شیعہ کے ان خفیہ خاکوں پر تبصرہ
الشیخ ممدوح الحربیشیعہ کے ان خفیہ خاکوں پر تبصرہ
ہم اس خاکہ کے بعد شقوں پہ تبصرہ کرتے ہیں:
یہ خاکہ ایسا ہے جس میں جدید مفہوم کے موافق تحریک برپا کرنے کا اظہار کیا گیا ہے اور اس کے دو ہدف بیان کیے گئے ہیں:
- ایک ہدف تبشیری ہے۔
- دوسرا ہدف اس میں بیان ہوا ہے کہ اہلِ سنت کی دعوت کو پھیلنے سے روکنا ہے یہ خاکہ یہ بھی بتا رہا ہے یہ اثناء عشری شیعہ کے لیڈر مذہبی حکومت کی تحریک برپا کرنے کو اپنا اولین فریضہ تصور کرتے ہیں تاہم موجودہ اور عالمی قوانین پر نظر رکھنا ہوگی کیونکہ اس تحریک میں تباہ کن خطرات در پیش آ سکتے ہیں اصل میں یہ اس خاکہ کا خلاصہ اور نچوڑ ہے کہ وہ ایسی منظم حکومت کا قیام چاہتے ہیں جو اس مذہبی خاکہ کی حفاظت کرے اور مال سے نوازے مگر اس سے پہلے بقول ان کے دعوتِ اسلام کو عام کیا جائےاس سے ان کی مراد یہ ہے کہ عقیدہ امامت پھیلایا جائے جو اس کا قائل نہ ہو اسے کافر قرار دیا جائے اس خطہ اور خاکہ کے مطابق ان کی حکومت مذہبی ہے اور پڑوسیوں کے ساتھ اس تحریک کو برپا کرنے کا طریقہ مذہب اور عقیدہ کے اختلاف کے مطابق اپنایا جائے گا یہ شیعہ کی عدمِ تمیز ہے وگرنہ عرب لوگوں نے عراق اور فارس کے علاقوں کو جب فتح کیا ہے تو ایران میں دینِ اسلام ان فاتح عربوں کے ذریعے ہی پہنچا تھا اور اس خطہ و خاکہ میں جو 50 برسوں میں مرحلہ وار منصوبہ بتایا گیا ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس میں اہلِ سنت اور وہابیوں کو شرق و غرب جو کے یورپین وغیرہ ہیں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے کہ یہ لوگ شیعہ کی اس تحریک کے خلاف اٹھیں گے اور انہیں ولایت فقیہ اور ائمہ معصومین کا اصلی دشمن قرار دیا گیا ہے۔
ولایتِ فقیہ کا مطلب:
خمینی اور اس کے پیروکاروں کے مطابق ولایتِ فقیہ سے مراد یہ ہے کہ "امام مہدی" کا نیابت کرنا ہے یہ فقیہ محمد بن حسن عسکری جو کہ شیعوں کےبارہویں غائب امام ہیں کا نائب ہوتا ہے اسے اتنی طاقت حاصل ہے کہ ان کے آنے تک یہ جس حکم کو چاہے معطل کر سکتا ہے اس خاکہ میں بیان کردہ ان کا اسلوب و بیان جو خطرناک ترین ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اہلِ سنت سے عداوت اور مشرق و مغرب کے غیر مسلموں سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور آج یہ عملاً ظاہر ہو رہا ہے موجودہ ایرانی سیاست والے دوسرے شہریوں اور قوموں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں حکومتِ ایران کا صدر کاتمی پوپ یوحنا پولس کی ملاقات کے لیے گیا تھا اور اس نے جو بیانات جاری کیے وہ ان کی اس اندرونی سیاست کی تمہید ہے یورپ کے ساتھ ان کا یہ طرزِ عمل ہے مگر اسلامی ملکوں کے ساتھ ان کا رویہ اس سے مختلف ہے یہ اسلامی سنی ملکوں میں ہمیشہ اپنے شرک کے کاموں اور بدعت پر بضد ہوتے ہیں اور اپنی پرانی