Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حماۃ کی قتل گاہ

  الشیخ ممدوح الحربی

حماۃ کی قتل گاہ

اس خوفناک قتل گاہ نے اس وقت سارے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 1982ء میں رفعت اسد نے احکامات جاری کیے کہ نصیری شیعہ اپنی تمام فوجیں یکجا کر لیں اور خاص تربیت یافتہ افراد بھی اکٹھے ہوں اور جو بھی لبنان اور جولان کے علاقہ میں نصیری شیعہ ہیں وہ سب آجائیں۔ اس کے بعد حماة جو سنی مسلمانوں کا شہر تھا اپنے فوجیوں کو لے کر اس نے اس کا محاصرہ کیا۔ مختلف یونٹوں سے یہ لشکر ترتیب پایا تھا۔ اور جدید اسلحہ سے لیس تھا اور ٹینک شکن جدید ترین توپیں بھی ان کے پاس تھیں ان یونٹوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچی تھی جو کہ شیعوں کے تعداد کا 95 فیصد حصہ تھا اس لشکر کو سوریا کی فوج کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ حماة شہر کا محاصرہ ہوا، سوریا کی شیعہ کی تربیت یافتہ فوج نے اس سنی شہر کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور ساتھ ہی پیدل فوج توپیں اور اسلحہ اٹھائے ہوئے تھی، جس کی وجہ سے اس شہر کا سوریا کے دوسرے شہروں سے رابطہ منقطع ہو گیا اس تک پہنچنے والے تمام راستے بند کر دیئے۔ پانی اور بجلی کی سپلائی معطل کردی اور فرسٹ ایڈ اور غذائی ضروریات بھی روک لیں۔ اس کے بعد فروری 1982ء میں اس نے اشارہ دے دیا کہ نصیری شیعہ اس شہر کو جو دوسرے شہروں سے تنہاء رہ گیا ہے اس میں تباہ کن اسلحہ سے توڑ کر رکھ دو اور واقعتاً انہوں نے اس مرکزی شہر کو ایسا بر باد کیا کہ آج تک درست نہیں ہو سکا۔ انہوں نے اس شہر کی آبادی میں داخل ہوکر عمارتوں کو گرا دیا اور باسیوں کو قتل کیا، عمارتوں کو منہدم کر دیا اس کاروائی میں وزیر نصیری شیعہ شفیق فیاض کی رجمنٹ نے اور دس ہزار افراد نے رفعت اسد کے تحت اور تین ہزار سلیمان حسن کی قیادت میں افراد شریک تھے۔ اور علاوہ ازیں علی دیب شیعہ اور عدنان اسد کے ماتحت افراد نے بھی اس اکھاڑ پچھاڑ میں حصہ لیا۔اس شہر حماۃ میں بھاری توپ خانے اور بکتر بند گاڑیوں نے حصہ لیا اور کندھے پر رکھ کر چلائی جانے والی مشین گنیں، آر۔ پی۔ جی اور جنگی ڈرون جہاز اور ہیلی کاپٹر، روشنی کے گولے اور آتشیں گولیاں استعمال کیے تھے۔ اس کی 88 مساجد مکمل طور پر گرادی گئیں 21 بازار بر باد ہوئے۔ سینکڑوں تجارتی مراکز اور دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ 7 قبرستان مہندم کر دیے گئے۔ اور 13 محلوں کو مکمل طور پر ملیا میٹ کر دیا گیا اور 27 خاندانوں کے افراد کا کلی طور پر صفایا کر دیا گیا۔ ایک بھی فرد باقی نہ چھوڑا، گیلانی خاندان کے (280) افراد تہہ تیغ کیے گئے۔ اور 11 قید خانے کھولے گئے جہاں مسلمانوں کو پایہ زنجیر کیا گیا اس طرح سنی نوجوانوں کا صفایا کر دیا گیا۔ یہ ایک بہت ہی گھناؤنا جرم ہے۔ نصیری شیعہ نے اس میں 40000 سے او پر سنی مسلمان قتل کیے اور 15000 افراد قید کیے۔ جن میں بعض ابھی تک لاپتہ ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں سوریا کے دوسرے شہروں اور قریبی عرب ملکوں میں نقل مکانی کر گئے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس شہر کا تہائی حصہ مکمل طور پر برباد کر دیا گیا اور مالی خسارے کا اندازہ 550 ملین ڈالر جو کہ اربوں روپے ہے لگایا گیا ہے۔ اس قیامت خیز تباہی میں نصیری شیعوں کا بنیادی کردار ہے۔