Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اسماعیلیوں کے عقائد اور اسماعیلیوں کی عبادات

  الشیخ ممدوح الحربی

اسماعیلیوں کے عقائد:

اسماعیلی شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام معصوم کا وجود ضرور ہے جو محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہو اور اس امام کی ایسی صفات بیان کرتے ہیں جو اسے الوہیت سے بھی برتر بنا دیتی ہیں اور اس کے پاس علمِ باطن ہوتا ہے اور اپنی کمائی کا پانچواں حصہ اس امام کے نام کرتے ہیں اور تناسخ کے قائل ہیں کہ روح جون بدل کر آتی ہے اور امام انبیاء کا وارث ہوتا ہے اور اس کے پیشترو جتنے ائمہ ہیں ان کا بھی وارث ہے یہ صفاتِ الٰہیہ کے منکر ہیں کیونکہ ان کی نظر عقل سے بھی اوپر مقام پر ہونے لگی ہے اور یہ کہتے ہیں وہ موجود نہیں نہ ہی غیر موجود ہے نہ عالم ہے نہ جاہل ہے نا قادر ہے نہ عاجز ہے یہ مسلمانوں کی مساجد میں نماز نہیں پڑھتے ان کا عقیدہ بظاہر مسلمانوں کے مطابق نظر آتا ہے لیکن باطن میں کچھ اور ہے اور یہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن یہ نماز معصوم اسماعیلی امام کے لیے ہوتی ہے یہ مکہ حج کے لیے جاتے ہیں جیسا کہ دوسرے مسلمان جاتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ کعبہ معصوم امام کے لیے ایک رمز و اشارہ ہے اسماعیلی شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں کو خود پیدا نہیں کیا بلکہ یہ عقلِ کل کے طریقہ سے پیدا ہوا ہے یہ صفات الٰہیہ کا محل ہے اسے پردہ کہتے ہیں اور یہی عقل جب انسان میں اترتی ہے تو اس سے نبی اور امام بن جاتے ہیں اسماعیلی اپنے ائمہ کی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں اور مقامِ ربوبیت تک پہنچا دیتے ہیں یہ کہتے ہیں:

ان الآئمۃ بشر کسائر الناس فی الظاھر فھم یاکلون وینامون و یموتون۔

بے شک ائمہ ظاہر میں عام لوگوں کی مانند بشر ہیں کھاتے ہیں سوتے ہیں اور مرتے ہیں۔

آگے باطنی تاویل کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:

ان الآئمۃ ھم وجہ اللہ و ید اللہ وجنب اللہ و انھم ھم الذین یحسابون الناس یوم القیامہ۔

لیکن حقیقت میں یہ ائمہ ہی اللہ کا چہرہ ہیں اللہ کا ہاتھ ہیں اللہ کا پہلو ہیں یہ ائمہ ہی روز قیامت لوگوں کا حساب لیں گے۔

اور ائمہ ہی صراطِ مستقیم ہیں اور یہی ذکر حکیم ہیں اور یہی قرآنِ کریم ہیں:

أَمۡ خَلَقُواْ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ‌ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ۝أَمۡ عِندَهُمۡ خَزَآٮِٕنُ رَبِّكَ أَمۡ هُمُ ٱلۡمُصَۣيۡطِرُونَ۝ (سورۃ الطور آیت 36۔37)۔

کیا انہوں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے یا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں یا وہ ان پر دروغے ہیں۔

ان آیات میں ائمہ معصوم مراد ہیں یعنی یہ سارے کام انہوں نے کیے ہیں یہ بھی اسماعیلی شیعوں کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل زندہ ہے مرا نہیں وہ بلاد روم میں رہتا ہے یہی قائم مہدی ہے نئی رسالت دے کر دوبارہ اسے بھیجا جائے گا اس کے ذریعے محمدﷺ کی شریعت منسوخ ہو جائے گی اور یہ شیخین سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے اظہار بیزاری کرتے ہیں اور انہیں بہت سی قبیح صفات سے منتصف کرتے ہیں ابلیس ،فرعون، ہامان، طاغوت، اور ہبل وغیرہ ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔

(نعوذ باللہ)۔

اسماعیلیوں کا حج:

اسماعیلی بہرہ فرقہ والے اسے عام مسلمانوں کے برعکس ایک دو دن پہلے حج کر لیتے ہیں جیسا کہ ان کا ایک حاجی خود بیان کرتا ہے کہ ہم نے مناسک حج کیسے ادا کیے اور بتاتا ہے کہ ہمارے ساتھ یمن کے اسماعیلی بھی تھے کہتا ہے:

وقد ادی جمیعنا مر اسم الحج قبل الناس بیومین و حین تجمعنا فی عرفات تحت قیادہ عالم اسماعیلی یمنی احاط بناجمع من اھل السنة وسألونا ماذا نفعل قبل الوفقة فاجبناھم بقراء ادعیة ماثورتہ فانصرفوا ای اھل السنة بعد سماع ھذا الکتاب الساذج۔ (سلک الجوھر)۔

ہم نے لوگوں سے دو دن پہلے ہی مراسم حج ادا کیے جب ہم ایک یمنی اسماعیل عالم کی قیادت میں عرفات میں جمع ہوئے تو اہلِ سنت کی ایک جماعت نے ہمیں گھیر لیا اور پوچھا وقوفِ عرفات سے پہلے ہی تم نے یہ کیا کیا ہے تو ہم نے انہیں معقول دعائیں پڑھ کر سنائی تو وہ یہ سادہ سا جواب سن کر چلے گئے۔

اس کے بعد ہم مزدلفہ میں آئے وہاں ہم نے طائف جانے والے راستے کے قریب رات گزاری اسی راستے سے طائف والے حج کے لیے آتے ہیں تو یہاں بھی ایک جماعت نے ہم سے سوال کیا ہم تو عرفات جا رہے ہیں اور تم واپس آ چکے ہو یہ کیا ماجرا ہے؟ تو ہم نے کہا ہم طائف سے آرہے ہیں اور ہم جلد ہی مکہ میں آئیں گے پھر ہم عرفات جائیں گے اس طرح ہم نے یہ رات گزاری ہم عرفات کی طرف لوٹے اور ہم حاجیوں کے ساتھ شریک ہو گئے یعنی یہ اسماعیلی ارکانِ حج غلط بیانی کر کے اپنی مرضی سے ایک دو دن پہلے ہی کر لیتے ہیں اور دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے عوام کے حج میں شریک ہو جاتے ہیں بحری اسماعیلی فاطمیوں کے قبرستان اور مساجد کو اسر نو تعمیر کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ ان کی قبروں اور مسجدوں پر خطیر رقوم صرف کررہے ہیں ان کے کارناموں میں سے سیاہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ کربلا نجف اور مقبرہ سیدنا حسینؓ و مقبرہ سیدہ زینبؓ جو کہ قاہرہ میں ہے ان کی اصلاح و درستی پر انہوں نے بہت محنت کی ہے اور قاہرہ میں ان کی خود ساختہ قبرِ سیدنا حسینؓ پر سونے کا قبہ بنایا ہے یہ اسماعیلی بہرہ فرقہ والے یہودیوں کی مانند اس وقت تک اپنے مذہب میں کسی کو شامل نہیں کرتے جب تک وقت وہ ان کے اندر ولادت نہ پائیں بہریوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی نسل سے ہیں اور یہ معصوم عن الخطاء ہیں یہ بہری اسماعیلی ظاہری طور پر قرآنِ پاک کا احترام کرتے ہیں مگر تفسیر اپنے باطنی نظریات اور شیطانی انداز پر ہی کرتے ہیں ان کی نماز کا قبلہ ان کے داعی ظاہرالدین جو ہندوستان کے شہر ممبئی میں مدفون ہیں کی قبر ہے اسے یہ "روضہ طاہرہ" کہتے ہیں یہ روضہ ان کا قبلہ ہے مسلمانوں کا قبلہ نہیں یہ ماہِ محرم کے پہلے دس دن نماز پڑھتے ہیں اور صرف اپنے خاص مقامِ عبادت جسے یہ جامع خانہ کہتے ہیں اسی میں نماز پڑھتے ہیں اور کسی جگہ نہیں پڑھتے اگر ان میں سے ان دس دنوں میں کوئی نماز کے لیے نہیں جاتا تو اسے اس فرقہ سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور اسماعیلی کسی فرقہ میں اس کا داخلہ حرام ہو جاتا ہے اسماعیلی آغا خانی عاشق حسین جو کہ کریم آغا خان کے فیڈرل دینی امور کا سربراہ ہے وہ کہتا ہے یہ دینی امور کی کمیٹی جو کہ آغا خانی جماعت و مذہب پر مشتمل ہے پاکستان کے شہر کراچی میں آغا خانی تعلیمات پھیلانے کے لیے انعقاد پذیر ہوئی ہے یہ اپنی موجودہ امیر سے التماس کرتی ہے کہ ہمارے مولا شاہ کریم حسینی:

