Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اسماعیلیوں کا تعارف اور اسماعیلی شیعوں کے فرقے

  الشیخ ممدوح الحربی

اسماعیلیوں کا تعارف

اسماعیلی ایک باطنی فرقہ ہے یہ امام اسماعیل بن جعفر صادقؒ کی طرف منسوب ہے یہ ظاہر میں تو آلِ بیت کے شیعہ نظر آتے ہیں درحقیقت یہ اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں صدیاں بیت گئیں اس کے باوجود یہ ہمارے زمانے تک پائے جاتے ہیں اسماعیلیوں سے ہی اثناء عشری امامیوں کے شیعے نکلے ہیں 148ھ بے سیدنا جعفرؒ کی وفات کے بعد اسماعیلیوں نے سیدنا موسی کاظمؒ جو کہ شیعوں کے نزدیک ساتواں امام ہے ان اسماعیلوں نے اسے تسلیم نہ کیا تھا اور امامت اسماعیل بن جعفرؒ کی طرف منتقل کر دی علماء کرام نے اسماعیل کی حالت دو لفظوں میں یہ بیان کی ہے:

دعاتھم زنادقتہ و عوامھم رافضتہ۔

ان کے داعی زندیق و بے دین ہیں اور ان کی عوام رافضی شیعہ ہیں۔

اسماعیلی شیعوں کے فرقے

(1)۔ قرامطہ اسماعیلی: یہ شام اور بحرین میں ظاہر ہوئے تھے انہوں نے امام اسماعیل کی اطاعت سے انکار کر دیا تھا اس کے مال لوٹ لیے سامان لوٹ لیا یہ امام اسماعیلی وہاں سے بھاگ اٹھا سلیمہ سے سوریا چلا گیا

ان کی پکڑ سے بچنے کے لیے "ماوراءالنہر" کے شہروں میں چلا گیا اسماعیلی قرامطہ کی شخصیات میں سے عبداللہ بن میمون قداح ہیں جو جنوبِ فارس میں 260ھ میں نمودار ہوا اور ایک فرج بن عثمان قاشانی جو "ذکرویہ" کے نام سے معروف ہے یہ عراق میں نمودار ہوا تھا اس نے چھپے ہوئے غائب امام کی دعوت دی اور ایک حمدان فرمط ابن الاشعث اور ایک احمد بن قاسم ہے جو تاجروں اور سنی حاجیوں کے قافلے لوٹ لیا کرتا تھا ایک حسن بن بہرام ہے جو کہ ابو سعید جنابی کے نام سے معروف تھا جو بحرین میں نمودار ہوا یہ حکومت قرامطہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کا بیٹا خبیث سلیمان بن حسن بن بہرام ہے اس خبیث نے تیس برس تک حکومت کی اس کے عہد میں کعبہ مشرفہ پر حملہ ہوا بہت سارے حاجی لوگ مارے گئے حجراسود کو چرا لیا گیا اور اس سےبیس برس تک اپنے پاس رکھا۔

اسماعیلیوں کے انوکھے کام:

قرامطہ اسماعیلی ایک خطرناک کھیل کھیلتے ہیں وہ یہ ہے کہ مال اور شرمگاہیں سب جائز ہیں سب سے پہلے یہ کام حمدان قرمطی نے کیا اس نے اپنے پیروکاروں سے کہا الفت پیدا کرو اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے مال ایک جگہ جمع کریں اور اس میں سب برابر ہیں حمدان جب قابض ہوا تو اس نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ فلاں رات عورتوں کو جمع کرو مرد و زن کا اختلاط ہو اور ایک دوسرے پر سواری کریں ابو سعید جنابی نے بھی بحرین کی حکومت میں اپنے پیروکاروں کو جمع کیا اور اس رات کا نام" افاضہ" رکھا اور چراغ بجھا دیے آگے عورت حلال ہے یا اس پر حرام ہے یہ تمیز کون کرتا ہے یہ ساری رات جنسیت کا بازار گرم رہا بلکہ اسماعیلیوں کے نزدیک ایمان کامل اس طرح ہوتا ہے جب کوئی تشریق کرے تشریق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے پاس دوسرے آدمی کو بھیجے وہ اس سے ہمبستری کرے اور اس کا خاوند موجود ہو اور وہ دیکھ رہا ہو پھر جب وہ باہر نکلے تو اس کے چہرے پر تھوکے اور اس کی گدی تھپ تھپا کر یہ زنا کرنے اس عورت کے خاوند سے کہے "صبر کر" جب یہ صبر کرے گا تو اب یہ کامل ایمان والا ہے اور اس عورت کا نام صابرہ رکھتے ہیں۔

