Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دائمی فتویٰ کمیٹی کی طرف سے ایک فتویٰ کا اجراء

  الشیخ ممدوح الحربی

دائمی فتویٰ کمیٹی کی طرف سے ایک فتویٰ کا اجراء

یہ وہ کمیٹی ہے جو علامہ محدث اور بقیہ السلف افراد پر مشتمل ہے۔ اس کمیٹی کے ارکان علامہ عبدالعزیز بن بازؒ علامہ عبدالرزاق عفیفیؒ علامہ عبداللہ بن غدیانؒ علامہ عبداللہ بن قعودؒ ہیں، جو سب جنت کو سدھار چکے ہیں۔ ان سے سوال ہوا جعفریہ کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟

تو کمیٹی نے جواب دیا: بصورتِ صحت سوال کہ یہ جعفریہ والے سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور سادات کو پکارتے ہیں، اگر یہی صورت ہے تو یہ مشرک اور مرتد ہیں، ان کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں یہ مردار ہے، اگرچہ اللہ کا نام لے کر بھی ذبح کیا ہو۔ یہی کمیٹی ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے ایسا کرنے والے یعنی ان بزرگوں کو پکارنے والے ملتِ اسلام سے خارج ہیں۔ مسلمان اپنی خواتین کا ان سے نکاح نہ کرے اور نہ ہی مسلمان ان کی عورتوں سے نکاح کریں، اور نہ ہی ہمارے لیے ان کا ذبیحہ کھانا حلال ہے۔ یہی کمیٹی کہتی ہے جو یہ کہتا ہے کہ قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے، جیسا کہ شیعہ کا عقیدہ ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ قرآن غیر محفوظ ہے، یا اس میں نقص ہے تو یہ گمراہ ہیں۔ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر توبہ کر لیتا ہے تو درست ہے، وگرنہ حاکمِ وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے یہ مرتد ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ)

1408ھ ماہِ ربیع الاوّل میں رابطہ عالِم اسلامی کی میٹنگ نے یہ فیصلہ جاری کیا اس کانفرنس میں شریک تمام افراد نے متفقہ فیصلہ دیا کہ خمینی گمراہی کا داعی ہے اس نے مسلمانوں کو مصائب اور فتنوں سے دو چار کیا ہے، مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔ اس کا منہج اور طریقہ اسلامی تعلیمات سے باہر ہے۔ اس کا معاملہ امتِ مسلمہ کے لیے خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے ہم اسلامی ممالک کے حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سے ہر میدان میں قطع تعلق رکھیں اور اس کی اسلامی میدان کے خلاف جو سرگرمیاں ہیں اُنہیں روکا جائے۔

1) علامہ عبدالعزیز بن بازؒ کا فتویٰ:

بقیہ السلف، محدثِ اعظم، امام مفتی اعظم سعودی عرب اثناء عشری شیعوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

میں ایک مفید بات بتاتا ہوں کہ شیعوں کے بہت زیادہ فرقے ہیں اور ہر فرقے کے پاس کئی اقسام کی بدعات ہے، ان میں سے خطرناک ترین فرقہ خمینی ہے۔ ان کی زیادہ تر دعوت شرک کی دعوت ہے۔ یہ اہلِ بیتؓ سے مدد طلب کرتے ہیں، اور ان کا عقیدہ ہے کہ اہلِ بیتؓ غیب دان ہیں، خصوصاً بارہ امام غیب دان ہونے کے دعویدار ہیں۔ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے باطل نظریات سے سلامت رکھے۔(مجموع فتاویٰ: جلد 4 صفحہ 439)

برادرانِ اسلام علامہ ابنِ بازؒ کی بات پر کان دھریں۔ یہ گمراہ فرقوں اور ادیانِ باطلہ سے خبردار کر رہے ہیں، ان میں سے ایک شیعہ امامیہ کو بھی گمراہ فرقہ قرار دیا ہے، اور مذاہبِ باطلہ کا انکشاف کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ اپنے دین میں فقاہت رکھنے والے اور اس میں غور و فکر کرنے والے کے سامنے ہر باطل اور فاجر واضح ہو جاتا ہے۔ یہ دین کی برکت ہے یہ فکر خواہ دین سے کلی طور پر باہر کی ہو۔ قومیت کی ہو۔ اس بارے میں یہ دین والا باطل کو پالتا ہے۔ یہ باطل قومیت میں ہو، یہودیت میں ہو، مہدیت میں ہو، شیعیت میں ہو، بوذیت میں ہو، نصرانیت میں ہو، کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ نے ان غلط مذاہب سے آگاہ کر دیا ہے کہ یہ سب چیزیں باطل ہے۔ حق صرف اور صرف قرآن و سنت میں ہے۔

2) امام البانیؒ فرماتے ہیں:

خمینی کے اقوال ظاہراً کفریہ ہیں اور صریح شرک ہے یہ قرآن پاک اور سنتِ مطہرہ اور اجماعِ امت سے ٹکراتے ہیں، جو ان کے مطابق عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے۔ اگرچہ نماز، روزہ، رکھتا ہو اور اسے گمان ہو کے میں مسلمان ہوں۔ (الشیعۃ فی میزان الاسلام)

برادرانِ گرامی قدر امام محدث البانیؒ کی بات پر غور فرمائیں جو نہایت ہی تاکید کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ سنت اور شیعوں کے درمیان جو اختلاف ہے یہ اصولی اختلاف ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ قرآن پاک میں تحریف ہوئی ہے، اور ان کا امام خمینی جو دعوت دیتا ہے وہ کفر کی دعوت دیتا ہے۔

