ایرانی سلطنت کی مضبوطی کا طریقہ
الشیخ ممدوح الحربیایرانی سلطنت کی مضبوطی کا طریقہ
کسی بھی حکومت یا جماعت یا شعبہ کے ارکان کی حفاظت یا مضبوطی تین بنیادوں پر ہوتی ہے:
- قوتِ حاکمہ
- علم و معرفت
- اقتصادیات۔
جب بھی حکومت کی بنیاد کو متزلزل کرنا ہوتا تو حکام اور علماء کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا جائے اور اس شہر یا ملک کے صاحبِ مال لوگوں کو بکھیر کر اپنے علاقہ میں لے آئیں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھیج دیا جائے تو ہم نے یقینی کامیابی حاصل کر لی اور توجہ کے قابل ہو جائیں گے بقیہ آبادی اس قوت اور حاکمیت کے تابع ہوتی ہے اور وہ اپنی معیشت میں مگن ہوتی ہے اور اپنی روٹی اور رہائش کے چکر میں ہوتی ہے یہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے معاملے کے تحت قوت سے دبی رہتی ہے ہمارے ہمسائے ممالک جو اہلِ سنت اور وہابی بھی ہیں مثلاً: ترکی ایران افغانستان پاکستان، متحدہ عرب عمارت خلیج، فارسی وغیرہ یہ بظاہر متحد نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں مختلف ہیں ان علاقوں کو ایک بہت بڑی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے گزشتہ اور موجودہ دور میں رہی ہے کہ یہ کرۂ ارض کی شاہ رگ ہیں ان میں تیل کی دولت ہے دنیا کے حساس ترین ممالک ہیں ان علاقوں کے حکام تیل کی تجارت کی وجہ سے زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں ان علاقوں کے رہائشی تین طبقات میں تقسیم ہیں:
- بدو صحرا نشین جو سینکڑوں سال سے یہاں آباد ہیں۔
- وہ لوگ ہیں جو بنجر علاقوں اور بندرگاہوں سے ہجرت کر کے ہماری اس سرزمین میں آباد ہوئے انکی ہجرت کا آغاز شاہ اسماعیل صفوی، نادر شاہ، کریم خان، تاجر بادشاہوں پہلوی خاندان کے زمانہ میں ہوا تھا اور اس اسلامی تحریک یعنی شیعوں کے انقلاب ایران کے دور میں بھی وقفہ وقفہ سے انہوں نے بھی ہجرت کی۔
- وہ لوگ ہیں جو اِدھر اُدھر کی چھوٹی چھوٹی عربی حکومتیں ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ایران کے اندرونی شہروں میں ہیں تجارت، امپورٹ، ایکسپورٹ کمپنیاں اور عمارتیں وغیرہ پر ان لوگوں کا تسلط ہے، ان علاقوں کی رہائشی عمارتوں کے کرایوں اور زمینوں کی خرید و فروخت پر گزارا کرتے ہیں اور با اثر ہیں اور وہ تیل کی تجارت سے حاصل ہونے والی تنخواہوں پر گزر اوقات کرتے ہیں۔
معاشرتی فساد، ثقافتی اور کاروباری خرابی اور اسلام کے خلاف طرزِ عمل یہ ان میں بالکل واضح ہے ان علاقوں کے رہائشی زیادہ تر اپنی زندگی دنیاوی لذت اور فسق و فجور میں ڈوب کر گزار رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے یورپ اور امریکہ میں فلیٹ بنا رکھے ہیں اور وہاں کی صنعت میں حصہ ڈالا ہے اور اپنا روپیہ وہاں کے بینکوں میں رکھا ہوا ہے، خاص طور پر جاپان، انگلینڈ سویڈن اور سوئس بینکوں میں کہ انہیں یہ خوف ہے کہ ان کے ملک کے حالات مستقبل کے لیے اچھی غمازی نہیں کر رہے یہاں وہ غیر محفوظ ہیں جب ہم شیعہ ان عربی ممالک پر قبضہ جما لیں گے گویا کہ ہم نے آدھی دنیا فتح کر لی ہے۔