تاریخ نولیس بیان کرتے ہیں کہ ابو سعید جناب نے اپنی بیوی کو یحییٰ مہدی پر داخل کیا اور بیوی سے کہا: جب یہ تجھ سے بدکاری کرنا چاہے تو اسے مت روکنا اس کے بعد معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے لیے قومِ لوط کا عمل جائز قرار دے دیا اور اس لڑکے کو واجب القتل قرار دیا جو اس بدفعلی سے روکے علی بن فضل نے اپنی اسماعیلی پیروکاروں کے لیے"افاضہ" کی رات جاری کی تھی اپنے قرامطہ پیروکاروں مردوں اور عورتوں کو رات ایک وسیع گھر میں جمع کرتا پھر روشنی بجھانے کا حکم دیتا اور جس کے ہاتھ جو عورت لگ جاتی وہ اس پر واقع ہو جاتا۔ (نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات

(2)۔ فاطمی اسماعیلی: یہ اسماعیلی تحریک تھی جو متعدد ادوار سے گزری تھی ایک دور رازداری کا تھا یہ اسماعیل بن جعفر کی موت کے بعد ہی شروع ہوئی تھی اس کی موت 143ھ میں ہوئی تھی اور عبید اللہ مہدی کے دور تک اسی طرح رہی اس وقفہ کے دوران جو ان کے امام ہیں ان کے ناموں کے بارے میں اختلاف کی یہ وجہ ہے کہ یہ پوشیدہ رہے ہیں اس کے بعد ان کےظہور کا دور ہے یہ عبید اللہ مہدی کے وقت ظاہر ہوئی یہ سلمیہ میں مقیم تھا وہاں سے بھاگ کر شمالی افریقہ میں گیا اور وہاں اپنے کتامی معاونین پر اس نے اعتماد کیا وہاں افریقہ میں"تونس" شہر میں اس نے اسماعیلی فاطمیوں کی حکومت کی بنیاد رکھی اور رقادہ پر 297ھ میں غلبہ حاصل کیا اور اس کے بعد پھر پے در پے فاطمی وجود میں آتے رہیں ہیں۔

1۔ منصور باللہ ابو طاہر اسماعیل 2۔ معزالدین باللہ ابو تمیم معد مصر اسی کے عہد میں فتح ہوا تھا 361ھ میں ہی معزرمضان میں اس کی طرف منتقل ہوا تھا۔

3۔ عزیز باللہ ابومنصور نزار 4۔ حاکم بامر اللہ ابوعلی منصور 5۔ مستنصر باللہ ابو تمیم اسماعیلی فاطمیوں کی حکومت چلتی رہی مصر حجاز یمن میں انہوں نے حکمرانی کی یہاں تک کہ ان کی سلطنت کا زوال بطلِ حریت مجاہد اعظم صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں ہوا۔

(3)۔ اسماعیلی حشاشی فرقہ:

یہ نزاری اسماعیلی ہیں شام فارس وغیرہ میں پائے جاتے ہیں ان کے ہاں نامور شخص حسن بن صلاح ہے جو اصل میں فارسی تھا یہ ولایت کا دین رکھتا تھا کہ امام مستنصر ہی ولایت کا حقدار ہے "المج" قلعہ پر قابض ہوا اور اس نے نزاری اسماعیلیوں کی بنیاد رکھی جو بعد میں حشاشین کے نام سے مشہور ہوئے کیونکہ یہ ہیروئن کے سگرٹ پینے میں بہت آگے بڑھ گئے تھے اس لیے انہیں حشاشین کا لقب دیا گیا ان میں نمایاں آدمی کیابزرگ امیت بھی ہے محمد بن کیابزرگ بھی ہے حسن ثانی بن محمد بھی ہے اور محمد بن ثانی ہیں حسن بھی حسن ثالث بن محمد ثانی محمد ثالث بن حسن ثالث رکن الدین خورشید وغیرہ مشہور لوگ ہیں جو حشاشین اسماعیلی گروہ میں ہوئے ہیں ہلاکو خان نے ان کی سلطنت ختم کر دی اور ان کے قلعے مسمار کردئیے رکن الدین قتل ہوا یہ حشاشین اسماعیلی مختلف علاقوں میں بکھر گئے ہیں تاہم ان کے پیروکار اب تک ہیں ۔

(4)۔ اسماعیلی فرقہ بہرہ: یہ ہندوستان اور یمن کے اسماعیلی ہیں انہوں نے سیاست بالکل چھوڑ رکھی ہے تجارت کرتے ہیں یہ ان ہندوستانیوں سے مل کر رہتے ہیں جو مسلمان ہوئے ہیں بہرہ ہندی زبان کا قدیم لفظ ہے اس کا معنیٰ تاج ہے بہرہ فرقہ والے دو ناموں میں تقسیم ہیں۔1۔ بہرہ سلیمانی ہےان کی نسبت سلمان بن حسن کی طرف ہے ان کا مرکز یمن میں ہے بہرہ اسماعیلیوں کا موجودہ بڑا لیڈر جس کا نام ڈاکٹر محمد بن برھان الدین ہے جسے یہ بہت مقدس گردانتے ہیں اور اسے سجدہ کرتے ہیں اس کے قدم چومتے ہیں اس کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ آج کل بادشاہوں اور رئیسوں کی زندگی گزار رہا ہے اس کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور اس کے فرقہ کے ماننے والے تنگدستی محرومی اور فقر کی زندگی گزارتے ہیں یہ لیڈر اپنی پیروکاروں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتا اور ان سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے ایک آقا اپنے غلام سے پیش آتا ہے اس کے فرقہ کا ہر چودہ برس کا لڑکا اس کا مطیع اور خادم بن جاتا ہے قریب زمانہ کا ایک حادثہ ہوا ہے جس سے بہریوں کے لیڈر کی سنگدلی نمایاں ہوتی ہیں اور انہیں حقوق انسانی سے کتنا دور لے کر مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ 1977ء میں ایک اسماعیلی فرقہ کی عورت فوت ہوئی اس کی عمر 65 سال تھی اسے سرکارابی بھی کہتےتھے یہ چمن آذر شہر میں تھی جو گجرات انڈیا کے علاقہ میں واقع ہے اسماعیلی امام نے اسے دفن کرنے سے روک دیا وجہ یہ تھی کہ اس کے خاوند نے جس کی عمر 73 برس تھی اپنے امام کی بات نہ مانی تھی اب مرکزی پارلیمنٹ کے ارکان دہلی میں جمع ہوئے انہوں نے اجازت لے کر دفن کرنے کی اجازت دی اب اس کا جسم بدبو مار رہا تھا وہ بھی مشروط اجازت دی کہ صرف اس کا خاوند اولاد قریبی ہی اس میں شامل ہوں گے اور بغیر نماز جنازہ بغیر کفن اسے دفن کریں گے اس ظلم پر بھی کسی کی جرات نہیں کہ احتجاج کر سکے یا کچھ کہ سکے۔

ایک دفعہ اسماعیلی بہریوں کا لیڈر خلیج ریاستوں میں گیا وہاں اجتماعات کیے لیکچر دیے اور لمبا چوڑا مال جمع کیا اور انہیں برکات اور مغفرتوں کی نوید سنائی یہی اسماعیلی بہرہ کا لیڈر محمد برہان الدین جو ہے اسے خالص چاندی سے تیار شدہ محل ہدیہ دیا گیا جس میں خالص سونے سے آیات نقش تھیں یہ اس قبر کی طرف لے کر جاتا تھا جو سیدہ زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہ کی طرف مصر میں منسوب ہے بھی تھی یہ محل ہر طرح کے نقشوں اور نگار کا نمونہ تھا اور یہ میدانِ سیدہ میں لایا گیا جو کہ قاہرہ میں ہے تین لوڈروں پر اسے لاد کر لایا گیا۔