تاریخ پر اصرار کرتے ہیں اور پوپ سے مل کر کہتے ہیں ہمیں رواداری سے کام لینا چاہیے کہ یہ حرکت ان کے خاکہ میں بیان کردہ عبارت پر واضح دلیل ہے تاکہ وہ کفار سے دوستی اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں جن کا نام انہوں نے وہابی اور سنی رکھا ہوا ہے اور وجہ اس عداوت کی یہ بتاتے ہیں کہ یہ سنی ولایت فقیہ کے نظریے کے مخالف ہیں حالانکہ نجف شہر میں خمینی نے اس بدعت کو ایجاد کیا ہے وہابیوں اور سنیوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اس کی تائید ان مذاکرات سے بھی ہوتی ہے جو ایرانی نمائندوں اور علامہ شیخ محمد بن صالح ضیائیؒ کے درمیان ہوئے تھے یہ ان کی زندگی کی بات ہے اور بعد میں انہیں ظالموں نے ٹکڑے ٹکڑے بنا کر شہید کر دیا۔
ایرانیوں نے ان سے کہا تھا:
تم جو جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی میں پڑھائی کے لیے طلبہ بھیج رہے ہو وہ صدام کی توپوں سے بھی زیادہ ہمارے لیے خطرناک ہیں۔
اس بناء پر شیعہ ایران کے سرحدی علاقوں اور خصوصاً جہاں سنیوں کی اکثریت ہے اس خاکہ کو پیشِ نظر رکھ کر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہیں اور حسینی ماتم امام بارگاہیں اور اپنی مذہبی مجلسیں زیادہ قائم کرتے ہیں یہ ان کے خاکہ میں بیان کردہ بات کے مطابق سنیوں کے علاقوں میں فضا تیار کرنے والی تجویز پر عمل کر رہے ہیں اور جو انہوں نے کہا ہے تحریکِ شیعہ برپا کرنے میں جو ہم روپیہ لگا رہے ہیں وہ ضائع نہ جائے گا یہ بات بھی روبعمل لائی جا رہی ہے یہ کروڑوں ڈالر جو لگا رہے ہیں عنقریب واضح اور جلدی فوائد حاصل کر سکتے ہیں کہ ہر شہر میں شیعیت پھیل جائے گی یہ آج ہم دیکھ رہے ہیں سعودی حکومت کے مشرق میں کویت اور بحرین میں، امارت میں، اور یمن میں یہ کام ہو رہا ہے، علاوہ ازیں سوریا عراق، افغانستان اور پاکستان میں بھی یہ کام ہو رہا ہے۔
اگر سابقہ کتاریح دیکھیں تو خود ایران میں سنیوں کی بھاری اکثریت موجود رہی ہے جب شاہ اسماعیل صفوی آیا تو اس سے پہلے یہاں سنی بہت زیادہ تعداد میں تھے لیکن تھوڑی ہی مدت بعد قتل و غارت کی گئی انہیں منتشر کر دیا گیا اور ان کا جسمانی خاتمہ کر دیا گیا تا آخر اب ایران کی جو حالت ہے یہاں تک نوبت پہنچی کہ اب ایران شیعت کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی پناہ گاہ بن گیا ہے وہ اس خطہ کے ماحول کو تقسیم کرتے ہیں جہاں شیعہ آبادی زیادہ ہے وہاں ان کا سیاسی طریقہ اور ہے جہاں کم ہے سنی زیادہ ہیں وہاں طریقہ اور ہے اب ایران میں سنی تقریباً تیسرا حصہ ہیں دو حصے شیعہ ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کا حسینی ماتم قائم کرنا اس علاقہ پر ان شیعوں کا مذہبی رنگ اثر ڈال رہا ہے۔
حسینیات کی تعریف:
"حسینیات" وہ جگہیں ہیں جن میں شیعہ جمع ہوتے ہیں خاص طور پر ماہِ محرم میں وہاں رخسار پیٹے جاتے ہیں گریبان چاک کرتے ہیں زنجیر زنی کرتے ہیں اس سے سیدنا حسینؓ کی شہادت کی یاد مناتے ہیں اور اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں ان حسینی مراکز کا یہ بہت اہتمام کرتے ہیں، اتنا یہ امام بارگاہوں کا بھی اہتمام نہیں کرتے جو ایران سے باہر حسینی مراکز ہیں یہ اصل میں ایران کے جاسوسی مرکز ہیں اخبار "انقلاب اسلامی" میں ابو حسن بنی صدر نے خود اس کی تفصیل بتائی ہے جیسا کہ اخبار نے خلیج کی ریاستوں میں جاسوسی مراکز کا ذکر کیا ہے ان میں سے ان حسینی مراکز کو بھی جاسوسی کا مرکز قرار دیا ہے ایرانی کاروباری لوگ حکومت امارات میں رہنے والے ایرانی تاجروں سے مال جمع کرتے ہیں تاکہ ان مراکز کو مضبوط کریں اور یہ خاکہ ان علاقوں میں خاص طور پر روبعمل لایا جاتا ہے جہاں اہلِ سنت کے اکثریت ہے یہ شیعی نقشہ کے مطابق ہی ہو رہا ہے کہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ شہروں سے ہجرت کر کے آنے والوں کو کام اور تجارت کی سہولتیں دی جائیں تاکہ وہ دلجمعی سے یہ عمل جاری رکھیں عراق میں انہوں نے اس کا تجربہ کیا ہے جو انہوں نے مرحلہ وار 50 سالہ منصوبہ دیا ہے وہاں 10 فیصد شیعہ آبادی تھی اب اس مرحلہ کے بعد تقریباً 50 فیصد ہو چکی ہے جو شیعت کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے علاوہ ازیں یہ اکثر شیعہ ذرائع و ابلاغ پر مالی حیثیت میں ثقافت پر، تجارت پر اور ادب پر قابض ہیں یہ اپنے نقشہ کے مطابق عراق کے کئی علاقوں میں چھا رہے ہیں، موصل شہر کے 60 دیہات شیعہ ہوئے ہیں اور بہت سارے خاندان سنی عقیدہ چھوڑ کر شیعہ عقیدہ اپنا رہے ہیں، سعدون، دلیم، بنو خالد، جنابی، جبور وغیرہ قبائل شیعہ ہو چکے ہیں حتیٰ کہ سنیوں کے مرکزی شہر بھی ان کے زیرِ اثر آ چکے ہیں ابنار میں بھی یہ داخل ہو چکے ہیں اور بعض شہر تو ان کا مرکز ثقل بنے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ صنعتی اداروں پر غلبہ پا چکے ہیں اور جو ان کے اس مرحلہ وار خاکہ میں یہ بات درج ہے کہ ارکانِ سلطنت کو مضبوط کرو یہ بات نہایت خطرناک ہے یہ ان کا سیاسی جوہر ہے جس کی وجہ سے یہ ایک سلطنت بناتے ہیں، دوسری سلطنت گراتے ہیں اور یہ اپنے شیعہ مذہب کی روشنی میں کرتے ہیں اس کے مطابق نہ ہو سکے تو اپنے تیار کردہ طریقہ کے مطابق یہ غلبہ حاصل کرتے ہیں اور قرار اور اثر و نفوذ غلبہ سے ہی حاصل ہوتا ہے اور علماء ہی یہ طاقت رکھتے ہیں کہ احکام کی وضاحت کریں اور بعض شیعہ عہدۂ قضا پر غالب ہوتے ہیں اور اقتصادیات، معاشرہ کی متحرک رکھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور اسی سے زندگی طاقت پکڑتی ہے جب یہ تین اہداف اقتصادی غلبہ، علم و معرفت کا غلبہ، اور قوت قضا کا غلبہ پا لیتے ہیں تو پھر یہ مالداروں کو منتشر کر دیتے ہیں اور خود مالی مضبوطی حاصل کر لیتے ہیں اگرچہ ان کی اقلیت