Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اسماعیلی شیعوں کی خونریزیاں

  الشیخ ممدوح الحربی

اسماعیلی شیعوں کی خونریزیاں

(1) رسول اللہﷺ کا جسمِ اطہر چرانے کی کوشش:

حاکم بامر الله فاطمی کے دورِ حکومت کی بات ہے یہ وہی حکمران ہے جس کی عقل چلی گئی تھی اور یہ زندیق تھا اس نے ان حملہ آوروں کے سالار سے کہا تھا جنہیں اس نے مدینہ منورہ میں بھیجا تھا کہ انہیں اندر آنے دیں اور رسولِ اکرمﷺ کی قبر مبارک اکھاڑنے دیں تاکہ وہ آپﷺ کا جسمِ اطہر اٹھا کر وہ اپنے ملک لے جائیں اور لوگوں کی نظروں کا مرکز بن جائیں اور فاطمی شیعہ مسلمانوں کے نزدیک بلند رتبہ ہو جائیں یہ فاطمی قائد رسولِ اکرمﷺ کے شہر میں داخل ہوا لوگ کپکپانے لگے اور اس کو سنگین جرم قرار دیا اسے نصیحت کی کہ رسولِ اکرمﷺ کی قبرِ اطہر سے وہ تعرض نہ کرے لیکن یہ فاطمی سالار خبیث اپنے خلیفہ کے حکم کی برآری کے لیے مصر تھا رات کے وقت اس نے اپنے آدمی حرمِ نبوی میں داخل کروا دیے یہ حجرہ شریفہ کی طرف آئے کہ قبرِ اطہر کو اکھاڑیں اچانک تند و تیز آندھی اٹھتی ہے جس سے فضا تاریکی میں ڈوب گئی ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے عمارت بنیادوں سے ہل جائے گی اور خوف زدہ ہوئے اور اپنے اس فعلِ بد سے رک گئے یہ لعنتی مسجدِ نبوی سے لرز ابر اندام ہو کر بھاگ گئے کینہ پرور فاطمی خلیفہ 524ھ سے لے کر 540ھ تک تخت خلافت پر متمکن رہا تھا اس خبیث نے رسولِ اکرمﷺ کے جسمِ اطہر کو قاہرہ نقل کرنے کی دوبارہ کوشش کی اس نے چالیس مضبوط آدمی بھیجے مدینہ میں ایک مدت تک ٹھہرے رہے اور دور سے ایک سرنگ کھودی لیکن الله عزوجل نے اپنے حبیبﷺ کے جسد مبارک کو ان کافروں اور زندیقیوں کے دستِ ستم گر سے محفوظ رکھا وہی سرنگ ان کے اوپر گرگئی یہ سارے کے سارے لمحہ بھر میں ہلاک ہو کر لقمہ دوزخ بن گئے۔

(2) اسماعیلیوں نے ابوبکر نابلسیؒ کی کھال اتار دی

اس امام زاہد و عابد اور سرا پائے وفا ابوبکر نابلسیؒ کو معزلدین الله فاطمی کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور یہ معزان سے کہتا ہے: میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ میرے پاس اگر دس تیر ہوں تو میں 9 تیر رومیوں عیسائیوں کو ماروں گا اور ایک تیر سے فاطمی شیعوں کو ماروں گا ابوبکر نابلسیؒ نے فرمایا: میں نے یہ نہیں کہا اس فاطمی بادشاہ نے کہا: پھر تم نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کہا ہے:

ينبغی أن نرميكم بتسعة ثم نرميهم بالعاشر۔ 

کہ میں تم فاطمیوں کو 9 تیر ماروں گا اور دسواں تیر رومیوں کو ماروں گا۔

اس نے کہا: یہ تاثرات تم کیوں بیان کر رہے ہو؟ ابوبکر نابلسیؒ نے فرمایا:

لانكم غيرتم دين الله وقتلتم الصالحين وأطفاتم نور الله الالهية وادعيتم ماليس لكم۔

وجہ یہ ہے کہ تم نے الله کے دین کو بدل ڈالا نیکوکاروں کو مارا اور نورِ الٰہی کو بجھایا اور نامناسب دعویٰ زبان پر لائے اس کے جواب میں یہ شیعہ خبیث کہنے لگا: امام صاحب کو پیٹا جائے ایک دن اور دوسرے دن بھی مارا شدید کوڑے مارے تیسرے دن ان کا چمڑا اتارنے کا حکم دیا ایک یہودی کو اس روح فرسا سزا دینے کے لیے لایا گیا وہ چمڑا اتار رہا تھا امام نابلسیؒ قرآنِ پاک کی تلاوت فرمار ہے تھے یہ یہودی جلاد پکار اٹھا اور اس بہیمانہ ظلم سے اس کا دل رقت کے آنسو بن جاتا ہے اور کہتا ہے: جب میں شیخ کے دل تک پہنچا تو برداشت نہ ہوسکا تو میں نے چھری مار کر انہیں فورا شہید کردیا تڑپتا نہ دیکھ سکا اور حضرت امام قرآنِ پاک کی اس بشارت کے مستحق قرار پائے فرمان الٰہی ہے:

وَلَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتَۢا‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ۝فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتَٮٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ وَيَسۡتَبۡشِرُونَ بِٱلَّذِينَ لَمۡ يَلۡحَقُواْ بِہِم مِّنۡ خَلۡفِهِمۡ أَلَّا خَوۡفٌ عَلَيۡہِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ۝(سورۃ آلِ عمران آیت 169۔170)۔

تو ہرگز نہ گمان کر ان لوگوں کو الله کی راہ میں جو قتل کیے گئے ہیں کہ یہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دیئے جاتے ہیں خوش ہونے والے ہیں ان کے ساتھ جو ان کے رب نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے اور جو ابھی ان سے ملے نہیں، انہیں یہ بشارت دینا چاہتے ہیں کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی یہ غم کھائیں گے۔ (البدایہ والنہایہ)۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ایک یہودی پر ظلم سے رقت طاری ہوئی یہ اسماعیلی شیعہ بےرحم ظاہر ذرا متاثر نہ ہوا۔ 

اسماعیلیوں کے قاتلانہ حملے:

(1)۔ نظام الملک سلجوقی کا قتل:

ماہِ ربیع الاول 485ھ میں نظام الملک سلجوقی فارس کے حکومتی علاقہ کے دورے پر نکلا اس کے ساتھ عباسی خلیفہ کا بیٹا ابو فضل جعفر بھی تھا جب سلجوقی دورے سے واپس لوٹا تو ماہِ رمضان میں دارالخلافہ بغداد کا دورہ کیا ابھی یہ راستے میں ہی تھا کہ "دیلم" کا رہنے والا بچہ جو کہ اسماعیلی شیعہ تھا ایک فریادی کے روپ میں آگے بڑھا اور نظام الملک پر خنجر سے وار کردیا جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہوگیا نظام الملک کے فوجیوں نے اس دیلمی لڑکے کو پکڑ کر مار دیا یہ وزیر جو کہ سنی تھا یہ اسماعیلی باطنی فرقہ کا پہلا شکار ہوا اسماعیلی فرقہ کی جانب سے جب قاتلانہ حملوں میں اضافہ ہوا تو مسلمان قائدین نے زریں زیب تن کرنا شروع کیں ان کے غدار خنجروں سے بچانے والے لباس زیب تن کرنے لگے اور یہ ان سے سخت احتیاط برتنے لگے اس کے باوجود ان کی دھوکہ بازیاں نئے اسلوب میں سامنے آتی رہیں اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ ایک لمحہ ضائع نہ ہونے دیتے تھے۔

(2)۔ امیر بلکا بک بن سرمد کا قتل:

493ھ ماہِ رمضان میں اصبہان کی پولیس کے سربراہ امیر بلکا بک بن سرمد پر قاتلانہ حملہ کیا گیا حالانکہ امیر ان سے بہت محتاط رہتا تھا ہمیشہ لوہے کی زرہ پہنتا تھا لیکن اس رات وہ زرہ نہ پہن سکا اسماعیلیوں نے اسے غنیمت جانا اور دھوکہ باز چھریوں کی بوچھاڑ کر کے انہیں شہید کردیا اور یاد رہے! اسماعیلیوں نے بڑے بڑے عظیم فقہاء واعظین اور علمائے اہلِ سنت کو ناحق شہید کیا ہے ان کا جرم صرف یہی تھا کہ وہ حق کا اعلان کرتے تھے اور انکے فاسد اور گمراہ کن عقائد کی تردید کرتے تھے۔

(3)۔ ابو مظفر خجندی کا قتل:

اسما عیلیوں کا دستِ خون ریز صرف حکام سلاطین مسلمانوں تک ہی نہیں بڑھا بلکہ ان کے یہ جفاکش ہاتھ فقہاء واعظین اور علماء تک بڑھ گئے تھے انہوں نے ہر اس شخص کو قتل کیا جو بھی اسماعیلیوں کے افکار فاسدہ اور ان کے عقائد ضالہ اور خبیثہ کی نقاب کشائی کرتا تھا 496ھ میں ایک اسماعیلی نے واعظ ابو مظفر بن خجندیؒ کو "رے" شہر میں شہید کردیا ابو مظفر جامع مسجد میں لوگوں کو وعظ کر رہے تھے جب یہ اپنے درس سے فارغ ہوئے اور اپنی کرسی سے نیچے اترے تو وہ خبیث اسماعیلی حملہ آور ہوا اور انہیں شہید کردیا اسماعیلی کو بھی اسی وقت مار دیا گیا ابو مظفر ایک عالم فاضل اور شافعی فقیہ تھے وزیرِ نظام الملک مرحوم ان کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا کرتا تھا اور ان کی بہت تعظیم کیا کرتا تھا۔

(4)۔ ابو جعفر بن مشاط کا قتل:

ابو جعفر بن مشاط شافعیوں کے شیخ ہیں یہ بھی اسماعیلیوں کی بہیمیت کا شکار ہوئے تھے انہیں بھی ایک اسماعیلی خبیث نے ان کے استاد امام خجندی کی طرح شہید کردیا۔

(5) عبید الله خطیمی کا قتل:

ماہِ صفر 502ھ میں اصبہان کے قاضی عبید الله بن علی خطیمی رسید کو شہید کردیا گیا انہوں نے اسماعیلیوں کے بہت سارے باطل افکار کی پردہ کشائی کی تھی یہ ان غداروں سے محتاط تو بہت رہتے تھے لیکن احتیاط تقدیر نہیں ٹال سکتی ایک اسماعیلی جمعہ کے دن قاضی صاحب کے پاس آنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے ان کے اور ساتھیوں کے درمیان سے اندر آتا ہے اور اچانک حملہ کر دیتا ہے اور انہیں شہید کر دیتا ہے۔

(6)۔ قاضی صاعد بن محمد کا قتل:

جن قاضیوں کو اسماعیلیوں نے تہہ تیغ کیا تھا ان میں سے قاضی صاعد محمد بن عبد الرحمٰن ہیں یہ نیشاپور کے قاضی تھے جامع اصبہان میں عید کے دن انہیں ایک اسماعیلی نے ایک چھری کے ساتھ شہید کردیا۔

(7)۔ جناح الدولہ کا قتل:

495ھ میں مسلمانوں کے سپہ سالار جناح الدولہ حسین جو حمص والے تھے انہوں نے صلیبی جنگ میں عیسائیوں کے خلاف زبردست کارنامے انجام دیے یہ اپنے قلعہ سے جامع مسجد کبیر میں اترے تاکہ نماز جمعہ ادا کریں اردگرد رفقاء موجود تھے اسماعیلیوں کے تین آدمی زاہدانہ لباس میں آگے بڑھے انہوں نے کچھ مطالبات کیے انہوں نے اس سے وعدہ کیا کہ بہتری ہوگی پھر ان خبیث گندے لوگوں نے یکبارگی حملہ کر کے انہیں شہید کردیا اور ساتھ ہی کچھ ساتھی بھی شہید ہوئے یہ امیر نہایت ہی بہادر اور مجاہد تھے اور بنفسِ نفیس جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔

(8)۔ امام عبد الواحد بن اسماعیل کا قتل:

امام عبد الواحد بن اسماعیل یہ شافعی فقہاء میں سے ہیں ابو محاسن ان کی کنیت تھی رؤیانی نسبت تھی بلادِ عجم کے بھی شافعی مسلک کے شیخ تھے انہیں جامع طبرستان میں جمعہ کے دن شہید کردیا گیا انہوں نے دور دور آفاق کی طرف طلب علم کے لیے سفر کیا اور بہت سارے علوم حاصل کیے اور بہت ساری احادیث سنی تھیں اور شافعی مذہب کی حمایت میں کتابیں بھی تصنیف کی تھیں یہ فرمایا کرتے تھے:

لو احترقت كتب الشافعی لا مليتها من حفظی۔ 

اگر امام شافعیؒ کی کتابیں جل جائیں تو میں اپنے حافظہ سے دوبارہ لکھ سکتا ہوں۔

(9)۔ صلاح الدین ایوبیؒ

صلیبیوں کے خلاف جہاد اسلامی کے عظیم سپہ سالار بطلِ حریت صلاح الدین ایوبیؒ پر بھی کینہ پرور اسماعیلیوں نے قاتلانہ حملہ کی جرات کی حطیم کے مقام پر ایک مشہور جنگ ہوئی اس میں بھی صلاح الدین ایوبیؒ نے دشمن کو شکستِ فاش سے دو چار کیا اور مصر و شام میں ایسے فاتحانہ کارنامے انجام دیے جو اسلام کی پیشانی کا جھومر ہیں اور ظالم جنگجوؤں کے مقابلوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اس مسلمان سپہ سالار کو اس کی محنت و کاوش کا صلہ یہ دیا گیا کہ ان کینہ پرور اسماعیلیوں نے دو دفعہ ان پر قاتلانہ حملہ کیا پہلی دفعہ 570ھ میں ان کے قتل کی کوشش کی گئی اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے حلب شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا اسماعیلیوں کے چند افراد آئے کہ دھوکہ سے بے خبری میں قتل کر دیں گے مگر ایک امیر لشکر نے دیکھ لیا اور پہچان لیا ان سے کہا: تم یہاں کیا لینے آئے ہو اور کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے اسی وقت اس پر حملہ کر دیا اور شدید زخمی کر دیا ان میں سے ایک نے صلاح الدین ایوبیؒ پر حملہ کردیا مگر وہ خود قتل کردیا گیا اور دوسرے اسماعیلی صلاح الدین ایوبیؒ کے ساتھیوں سے نبرد آزما ہوئے اور اس تک پہنچنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوئے اور سب مارے گئے۔ دوسری کوشش اس پیکرِ خیر و فلاح پر اس وقت ہوئی جب یہ اپنی عادت کے مطابق قلعہ اعزاز کے محاصرہ کے دوران آلاتِ لڑائی کا مشاہدہ کر رہے تھے اور مردانِ مجاہدینِ حق کو ترغیب دلا رہے تھے یہ اپنے امراء لشکر کے خیمہ میں داخل ہوئے تو اسماعیلی فوجی وردی میں جو کہ مجاہدین کی وردی تھی ان کے سامنے آئے اور ایک نے اچانک جست لگائی اور صلاح الدین ایوبیؒ پر چھری سے وار کر دیا جس سے ان کا سر زخمی ہوا صلاح الدین ایوبیؒ نے اسماعیلی کو ہاتھ سے روکا مگر وہ مکمل طور پر نہ رک سکا وہ کمزور ضربیں لگاتا رہا مگر سر پر خود ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہ ہوا اتنی دیر میں ایک غلام اندر آیا اس نے اسماعیلی کے ہاتھ سے چھری قبضہ میں لے کر اس حملہ آور کو زخمی کردیا اس کے بعد دوسرا اسماعیلی صلاح الدین ایوبیؒ پر حملہ آور ہوا فوجیوں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا اس کے بعد تیسرے اسماعیلی نے حملہ کیا تو انہوں نے اس کو بھی قتل کر دیا چوتھا شکست خوردہ ہو کر خیمہ سے باہر نکلا اسے بھی پکڑ کر انہوں نے قتل کر دیا الله اس سپہ سالار اعظم پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے۔