ارحمنا فاغفرلنا اعن یا علیؓ المؤمنین الحقیقین۔

ہمارے حال پر رحم کرو ہمیں بخش دو اے حقیقی مومنوں کے وارث ہماری مدد کرو۔

آگے کہتا ہے ہم اسماعیلی آغا خانی دینی معلومات عوام تک پہنچاتے ہیں ہمیں دینی معلومات مکی عالم کی زیرِ نگرانی حاصل ہو رہی ہے اسی وجہ سے تو ہم ان تعلیمات کے مطابق عبادت گزاری کے لیے جماعت خانہ میں جاتے ہیں کسی دوسری جگہ انہیں ادا نہیں کرتے ان کی تعلیمات درج ذیل ہیں کہتا ہے:

تحيتنا يا على مدد هی وجوابنا مولانا علی مدد شهادتنا هی اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا رسول اللهﷺ واشهد أن عليا الله۔

ہمار اسلام یا علی مدد ہے اس کا جواب مولانا علی مدد ہے ہمارا کلمہ اشھد ان لا الہ الا الله واشھد ان محمد رسول اللہ   اور میں گواہی دیتا ہوں علی الله ہے۔

ہمیں وضو کی ضرورت نہیں یہ فقط دل کی طہارت ہے کھانے پینے سے ہمارا روزہ فاسد نہیں ہوتا اور ہمارا روزہ صرف تین گھنٹے کا ہوتا ہے صبح رکھ کر دس بجے افطار کر لیتے ہیں یہ ہمارا نفلی روزہ ہے۔ ہر جمعہ کو ہمارا روزہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مہینے کے شروع کا دن ہے اور یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم نے اپنی کمائی میں سے ساڑھے بارہ فیصد زکوٰۃ نکالنا ہے ان کا حج یہ ہے کہ اپنے موجودہ امام کی زیارت کرنا یہ کہتے ہیں مسلمانوں کا قرآن کتاب میں ہے ہمارا قرآن ہمارا امام ہے اور ان کا عقیدہ ہے سارے دن میں جو بھی ہم نے معاصی کا ارتکاب کیا ہے وہ ہمارا عالم مٹا دیتا ہے وہ اس طرح کہ ہمارے اوپر پانی ڈال دیتا ہے تو سب گناہ مٹ جاتے ہیں اور اگر کوئی یہ ہمت کرے جامع خانے میں ہر جمعہ کو جائے اور عالم سے استغفار کا مطالبہ کرے تو اس کے جانے سے ہی گناہ مٹ جاتے ہیں۔ کنیسہ میں عیسائیوں کا بھی یہی نظریہ ہے یہ آغا خانی مزید کہتا ہے ہمارا موجودہ امام ہمیں اسمِ اعظم سکھاتا ہے اس کی قیمت 75 روپے ہے ہم رات کے آخر میں اس کا ورد کرتے ہیں پانچ برس کی عبادت کی معافی کے لیے اور بارہ برس کی عبادت سے دستبردار ہونے کیلیے 1200 روپے اور زندگی بھر کی عبادت معاف کروانے کے لیے 5000 روپے دیتے ہیں اور یہ گناہوں کی معافی کی اجرت ہم جماعت خانہ میں جمع کرواتے ہیں اور اپنے دور حاضر کے امام کے نور سے شرف یاب ہونے کے لیے 7000 روپے اجرت دیتے ہیں اور عذاب آخرت سے نجات کی اجرت 25000 روپے دیتے ہیں علاوہ ازیں عمدہ کھانے اور قیمتی لباس بھی جماعت خانہ کے نام کرتے ہیں جنہیں فروخت کر کے ان کی قیمت جماعت خانہ کی نظر کر دی جاتی ہے یہاں ہم ایک وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں آغا خانی ہمارا مذہب صدیوں پر محیط ہے اسے آج تک کسی نے نامنظور نہیں کیا آج اگر ان مسلمان علماء کو اس کے باطل ہونے کی اطلاع ملی ہے اور انہیں اس کی صداقت پر اعتراض ہے تو یہ ہماری اسی دینی امور کی کمیٹی سے رابطہ کریں اور اس کی وضاحت طلب کریں۔ اگر یہ ایسا نہیں کر رہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے علماء سے مرعوب ہیں اور ہمارے حاضر امام کا سامنا کرنے کی تاب نہیں رکھتے اور نہ ہی ان میں اتنی جرات ہے کہ یہ ہمارے مذہب کا ابطال کرسکیں ہم ہر حکومت کی مادی اور مالی اعانت کرتے ہیں یہ بھی ہمارے مذہب کے صحیح ہونے کی قطعی دلیل ہے۔