بھی ہے یہ فتنہ انگیزی کرنے علماء اور حکام کے درمیان تصادم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اور ان کا یہ 50 سالہ مرحلہ وار تسلط حاصل کرنے کا عملی آغاز ہو جاتا ہے جسے یہ اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کہتے ہیں اور جنہیں یہ اپنے نمائندے اور کارندے کہتے ہیں یہ اصل میں انکی چالبازیاں ہوتی ہیں اور ان کے جاسوس ہوتے ہیں تو ان فساد زدہ علاقوں میں مختلف مقامات پر منقسم ہو جاتے ہیں فوجیوں کی صورت، تاجروں کے روپ میں، اساتذہ کی صورت میں، طلباء کی صورت میں، تبصرہ نگاروں کے روپ میں آتے ہیں مگر یہ حقیقت میں جاسوس ہوتے ہیں۔
ہمارے اصحاب بست اختیار اس خطرناک سازش سے آگاہ ہو کر بیدار ہو جائیں یہ بڑا ہولناک خاکہ یہ جو شیعت کی سیڑھی بن رہا ہے آئندہ اسی سیڑھی کے ذریعے یہ سارا نظامِ شیعت میں بدل جائے گا جیسا کہ ایران میں اس وقت عراق کر رہا ہے اور سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، امارات، عمان، ترکی، عراق، افغانستان، پاکستان وغیرہ کے ساتھ جو ایران مضبوط راستہ استوار کرنے کا کہتا ہے یہ اس کی سیاست ہے اسے علاقائی امن و تعاون کی کوئی ضرورت نہیں یہ اس کا ظاہری اعلان ہے اندرون خانہ یہ ان حکومتوں کو شیعیت کے زیرِ اثر لانا چاہتا ہے۔ اور اس 50 سالہ خاکہ میں جو ثقافتی سیاسی اور اقتصادی تعلقات مضبوط رکھنے کی شق بیان ہوئی ہے یہ علوم کے تبادلہ اور علمی تعاون کی صورت میں پوری کرتے ہیں حکومتِ ایران کی یونیورسٹیاں اور ان کے پڑوسی ممالک کے یونیورسٹیوں کے درمیان علوم کا تبادلہ کر کے یہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی مفکرین اور ثقافتی وفود کو میدان میں لا کر شیعیت کا پرچار کرتے ہیں اور علمی ملاقاتوں نے اہلِ سنت کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے سامنے لیکچرز کے نام پر شیعیت کا زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور یہ ہدف کبھی فوجی میدان میں مشترکہ مصلحتوں اور علاقہ میں امن مستقل قائم رکھنے کے بہانے فوجی مخبر آتے جاتے ہیں ایران کے مخبر دوسرے ممالک میں آتے ہیں اور دوسرے ان کے ملک میں آتے ہیں اور بہانہ یہ ہوتا ہے کہ فوجی حساس معاملات مشورہ کرنا ہے اسی دوران شیعہ اہم حساس معاملات کے راز مسلمان فوج سے حاصل کر لیتے ہیں اقتصادی تعلقات کے روپ میں یہ شیعہ اپنا ہدف اسی طرح حاصل کرتے ہیں کہ تجارت میں وسعت پیدا کرتے ہیں اور ہر عام و خاص سطح پر چھوٹی یا بڑی کمپنیاں قائم کرتے ہیں جو صرف شیعہ کے مال سے قائم ہوتی ہیں یا شیعہ اور سنی کے مال سے ملا کر قائم کرتے ہیں اور پھر رسمی طور پر تجارتی تبادلہ کرتے ہیں وزارتِ صنعت و تجارت ایران اسے ترتیب دیتی ہے اور یہ 50 سالہ مرحلہ شیعہ کا ہدف جو ہے اس کے خاکہ میں یہ درج ہے کہ اس کے 50 سال کو طویل مدت نہ سمجھو الخ۔
