دروزی کتابوں کا تذکرہ اور دروزیوں کی عبادت اور ان کے اذکار
الشیخ ممدوح الحربیدروزی کتابوں کا تذکرہ:
دروزی شیعوں کا ایک مصحف ہے جس کا نام المنفرد بذاتہ ہے۔ اس مصحف میں انہوں نے اسلامی احکام کا مذاق اڑایا ہے۔ ان کے نزدیک عرف قرآنی سورت کی طرح ہے۔ عرف صلوات الشرائع میں کہتے ہیں۔
اے توحید پرستو! اپنا بچاؤ اختیار کرو جو ظالم اپنے بتوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ وہ تمہیں اپنے عقائدِ باطلہ اور دین کی طرف لوٹائیں اور ان کی آرزو ہے جو خیر اور حق ہے اسے ادنیٰ چیز کے ساتھ بدل دیں۔
ان کی نماز میں رکوع اور سجود ہوتا ہے جو جسم کا ہے اور ظاہری سجدہ ہے۔ انہوں نے کتاب کو ریاکاری بنا رکھا ہے اس کے ساتھ یہ مؤحدین کے نیکوکار حاکم کو جو اللہ ہے دھوکہ دیتے ہیں۔ نہیں وہ دھوکہ دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں اس کا علم بھی ہے اشارہ مسلمان سنّیوں کی طرف ہے یہ اپنے مصحف میں مسجدِ حرام کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ اپنے عرف حقیقة الصلاة والایمان میں بیان کرتے ہیں۔
ان سے کہو ایمان صرف یہی نہیں کہ اپنے چہرے مسجدِ حرام کی طرف کرو جو کہ بتوں کا گھر ہے یا مشرق یا مغرب کی طرف کرو یا میدان کی طرف کرو جو کہ گناہوں کا پہاڑ ہے۔ اور بتوں کا پہاڑ ہے یا جہالت کے رستے کی اتباع ہے ایمان اور توحید اس میں ہے جو ہمارے مولا حاکم کے ساتھ ایمان لایا ہو جو کہ رب و الٰہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
دروزی شیعوں کے مذہب میں لکھا ہے روزِ قیامت حاکم بامر اللہ فاطمی لوٹ کر آئے گا۔ یہ الامر والتقدیم عرف میں بیان کرتے ہیں:
تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو انہیں اوندھا گرایا جائے گا جس دن تمہارا مولا حاکم تمہیں دور سے پکارے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو اسی عذاب کے دن میں پڑو تم یہاں ہمیشہ رہو کوئی راہِ فرار نہیں۔ اے گمراہو! عناد رکھنے والو بتاؤ کیا تمہارے پاس حاکم بامر اللہ آئے گا اس کے سوا اور کوئی رب نہیں اگر تم سچے تو مجھے بتاؤ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ يَكۡتُبُوۡنَ الۡكِتٰبَ بِاَيۡدِيۡهِمۡ ثُمَّ يَقُوۡلُوۡنَ هٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ لِيَشۡتَرُوۡا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيۡلًا ؕ فَوَيۡلٌ لَّهُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ وَوَيۡلٌ لَّهُمۡ مِّمَّا يَكۡسِبُوۡنَ (سورة البقره: آیت 79)
ترجمہ: لہٰذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔
یہی حال شیعوں کے مصحف کا ہے۔
یہ ان لوگوں کو وعید دیتے ہیں جو حاکم بامر اللہ کو جانتے تک نہیں اور نہ ہی اس کی اطاعت سے مطلع ہیں مگر یہ انہیں سخت عذاب کی ڈانٹ پلا رہے ہیں۔
ان کے اسی مصحف میں لکھا ہے:
تم میں سے کوئی ایک آگ کے جوتے پہن لے جن سے اس کا دماغ جوش مارے گا یہ اس کے عذاب سے آسان تر ہے جو مولا حاکم کی دعوت کو قبول نہ کرنے والے کو ہوگا ہدایت واضح ہونے کے باوجود اگر اسے قبول نہ کر لے تو اگر روئے زمین کے سارے لوگ بھی اس کے لیے استغفار کریں ان کا مولیٰ حاکم صمد و احد ان کی خطاؤں کو کبھی معاف نہ کرے گا اور زمین بھر کر فدیہ دے تو اسے نجات نہ دلائے گا۔
