دروزی شیعہ کا تعارف اور دروز شیعوں کے اہم اشخاص
الشیخ ممدوح الحربیدروزی شیعہ کا تعارف
دروز شیعوں کا ایک باطنی فرقہ ہے۔ یہ فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ کو الٰہ قرار دیتے ہیں۔ انہیں نشتکین درزی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
یہ فرقہ مصر میں وجود پذیر ہوا تھا کچھ وقفے بعد یہ شام منتقل ہو گئے۔ ان کا عقیدہ متعدد ادیان اور مختلف افکار کا آمیزہ ہے۔ یہ بھی اپنے افکار پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اسے لوگوں کے درمیان نہیں پھیلاتے حتٰی کہ یہ اپنے بیٹوں کو بھی نہیں بتاتے صرف اس وقت بتاتے ہیں جب ان کے بیٹے 40 برس کے ہو جاتے ہیں۔
دروز شیعوں کے اہم اشخاص
1) دروزی شخص فاطمی خلیفہ ہے۔ اس کا پورا نام ابو منصور ابنِ عزیز باللہ بن المعز الدین اللہ الفاطمی ہے۔اس کا لقب حاکم بامر اللہ تھا۔ یہ دروزی عقیدہ کا مرکز و محور ہے۔ 375ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اور 411ھ میں قتل ہوا دروزی شیعوں کا اس کے بارے میں عقیدہ ہے کہ الٰہ نے اس کے جسم کا روپ دھارا ہے۔ یہ منفرد سوچ کا مالک تھا۔ اور اس کے افکار اور چلن بھی علیحدہ ہی تھے۔ یہ نہایت ہی سنگدل تھا اور تناقض و تضاد کا مجموعہ تھا۔ لوگوں سے بہت کینہ رکھتا تھا۔ بغیر وجہ ہی سزائیں دیتا اور مروا دیتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق کہا ہے:
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞ (سورة قصص: آیت 4)
ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی، اور اس نے وہاں کے باشندوں کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کردیا تھا جن میں سے ایک گروہ کو اس نے اتنا دبا کر رکھا ہوا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا۔ اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فساد پھیلایا کرتے ہیں۔
اس کے کام بتاتے ہیں کہ یہ نفسیاتی مریض تھا۔ یہ مرض اس کی زندگی پر حاوی رہا ہے۔ اس نے 395ھ میں یہ حکم جاری کیا کہ جامعات اور مساجد میں سیدنا ابوبکرؓ ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ پر سبِّ وشتم کریں پھر 397ھ میں اس حکم کو ختم کر دیا۔ اس نے کتوں کو مارنے کا بھی حکم دیا تھا۔ اور انگور کی خرید و فروخت روک دی تھی۔ اور جو اس کے حکم کے خلاف ورزی کرتا تھا اسے قتل کروا دیتا تھا۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں ان میں امام سیوطیؒ بھی ہیں کہ: حاکم بامر اللہ نے رعیت کو حکم دیا کہ جب خطیب خطبہ میں میرا ذکر کرے تو میرے نام کے ذکر کی وجہ سے حاضرین اس کی تعظیم کے لیے اور احترام میں صفیں باندھ کر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر بیٹھ جائیں یہ اس کی ساری سلطنت میں کیا جاتا تھا حتٰی کہ حرم شریف میں بھی ایسا ہوتا تھا اہلِ مصر تو سجدے میں پڑ جاتے تھے۔ بازاروں میں سجدہ ہوتا تھا یہ حاکم بامر اللہ بڑا ہی عناد پرور اور سرکش شیطان تھا۔ اپنے اقوال و افعال میں متلون مزاج تھا۔ اس کی حالت قرآن میں یہ تھی۔
وَاِذۡ يَتَحَآجُّوۡنَ فِى النَّارِ فَيَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُنَّا لَـكُمۡ تَبَعًا فَهَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا نَصِيۡبًا مِّنَ النَّارِ ۞ قَالَ الَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُلٌّ فِيۡهَاۤ ۙاِنَّ اللّٰهَ قَدۡ حَكَمَ بَيۡنَ الۡعِبَادِ (سورۃ الغافر: آیت 47-48)
ترجمہ: اور اس وقت (کا دھیان رکھو) جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے، چنانچہ جو (دنیا میں) کمزور تھے وہ ان لوگوں سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے لوگ تھے تو کیا تم آگ کا کچھ حصہ ہمارے بدلے خود لے لو گے۔ وہ جو بڑے بنے ہوئے تھے کہیں گے کہ ہم سب ہی اس دوزخ میں ہیں اللہ تمام بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔
یہ ایک سیاہ گدھے پر بازاروں میں چکر لگاتا تھا۔ جسے پاتا اس نے معیشت میں دھوکہ کیا ہے تو ایک سیاہ حبشی غلام کو اس کے پاس بھیجتا اسے مسعود کہا جاتا تھا وہ سزا کے طور پر اس کے ساتھ بد فعلی کرتا۔ اس نے دس سال تک نمازِ تراویح سے روکے رکھا۔ پھر اس کی اجازت دے دی۔ یہ بات نہایت ہی عجیب و غریب ہے کہ یہ دروزی شیعہ جو بھی اس حاکم سے جاری ہوا ہے یہ اس کی صحت پر اعتماد رکھتے ہیں اور اس کے الٰہ ہونے کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اس سے جو بھی سرزد ہوا ہے وہ رمز و اشارہ ہے اس کے پوشیدہ مقاصد ہیں عوام کی سمجھ سے یہ بالا تر ہیں۔ ہم یہی کہیں گے:
هٰۤاَنۡتُمۡ هٰٓؤُلَۤاءِ جَادَلۡـتُمۡ عَنۡهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فَمَنۡ يُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنۡهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَمۡ مَّنۡ يَّكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ وَكِيۡلًا (سورة النساء: آیت 109)
ترجمہ: ارے تمہاری بساط یہی تو ہے کہ تم نے دنیوی زندگی میں لوگوں سے جھگڑ کر ان (خیانت کرنے والوں) کی حمایت کرلی۔ بھلا اس کے بعد قیامت کے دن اللہ سے جھگڑ کر کون ان کی حمایت کرے گا، یا کون ان کا وکیل بنے گا؟
اس ظالم حاکم کی زندگی کی انتہاء نہایت درجہ پوشیدہ رہی ہے یہ اچانک رعایا سے چھپ گیا۔ ایک قول ہے کہ مصر میں بادشاہ جبلِ مقطم کی چوٹی پر چکر لگایا کرتا تھا اس کی بہن نے دھکا دے کر اسے قتل کردیا۔
2) دروزی شیعوں کا حمزہ بن علی زوزنی ہے اس گمراہ عقیدہ کا یہ بانی شمار ہوتا ہے۔ اس نے 408ھ میں اعلان کیا تھا کہ حاکم بامر اللہ میں اللہ کی روح اتر آئی ہے۔ اس نے لوگوں کو اس عقیدے کی دعوت دی اور اس دروزی خبیث عقیدے کی تائید میں کتابیں لکھی تھیں۔
3) دروزی افراد میں سے محمد بن اسماعیل درزی ہے ۔ یہ نشتکین کے نام سے معروف ہے اس عقیدے کی بنیاد رکھتے وقت یہ بھی حمزہ بن علی کے ساتھ تھا کہ حاکم میں اللہ اتر آیا ہے۔ مگر اس نے اس نظریے کا اعلان 407ھ میں جلدی کر دیا۔ جس کی وجہ سے حمزہ اس پر غضبناک ہوا اور لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا دیا یہ شام کی طرف بھاگا اور وہاں اپنے گمراہ کن نظریات کا پرچار کرنے لگا۔
4) حسین بن حیدرہ فرغانی ہے یہ اخرم یا اجذع کے نام سے مشہور تھا۔ یہ حمزہ کے نظریے کی لوگوں کے درمیان بشارت دیتا رہا تھا۔
5) بہاؤ الدین ابو حسن علی بن احمد سموقی جو الضیف کے نام سے مشہور ہے اس نے نہایت مؤثر انداز پر عقیدۀ دروزیہ پھیلایا ہے اس نے اس کی نشر و اشاعت کے لیے رسالے بھی لکھے ان میں التنبیہ والتأنیب والتوبیخ ہے اور ایک رسالہ تہجین اور تعنیف ہے۔ اس نے دروزی شیعہ مذہب کے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے اسے یہ طمع تھا کہ اس نے اور حمزہ زوزنی جو اصول وضع کیے ہیں بس وہی باقی رہیں گے۔
6) شخص کمال جنبلاط ہے۔ یہ اس زمانے کے لیڈروں میں سے ہے۔ یہ لبنان کا سیاسی لیڈر تھا اس نے ضربِ اشتراکی تنظیم بنائی۔ 1977ء میں مارا گیا۔
7) وليد جنبلاط یہ کمال کا بیٹا ہے یہ دروزی فرقہ کا موجودہ سربراہ ہے۔ یہ ضربِ اشتراکی کا قائد بھی ہے اور دروزی عوام پر اپنے باپ کا خلیفہ ہے۔
8) اس دور میں ڈاکٹر نجیب عسراوی بھی ہے۔ یہ لبنان میں درزیہ فرقہ کا سیکرٹری جنرل ہے عدنان بشیر رشید بھی ان کا لیڈر ہے۔ یہ آسٹریلیا میں ان کا جنرل سیکرٹری ہے اور سامی مکارم بھی ان کا موجود لیڈر ہے۔ اس نے کمال جنبلاط کے ساتھ مل کر دروزیہ عقیدہ کی تائید میں کتابیں تالیف کی ہیں۔