البانیؒ فرماتے ہیں:

میں دمشق میں تھا میں نے شیعوں سے کہا تم صحیح بخاری پر اعتماد نہیں کرتے؟ تو ہم تمہاری کلینی کی کتاب پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔

آج یہ بات بہت ہی خطرہ سے بھرپور ہے عام تو عام رہے بہت سارے اسلام کے داعی بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شیعوں اور اہلِ سنت کے درمیان اصولی اختلاف نہیں۔ یہی وجہ ہے خمینی نے جب حکومت کا اعلان کیا تو بہت سارے نوجوان اس بیعت ہوئے اور اس کے دست و بازو بن گئے۔ ان کا خیال یہی تھا کہ مسلمانوں اور شیعوں کے درمیان فروعی اختلاف ہے دراصل یہ شیعوں کے اصولی اختلاف سے بے خبر ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور اصولی اختلاف کیا ہوگا کہ شیعہ ہمارے قرآن کو ہی اپنے قرآن کا چوتھا حصہ مانتے ہیں، اور خمینی نے اپنی کتاب الحکومت الاسلامیہ میں جو اپنا عقیدہ بیان کیا ہے وہ بھی کفریہ ہے۔

3) شیخ فاضل امام و مجتہد عبداللہ بن عبدالرحمٰن جبرینؒ فرماتے ہیں:

فالرافضةُ بلا شك کفارً۔  (اللؤلؤ المکنون)

رافضی شیعہ بغیر کسی شک و شبہ کے کافر ہے۔

اس بارے میں مزید تحقیق کے لیے کتاب قفاری اور الخطوط العریضہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: 

برادرانِ اسلام علامہ جبرینؒ حکومتِ سعودیہ کی علماء کمیٹی کے اہم رکن ہیں وہ شیعوں کے مشرک ہونے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ یہ شیعوں کے خلاف ایک حجت قائم ہوئی ہے اور ہمارے یہی علامہ جبرینؒ وہ صورتِ حال بھی بیان کرتے ہیں جو ایران میں ہمارے اہلِ سنت بھائیوں کو درپیش ہے وہ بہت مشقت اٹھا رہے ہیں، اور شیعوں نے انہیں ہر سہولت سے محروم رکھا ہے اور یہ شیعہ جب بھی اہلِ سنت پر قابو پاتے ہیں، ان کے ساتھ سخت بُرا سلوک کرتے ہیں اور اگر ان کے اس مشرکانہ نظریہ پر تنقید کی جائے کہ ان بزرگوں کو پکارنا شرک ہے تو یہ اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ تم وہابی ہو اور ہر آزمائش اور مصیبت میں غیر اللہ کو پکارنے پر اصرار کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کے اعمالِ بد کو دیکھتے ہوئے اصحابِ بسط و کشاد اور حکمرانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ روکیں انہیں اسلامی علاقوں میں بدعات نہ پھیلانے دیں اگر انہوں نے یہ کام کرنا ہے تو اپنے علاقوں ایران اور عراق تک ہی محدود رہیں جن علاقوں میں شریعت پر عمل ہو رہا ہے ان میں ہم عقیدہ شرک پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایران میں لاکھوں کی تعداد نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں سنی لوگ ہیں مگر انتہائی درجہ ذلت اور رسوائی کا شکار ہیں وہ اپنے اسلام اور عبادت کا اظہار نہیں کر سکتے ہر اہم عہدہ پر شیعہ ہے خطبہ مدرس بھی شیعہ ہے اور حکومتی عہدے پر صرف شیعوں کا قبضہ ہے اور سنی اتنی زیادہ کسمپرسی کی حالت میں ہے کہ دستی روزی کما کر گزارا کر رہے ہیں۔ ہر قسم کا عہدہ صرف شیعوں کے لیے ہے اس کے برعکس ہماری حکومت اور دیگر اسلامی حکومتیں جہاں اللہ کے فضل سے اکثریت اہلِ سنت کی ہے وہاں شیعوں کو تدریس وغیرہ میں عہدوں تک رسائی حاصل ہے اور صنعت میں بھی یہ دسترس رکھتے ہیں صرف اس وجہ سے یہ یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان کی سندیں انہیں اس کی اہل ثابت کرتی ہے اور اس عہدے کی شرائط اس میں پائی جاتی ہے اور یہ سعودی باشندے ہیں لیکن ان کے مضر عقائد پر نظر نہیں کی جاتی اور نہ ہی انہیں ان عہدوں پر بٹھانے والے سوچتے ہیں کہ یہ اہلیت تو تم نے دیکھی مگر جو یہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازش کر سکتے ہیں اسے بھی مدِنظر رکھیں مثلاً جب انہیں شیعہ تدریس میں ذمہ داری سونپی جائے گی تو ظاہر ہے یہ مسلمان بچوں کا عقیدہ خراب کریں گے انہیں ایسا مشکوک کر دیں گے وہ صحیح عقیدہ نہ پا سکیں گے اسی طرح اگر انہیں ڈاکٹری پیشہ سے منسلک کر دیا جاتا ہے تو اس بات کی ضمانت نہیں یہ علاج کرنے کی بجائے سنی لوگوں کی بیماری میں اضافہ کر دے یہ اتنے متعصب ہوتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بچوں کو پیدائش کے وقت ناکارہ کر دیں اور عورتوں کو بانجھ کر دیں۔ ان کی سنت دشمنی کی بناء پر سب کچھ ممکن ہے۔

لہٰذا ہماری گزارشات پر غور کریں۔