لوگ بھی صرف اسی کی نیت کریں، اور نہ ہی شیعہ کا جنازہ الگ رکھا ہے بلکہ دونوں جنازے ایک ساتھ رکھے۔ اس سلسلہ میں آپ سے حکم شرع دریافت کرنا ہے کہ:
- کیا ایسا امام، امامت کے قابل ہے یا اسے معزول کر دیا جائے؟
- ان مقتدیوں اور مسجد کے منتظمین کیلئے کیا حکم ہے؟ جو شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود بھی ایسے امام کو امامت سے معزول نہ کریں بلکہ بدستور اس کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہیں؟
- کیا ایسے افراد اس قابل ہیں کہ انہیں مسلک اہلِ سنت کی مساجد میں منتظم بنایا جائے؟
- ان تمام مقتدیوں کیلئے کیا حکم ہے کہ جنہوں نے شیعہ کی نمازِ جنازہ امام مذکور کے پیچھے پڑھی؟
جواب: آج کل شیعہ عام طور پر تبرائی اور سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ کی خلافت کے منکر اور ان حضرات کو سبّ و شتم (گالی گلوچ) کرتے ہیں۔ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتے ہیں۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کی خلافت پر اجماع قطعی ہے اور اس کا یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے۔
صاحب نور الانوار علامہ مولانا مولوی حافظ شیخ احمد المعروف ملاجیون نے اصول فقہ کی مشہور ترین کتاب نور الانوار میں لکھا ہے:
فالاقرى اجماع الصحابة نصا مثل ان يقولوا جميعا اجمعنا على كذا فانه مثل الآية والخبر المتواتر حق يكفر جاحده ومنه الاجماع على خلافة أبي بكر:
پس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع قوی ترین ہے، مثال کے طور پر ان کا کہنا کہ ہم نے اس پر اجماع کیا پس بیشک یہ اجماع آیت قرآنی اور حدیث متواتر کی مثل ہے۔ یعنی افادہ یقین میں یہاں تک کہ اجماع صحابہؓ کے منکر کو کافر کہا جائے گا اور خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر ایسا ہی اجماع ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے: من انكر امامة ابي بكر الصديقؓ فهو كافر یعنی جس نے سیدنا صدیق اکبرؓ کی امامت کا انکار کیا وہ کافر ہے۔
علامہ شہاب الدین بزازؒ نے فتاویٰ بزازیہ میں لکھا: من انکر خلافة أبي بكر فهو كافر في الصحيح یعنی جس نے سیدنا صدیق اکبرؓ کی خلافت کا انکار کیا وہ کافر ہے، صحیح مذہب میں۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی براءت میں قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ نازل ہوئیں، اب ان پر تہمت لگانے والا قرآن کریم کا منکر ہے اور قرآن کریم کا انکار کفر ہے۔
اور یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی ممانعت قرآن کریم میں آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ اِنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَمَاتُوۡا وَهُمۡ فٰسِقُوۡنَ (سورۃ التوبہ: آیت، 84)
ترجمہ: اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک الله تعالیٰ اور رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مرگئے۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ (سورۃ النساء: آیت، 116)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے۔
اسی بنا پر علامہ امام قرافی اور ان کے متبعین کا مسلک یہ ہے: الدعاء بالمغفرة للكافر لطلب تكذيب الله تعالىٰ فيما اخبر به یعنی کافر کے لئے دعائے مغفرت کرنا کفر ہے، بسبب اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تکذیب کی وجہ سے۔
اس قول کو علامہ طحطاویؒ نے بھی نقل کیا اور لکھا و الدعاء بالمغفرة للكافر لا يجوز (من ادعى القرافی) انه کفر: اور کافر کیلئے مغفرت کی دعا مانگنا جائز نہیں، بیشک یہ کفر ہے، جیسا کہ امام قرافی کا قول ہے۔
اس پر اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ اگر کفار کی مغفرت اور ان کا دوزخ سے نجات پانا شرعاً جائز مانتا ہے تو بیشک منکر نصوص قطعیہ ہے، ورنہ حرام۔
جس امام نے جان بوجھ کر شیعہ کی نماز پڑھائی وہ کم از کم سخت کبیرہ کا مرتکب ہوا اور اگر مغفرت کا قابل جان کر نماز پڑھائی تو اس پر حکم کفر ہوگا۔
لہٰذا اس پر توبہ کرنا فرض ہے اور باعلان توبہ کرے اور اگر شادی شدہ ہے تو احتیاطاً تجدید نکاح بھی کرے اور تجدید ایمان بھی۔ جب تک باعلان توبہ نہ کرے اس کی امامت ناجائز اور اس کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی جائے گی اُن کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ قرآن کریم کا حکم یہ ہے:
وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ:(سورۃ المائدہ: آیت، 2)
ترجمہ: یعنی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔
لہٰذا کمیٹی کے ممبران اور دیگر مقتدی حضرات کی جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ شیعہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی جارہی ہے، اور انہوں نے پڑھی، ان سب کیلئے وہی حکم ہے جو امام کیلئے اوپر لکھ دیا گیا ہے۔ پھر جان بوجھ کر امام کی طرف داری کرنا، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا اور سب مقتدیوں کی نمازیں ضائع کرنا سخت گناہ ہے اور قرآن کریم کی مذکورہ و بالا نصوص کے خلاف ہے۔
لہٰذا ان لوگوں کو بالاعلان فوراً توبہ کرنا چاہئے، اور اگر امام اور یہ لوگ توبہ کرنے سے گریز کریں تو اہل محلہ کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان لوگوں کا بائیکاٹ کریں۔ شیعہ کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اس امام کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھیں اُن کا اعادہ کریں، آئندہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے احتراز کریں۔
(وقار الفتاویٰ: جلد، 2 صفحہ، 350)