موجودہ دور میں نصیری شیعوں کی خیانتوں کا ذکر
الشیخ ممدوح الحربیموجودہ دور میں نصیری شیعوں کی خیانتوں کا ذکر
ہمارے موجودہ دور میں نصیری شیعوں نے سنی بے قصور لوگوں کی متعدد بار خونریزی کی، جس کی وجہ سے تاریخ انسانی کی پیشانی عرقِ شرمندگی سے شرابور ہے۔
1) ان قتل گاہوں میں سے ایک خونریزی لبنان کے شہر طرابلس میں نصیریہ کے شیعوں کے ہاتھ 1985ء میں برپا ہوئی۔ نظام نصیری جو کہ سوریا کا شیعہ تھا، اس کو اندیشہ تھا کہ شام کے علاقے میں سنی لوگ بیدار نہ ہو جائیں اور لبنان کے شہر طرابلس میں اکٹھے نہ ہو جائیں۔ اس سوریا کے نصیریہ شیعہ حافظ الاسد نے اپنے کارندوں اور رافضیوں شیعوں میں سے بھی اور عیسائیوں کو جو کہ اس کے معاون تھے اور محلہ بعل حسن کے نصیریوں کو جن کے بدترین تعلقات اسرائیل کے تاجروں کے ساتھ معروف و مشہور تھے اور قومی لبنانی گروہ کو جو عیسائیوں کے آرتھوڈکس فرقہ اور بعث پارٹی کو متعصب شیعوں عاصم قانصول اور عبد الامیر کی قیادت میں شہر طرابلس پر حملہ کرنے کی تحریک دی۔ محلہ بعل حسن کے نصیری اپنی قیادت کے احکام نافذ کرنے لگے، اپنے سے چند میٹر دور اور تیانہ محلے پر انہوں نے آتشی اسلحے کے گولے برسائے، اس شہر کو فتح صرف سوریا کے راستے سے آکر ہی کیا جا سکتا تھا۔ نصیری شیعوں نے اپنی فوجی طاقت کے ذریعے طرابلس کا سخت محاصرہ کر لیا اور نصیری شیعوں کی فوج نے جو کہ تقریباً 4 ہزار کی نفری تھی اس طرح پیش قدمی کی کہ طرابلس کو ہر جانب سے گھیر لیا اور جنگی طیاروں نے طرابلس کی بندر گاہ کا بحری راستہ بھی اپنے حصار میں لے لیا اور نصیری شیعوں نے ٹینکوں پر توپیں باندھ رکھی تھیں اور الکورہ،تریل اور تبان کے علاقے کی حد بندی کر کے طرابلس کے سنی شہر کو فتح کر لیا اور نصیری شیعوں نے اس سنی شہر سے انہیں بے دخل کر کے بیس دن تک اسے اپنا مرکز بنائے رکھا اور میزائل اور توپیں اس پر نصب کر دیں، جس سے طرابلس کی تقریباً آدھی عمارتیں تباہ کر دی گئیں اور اس کی اہم شاہراہوں کو برباد کر دیا گیا۔ شہر کے بری اور بحری مقام پر آگ کے شعلے اٹھنے لگے اور اس کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ طرابلس کے مرسلہ نگاروں نے لکھا تھا کہ طرابلس پر دن کے وقت سیاہ دھوئیں کے بادل چھائے رہتے ہیں یا پھر میزائلوں اور توپوں کی گرج سے گونج رہا ہے اور رات کو اس کا آسمان آگ برساتی توپوں کے آتشی گولوں کی سرخی سے رنگین ہے۔
2) قتل گاہ تل زعتر کی خیمہ بستیوں میں 1976ء میں ہوئی۔ سوریا کے نصیری شیعوں نے عیسائی صلیبیوں کے تعاون سے ایک لشکر تیار کیا جس نے تل زعتر کی فلسطینی خیمہ بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں تقریباً سترہ ہزار فلسطینی رہائش پذیر تھے جو کہ سنی تھے۔ ان نصیری شیعوں کی توپیں خیموں پر گولے برسانے لگیں اور اسرائیلی بحریہ نے سمندر سے ان کا محاصرہ کر لیا اور روشنی والے گولے برسائے اس طرح یہ صلیبی فوجیں ان سنی خیمہ بستیوں میں داخل ہوئیں اور نصیری شیعہ نظام سوری ملحد کے تعاون سے یہ خوفناک خونریزی بر پا ہوئی، جس کے نتیجے میں 6 ہزار سنی فرزند قتل ہوئے اور کئی ہزار زخمی ہوئے۔ خیمہ بستیوں کو مکمل طور پر برباد کر دیا گیا۔
3) قتل گاہ تدمر کا قید خانہ تھا۔ جوان نصیری شیعوں کے ہاتھوں (اللہ انہیں تباہ و برباد کرے) 1980ء میں قتل گاہ بنا۔ حافظ الاسد جو نصیری شیعوں کا سر براہ بھی تھا، اسے اپنے ایک باڈی گارڈ کی طرف سے جو کہ خصوصی سکیورٹی گارڈ تھا اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی کوشش کا معاملہ پیش آیا۔ اس نے یہ ساری ذمہ داری سنیوں پر ڈال دی اور اپنے بھائی رفعت الاسد سے کہا اور جو اس وقت وزیر دفاع تھا اسے بھی کہا اس مجرم پر انتقامی کاروائی کریں اس کی صورت یہ ہے کہ تدمر کی جیل جو کہ صحرا میں ہے اور شام کی علاقے میں سوریا کی مشرقی جانب ہے اور وہاں زیادہ تر قیدی اہلِ خیر اور اہلِ اصلاح تھے، مجرم نہ تھے بلکہ استقامت کا پیکر تھے، انہیں نشانہ بنایا جائے، ان کا قصور یہی تھا جو قرآن پاک نے کہا ہے:
