شیعہ فرقہ نصیریہ کے اہم گروہ
الشیخ ممدوح الحربیشیعہ فرقہ نصیریہ کے اہم گروہ:
1) فرقہ جرانہ:
ان کا یہ نام اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ یہ ان کی ایک بستی ہے مگر 1011ھ میں یہ کلازیہ کے نام سے پکارے جانے لگے، انہیں قمریہ بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ چاند میں اتر گئے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ انسان جب صاقی شراب پیتا ہے تو چاند کے قریب ہو جاتا ہے۔
2) فرقہ غیبیہ:
یہ اپنے مقدر پر راضی رہتے ہیں جو غیب سے قضاء و قدر ان کے لیے فیصلہ کرے اسے پسند کرتے ہیں، حیلہ وسیلہ کے قائل نہیں، تاہم نویں صدی ہجری میں ان میں ایک علی حیدر نامی آدمی نمودار ہوا اس کے ماننے والے کثرت تعداد میں ہو گئے تو اس کے بعد اس فرقے کا نام فرقہ حیدریہ رکھا گیا۔
3)فرقہ ماخوسیہ:
یہ ان کے لیڈر ماخوس کی طرف نسبت ہے، اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انہیں ماخوسیہ کہا گیا، اسی فرقے کی دوسری قسم سلیمان مرشد کے پیروکار ہیں۔
4) فرقہ نیاصفہ:
ان کی نسبت ان کے لیڈر ناصر حاصوری کی طرف ہے جو لبنان کے شہر نیصاف سے تعلق رکھتا ہے۔
5)فرقہ ظہورانیہ:
یہ ان کے بڑے شیخ یوسف ابراہیمی عبیدی کی طرف نسبت رکھتے ہیں۔
6)فرقہ بناویہ:
یہ سلیمان مرشد اور اس کے بیٹے مجیب کی طرف منسوب ہیں۔
ان میں بعض فرقے آفتاب بعض چاند اور بعض ہوا کی عبادت اور تقدیس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان میں سیدنا علیؓ موجود ہیں اور ہوا کو تو یہ اللہ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی خرافات اور باطلات ہیں جو اس شیعہ کے نصیریہ باطنی فرقے میں پائی جاتی ہیں۔ یہ وہی خرافات اور داستانیں ہیں جو پرانے یونانی لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔
نصیریہ کے شیعہ فرقے کے مشہور اشخاص:
اس گمراہ فرقہ نصیریہ کا بانی شعیب محمد بن نصیر بصری نمیری ہے۔ اس کی وفات 270ھ میں ہوئی یہ شیعہ کے تین ائمہ کا معاصر ہے، ایک جوان کے ہاں دسواں امام ہے علی ہادی اور دوسرا گیارہواں امام حسن عسکری اور تیسرا امام جو تمام شیعوں کے نزدیک محمد بن حسن عسکری ہے۔ جسے یہ مہدی منتظر کہتے ہیں یا غائب حجت کا لقب دیتے ہیں یہ نصیری ان کا ہم عصر ہے۔ اس نصیری نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں منتظر امام کے علم کا وارث ہوں اور میں ہی حجت ہوں۔ امام مہدی کے غائب ہونے کے بعد میں شیعوں کا مرکز ہوں۔ حتیٰ کہ اس خبیث نے نبوت اور رسالت کا دعوٰی بھی کر دیا تھا اور اپنے ائمہ کے بارے میں اتنا زیادہ حد سے گزر گیا تھا کہ انہیں الوہیت معبود کے مقام تک لے گیا۔ یہ تو ہر شیعہ کے فرقہ کا نظریہ ہے۔ (نعوذ باللہ) اس کے بعد اس گروہ کا جو سربراہ بنا، اس کا نام محمد بن جندب ہے۔ اس کے بعد ابو محمد عبداللہ بن محمد جنان جنبلانی ہوا۔ یہ فارس کے علاقے جنبلا سے تھا، اس کی کنیت عابد، زاہد اور فارسی بیان کی جاتی ہے۔ اس نے مصر کا سفر کیا اور وہاں اپنی دعوت پیش کی۔ جس پر اس نے اپنی دعوت پیش کی اس کا نام خصیمی تھا۔ مکمل اس کا نام و نسبت یہ ہے، حسین بن علی بن حسین بن حمدان خصیمی۔یہ 206ھ میں پیدا ہوا تھا۔ یہ اصل میں مصر کا رہنے والا تھا۔ اپنے شیخ کے ساتھ جو کہ عبداللہ بن محمد جنبلانی ہے، اس نے مصر سے جنبلا کا سفر کیا اور اس کے بعد اس گروہ کا بڑا بنا۔ حلب بن حمدانیہ حکومت کے زیرِ سایہ رہا جہاں اس نے نصیریہ فرقے کے دو مرکز بنائے۔ ایک حلب کے شہر سوریہ میں بنایا اس کا سربراہ محمد علی جیلی تھا، دوسرا مرکز بغداد میں العراقیہ میں تھا اس کا بڑا علی جسری تھا۔ یہ خصیمی حلب میں مرا۔ وہاں اس کی قبر معروف ہے۔ اس نے اپنے مذہب نصیریہ کے بارے میں تالیفات بھی کی ہیں اور اہلِ بیت کی مدح میں اشعار بھی کہے ہیں یہ خبیث آدمی روحوں کے تناسخ یعنی شکل بدل کر دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتا تھا اور یہ مخلوقات میں اللہ کے حلول یعنی اتر جانے کا قائل تھا۔ یہی نصیریہ کا بنیادی عقیدہ ہے۔
جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اس نے بغداد والا مرکز بند کر دیا اور اسے حلب میں لاذقیہ میں منتقل کر دیا وہاں اس کا سربراہ ابو سعد المیمون سرور بن قاسم طبرانی بنا۔ اہلِ سنت کے فردوں نے اور ترکوں نے جب نصیریہ فرقے پر حملے کیے، یہ اس وقت کی بات ہے جب امیر حسن مکزون سنجاری نے اس مذہب کو برباد کرنے کے لیے ترکوں اور کردوں سے مدد مانگی، تب انہوں نے حملے کیے اور اس نصیریہ مذہب کو بنیادوں سے اکھاڑ کر لاذقیہ کے پہاڑوں میں دفن کر دیا، اس کے بعد وقفے سے نصیریہ کے فرقے کے معمولی اکٹھ ہوتے رہے لیکن جماعتی صورت نہ رہی تھی۔ اسے شاعر قمری محمد بن یونس کلاذمی نے انطاکیہ کے قریب منتقل کیا اور علی ماخوص ناصر نصیفی اور یوسف عبید نے منتقل کیا۔ ان کے بعد سلیمان آفندی اضنی ہوا ہے۔ جو 1250ء میں انطاکیہ میں پیدا ہوا ہے۔ جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اس کے بعد نصیریہ مذہب پر الباکورة السلیمانیہ لکھی۔ پھر ایک مشنری کے ہاتھوں عیسائی ہوا اور انہوں نے اسے دھوکے سے بلا کر سرِعام جلا دیا تھا۔ اس کے بعد محمد امین غالب طویل ہوا ہے۔ یہ ان دنوں نصیریہ فرقے کا سربراہ تھا جب سوریا میں فرانس نے قبضہ کیا تھا اس امین نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تاریخ علویین تھا اس میں اس نے اس گمراہ باطنی فرقہ نصیریہ کے بنیادی باتیں بیان کی ہیں۔ 1920ء میں ایک سلیمان احمد ہوا ہے جو علویوں کی حکومت میں ان کے دین و منصب پر فائز رہا ہے۔ اس گمراہ فرقے کا ایک اہم آدمی سلیمان مرشد ہوا، یہ ایک چرواہا تھا۔ فرانسیسی استعماریوں نے اور ایجنڈوں نے جو سوریہ پر قابض ہوئے تھے اس کی پرورش کی اور اسے ربوبیت کا دعویٰ کرنے پر ابھارا۔ اس نے ایک رسول بھی تیار کیا جس کا نام سلیمان میدہ تھا۔ یہ بھی بکریوں کا چرواہا تھا۔ 1946ء میں حکومت نے مطلب نکلوا کر قتل کروا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مجیب آیا اس نے الوہیت کا دعویٰ کر دیا۔ یہ 1951ء میں سوریہ میں وزیرِ زراعت کے ہاتھوں مارا گیا۔ ان میں سے نصیریہ کا فرقہ ماخوسیہ ابھی تک بھی جانور ذبح کرتے وقت اسی مرشد نامی آدمی کا نام پکارتے ہیں۔ (نعوذ باللہ) سلیمان مرشد کا دوسرا بیٹا مغیث تھا۔ اس نے اپنے باپ کے بعد رب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ سوریہ میں نصیریہ فرقے کے علوی خفیہ طور پر اجتماعات کرتے ہیں۔ سوریا کی حکومت میں 1965ء میں ان کا اثر و رسوخ اچھا ہو چکا تھا۔ ان کے ساتھ قومیت پرست اور بے دین بعث پارٹی نے 12مارچ 1971ء میں فوج کشی کر کے نصیریوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے یہ نصیریہ فرقے والے شیعہ سنیت کے پردے میں اپنی خباثت پھیلاتے رہے اور آخر کار جمہوریت سوریہ کے والی بن گئے۔