دروزی شیعوں کے رسائل مقدسہ بھی ہیں، جنہیں یہ رسائلِ حکمت کا نام دیتے ہیں، ان کی تعداد 111 ہے یہ ان کے امام ثانی حمزہ بن علی زوزنی اور ان کے امام بہاء الدین اور تمیمی کی تالیف ہیں ان کی کتاب کا نام میثاق ولی الزمان ہے جسے حمزہ زوزنی نے لکھا ہے، یہی وہ کتاب ہے جسے دروزی فرقہ میں داخل ہونے والے سے خفیہ عقیدہ کا عہد لیا جاتا ہے، ان کی ایک کتاب کا نام النقص الخفی ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں ان کے امام حمزہ نے تمام احکامِ شریعت کو توڑ کر رکھ دیا ہے خصوصاً اسلام کے ارکان عقائد کثرت سے بیان ہوئے ہیں، یہ برازیل سے 1920ء میں منیر لبابیدی کی نگرانی میں طبع ہوئی تھی۔
دروزیوں کی عبادت اور ان کے اذکار
اپنی ہر بستی میں یہ مجلسِ ذکر قائم کرتے ہیں۔ یہ نہایت ہی خلوت میں ہوتی ہے اور بستی والوں کی بہت زیادہ تعداد یہاں حاضر ہوتی ہے۔ جس عمارت میں یہ مجلس منعقد ہوتی ہے اسے مجلسِ حمزہ کہتے ہیں۔ یہ بہت بڑے کمرے میں ہوتی ہے۔ اس کے درمیان میں ایک میز ہوتی ہے جس کی اونچائی تقریبا 70 انچ ہوتی ہے اس پر موٹی سی چادر ڈالتے ہیں جو ڈیڑھ میٹر ہوتی ہے اس طرح یہ کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک حصے میں مرد ہوتے ہیں اور دوسرے حصے میں خواتین ہوتی ہیں اور ہر حصے کا الگ دروازہ اور کھڑکی ہوتی ہے۔ ان کا امام بیٹھتا ہے۔ جسے یہ بستی کا شیخ العقل کہتے ہیں یہ صدرِ مجلس ہوتا ہے اور یہ اپنی کمر اس میز کی طرف کر لیتا ہے دیگر شیوخ اس کے دائیں بائیں غیر مرتب طریقے سے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ وعظ شروع کرتا ہے اس میں کہانیاں اور صوفیانہ واقعات سناتا ہے۔ اس کے بعد شیخ العقل بیٹھ جاتا ہے یہ سب مرد و خواتین کھڑے رہتے ہیں اور بیک آواز کہتے ہیں یاسمیع یاسمیع اے سننے والے اس طرح کہہ کر سید امیر عبداللہ تنوخی کا احترام کیا جاتا ہے۔ یہ اسے پکارتے ہیں اس کے بعد بیٹھ جاتے ہیں اور دروزی جہال تو لحظہ بھر میں چلے جاتے ہیں عقال درجہ کے مرد اور خواتین باقی رہ جاتے ہیں، اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ شیخ پڑھتا ہے یا وہ کسی دوسرے شیخ کو پڑھنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ دروزی رسالہ پڑھتا ہے قرأت کے ختم ہونے پر اکٹھے کھڑے ہو کر پھر پکارتے ہیں یاسمیع یاسمیع اس کے بعد شیخ العقل دوسرے شیوخ کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے تفضلوا تشریف رکھیں پھر اجتماعی قرأت کرتے ہیں اور میثاق ولی الزمان کتاب سے ابتداء کرتے ہیں پھر دیگر دروزی رسائل پڑھتے ہیں وہاں یہ جملہ ہے:
هو الحاكم المولىٰ بنا سوته يرى
حاکم ہی مولا ہے اپنے ناسوت (انسانی جسم) میں نظر آرہا ہے۔
اس کی تلاوت کے وقت اپنے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور نہایت ہی گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں ان دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے ہیں۔