امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ کا فتویٰ
امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ کا فتویٰ
امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ باطنی فرقہ کے شاہانِ مصر (فاطمین) کے کفر و ارتداد پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
پھر ان باطنیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاص طور پر ہدفِ طعن و تشنیع بنایا اور ان کو یوسف نجار (بڑھئی) کی جانب منسوب کیا (کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام، نجار کے بیٹے تھے) ان کو عقل و تدبر سے کورا اور بے وقوف بتلایا اس لیے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھ آ گئے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کو سولی پر چڑھا دیا، لہٰذا یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر سب و شتم اور طعن و تشنیع کرنے میں یہودیوں کے ہمنوا ہیں، بلکہ یہ تو یہودیوں سے بھی زیادہ برے اور ضرر رساں ہیں کہ مسلمان اور قرآن کے متبع کہلا کر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر طعن و تشنیع اور ان کی توہین و تذلیل کرتے ہیں، اس لیے یقیناً کافر و مرتد ہیں۔ اور ان کی بیخ کنی سب سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔
آگے اس امر کی کہ کفار کی بنسبت ایک مسلمان کے مؤجب کفر ارتداد قول و فعل کی شناعت اور مضرت بہت زیادہ ہے۔ مزید وضاحت فرماتے ہیں:
اس لیے کہ اصلی مسلمان جب اسلام کے کسی بھی قطعی حکم یا عقیدہ سے منحرف مرتد ہو جائے تو وہ اس کافر سے بدر جہا زائد ضرر رساں ہوتا ہے۔ جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوا، جیسے وہ زکوٰۃ سے انکار کرنے والے مرتدین جن سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دوسرے تمام کافروں اور مشرکوں کو چھوڑ کر جنگ کی، اس لیے کہ ان کا کفر و انحراف اسلام کی بنیادوں کو ہلا دینے والا تھا۔ (اکفار الملحدين: صفحہ، 194)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
خوارج کی طرح اس زمانہ کے ملحدین کی تکفیر بھی غیر مسلموں کی بنسبت ذیادہ ضروری ہے حضرت ابنِ ہسبیرہؒ کا بیان فرماتے ہیں کہ:
میرے نزدیک بالکل اسی طرح اس زمانہ میں معاندوں (اسلام کے کھلے دشمنوں یعنی غیر مسلم) کی بنسبت ملحدوں اور باطل تاویلیں کرنے والوں کی تکفیر ذیادہ اہم اور ضروری ہے اس لیے کہ مؤول کی تاویل کو تو لوگ عینِ دین قرار دیتے ہیں بخلاف اس مخالفِ اسلام شخص کے جو علانیہ اور بالقصد اسلام کا مخالف اور دشمن ہے۔ کیونکہ اس کو سب دین کا دشمن اور مخالف جانتے ہیں اور اس کی کسی بات کو دین نہیں سمجھتے۔ اس لیے ان سے دین کو نقصان نہیں پہنچتا جتنا نقصان ان بے دینوں سے پہنچتا ہے۔ (اکفار الملحدین: صفحہ،161)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
علامہ ابنِ تیمیہؒ کے نزدیک وہ تمام افراد اور فرقے جو مسلمان کہلانے اور اہلِ قبلہ میں سے ہونے کے باوجود اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد و احکام سے انحراف و انکار کریں یا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر سب و شتم یا توہین و تذلیل کریں وہ نہ صرف کافر و مرتد اور واجب القتل ہیں بلکہ دوسرے تمام کافروں اور غیر مسلموں سے زیادہ اسلام کے دشمن اور مضرت رساں ہیں۔ ان کی بیخ کنی سب سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے، نیز یہ کہ ان کی کوئی تاویل بھی مسموع و معتبر نہیں۔ (اكفار الملحدين: صفحہ، 194)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ ایک بنسبت کفار و مشرکین کے خوارج سے جنگ اور ان کے فتنہ کا استیصال کرنا زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ آپﷺ فرماتے ہیں: اینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجر المن قتلھم یوم القیامۃ اس کی حکمت یہ ہے کہ ان خارجیوں سے جنگ دین کے اصل سرمایہ (دین اور دیندار مؤمن) کی حفاظت کے لیے ہے اور کفار و مشرکین سے جنگ کرنا منافع کمانے (یعنی مسلمانوں کی تعداد بڑھانے اور غیر مسلموں کو مسلمان بنانے) کے لیے ہے۔ (اور ظاہر ہے کہ اصل سرمایہ کی حفاظت، منافع کمانے کی بنسبت ذیادہ ضروری اور مقدم ہوتی ہے)
(اكفار الملحدين: صفحہ، 161)