(5) اسماعیلی فرقہ آغاخانی ہے: یہ فرقہ ایران میں 1900ءمیں نمودار ہوا ان کا پہلا سربراہ حسن علی شاہ ہوا ہے اس کے بعد آغا خانی علی شاہ ہوا ہے یہ آغا خان ثانی تھا اس کے بعد اس کا بیٹا محمد حسینی ہے یہ آغا خان ثالث ہے یہ یورپ میں دادعیش دیتا رہا تھا اس کے بعد کریم خان آیا جو کہ آغا خان رابع ہے اب تک یہی ان کا سربراہ چلا آرہا ہے یہ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکا ہے۔ 

اسماعیلیوں کی دعوت کا انداز

اسماعیلی مذہب والوں نے حلیے گھڑے ہوئے ہیں اور عوام کو اپنے مکارانہ جال میں پھنسانے کے لیے اور اپنے عقائد فاسدہ میں لانے کے لیے دام ہمرنگ زمین بچھا رکھا ہے ان کی دعوت کے متعدد مراحل ہیں۔

  1. مرحلہ تفرس ہے اس میں اسماعیلی مذہب کی دعوت دینے والا نہایت ہی ذکی و فطین ہوتا ہے اس کی بات پر گہری نظر ہوتی ہے کہ کہاں ڈھیل کرنا ہے اورکہاں نہیں کرنا اور اسے نصوص کی تاویل پر مکمل عبور حاصل ہوتا ہے اور یہ عوام کو اس بجھارت میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ یہ باطن ہے یہ ظاہر ہے اسے یہ بھی قوت حاصل ہوتی ہے کہ وہ مزاج میلان طبع مذہب اور عقیدہ کے مطابق دعوت پیش کرتا ہے اہلِ علم کا ان کے بارے میں تجزیہ ہے: ان الاسماعیلیتہ یھود مع الیھود و مجوس مع المجوس ونصاریٰ مع النصاریٰ و سنتہ مع اھل السنتہ۔

اسماعیلی یہودیوں کے ساتھ یہودی اور مجوسیوں کے ساتھ مجوسی اور عیسائیوں کے ساتھ عیسائی اور اہلِ سنت کے ساتھ سنی بن کر نمودار ہوتے ہیں۔چلو تم ادھر کو ہوا جدھر کی:

  1. مرحلہ"تانیس" ہے یہ انس و اطمینان سے ماخوذ ہے جس می اسماعیلی مذہب کا داعی جسے قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے اس کے دل کی کھیتی میں اطمینان کا بیج بوتا ہے اس کے تقرب میں رہتا ہے اور دینداری عبادت گزاری اور نرم گفتاری کے پردہ میں اسے قابو کرتا ہے۔
  2.  مرحلہ "تشکیک" ہے تشکیک کا مطلب شک میں مبتلا کرنا اس مرحلہ میں داعی جسے یہ قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے اسے ذہنی شک کو شہبات میں مبتلا کر دیتا ہے شریعت میں ثابت شدہ چیزیں پچیدہ مسائل اور متشابہ آیات پوشیدہ عدد وغیرہ کے بارے میں ذہنی الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔

خلق سبع سموت۔ 

اس نے سات آسمان پیدا کیے۔

اللہ کا فرمان ہے:

و یحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمانیہ۔

اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔

اور فرمانِ الٰہی ہے:

علیھا تسعہ عشر۔

اس دوزخ پر انیس فرشتے مقرر ہیں۔

چونکہ ان آیات کے بارے میں عوام کا علم سطحی ہوتا ہے یہ گہرے نکات ہیں یہ داعی اس میں شکوک پیدا کر کے دین سے دور کرتا ہے آخر کار وہ آدمی اس میں الجھ کر دین سے باہر ہو جاتا ہے اسماعیلی شیعوں کا یہ مرحلہ نہایت ہی خطرناک ہے۔

