Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مجلس ثقافت کا پیغام

  الشیخ ممدوح الحربی

مجلسِ ثقافت کا پیغام:

جو ہم بیان کرنے والے ہیں یہ ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی زیادہ خطرناک معاملہ ہے شیعہ علماء اور ان کے آیات اللہ کہلانے والوں نے حکومتِ ایران کے پڑوس ممالک میں اور علاقوں میں شیعت پھیلانے کا خفیہ خا کہ تیار کر رکھا ہے اس کا انکشاف مجلہ "البیان" شمار (123) ماہ ذوالقعدہ 1418ھ بمطابق 1998ء نے کیا یہ ایک پیغام ہے جو اس مجلس ثقافت نے اپنے تمام محافظوں اور اپنے مذہب والوں کو ارسال کیا ہے ایران کے مختلف شہروں میں اسے بھیجا ہے اس پوشیدہ خاکہ کو تقریباً 50 برس تک پورا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے ہدف یہ ہے کہ ایران علاقوں میں جن جن پر شیعوں کا تسلط ہے ان میں اہلِ سنت لوگوں کو شیعہ بنائیں سعودی عرب عراق کویت، بحرین قطر، عمارت، عمان، وغیرہ ممالک جو ایران کے پڑوس میں ہیں ان میں بھی شیعت کا جال پھیلائیں اور مزید یہ کریں کہ ان پر فوجی معاشرتی اور ثقافتی سطح پر غلبہ پائیں اور ان ملکوں کا سارا نظام تباہ کر دیا جائے اور شیعت کا تسلط جمایا جائے سو اب اس شیعی مقصد سے سب کو آگاہ ہونا چاہیے اور ہر سطح پر اس کا سدِ باب کیا جائے حکمران بھی، علماء بھی، مرد بھی، خواتین بھی سب اس کا دفاع کریں کیونکہ یہ بڑا گھمبیر مسئلہ ہے ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور کہتے ہیں ہم سب اسلام کی سرحد ہیں اور اسلام کی سرحد کو تمہاری طرف سے نقصان نہ ہو۔

اس خطرناک پوشیدہ منصوبہ کی تحریر:

ہم اپنی قریب والی حکومتوں میں اپنی تحریک جاری کرنے سے قاصر ہیں ان علاقوں کی ثقافت اور تہذیب مغرب سے ملی ہوئی ہے ہمارے اوپر حملہ کر سکتے ہیں اور غلبہ پا سکتے ہیں اب اللہ کے فضل سے اور اس بہادر امام خمینی کی امت کی قربانیوں سے کئی صدیوں بعد اثناء عشری شیعوں کی حکومت ایران میں قائم ہو چکی ہے اور شیعہ لیڈروں کے ارشادات کی روشنی میں ہمارے اوپر بہت ہی بھاری اور خطرناک ذمہ داری آن پڑی ہے وہ ہے اس تحریک کو جاری رکھنا لیکن عالمی حالت کے پیشِ نظر اور حکومتوں کہ قوانین کو دیکھتے ہوئے اس تحریک کو جاری رکھنا ممکن نہیں بلکہ اسے جاری رکھنے کے لیے تباہ کن بڑے بڑے خطرات در پیش ہیں اس بناء پر ہم نے مختلف آراء کے مطابق اور تین مرتبہ کمیٹی بٹھانے کے بعد ان کے متفقہ مشورہ سے منصوبہ کی تکمیل کو پانچ مراحل میں طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے ہر مرحلہ 10 برس کا ہوگا اس طرح 50 برسوں میں ہم مرحلہ وار یہ تحریک قریب کے تمام ملکوں میں برپا کر سکیں گے جن خطرات کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا وہ وہابی حکام ہے اور سنیوں کی اکثریت ہے ان کا خطرہ یورپ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ وہابی اور اہلِ سنت کے اکثریت ہماری تحریکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے یہ ولایتِ فقیہ اور آئمہ معصومین کے دشمن ہیں حتیٰ کہ یہ شیعہ مذہب وہ مخالفِ شریعت و دستور قرار دیتے ہیں اور انہوں نے شیعہ مذہب اور اسلام کو دوسرے کے متضاد قرار دیا ہے

اس بناء پر اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایران کے اندر سنی علاقوں میں ہم اپنا اثر و نفوذ زیادہ کریں خصوصاً سرحدی علاقوں میں اور ہم اپنی امام بارگاہیں زیادہ تعداد میں تعمیر کریں اور اپنی مذہبی مجالس پہلے سے زیادہ منعقد کریں اور ان شہروں میں جن میں 90 یا 100 فیصد آبادی سنیوں کی ہے وہاں ہم شریعت کے لیے فضا تیار کریں تاکہ اندرونی شیعوں کی تعداد میں مرحلہ وار اضافہ ہو اور یہ رہائش کے لیے اور کام کے لیے تجارت کے لیے یہاں ٹھہریں اس کے بعد حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان سنی لوگوں سے ہمارے شیعہ مذہب کی طرف آنے والوں کو وطنی تسلیم کریں خاکہ جو ہم نے تیار کیا ہے کہ اس تحریک کو پھیلایا جائے زیادہ تر اہلِ نظر اسے مفید اور مناسب تصور نہیں کرتے اور اس سے بہت زیادہ خون ریزی ہونے کا کہتے ہیں اور اس کے خلاف عالمی بڑی طاقتوں کے رد عمل ظاہر ہونے کا خیال بھی ظاہر کرتے ہیں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو بے سود قرار دیتے ہیں اور اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ اہلِ رائے کا یہ فیصلہ بار آور ہوگا اور مفید ثابت ہو گا۔