اے ہمارے مومنو! تم اپنے صحیح دین پر ڈٹ جاؤ یہ مسلمان فتن و مصائب کی بھٹی میں ڈالیں تو مت ڈرنا۔ ہم اپنے امام کے دیدار سے بہرہ ور ہو جائیں تو سارے غموں کا یہی مداوا ہے۔

آخر میں ہم کہتے ہیں:

اے شاہ کریم حسینی! آپ ہی ہمارے موجود امام ہیں اللهم لک سجودی و طاعتی۔

اے میرے اللہ یعنی شاہِ کریم حسینی میری اطاعت و سجدہ ریزی فقط تیرے لیے ہے۔  

(از عاشق حسین رئیس دینی امور فیڈرل کمیٹی پاکستان)۔

اسماعیلیوں کی عبادات:

اسماعیلیوں بہرہ فرقہ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ہے کہ یہ صرف اپنے جامع خانہ میں ہی عبادت کرتا ہے اور اپنے اماموں کی تعلیمات اور اپنے داعیوں کی توجیحات پر ہی کاربند رہتے ہیں دیگر مسلمانوں کے ساتھ چلانا گوارہ نہیں کرتے اور جب بھی یہ عبادات اور دینی شعائر پر چلنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے یہ اپنے امام یا داعی سے اس کی اجازت لیتے ہیں بہرہ فرقے والوں کے عبادت کے خاص طریقے اور خاص لباس ہیں جس سے یہ دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں اور اوپر ایک سنہری اور زرد رنگ کا ٹیکا سا گلے میں ڈالتے ہیں اور یہ دن میں تین مرتبہ نماز پڑھتے ہیں ان کے امام کی قبر ہی ان کا قبلہ ہوتا ہے۔ اسماعیلی بہروں کی کئی عادات و عبادات ہندؤں سے ملتی جلتی ہیں شادی کے دنوں میں یہ دلہا پر زعفران چھڑکتے ہیں اور دلہا کے استقبال کے وقت بت پرستوں والی رسومات ادا کرتے ہیں چراغ جلاتے ہیں دلہا کے راستے میں اس کے پاؤں کے نیچے نہایت ہی قیمتی قالین بچھاتے ہیں اور جب وہ مرتا ہے تو ولیمہ اس کے بعد کرتے ہیں تیسرے نویں اور چالیسویں دن میں ولیمہ کرتے ہیں اور چالیس دنوں کا سوگ مناتے ہیں ہر قسم کی خوشی منانے سے ان دنوں میں رک جاتے ہیں اور یہ بہری اسماعیلی جب جنازہ ان کے آگے سے گزر جائے تو اسے بدشگونی لیتے ہیں اور نظر بد سے بچاؤ کے لیے تعویز کرواتے ہیں اور ہر کام نجومی اور کاہنوں کے مشورے کے بعد شروع کرتے ہیں اور سفر بھی ان سے پوچھ کر کرتے ہیں طلباء جب امتحان دینے جاتے ہیں تو وہ بھی اپنے داعی سے شیطانی وظائف سیکھ کر جاتے ہیں جبکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّؕ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖؕ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۝(سورۃ الرعد آیت 14)