(10)۔ حجاج کرام:

498ھ میں پرامن حجاجِ کرام بھی ان کی پکڑ سے نہ بچ سکے حجاج کے قافلے ماوراء النہر سے خراسان سے ہندوستان کے علاقوں سے بیت الله میں جمع ہو رہے ہیں کہ سحری کے وقت اسماعیلیوں نے بغاوت کردی اللہ کے گھر میں اس کے مہمانوں کے اندر قتل و غارت برپا کر دی ایک بھی نہ چھوڑا اور ان کے اموال مالِ غنیمت کے طور پر لوٹ لئے جانور بھی قبضہ میں لے لئے 522ھ کی بات ہے کہ حجاج کرام جو کہ خراسان کے تھے وہ اپنے راستہ کے ذریعہ بیتُ اللہ کی طرف رواں دواں تھے اسماعیلی ان پر اچانک حملہ آور ہوتے ہیں حجاج کرام نے لڑائی میں سخت مقابلہ کیا اور عظیم صبر کا مظاہرہ کیا ان کا امیر حج شہید ہوگیا تو وہ پس پا ہوگئے اور امان طلب کی اور حجاج کرام نے اپنا اسلحہ پھینک دیا کہ امن مل جائے ان اسماعیلیوں نے انہیں پکڑ کر قتل کرنا شروع کردیا تھوڑی تعداد باقی رہ گئی دوسرے سب قتل ہوگے ان میں امام بھی تھے علماء بھی تھے زاہد و صالح بھی تھے جو سب مارے گئے الله کا فرمان ہے:

إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡفُرُونَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَقۡتُلُونَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ بِغَيۡرِ حَقٍّ۬ وَيَقۡتُلُونَ ٱلَّذِينَ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡقِسۡطِ مِنَ ٱلنَّاسِ فَبَشِّرۡهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۝ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ ٱلَّذِينَ حَبِطَتۡ أَعۡمَـٰلُهُمۡ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِينَ۝(سورۃ آلِ عمران آیت 22۔21)

بے شک وہ لوگ جو الله کی آیات کا کفر کرتے ہیں اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں پس انہیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دو یہی لوگ ہیں جن کے دنیا اور آخرت کے اعمال ضائع ہوگئے اور ان کا کوئی مددگار نہیں صبح ہوئی تو ان مقتولوں اور خیموں کے پاس کھڑا ہو کر ایک خبیث اسماعیلی شیخ آواز دیتا ہے:

یا مسلمین ذهبت الملاحدة ومن أرادا الماء سقيته۔

اے مسلمانوں ملحد چلے گئے جو پانی چاہتا ہے مجھے بتائے میں اسے پانی پلاؤں گا۔ 

جس نے بھی سر اٹھایا یا بات کی اس خبیث اسماعیلی نے تیزی سے اسے ختم کردیا۔

(11)۔ خلافت اسلامیہ کی فوجوں کا سامنا کرنے کے باوجود یہ اسماعیلی اکثر مواقع پر قتل و غارت لوٹ مار چھینا جھپٹی سے مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہے اور خصوصاً حج کے ایام میں بھی انہیں شرم نہیں آئی یہ حاجیوں کے قافلوں پر حملے کرتے رہے ہیں اور انہیں قتل کرتے رہے ہیں 317ھ میں ان کی یہ شرمناک سرگرمیاں انتہا کو پہنچ گئی تھیں یہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے تھے ابوطاہر سلیمان بن ابی سعید جنابی لعنتی ان کا امیر تھا انہوں نے حجاج کرام کا قتل عام کیا اور ان کی لاشیں آبِ زم زم کے کنوئیں میں پھینک دیں مکہ کی کھلی آبادی اور گھاٹیوں میں حرم میں اور کعبہ کے اندر ہر جگہ پر انہوں نے حجاج کرام کے قتلِ عام میں کسر نہ اٹھا رکھی تھی ان کا امیر ابوطاہر (الله اس پر بے شمار لعنتیں کرے) کعبہ کے دروازے پر بیٹھ گیا حجاج کرام اس کے گرد قتل کیے جا رہے ہیں اور ان کی لاشیں گر رہی ہیں اور یہ مسجد حرام میں ماہِ محرم میں اور ذوالحج کی آٹھویں تاریخ جسے ترویہ کا دن کہتے ہیں اس مبارک دن میں یہ خبیث بد بودار یہ دعویٰ کرتا ہے:

انا الله وبالله انا أخلق الخلق وأفنيهم انا۔

میں ہی الله ہوں اور میں خود الله اپنے قسم اٹھا کر کہتا ہوں میں ہی مخلوق کو پیدا کرتا ہوں اور میں ہی اسے فنا کے گھاٹ اتارتا ہوں۔

حجاج کرام اس اسماعیلی شیعہ سے جانیں بچانے کے لیے بھاگتے ہیں غلاف کعبہ پکڑتے ہیں مگر یہ سب بےسود تھا یہ ظالم مقتل کی اندھیر نگری برپا کیے ہوئے ہے دورانِ طواف بھی خون ریزی کر رہے ہیں اس کے بعد یہ ظالم اور لعنتی امیر چاہے زم زم میں لاشوں کو دفن کرنے کا حکم دیتا ہے اور کئی مقتولین مسجدِ حرام کی مختلف جگہوں میں دفن کردیے جاتے ہیں نہ انہیں غسل دیا گیا نہ ہی انہیں کفن نصیب ہوا اور نہ ہی ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اس قدر فضا خوف زدہ تھی کہ اس قدر اس مصیبت نے ہولناکی میں ڈال رکھا تھا۔ انا للہ۔ 

(12)۔ یہ اسماعیلی شیعہ زم زم کی عمارت کو گرا دیتے ہیں اور بابِ کعبہ اکھاڑ دیتے ہیں اور ایک تو میزابِ کعبہ (پر نالہ) اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ لعنتی سر کے بل گرتا ہے اور آتش دوزخ کا ایندھن بنتا ہے دوسرا کھڑا ہوا اس نے حجر اسود پر ایک بھاری آلہ سے ضرب لگائی اور ساتھ ہی ازراہ مذاق اور ٹھٹھا کہتا ہے: کہاں ہے ابابیل؟ کہاں ہیں برسنے والے پتھر؟ (نعوذ باللہ) مگر یہ ظالم الله کے اس فرمان کی حکمت نہیں سمجھ سکا:

وَلَا تَحۡسَبَنَّ ٱللَّهَ غَـٰفِلاً عَمَّا يَعۡمَلُ ٱلظَّـٰلِمُونَ‌ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمۡ لِيَوۡمٍ۬ تَشۡخَصُ فِيهِ ٱلۡأَبۡصَـٰرُ۝ مُهۡطِعِينَ مُقۡنِعِى رُءُوسِہِمۡ لَا يَرۡتَدُّ إِلَيۡہِمۡ طَرۡفُهُمۡ‌ۖ وَأَفۡـِٔدَتُہُمۡ هَوَآءٌ۬۝(سورۃ ابراهيم آیت 43۔42)۔

جو یہ ظالم کردار ادا کر رہے ہیں یہ ہرگز تصور نہ کرو کہ الله تعالیٰ اس سے بے خبر ہے وہ تو صرف انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں اٹھی رہ جائیں گی یہ اپنے سر اٹھائے بھاگ رہے ہوں گے ان کی آنکھیں مارے خوف کے حرکت نہ کرے گی اور ان کے دل صبر سے خالی ہوں گے۔

اس ظالم اسماعیلی نے حجر اسود کو اکھاڑ لیا اور ساتھ لے گیا تقریباً بیسں برس حجر اسود ان کے پاس رہا۔