تیار شدہ خاکہ کے نفاذ کا طریقہ کار:
یہ 50 سالہ خاکہ بروئے کار لانے کے لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد والی حکومتوں کے ساتھ اچھے تعلق رکھیں بلکہ ہم صدام کے معزول ہونے کے بعد عراق کے ساتھ بھی ہم اپنے تعلقات اچھے رکھیں گے وجہ یہ ہے کہ ہزار دوست کو زیر کرنا آسان ہے جبکہ ایک دشمن کو زیر کرنا مشکل ہے ان سیاسی اور ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کی آڑ میں بہت سارے ہمارے ایرانی لوگوں کی تعداد، ان حکومتوں کی طرف پہنچ جائے گی، اس سے ہم مہاجروں کے لبادہ میں اپنے کارندے بھیجیں گے جن کی ہم تنخواہیں دیں گے اور انہیں حقِ خدمت دیا جائے گا۔ اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ 50 سال ایک طویل عرصہ ہے ہماری تحریک 20 سال بہت کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی ہمارا مذہب بھی ایک دن میں نہیں پھیلا بلکہ ملکوں میں ہمارے وزراء اور وکیل اور حاکم نہ تھے بلکہ معمولی عہدے دار بھی نہ تھا حتیٰ کہ وہابی، شافعی حنفی مالکی حنبلی تو ہمیں مرتد قرار دیتے ہیں اور بارہا شیعوں کا قتلِ عام بھی ہوا یہ پہلے کی بات ہے مگر آج اس دور میں ہمارے آباؤ اجداد کے نظریات اور ان کی آراء اور مساعی نتیجہ خیز ہیں اگرچہ ہم آئندہ خود نہ ہوں گے لیکن ہماری تحریک اور مذہب دونوں باقی رہیں گے اس مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لیے قربانی کی ضرورت ہے ہمارا پروگرام ہونا چاہیے اور خاکہ بندی تیار رکھی جائے، خواہ 50 سال کے بجائے پانچ سو سال لگ جائیں، ہم لاکھوں شہداء کے ورثاء ہیں جو مسلم نما شیطانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور ان کے خون تاریخ کے راہ پر اب بھی بہہ رہے ہیں یہ خون خشک نہیں ہوئے اور یہ بہتے ہی رہیں گے یہ لوگ جب تک اپنے بڑوں کی خطاؤں کا اعتراف نہ کر لیں گے اور شیعہ مذہب کو اسلام کی اصل قرار نہ دیں گے خون پیش کرتے رہیں گے۔
مرحلہ وار فہم:
1)۔ ہمارے لیے افغانستان، پاکستان، ترکی، عراق اور بحرین میں مذہب شیعہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہم نے جو دوسرے 10 سال کا خاکہ تیار کیا ہے، ہم اسے ملکوں میں پہلا خاکہ بنا کر کام کر سکتے ہیں ہمارے کارندوں کو تین چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
- یہ ہمارے نمائندے زمینوں، گھروں، فلیٹوں کی خریدداری کریں اور کاروبار بنائیں اور زندگی کی سہولیات اور آسانیاں شیعہ مذہب والوں کو فراہم کریں تاکہ وہ ان گھروں میں رہیں اور تعداد بڑھے یہی کام فلسطین میں یہودیوں نے کیا ہے۔
- تعلقات بڑھائیں اور بازار میں حکومتی اداروں میں اور بڑے بڑے رؤسا اور مشاہیر اور حکومتی محکموں میں اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں سے دوستی کریں۔
- بعض ملکوں میں عمارتوں کی تعمیر جدا جدا ہے لیکن ان میں بستیوں اور چھوٹے شہروں کا ٹاؤنز تعمیر ہوتے ہیں ہمارے ان کارندوں کو چاہیے وہ انہیں خریدیں اور مناسب قیمت پر بیچیں اور ان افراد کو دیں جنہوں نے اپنی جائیدادیں شہر کے مراکز میں فروخت کی ہیں اس انداز پر شیعوں کی آبادی گھنی ہو سکتی ہے اور سنیوں کے ہاتھوں سے جائیداد نکالی جا سکتی ہیں۔