(4)۔ "تعلیق" کا مرحلہ ہے یہ اسماعیلی دعوت کا علمبردار ایسے پریشان خیال مسلمانوں کو اپنے اعتقادات کا ہمنوا بنانے کے لیے کوشاں ہوتا ہے تو اسے یہ بتاتا ہے کہ ان پچیدہ سوالات کے جوابات ہمارے پاس ہیں لیکن ہم ہر ایک کے سامنے نمایاں کرنا درست نہیں سمجھتے اور نہ ہی ہر وقت انہیں آشکار کیا جا سکتا ہے جو انہیں حاصل کرنا چاہتا ہو وہ اور جو ان کے معرفت سے آشنا ہونے کا ارادہ رکھتا ہو وہ انہیں صیغہ راز میں رکھنے کا پہلے پختہ عہد و پیمان باندھے یہ راز پھر بتائیں گے اس فریب کاری کی وجہ سے یہ عام مسکین آدمی دھوکہ کی رسی پر لٹک جاتا ہے اس وجہ سے اسے تعلیق کہتے ہیں۔

(5)۔ اس کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے اسے "ربط" کہتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ سخت قسموں اور پختہ پیمانوں کے ساتھ زبان بندی کردی جاتی ہے کہ اس فرقہ میں داخل ہونے والا اس داعی اسماعیلی نے جو اسے ذکر کیا وہ اسے راز میں رکھے گا افشانہ کرے گا۔

(6)۔ اس کے بعد ایک اور مرحلہ آتا ہے وہ "تدلیس" کا مرحلہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسماعیلی عقائد کے اسرار و رموز کو بتدریج آشکار کرنا ہے کیونکہ اسماعیلی داعی فداکار سے مربوط عہد و پیمان لیتا ہے کہ میں مذہب کے قواعد آہستہ آہستہ بتاؤں گا انہیں آگے بیان نہیں کرنا اور یہ داعی اسے یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کے پیروکار کثیر تعداد میں ہیں لیکن یہ ان سے نا واقف ہے اسے ان کی مکمل تعداد کا علم نہیں ہوتا۔

(7)۔ اس کے بعد "خلع و سلخ" کا آخری مرحلہ آتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اسماعیلی مذہب قبول کرنے والے نے اپنے عقائد اور ارکان دین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور اسماعیلی خبیث مذہب میں اس کے اعتقادات میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس سے یہ"بلاغ اکبر" کہتے ہیں۔

آغا خانی اسماعیلیوں نے "ہونزا" کے علاقہ میں جو کہ پاکستان کے شمال میں علاقہ بڑے وسیع پیمانے پر سرگرمیاں تیز کر رکھی ہیں یہ وہاں اپنی دعوت مدارس اور طبی مراکز کی صورت میں پھیلا رہے ہیں وہاں تو اب یہ حالت ہے کہ ہر بستی میں پرائمری اور تین سکول تو میٹرک تک بھی ہیں جو انہوں نے تیار کر رکھے ہیں اور چند بستیوں کے اہم مقام پر طبی مرکز ہیں جن کی تعداد پانچ ہو چکی ہے یہ ادارے آغا خانی اسماعیلیوں کی زیرِ نگرانی کام کر رہے ہیں یہ آغا خانی اپنی دعوت کو بھی وسیع پیمانے پر پھیلا رہے ہیں اقتصادی ترقی کے پردے میں آغا خانی دعوت کو عام کر رہے ہیں 1988ء میں پاکستان کی وزرات زراعت نے مزارعین میں کھاد تقسیم کی ایک سال بعد 1989ء میں آغا خانی فرقہ کا سربراہ ساری کھاد خرید لیتا ہے اور اسے ذخیرہ کر لیتا ہے اور مزارعوں سے روک لیتا ہے تاکہ یہ کھاد کی ضرورت کے وقت اس سے رجوع کریں اور اس کے خبیث مطالبات کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور اور یہ انہیں اپنی دعوت قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔

"فرقہ بہریہ" بھی علمی اور ثقافتی میدان میں بہت زیادہ سرگم عمل اور تنظیم سازی میں بھی بہت چاک و چوبند ہے بہریہ کا امام سیف الدین 1937ء میں قاہرہ کا دورہ کرنے گیا تھا یہ پہلا اسماعیلی لیڈر تھا جو آٹھ صدیوں بعد مصر گیا تھا وہاں سلطان بہری نے مصر کے جمال عبد الناصر کی خدمت میں "عیون الاخبار" جو ادریس عماد الدین کی تالیف ہے اس نے اس کتاب کی فوٹو کاپی پیش کی اور مصری حکومت نے اس کے عوض سلطان اسماعیلی کو قیمتی کپڑے دیے جو اسماعیلی فرقہ کے پرانے مصری دور کے آثار و علامات سے مزین تھے یہ قیمتی ہدیہ 39 قطعات پر مشتمل تھا ہر ایک ٹکڑے پر شیشے کا غلاف چڑھا ہوا تھا جو اب بھی ہندوستان کے اسماعیلیوں کے ممبئی والے دفتر میں موجود ہے اس کے بعد یہ سلطان اسماعیلی متعدد بار ہندوستان میں اور اس سے باہر اپنے فرقہ بہریہ کی دعوت کو منظم کرنے کے لیے سفر کرتا رہا ہے اس کی سربراہی کے دور میں ان کی 350 مساجد تقریباً 300 مدارس تعمیر ہوئے تھے اور بڑے بڑے علمی ادارے اور "سورت" شہر میں جو کہ گجرات انڈیا میں واقع ہے وہاں ایک "سیفیہ" یونیورسٹی بھی اس نے اپنے پیروکاروں کے لیے تعمیر کی تھی جس میں اسماعیلی فرقہ کے طلباء افریقہ یورپ اور عرب ممالک سے یہاں آتے ہیں اور زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

غمِ دلفگار:

اسماعیلی بہرہ فرقہ کے امام محمد بن برہان الدین کو جامعہ ازہر کی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی عزازی ڈگری دی ہے یہ 1986ء کی بات ہے یہ اس کی اور اس کے والد کی خدمات کا صلہ تھا اور اس فرقہ بہریہ کی خدمات کا صلہ تھا جو انہوں نے تعلیمی اور ثقافتی میدان میں سر انجام دیں تھی یہ بہریہ فرقہ کا امام وہ چاندی کا مقبرہ دیکھنے مصر گیا تھا جو اس کے والد نے ہدیہ میں دیا تھا اسماعیلی امام نے اس دورہ کے دوران حکومتِ مصر سے تین مطالبات کیے ان میں سے ایک تو قبول ہوا دوسرا قبول نہ کیا گیا اور تیسرا مؤخر کر دیا گیا جو قبول ہوا وہ یہ ہے کہ حاکم بامر اللہ خاتمی کے نام کی یادگار میں یونیورسٹی بنانے دیں اس کی حکومت مصر نے اجازت دے دی اور دوسرا مطالبہ کیا کہ ہمیں جامع خانہ جو ان کا عبادت خانہ ہے بنانے کی اجازت دیں یہ حکومتِ مصر نے قبول نہ کیا اور اس شرط لگا دی کہ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہماری نگرانی میں ہوگا اور ہمارے ماتحت ہوگا لیکن یہ نہ مانے تھے تاہم یہ بہریہ فرقہ والے اس علاقے کے اردگرد پھیلتے جا رہے ہیں یہ ان کا عملی قدم ہے جو اس مطالبہ کے حصول کے لیے بہریوں نے اٹھایا ہے اورقبہ سیدنا حسینؓ اور سیدہ زینبؓ کے اصلاحات کے مطالبات لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ جامع خانہ بنوائیں تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ ازہر یونیورسٹی کی طرز پر ہمیں بھی یونیورسٹی تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے لیکن حکومتِ مصر نے یہ مطالبہ مؤخر کر دیا کہ اس پر ہم غور و فکر کریں گے اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بہریہ فرقہ کے طلبہ اظہر یونیورسٹی کی طرف ا رہے ہیں اور اس سے الحاق کر رہے ہیں تاکہ یہ مطالبہ بھی پورا ہو۔