وَمَا نَقَمُوۡا مِنۡهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِۙ الَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدٌ (سورۃ البروج: آیت 8،9)
ترجمہ: اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے۔ جس کے قبضے میں سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
یہی نیک لوگوں کا قصور تھا، جنوری کی 27 تاریخ اور 1980ء کی صبح دفاعی فوج کے تقریباً 200 افراد نصیری شیعہ شیطان رفعت الاسد کی سرکردگی میں ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر تد مرجیل کے قریب اپنے مرکز میں آگئے، وہاں سے انہوں نے سنی قیدیوں پر آتشی گولے برسائے اور آتشی اسلحے کے فائران پر کھول دیے۔ وہ اپنے ذکر و اذکار میں مصروف تھے، آدھے گھنٹے میں وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
اس کے بعد ان کی نعشوں کو بڑی بڑی کرینوں سے اٹھا کر گڑھوں میں پھینک دیا گیا جو پہلے ہی تد مرجیل کی مشرقی جانب منصوبہ بندی کے تحت تیار کر لیے گئے تھے۔ اس کے بعد نصیری شیعہ دمشق میں اپنے ٹھکانوں کی طرف آرہے تھے اور ان کے لباس سنیوں کے معصوم خون سے رنگین تھے اور اس پر انہیں اس ظلم کرنے کی وجہ سے مالی انعام کی صورت میں اس کا صلہ دیا گیا۔ اس قتل گاہ میں 700 مسلمان نوجوانوں کو قتل کیا گیا جو بہت بڑی اعلیٰ ڈگریوں کے حامل تھے۔ (لاحول ولا قوة الا بالله )
حقوق انسانی کی کمیٹی جو کہ اقوام متحدہ کے ماتحت ہے اس نے اس ہیبت ناک خونریزی پر جنیف شہر میں اپنے 37 ویں دورہ پر سخت تنقید کی تھی اور اس کمیٹی نے 1981-3-4 میں یہ دستاویز کمیٹی کے دیگر ارکان کے درمیان تقسیم کی۔
4) ایک ہنانو کی قتل گاہ ہے حلب شہر میں نصیری شیعوں کے ہاتھوں 1985ء میں برپا ہوئی۔ عید الفطر کی مبارک صبح تھی۔ نصیری شیعوں نے مشرقی علاقہ کے رہائشیوں کو ایک جگہ پر جمع ہونے پر مجبور کر دیا کوئی اپنے گھروں سے نکل رہا تھا کوئی دکان سے آرہا تھا انہوں نے نمازیوں کو مسجدوں میں نہ جانے دیا انہوں نے ہنانو کے قبرستان میں جمع کر کے آتشیں اسلحہ کے فائر کھول دیے اور زخمیوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا، اس قتل گاہ میں قربان ہونے والوں کی تعداد تقریباً (83) تھی۔
5) قتل گاہ شغور کا پل ہے 1980ء میں نصیری شیعوں کی خاص قوتوں نے اس کا محاصرہ کر لیا (16) ٹینکوں نے اس پل پر حملہ کیا۔ یہ پل ادلب کے شمال میں ہے اور اپنی توپوں کے منہ انہوں نے سنیوں کے گھروں کی طرف موڑ لیے جس میں (20) گھر (50) دکانیں تباہ ہوئیں اور 100 شہید کر دیے اور سینکڑوں سنی لوگوں کو قید کر لیا۔ اس قتل گاہ میں تین دن تک خونریزی جاری رکھی گئی جس میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بے دردی سے کاٹا گیا۔ اس جانکاہ حادثہ سے بچنے والوں نے بتایا کہ ایک چھوٹا سا بچہ جس کی عمر چھ ماہ سے زیادہ نہ ہوگی اس کی ماں کی سامنے اس معصوم کو دو لخت کر دیا گیا ماں یہ صدمه برداشت نہ کر سکی فورا اس صدمہ سے فوت ہو گئی۔
6) 1980ء میں نصیری شیعوں کی فوج کے زیر اثر گشتی عورتوں نے با پردہ سنی خواتین پر یہ ظلم ڈھایا کہ ان کے نقاب سر عام سڑکوں پر ان کے سروں سے اتار لیے۔ اخبار سویسریہ لومیرم رونویستہ اپنے 17:10:1989 کے شمارے میں لکھتا ہے کہ:
سوریا میں پردہ نشین خواتین کے سر سے نقاب نوچنے کا عمل اتنا بڑا ظلم ہے کہ حافظ الاسد نے یہ اسلام کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