اور مسلمانوں کو اور اہلِ سنت کو یہ شیطان نما مسلمان کہتے ہیں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے فرقہ واریت کی دعوت دینا اور علیحدگی پسندی اور دھمکی دینا یہ شیعہ مذہب کی روح ہے ان کی دعوت وطنی، ملکی بھی ہو تو فرقہ واریت کی ہے یہ تو عقیدہ اور دین کا معاملہ ہے اس میں ان کے علیحدگی تو ان کی فطرت میں داخل ہے اس خاکہ میں شیعہ نے کہا ہے ہماری قربانیوں کے خون خشک نہیں ہوئے اور اس نے اپنے آباؤ اجداد کی خطاؤں کا بھی اعتراف کیا ہے اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہم سنیوں کا ان شیعوں کے ساتھ رہنا ممکن نہیں وہ صرف اپنا مذہب ہی قبول کرتے ہیں جو خرافات اور خونیات مبنی ہے ان سے عہد و پیمان لینا اور ان سے حسن سلوک کرنا فضول ہے اس کے بعد اس مرحلہ اور خاکہ میں یہ درج ہے کہ شیعہ کامیابی کے لیے مذہبی مجالس قائم کریں ہم اس خطرناک اعلان سے خبردار ہو جائیں انہیں اعلانیہ مذہبی شعائر ادا کرنے کی گنجائش نہ دیں کیونکہ ان کے ذریعے یہ اپنی سیاست کھیل رہے ہیں جیسا کہ ایک محاورہ ہے "ایک پکڑو دوسرے کا مطالبہ نہ کرو" کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس لیے پہلے ہی انہیں مجلسی چھوٹ نہ دی جائے وگرنہ اس سیلاب کا بند باندھنا مشکل ہو جائے گا اور جب یہ رسمیں شیعہ جاری کر لیں گے تو پھر اسے حکومتیں بھی نہ روک سکیں گی اور پھر یہ کھا کر بتا رہا ہے حکام اور علماء کے درمیان کینہ اور نفرت پیدا کریں گے جس سے حکومتوں کی اندرونی اور بیرونی معاونت بند ہو جائے گی اس اختلاف سے خبردار رہیں علماء کرام اپنی صفوں میں اتحاد رکھیں اور حکمران بغیر واضح دلیل کے علماء کا مؤقف قبول نہ کریں علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ خوشی نہ خوشی میں، آسانی میں، تنگی میں امراء کی خیر خواہی کریں اور ان کی اطاعت کریں اس سے آپ اس خاکہ والی تیار کردہ سازش سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور شیعوں کی خبیث آرزؤں اور کینہ پروریوں کو مات دے سکتے ہیں۔
وگرنہ یہ دشمن اپنی گندی آرزؤں کو پورا کر لیں گے نعوذ باللہ ہماری دنیا اور آخرت اور دین برباد کرنے کی ذرا برابر پرواہ نہ کریں گے اس کے بعد یہ خاکہ بتاتا ہے کہ ہمارے شیعہ مشائخ اپنے دفاع میں لگ جائیں اور ولایت فقیہ کا دفا ع کریں اس کا آغاز ان کے شیوخ کر چکے ہیں اور ان کے شیوخ کی سرگرمیاں ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں سیارہ ڈائجسٹ جو کہ سنی اخبار ہے، شیعہ کے ایک شیخ کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں اس نے بظاہر ملک کے امن و امان اور اس کی حفاظت کرنے پر زور دیا ہے اور اندرونی اختلافات دور کرنے پر زور دیا ہے مگر مکر و دغا کا انداز اختیار کیا ہے۔
اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تحریک کی کتابوں کو اہلِ سنت کے حکام میں بانٹا جا رہا ہے ان کے لندن سے نشر و اشاعت ہوتی ہیں اور جب کوئی امیر یا حکمران وہاں کے دورہ پر جاتا ہے اسے مناسب طریقہ سے یہ شیعہ کی کتابیں دی جاتی ہیں یہ سب کچھ ان کے خاکہ میں رنگ بھرنے کے لیے ہی ہے شیعہ تکنیکی طور پر یہ ایک بہت ہی خطرناک مشق کر رہے ہیں یہ اسی اصول پر عمل کر رہے ہیں پہلے ڈراؤ پھر قابو پاؤ جب مال ہو تو دشمن کو خرید لو اس پر ہم یہی کہتے ہیں:
بھیڑیا بھیڑیا ہی ہے اگرچہ اس نے بکریوں میں پرورش پائی ہے کوئی ہے جو ہماری پکار پر کان دھرے؟۔
خاکہ کے عملی نفاذ کا طریقہ:
اس خاکہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شیعوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جانے والے جاسوسوں کو چاہیے خصوصاً جو ان کا ہدف ہیں افغانستان پاکستان، ترکی، عراق، کویت، بحرین، وغیرہ میں یہ تین کام کریں:
- زمینیں، گھر اور فلیٹ خریدیں جس میں زندگی کی تمام سہولات ہوں۔
- یہ کریں کہ صاحبِ مال لوگوں اور اثر نفوذ والے عہدے داروں سے دوستانہ تعلقات پیدا کریں۔
- شہر کے مرکز میں نئے گھر خریدیں دراصل یہ وہی طریقہ کار ہے جو یہودیوں نے اپنایا ہے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں انہوں نے وسیع پیمانے پر بیتُ المقدس کے ارد گرد یہودی آباد کاری کر رکھی ہے اور انہوں نے اس زمین کو اپنی شرعی ملکیت گردان رکھا ہے اور اب انہیں وہاں سے نکالنا بہت ہی مشکل ہے اسی خطرے کو بھانپ کر ہم سنی لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی یہ لازمی ذمہ داری ہے کہ یہ شیعوں کی زمینیں گھر اور فلیٹ نہ فروخت کریں تاکہ یہ مسلمانوں پر غلبہ کا جو خواب دیکھتے ہیں اس میں ناکام ہوں یہ سنی عوام کا فرض ہے اور ان ملکوں کا بھی فرض ہے جنہیں انہوں نے ہدف بنا رکھا ہے اور اصحابِ مال اور جائیداد کا بھی فرض ہے کہ ان سے تعاون کریں اور ان کے اس خاکہ میں جو یہ کہا گیا ہے کہ شیعہ جس ملک میں یہ مرحلہ وار کام کریں وہ اس کی قوت نافذہ اور قانون کا احترام کرے اور حساس اداروں میں اثر و رسوخ پیدا کریں۔
اس بارے میں گزارش ہے کہ یہ شیعہ امراء کے ساتھ تجارتی رابطے پیدا کرتے ہیں خصوصاً جو حکومتی خاندان کے افراد ہوتے ہیں ان سے تعلقات بڑھاتے ہیں اور ایسا چال بازی کا طریقہ اپناتے ہیں کہ سنیوں کو ان کے منافقانہ اندرونی خطوط کا پتہ تک نہیں لگتا اور یہ تحائف کی صورت میں اس مرحلہ وار تیار شدہ منصوبہ کو رشوت سے آگے چلاتے ہیں اور دوستوں کو مال دیتے ہیں اصل میں وہ اس مال کے ذریعے عہدے خریدتے ہیں جن کے ذریعے یہ اپنا دین اور عقیدہ کو ان ملکوں میں ہر عہد کو بالا طاق رکھتے ہوئے پھیلاتے ہیں یہ لوگ فارسی خواتین کو جو کہ عربی زبان بولنے کی دسترس رکھتی ہیں اور فہم وذکاء میں اور پرکشش شخصیت ہونے میں نمایاں ہوتی ہیں ان کو بھی ہدیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ جمال میں بے مثال تو ہوتی ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ انتہا درجہ کی خباثت اور چالاکی کا پلندہ بھی ہوتی ہیں جس کی بناء پر یہ اپنے شکار کو جال میں پھنسا لیتی ہیں یہ سب کچھ یہ بے حیائی کا بدترین انداز اور طور طریقہ نکاحِ متعہ کے پردے میں اختیار کرتے ہیں اور اس خاکہ کے مطابق اس کی یہ شق کہ نوجوانوں کو ترغیب دیں یہ حکومتی ملازمت اختیار کریں اور خصوصاً فوج میں سلیکٹ ہوں اس شق کو بھی انہوں نے عملاً شروع کر دیا ہے یہ فوجی کالجوں میں نام بدل کر سنیوں کے ناموں پر نام رکھ کر داخلہ لیتے ہیں تاکہ ان کے مقاصد سے کوئی آگاہ نہ ہو اسی طرح یہ شیعہ اس ملک کی مسلح افواج کی صفوں میں گھس جاتے ہیں اور اب تو ان کی تعداد بعض ممالک میں ان کی فوج میں 30 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور بڑھ رہی ہے۔ قریبی ممالک کی ایئر فورس میں تو ان کی تعداد تقریباً 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اب یہ ایئر پورٹ پر اپنے ہم مذہب شیعوں کے ساتھ مل کر جو چاہیں کریں انہیں امراء کی طرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا یہ بات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اس کا سدِباب کریں وگرنہ عباسی دور میں سکوت بغداد والی قتل و غارت کا انتظار کریں۔
یہ شیعہ تعلیم کے اداروں میں معلم بن کر اور صحت کے اداروں میں ڈاکٹر بن کر پھیل رہے ہیں اور اہم حساس مناصب پر فائض ہو رہے ہیں تعلیمی سلسلہ تمام ان کے ہاتھ میں آرہا ہے پرائمری، مڈل اور میٹرک حتیٰ کہ یونیورسٹی تک میں ان کی اتنی زیادہ مداخلت ہے کہ اہلِ سنت بچوں کو متاثر کر رہے ہیں اور اہلِ سنت کے ہسپتالوں میں ہر شعبہ کے اہم اور حساس عہدہ پر یہ چھائے ہوئے ہیں حتیٰ کہ طبعی طور پر مشترکہ تعاون کے نام پر کھلے عام شیعہ فائدہ اٹھا رہے ہیں ایران سے نرسیں اور ڈاکٹر سنی ملکوں میں آ کر پھیل رہے ہیں جبکہ حالت ہے تو دنیا اور دین کی بربادی سے باہر ہے اس خاکہ کے آخر میں انہوں نے مرحلہ وار یہ شق پیش کی ہے کہ سنی ملکوں کے حالات بگاڑ کر ہم دینِ الٰہی کا جھنڈا لہرائیں گے اور مہدی موعود کہ آنے سے پہلے نورِ اسلام سے دنیا کو روشن کریں گے اور شیعت کو عام کریں گے یہ اس مرحلہ وار خاکہ کی آخری شق ہے اس سے یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ ان شیعوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات بے فائدہ ہیں اور ملکی سطح پر اس کی صفوں میں اندرونی وحدت اور یکجہتی پر بات چیت کرنا بے معنیٰ ہے اس کا سبب کھلا کھلا یہ ہے کہ شیعہ مہدی موعود کا انتظار کرتا ہے کہ وہ غار سے باہر آنے والا ہے اور وہ آ کر عربوں حرمین شریفین کی خدمت گاروں حتیٰ کہ کعبہ کے خدمت گاروں کو قتل کریں گے اور ان کے ہاتھ کاٹیں گے جیسا کہ ان کے ثقہ اماموں کی کتابوں میں لکھا ہے۔