اسی کے لیے دعوت حق ہے اور جو لوگ اس کے علاؤہ کسی کو پکارتے ہیں یہ ان کی بات کا جواب نہیں دیتے ان کی مثال ہاتھ پھیلانے والوں کی سی ہے کہ جو پانی کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے مگر وہ اس کے منہ تک نہ پہنچے گا جب تک یہ ہاتھ نہ ڈالے گا کافروں کی پکار گمراہی میں گم ہو جاتی ہے۔

اسماعیلی شیعوں کے مزارات اور عیدیں:

لغو کرنا تو آغا خانیوں کے اسلاف کی اصل فکر ہے اس پر تاریخ گواہ ہے انہوں نے اپنے ائمہ کی قبروں اور اپنے داعیوں کے مزاروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے اور الله کو چھوڑ کر ان کی سفارش کا وطیرہ بنا رکھا ہے الله کا فرمان ہے:

قُلۡ أَرَءَيۡتُم مَّا تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَرُونِى مَاذَا خَلَقُواْ مِنَ ٱلۡأَرۡضِ أَمۡ لَهُمۡ شِرۡكٌ۬ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ‌ۖ ٱئۡتُونِى بِكِتَـٰبٍ۬ مِّن قَبۡلِ هَـٰذَآ أَوۡ أَثَـٰرَةٍ۬ مِّنۡ عِلۡمٍ إِن ڪُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ ۝(سورۃ الاحقاف آیت 4)۔

کہہ دو بتاؤ جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ دکھائیں انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمان میں ان کا کوئی حصہ ہے کوئی اس سے پہلے والی کتاب لاؤ یا علمی دستاویز لاؤ اگر تم سچے ہو۔

وَمَنۡ أَضَلُّ مِمَّن يَدۡعُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسۡتَجِيبُ لَهُ ۥۤ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ وَهُمۡ عَن دُعَآٮِٕهِمۡ غَـٰفِلُونَ۝۔ وَإِذَا حُشِرَ ٱلنَّاسُ كَانُواْ لَهُمۡ أَعۡدَآءً۬ وَكَانُواْ بِعِبَادَتِہِمۡ كَـٰفِرِينَ۝ (سورۃ الاحقاف ایت 6۔5)۔

اس سے بڑا کون گمراہ ہے جو اللّه کے سوا اس کو پکارتا ہے جو اس کی پکار کا قیامت تک جواب نہ دے سکے گا وہ اور ان کی دعا سے بے خبر ہے۔

عراق کے علاقے میں آغا خانیوں کے حسینی مراکز موجود ہیں جن میں عبادت کرتے ہیں 1890ء میں بغداد کے محلہ "باب السیفی" میں ان کے حسینی مرکز کی بنیاد رکھی گئی اس طرح بصرہ میں 1894ء میں کربلا میں 1895 میں اور نجف میں 1896ء میں حسینی مراکز کی بنیاد رکھی گئی ایک جماعت فیضی حسینی نے یہ مراکز قائم کیے مغربی ہندوستان میں احمد آباد میں ان کے مزار ہیں ان کے بہت بڑے داعی داؤد بن عجب شاہ اور داؤد بن قطب شاہ کی قبریں بھی یہی ہیں آغا خانیوں کی ایک جماعت کا نام ہونزا ہے یہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہے ان کی تعداد وہاں تیسں ملین ہے یہاں یہ آغا خانی محفلیں برپا کرتے ہیں، ان کے ہاں آٹھ عید میں منائی جاتی ہیں:

  1. عید الفطر 
  2. عید بقر

ان دو عیدوں کا اتنا زیادہ اہتمام نہیں کرتے بلکہ خود ساختہ عیدوں کو زیادہ مقدس تصور کرتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں: 

  1. ( عید معظمه۔ 
  2. عید الغدیر۔
  3. عید نیروز۔ 
  4. عید یوم الامام یہ سیدنا علیؓ کے تخت خلافت پر براجمان ہونے کی خوشی میں مناتے ہیں۔
  5.  عید آغا خان۔ 
  6. امام آغا خان کی پہلی زیارت کی خوشی میں۔ 
  7. عید ہونزا۔
  8. عید بلقیت یہ ماہ اکتوبر 1960ء میں ایجاد ہوئی۔