2)۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ شیعہ پر لازم ہے کہ وہ قانون کا احترام کریں اور قانون نافذ کرنے والوں کی بات مانیں اور حکومت کہ ملازموں کی بات بھی تسلیم کریں اور مذہبی مجلسوں کے انعقاد کے لیے رخصت طلب کریں امام بارگاہ بنوائیں کیونکہ مذہبی رسومات مستقبل کے لیے ہمارا اعتماد بحال رکھیں گی اور حساس مقامات پر بلند و بالا اور اعلیٰ رہائشیں تیار کریں اور ان دو مرحلوں سے گزرنے کے لیے یہ ضروری ہے جہاں بھی ہمارے کارندے رہتے ہیں اس ملک کی شہریت حاصل کریں اس کا طریقہ یہ ہے کہ دوستوں کو تحائف دیے جائیں اور نوجوانوں کو ترغیب دیں کہ حکومتی اداروں میں ملازمت اختیار کریں اور خاص طور پر فوج میں سلیکٹ ہوں اور اس نقشہ کے 10 سالوں کہ نصفِ ثانی میں یہ خفیہ طریقہ اختیار کرنا لازمی ہے کہ علماۓ اہلِ سنت کو آپس میں بھڑکایا جائے کسی علاقے میں معاشرہ کی خرابی یا اسلام مخالفِ اعمال کثرت سے ہوں تو کسی دینی تنظیم یا شخصیت کے حوالے سے پمفلٹ بانٹ دیے جائیں جن میں تنقید کی گئی ہو ظاہر ہے اس طرح مختلف شعبوں میں بھڑکاؤ پیدا ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو دینی قیادت پر پابندی لگ جائے گی یا دینی شخصیت کی زبان بندی ہوگی یا یہ ہوگا وہ اس غلط نشریات کی تردید کریں گے اور دین کی طرف منسوب ان نشریات کا دفاع کریں گے بہر صورتِ شک کی فضا پیدا ہو جائے گی علماء اور دینی لوگ حکمرانوں سے بدظن ہوں گے اور حکمران علماء سے بدگمان ہوں گے اور دین پسند لوگوں کا تقدس اس علاقہ میں پامال ہوگا اور مساجد اور دینی ادارے اور دینی نشر و اشاعت کا کام رک جائے گا ہم دینی خطابات اور مذہبی مجالس ان کے نظام میں خرابی کا باعث ہوں گی اس سے بڑھ کر یہ فائدہ ہوگا کہ علماء اور حکام کے مابین کینہ اور نفرت جنم لے گی جب ان وہابی اور اہلِ سنت کو ان کے اندرونی مراکز سے حمایت حاصل نہ ہوگی تو پھر باہر سے یہ کچھ حمایت حاصل نہ کر سکیں گے۔
3)۔ اسی 10 سالہ مرحلے میں یہ بات حاصل ہوگی کہ ہمارے کارندوں کی دوستی مالداروں اور حکومتی ملازموں کے ساتھ گہری ہوگی اور زیادہ تر فوج میں اور قوتِ نافذہ میں تعلق کی بنا پر یہ شیعہ پورے آرام و سکون سے کام کریں گے یہ دینی تحریکوں میں دخل اندازی نہ کریں اس سے حکام بالا ان سے پہلے سے بھی زیادہ مطمئن ہوں گے اس مرحلہ میں جو دین والوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے ہوں گے تو اس صورت میں ہمارے اس علاقہ کے شیوخ پر یہ فرض ہے وہ حکام کی حمایت کریں اور ان کا دفاع کریں خاص طور پر مذہبی رسومات میں حکمرانوں کا ساتھ دیں اور جب خطرہ نہ ہو تو اپنے شیعہ ہونے کا اظہار کردیں اور حکام کی نظروں میں نہ کھٹکیں بلکہ ان کی رضا حاصل کریں اور ان کے حکومتی کام کے بلا خوف و خطر بات مانیں اور اسی مرحلہ میں ہم بندرگاہوں جزیروں اور شہروں میں جو ہمارے ملک میں دوسرے ملکوں کے بینک ہیں ان سے رابطہ کریں گے تاکہ قریب بھی ملکوں کے ساتھ اقتصادی تبادلہ کر سکیں۔ یہ بات یقینی ہے مالدار اقتصادی مضبوطی کی خاطر اپنے وفد ہمارے ملک میں بھیجیں گے اور جب ہم انہیں تجارتی آزادی دیں گے تو وہ ہمارے وطن میں خوش ہوں گے اور ہم ان سے اقتصادی فوائد حاصل کریں گے۔
4)۔ اور چوتھے مرحلے میں حکمرانوں اور علماء کے درمیان کینہ پیدا ہو چکا ہوگا اور تاجر پیشہ لوگ یا تو مفلس ہو جائیں گے یا راہِ فرار اختیار کر جائیں گے لوگوں میں اضطراب پیدا ہوگا یہ اپنی جائداد آدھی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ پرامن جگہ پر منتقل ہو جائیں اس پس و پیش کی صورت میں ہمارے نمائندے حکمرانوں کی حمایت حاصل کریں اسی کشمکش میں اگر ہمارے نمائندے بیدار مغزی سے کام لیں گے تو یہ شہر کے بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہو سکتے ہیں اور عدالت اور حکام کے متعلقہ اداروں تک رسائی میں تھوڑی سی مسافت باقی رہ جائے گی ہم اتنے اخلاص کا مظاہرہ کریں گے کہ یہ حکام یہ تصور کریں گے کہ پہلے ملازم تو خائن تھے اس سے وہ انہیں محکموں سے باہر نکال دیں گے یا پھر اس سے ہمارے افراد شیعہ کو لیں گے اس سے دو فوائد ملیں گے:
- اس سے ہمارے عناصر حکام کا زیادہ اعتماد حاصل کر لیں گے۔
- جب اہلِ سنت کسی فیصلہ پر ناراض ہوں گے تو شیعہ کی قدر حکام کے نزدیک زیادہ ہوگی اور اہلِ سنت حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے تو اس صورت میں ہمارے نمائندے حکام کا ساتھ دیں اور لوگوں کو صلح کی دعوت دیں اور جو جانا چاہتا ہے ان کی جائیدادیں خرید لیں۔
5)۔ مرحلہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں فضا تحریک کے لیے تیار ہو چکی ہوگی اور یہ اس وجہ سے ہوگی ہم نے امن و سکون، راحت اور حکومتی فیصلہ کن حالت کر دی ہے حکومت طوفان میں پھنسی کشتی کی مانند ہوگی جو غرق ہونے کے لیے ہچکو لے کھا رہی ہے اور ہر ایک اس کی نجات کا مطالبہ کر رہا ہوگا اس وقفہ میں ہمارا مطالبہ ہوگا قابلِ اعتماد شخصیات کی کمیٹی بنائی جائے تاکہ وہ ہر دور میں سکون پیدا کرے ہم حکام سے حکومتی اداروں کی نگرانی پر تعاون کریں گے اور ملک کو کنٹرول کریں گے وہ یہ سب تعاون قبول کریں گے اور ہماری اکثریت کرسیوں پر براجمان ہوگی تو ہم اپنی اسلامی تحریک بغیر کسی جنگ اور خون ریزی کے دوسرے ملکوں میں برپا کر سکیں گے اگر بالفرض یہ مرحلہ جو آخری ہے حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم خاندانی تحریک برپا کر دیں گے اور حکام سے غلبہ چھین لیں گے اور ہمارے شیعہ عناصر ان ملکوں کے رہائشی تو ہوں گے اور ہم اللہ کے ہاں اور دین کے سامنے فریضہ کی ادائیگی میں سرخرو ہوں گے ہمارا ہدف کسی معین شخص کو تختِ حکومت پر بٹھانا نہیں ہمارا مقصد تو صرف تحریک برپا کرنا ہے اور اس دینِ الٰہی کا علم بلند رکھنا ہم تو ہر ملک میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں وہ ہم نے کر لیا ہے ہم کفر کی دنیا کے سامنے اس بڑی قوت کے ساتھ ابھریں گے اور ہم نورِ اسلام سے دنیا کو روشن کر لیں گے امام مہدی موعود کے ظہور تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